Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٢] کفار مکہ پر اس قسم کے عذاب کا آغاز غزوہ بدر سے ہی ہوگیا تھا۔ اور اختتام حجۃ الوداع کے دن اعلان برأت پر ہوا۔ جس کیرو سے مشرکین مکہ ہی نہیں بلکہ عرب بھر کے مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس عرصہ کے اندر خواہ وہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرۃ العرب کو خالی کردیں اور یہاں سے نکل جائیں۔ یا پھر ان سے جہاد کرکے ان کا کلی استیصال کردیا جائے یہ تو وہ عذاب تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی ان پر نازل ہوا اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں آس پاس کے ممالک سے مشرک اور مشرکین کا کلی طور پر خاتمہ ہوگیا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ :”إِنَّ “ اور ” لام “ کے ساتھ تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ پر عذاب کا وہ وعدہ پورا ہوتا ہوا آنکھوں سے دکھا دیا، جب کہ آپ اس وقت ان سے الگ ہوچکے تھے اور مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ چناچہ اس عذاب کی ابتدا بدر سے ہوئی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے سرداروں کی لاشیں کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور پھر اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہو کر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا : ( فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ؟ ) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ٣٩٧٦ ] ” یقیناً ہم نے تو وہ وعدہ سچا پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا، تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا ؟ “ پھر ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوگیا اور دسویں سال حُجۃ الوداع کے موقع پر مشرکین کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرۃ العرب خالی کردیں اور یہاں سے نکل جائیں، ورنہ جہاد کے ذریعے سے ان کا کلی خاتمہ کردیا جائے گا۔ یہ عذاب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں ان پر نازل ہوا، پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں آس پاس کے ممالک سے شرک اور مشرکین کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ (والحمد للہ)- 3 اگر عذاب سے مراد آسمان سے نازل ہونے والا عذاب ہو، جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا، تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان سے عذاب کا جو وعدہ کر رہے ہیں یقیناً آپ کو دکھانے پر قادر ہیں، مگر ایک تو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے طے کیا ہے کہ جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب ہو، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ اور بیشک ہم آسمان سے ایسا عذاب بھیجنے پر قادر ہیں جو ان کا صفایا کر دے، مگر ہماری حکمت کا تقاضا انھیں مہلت دینے کا ہے، تاکہ ان میں سے جنھوں نے اسلام قبول کرنا ہے کرلیں اور جن کی آئندہ نسل نے اسلام قبول کرنا ہے وہ نسل وجود میں آجائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ ، یعنی ہم کو اس پر پوری قدرت ہے کہ ہم آپ کے سامنے ہی آپ کو ان پر عذاب آتا ہوا دکھلا دیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اگرچہ اس امت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے عذاب عام نہ آنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوچکا ہے وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ، یعنی ہم ان لوگوں کو اس حالت میں ہلاک کرنے والے نہیں کہ آپ ان کے اندر موجود ہوں لیکن خاص خاص لوگوں پر خاص حالات میں عذاب دنیا ہی میں آجانا اس کے منافی نہیں۔ اس آیت میں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ہم اس پر قادر ہیں کہ آپ کو بھی ان کا عذاب دکھلا دیں وہ اہل مکہ پر قحط اور بھوک کا عذاب پھر غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار کا عذاب آپ کے سامنے ہی ان پر پڑچکا تھا (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّا عَلٰٓي اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُہُمْ لَقٰدِرُوْنَ۝ ٩٥- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٥) اور ہم جس عذاب کا ان سے وعدہ کررہے ہیں وہ بدر کے دن آپ کو بھی دکھا دیں ہم اس بات پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani