Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو رب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کردی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کردی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ فرماتا تو تم پر کئی قسم کی مشکلات پڑ سکتی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھ لے تو کیا کرے ؟ گواہ ڈھونڈنے جائے تو گواہوں کے آنے تک معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر گواہوں کے بغیر بات کرے تو اس پر حد قذف پڑتی ہے۔ اگر خاموش ہو رہے تو خاموشی دوسروں کے حق میں تو اختیار کی جاسکتی ہے مگر اپنی بیوی کے حق میں یہ کڑوا گھونٹ کیسے پی سکتی ہے ؟ اگر بیوی کو غصہ میں آکر قتل کردے تو خود قصاص میں مارا جاتا ہے۔ اور اگر طلاق دے دے تو اس میں اس کا اپنا نقصان بھی ہے اور بیوی کو یا اس کے آشنا کو کوئی بدنی یا اخلاقی سزا بھی نہیں ملتی۔ بلکہ یہ طلاق شائد ان دونوں زانی اور زانیہ کے حق میں خوش کا باعث ثابت ہو۔ اور اگر بالفرض محال کڑوا گھونٹ پی کر صبر کر ہی جاتا ہے تو ایک ناجائز کی پرورش کا بار اس کے گلے میں آپڑتا ہے۔ جو بعد اس کا وارث بھی ہوگا۔ یہ اور ایسی ہی اور کئی مشکلات تھیں جن کا تمہارے پاس کوئی حل نہ تھا۔ اللہ نے لعان کا حکم نازل فرما کر ان تمام پیچیدگیوں کو حل کردیا۔ پھر لعان کے اس قانون میں فریقین کو یکساں سطح پر رکھا ہے۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ قسمیں کھانے کے باوجود ان دونوں میں سے ایک نہ ایک ضرور سچا اور دوسرا جھوٹا ہوتا ہے۔ اور یہی باتیں اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کی زبردست دلیل ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ ۔۔ : ” اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔۔ “ اس ” اگر “ کا جواب محذوف ہے، یعنی ” تو پھر تمہارا وہ حال ہوتا جو بیان میں آنا مشکل ہے “ اس لیے یہ جواب محذوف کردیا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ کرتا تو خاوند اگر بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھتا تو اس کا معاملہ دوسرے لوگوں کی طرح نہیں تھا، جن کے متعلق حکم ہے کہ اگر وہ کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھیں اور وہ چار گواہ نہ لاسکتے ہوں تو خاموش رہیں، کیونکہ اس میں ان کا ذاتی دخل نہیں اور وہ اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں، بخلاف خاوند کے کہ وہ اگر خاموش رہے تو ساری عمر دل کی جلن کے ساتھ خاموش رہے اور دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم کرے، طلاق دے تو اس کا نقصان ہے اور اگر الزام لگائے تو چار گواہ لائے، اگر نہ لاسکے، جو بظاہر لانے ممکن نہیں تو بہتان کی حد جھیلے۔ دوسری طرف اگر محض خاوند کے الزام یا قسمیں کھانے سے بیوی کے زنا کا ثبوت ہوجاتا تو عورت کے لیے سخت مصیبت تھی، کیونکہ ممکن ہے وہ سچی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو قسمیں کھانے کی وجہ سے بری سمجھ لیا جاتا تو مرد پر حد قذف واجب ہوجاتی، حالانکہ ممکن ہے وہی سچا ہو۔ اس لیے لعان کا حکم اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس نے یہ حکم اپنے ” تَوَّابٌ“ اور ” حَكِيْمٌ“ ہونے کی وجہ سے دیا ہے، تاکہ میاں بیوی میں سے جو فریق سچا ہو بلاسبب سزا سے بچ جائے اور جو جھوٹا ہو دنیا میں اس پر پردہ رہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی توّابیت کی صفت کی بدولت توبہ کرلے اور اسے توبہ قبول ہونے کی سعادت حاصل ہوجائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ وَاَنَّ اللہَ تَوَّابٌ حَكِيْمٌ۝ ١٠ۧ- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے تو وہ بیان فرما دیتا کہ تم میں سے جھوٹا کون ہے اور اللہ تعالیٰ تائب کی توبہ قبول فرمانیوالا اور حکمت والا ہے کہ اس نے مرد اور عورت کے درمیان ایسے موقع پر لعان کا فیصلہ فرمایا ہے، یہ آیت مبارکہ عاصم بن عدی انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ اس غلطی میں پڑگئے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاَنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ ) “ - یہاں پر کچھ الفاظ مقدرّ ( ) مانے گئے ہیں۔ گویا تقدیر عبارت یوں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت تم لوگوں کے شامل حال نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ توبہ قبول فرمانے والا اور صاحب حکمت ہے تو بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں غلط راستے پر ڈال دیتا اور تم کوئی بہت بڑا قدم اٹھا لیتے۔- ان ابتدائی آیات کی صورت میں اس واقعہ کی تمہید بیان ہوئی ہے جو آگے آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یعنی لعان کا جو طریق کار مقرر کیا گیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے، ورنہ اگر میاں بیوی کے درمیان بھی وہی قاعدہ جاری ہوتا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھے تو اس وقت تک زبان نہ کھولے جب تک چار گواہ میسر نہ ہوں، ورنہ خود اس کو اسی کوڑے لگائے جائیں گے تو سخت دشواری کا سامنا ہوتا۔