Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

961جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ 2435

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یعنی اگرچہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آپ کے جیتے جی انھیں وہ عذاب چکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ مگر ہنوز وہ وقت نہیں آیا ابھی آپ کے لئے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ آپ ان مشرکوں کے برے سلوک اور ناگوار اور تلخ باتوں کا جواب بھلائی سے دیں ابھی ان میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جن کے لئے ہدایت مقدور ہوچکی ہے۔- ربط مضمون کے لحاظ سے اس لکا مطلب یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم داعی حق کے لئے یہ ایک نہایت قیمتی اصول ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ خوشگوار نکلتا ہے اسی اصول کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے۔ آپ برائی کا جواب بھلائی سے دیا کیجئے اس طرح تمہارا دشمن بھی تمہارا دلی دوست بن جائے گا (٤١: ٣٤) نیز یہ جملہ ایک ایسی آفاقی حقیقت ہے۔ جس کا ہر شخص، ہر حال میں اور ہر زمانہ میں تجربہ کرکے اس کے خوشگوار اثرات سے مستفید ہوتا رہا ہے اور ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اصول جتنا مفید ہے اتنا ہی اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صاحب عزم انسان ہی اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۔۔ : یعنی ہم عذاب میں جو تاخیر کر رہے ہیں اس میں ہماری حکمت ہے، آپ اس دوران ان کی ہر برائی اور زیادتی کا جواب ایسے طریقے سے دیں جو اچھا ہی نہیں، سب سے اچھا ہو۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں، کس طرح اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور کس طرح آپ کو کاہن، شاعر، جادوگر اور دیوانہ وغیرہ کہتے ہیں۔- 3 برائی کا جواب بہترین طریقے سے یہ ہے کہ بدی کا جواب نیکی سے، ظلم کا جواب انصاف سے، خیانت کا جواب دیانت داری سے، جھوٹ کا جواب سچ سے، قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے اور گالی گلوچ کا جواب دعا وسلام سے دیا جائے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣٤ ] ”(برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہو۔ “ اس میں عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : ( وَاللّٰہِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِہِ فِيْ شَيْءٍ یُؤْتَی إِلَیْہِ قَطُّ حَتّٰی تُنْتَھَکَ حُرُمَات اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ ) [ بخاري، الحدود، باب إقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ : ٦٧٨٦ ] ” اللہ کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھ کی گئی کسی زیادتی میں اپنی ذات کا انتقام کبھی نہیں لیا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جائے تو اللہ کی خاطر انتقام لیتے تھے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ، یعنی آپ برائی کو بھلائی کے ذریعہ ظلم کو انصاف کے ذریعہ اور بےرحمی کو رحم کے ذریعہ دفع فرما دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی تعلیم ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے جو مسلمانوں کے باہم معاملات کے لئے ہمیشہ جاری ہے البتہ کفار و مشرکین سے ان کے مظالم کے مقابلے میں عفو و درگزر ہی کرتے رہنا، ان پر ہاتھ نہ اٹھانا، یہ حکم آیات جہاد سے منسوخ ہوگیا مگر عین حالت جہاد میں بھی اس حسن خلق کے بہت سے مظاہر باقی رکھے گئے کہ عورت کو قتل نہ کیا جائے، بچے کو قتل نہ کیا جائے جو مذہبی لوگ مسلمانوں کے مقابلے پر جنگ میں شریک نہیں ان کو قتل نہ کیا جائے اور جس کو بھی قتل کریں تو اس کا مثلہ نہ بنادیں کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیں، وغیر ذلک من احکام مکارم الاخلاق۔ اسی لئے بعد کی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان اور اس کے وساوس سے پناہ مانگنے کی دعا تلقین کی گئی کہ عین میدان قتال میں بھی آپ کی طرف سے عدل و انصاف اور مکارم اخلاق کے خلاف کوئی چیز شیطان کے غصہ دلانے سے صادر نہ ہونے پائے وہ دعا یہ ہے :۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَۃَ۝ ٠ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ۝ ٩٦- دفع - الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ- [ النساء 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا - [ الحج 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل .- ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٦) اور آپ ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھیے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے شرک کا دفعیہ کلمہ طبیہ کے ساتھ کردیا کیجیے یا یہ کہ اپنے سے ان کی بدتمیزیوں کا دفعیہ سلامتی اور اچھی طریقہ پر کردیا کیجیے یا یہ کہ اپنے سے ان کی بدتمیزیوں کا دفعیہ سلامتی اور اچھے طریقہ پر کردیا کیجیے اور ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ آپ کی نسبت جھوٹ کہا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ ط) ” - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی شرارتوں سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کریں۔ ان لوگوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جیسا بھی رویہ ہو مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا مقابلہ نیکی اور بھلائی سے ہی کرنا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گالیوں کے جواب میں انہیں دعا دیں اور ان کے برا بھلا کہنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اللہ کی طرف بلاتے رہیں۔- (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ) ” - جو کچھ یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: یعنی ان کی بے ہودگیوں کا اور ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچ رہی ہیں ان کا جواب حتی الامکان نرمی، خوش اخلاقی اور احسان سے دئیے جائیے۔