ام المومنین عائشہ صدیقہ کی پاکیزگی کی شہادت اس آیت سے لے کر دسویں آیت تک ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف نہ آئے ۔ ان بہتان بازوں کی ایک رٹی تھی ۔ اس لعنی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا ۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کان میں بنابناکر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں ۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں ۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا ۔ میں آپ کے ساتھ چلی ، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ میں اپنے ھودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ھودج اتار لیا جاتا ۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ھودج رکھ دیا جاتا ۔ ہم لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوے سے فارغ ہوئے ، واپس لوٹے ، مدینے کے قریب آگئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضاء حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جاکر میں نے قضاء حاجت کی ۔ پھر واپس لوٹی ، لشکر گاہ کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا ۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی ۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ھودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ۔ ھودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں ۔ تو میرے ھودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا ۔ اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی ۔ الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا ، نہ جواب دینے والا ، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی ، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے ۔ مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی ۔ اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے ، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے ۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا ۔ غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی ۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی ۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے ۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے ، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا ۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے ۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنالیا ۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی ، نہ میں نے کچھ سنا ، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا ، میں اس سے محض بےخبر تھی ۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی ۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی ۔ اب سنئے اس وقت تک گھروں میں پاخانے نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضاء حاجت کیلئے جایا کرتے تھے ۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں ۔ گھروں میں پاخانے بنانے سے عام طور پر نفرت تھی ۔ حسب عادت میں ، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی ۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں ، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو ۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا ، توبہ کرو ، تم اسے گالی دیتی ہو ، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی ۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم؟ میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو ۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں ۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا ، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہوگئی ۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی ، اس خبر نے تو نڈھال کردیا ، جوں توں کرکے گھر پہنچی ۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جاکر اور اچھی طرح معلوم تو کرلوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی ، میں یہاں آئی ، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو ، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے ۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے ۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے ، میں سر ڈال کر روتی رہتی ۔ کس کا کھانا پینا ، کس کا سونا بیٹھنا ، کہاں کی بات چیت ، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں ۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ، وحی میں دیر ہوئی ، اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کردیں یا کیا ؟ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو صاف کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے ۔ ہمارے دل ان کی عفت ، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں ۔ ہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی تنگی نہیں ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔ اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ ۔ بریرہ نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی ۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سو جاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے ، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا ۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا کون ہے؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں ۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں ، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں ، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا ۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا ۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے ۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا ۔ یہ سن کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو ، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں ۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑپڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا ۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کردیئے تھے ، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا ۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشیرف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے ۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے ۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی ۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے ۔ آپ نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر اما بعد فرما کر فرمایا کہ اے عائشہ تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے ۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر ، بندہ جب گناہ کرکے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ۔ آپ اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا ۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ۔ میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ہی جواب دیجئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا ۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا ۔ میں نے کہا ، آپ سب نے ایک بات سنی ، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا ۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بےگناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے ۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے آیت ( فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون ) پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے ، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برات اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں ۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں ۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میری برات دکھا دے ۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی ۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں ۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی ، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرما دی ۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برات اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے ۔ پس آیت ( ان الذین جاء و بالافک ) سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئیں ۔ ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے ۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اس پر آیت ( ولا یاتل اولوالفضل الخ ) ، نازل ہوئی یعنی تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں ، انہیں نہ چاہئے کہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے؟ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں ۔ چنانچہ اسی وقت حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا ۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی جو آپ کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا ۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی ۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں ۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا ۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی ۔ یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے ۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں ، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا اس میں ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح تھیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح کو کوسا ، میں نے منع کیا پھر پھسلیں ، پھر کوسا ، میں نے پھر روکا ۔ پھر الجھیں ، پھر کوسا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا ۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا ۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کردیا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے ۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا آج کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی ۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہوگیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ ۔ چنانچہ میں واپس چلی گئی ۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا ۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ، بےخبری سے سو جاتی ہیں ۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں ۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتا دے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا ۔ اسی طرح میں صدیقہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی ۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں ۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے ۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بےشرمی کی بات ہے؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد جواب دیا تھا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہر چند حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا ، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا ۔ اس میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا ۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں ۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی ۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش ، مسطح ، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے ۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا اور حدیث میں ہے کہ میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ کے والد اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوچکا ہے تو آپ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں ۔ آپ کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہوگیا ہوگا ؟ جب آپ کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ نے انہیں سن کر فرمایا کہ یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ کے فضل سے ۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کہتی ہو؟ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہاں ۔ اب آیتوں کا مطلب سنئے جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لئے بھلا ہے ۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی ، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے ۔ حضرت عائشہ کی برات قرآن کریم میں نازل ہوگی ، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اماں صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ام المومنین آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے پیش آتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی برات آسمان سے نازل ہوئی ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت زینب اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میرا نکاح آسمان سے اترا ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے ۔ حضرت زینب نے پوچھا یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے؟ آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل اس پر وہ بول اٹھیں کہ تم نے مومنوں کا کلمہ کہا تھا ۔ پھر فرمایا جس جس نے پاک دامن صدیقہ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا ۔ اور جس نے اس کی ابتدا اٹھائی ہے ، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں ۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے ۔ ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے حسان ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں بیان کردیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بزرگ صحابہ میں سے ہیں ۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں ۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے ۔ انہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں ۔ حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا ۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو ، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ انہیں کیوں آنے دیتی ہیں؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے تو ام المومنین نے فرمایا اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا یہ نابینا ہوگئے تھے ۔ تو فرمایا شاید یہی عذاب عظیم ہو ۔ پھر فرمایا تمہیں نہیں خبر؟ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت حضرت عائشہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ پاکدامن ، بھولی ، تمام اوچھے کاموں سے ، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں ، تو آپ نے فرمایا تم تو ایسے نہ تھے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حسان جنتی ہیں ۔ وہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے ، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا ۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے ، میں ان سب کو فنا کرکے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا ۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نیک پر فدا ہیں ۔ جب تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے ۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے؟ ام المومنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے؟ فرمایا ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں ، تلوار ان پر اٹھی ، وہ تو کہئے حضرت صفوان رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے ۔
1 1 1اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رض) کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کردیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ 1 1 2ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ 1 1 3کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و نصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔ 1 1 4اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔
[١٢] یہاں آیت نمبر ١١ سے لے کر آیت نمبر ٢٠ تک افک کے واقعہ سے متعلق دس آیات مذکور ہیں۔ جو اس سورت کا شان نزول بنیں۔ ابتدا میں تہمت، قذف زنا کے احکام اور سزا بتلانے کے بعد اس واقعہ کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہے۔ اس کی ابتداء ہی ان الفاظ سے کی گئی (اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ 11) 24 ۔ النور :11) یعنی یہ جو کچھ افواہیں،۔۔ اور قصے گھڑے گئے۔ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔- [١٣] یہ ٹولہ کون لوگ تھے۔ یہ حضرت عائشہ (رض) ہی کی زبانی سنئے :- ١۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس آیت میں (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11) 24 ۔ النور :11) سے مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول ہے (رئیس المنافقین) ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے۔ مسطح بن اثاثہ، اور حسان بن ثابت اور تیسرا عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا جو کھود کھود کر پوچھا پھر اس پر حاشیے چڑھاتا۔ وہ اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11) 24 ۔ النور :11) سے وہ اور حمنہ بنت جحش مراد ہیں (عبداللہ بن ابی منافق کے علاوہ تینوں پر حد قذف لگی تھی) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٣۔ مسروق سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت (مشہور شاعر) حضرت عائشہ (رض) کے ہاں گئے اور یہ شعر سنایا - حصان رزان ماتزن بریبہ۔۔ و نصبح غرثی من الحوم الغوافل - (حضرت عائشہ (رض) پاکدامن، عقلمند اور ہر شک و شبہ سے بالا ہیں۔ وہ بھولی بھالی معصوم عورتوں کا گوشت کھانے (ان پر تہمت لگانے یا ان کا گلہ کرنے) سے بھوکی ہی رہتی ہیں۔ یہ شعر سن کر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : مگر (حسان) تم تو ایسے نہیں۔ میں (مسروق) نے حضرت عائشہ (رض) نے کہا۔ آپ ایسے شخص کو کیوں آنے دیتی ہیں جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11) 24 ۔ النور :11) حضرت عائشہ (رض) نے کہا : اسے اندھے پن سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا (حضرت حسان آخری عمر میں اندھے ہوگئے تھے) پھر یہ بھی کہا : کہ حسان رسول اللہ کی طرف سے (کافروں کو ان کی ہجو کا) جواب دیتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- نیز عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت حضرت ابوہریرہ (رض) سے گواہی چاہتے تھے۔ کہتے تھے : ابوہریرہ (رض) تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ یہ فرماتے نہیں سنا : حسان تو اللہ کی طرف سے کافروں کو جواب دے۔ یا اللہ روح القدس سے حسان کی مدد کر ابوہریرہ (رض) نے کہا : ہاں (بخاری۔ کتاب الصلوہ باب التعر فی المسجد)- [١٤] مندرجہ بالا حضرت عائشہ (رض) سے منقول احادیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس فتنہ کا بانی مبانی عبداللہ بن ابی منافق تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس غزوہ بن مصطلق میں جتنے زیادہ منافق شامل ہوئے تھے۔ دوسرے کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے ہی اس بہتان کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا تھا۔ جس سے کئی سادہ لوح مخلص مسلمان بی متاثر ہوگئے تھے۔ مثاتر ہونے والے مسلمانوں کے نام تو کتب احادیث و سیر میں سے ہیں اور وہ تھے حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور ام المومنین زینب بنت جحش کی بہن حمنہ بنت جحش یعنی روایت کے مطابق ان تینوں کو قذف کی حد بھی لگی تھی۔ لیکن منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی کے سوا کسی کا نام کتب تاریخ و سیر میں نہیں ملتا۔ نہ ہی منافقوں میں سے کسی کو حد لگی تھی۔ ان کا معاملہ بس اللہ کے سپرد تھا۔- جب یہ فتنہ گھڑ گیا تو منافق خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ تھے بعض اظہار افسوس کے طور پر، بعض بات چھیڑ دیتے اور خود چپکے سے سنا کرتے، اور مسلمان یہ باتیں سن کر باعض تردد میں پڑجاتے، بعض خاموش رہتے اور بہت سے یہ باتیں سن کر جھٹلا دیتے۔ اور اس قصہ کا بڑا بوجھ اٹھانے والے اور بانی عبداللہ کا یہ حال تھا کہ لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے اپنا دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ اس قصہ میں کسی نے جتنا حصہ لیا اسی کے مطابق اسے عذاب عظیم ہوگا۔- ان حالات میں عام انسانی سوچ کے مطابق چاہئے تو تھا اللہ تعالیٰ منافقوں کو اس اخلاقی گراوٹ پر غضب ناک گرفت فرماتا یا مسلمانوں کو جوابی حملے سے اکساتا مگر اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر علیم اور حکیم ہے۔ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں رخنے موجود ہیں۔ ان کو بھر کر اس اخلاقی محاذ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنانا چاہئے۔ اسی لئے اس سورة میں بہت سے ستر و حجاب کے احکام نازل ہوئے جو آگے آرہے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ : ” اَلإِْفْکُ “ کا لفظی معنی الٹا کرنا ہوتا ہے، مراد ایسا بہتان ہے جو حقیقت کے بالکل خلاف ہو۔ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو منافقین نے ام المومنین عائشہ (رض) پر لگایا تھا، دو تین مخلص مسلمان بھی سادہ دلی کی وجہ سے ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس کی تفصیل خود عائشہ (رض) سے سنیے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ آپ جب سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے، جس بیوی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ اپنے ساتھ لے جاتے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ (بنو المصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا، تو میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی۔ یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودے سمیت اتاری جاتی۔ ہم اسی طرح سفر کرتے رہے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آپہنچے، آپ نے ایک رات کوچ کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سن کر میں اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی، جب حاجت سے فارغ ہوئی اور لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ” اظفار “ کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرا ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے، انھوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں، کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، پُر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو انھیں اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا، علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کم سن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مجھے مل گیا اور میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گئی جہاں رات کو اترے تھے، دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (مطلب سب جا چکے تھے) ، میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی، نیند نے غلبہ کیا اور میں سو گئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے سامان کی خبر رکھنے کے لیے) صفوان بن معطل السلمی الذکوانی مقرر تھے۔ وہ رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا، پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے مجھے دیکھا تھا، جب انھوں نے مجھے پہچان کر ”إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ “ پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انھوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے ”إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ “ کے سوا کوئی بات سنی۔ انھوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کے اگلے پاؤں کو پاؤں سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ آگے سے اونٹنی کی مہار پکڑ کر پیدل چلتے رہے، یہاں تک کہ ہم لشکر سے اس وقت جا ملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ تو جن کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے۔ اس تہمت کا ذمہ دار عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے، وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور مہینا بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، البتہ ایک بات سے مجھے شک سا پڑتا تھا، وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں مجھے نظر نہیں آئی۔ بس یہ تھا کہ آپ میرے پاس آتے تو سلام کہتے، پھر فرماتے : ” کیا حال ہے ؟ “ اور چلے جاتے، اس سے مجھے شک پڑتا، مگر مجھے کسی بات کی خبر نہ تھی۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا تو میں کمزور ہوگئی، ابھی کمزور ہی تھی کہ ” مناصع “ کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (عاتکہ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم اپنے گھروں کے نزدیک بیت الخلا نہیں بناتے تھے، بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ کیونکہ گھروں کے قریب بیت الخلا بنانے سے اس کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی اور ابوبکر صدیق کی خالہ تھی، اس کا بیٹا مسطح تھا، رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو وہ کہنے لگی : ” مسطح ہلاک ہو۔ “ میں نے اسے کہا : ” تم نے بہت بری بات کہی، کیا تم اس شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟ “ وہ کہنے لگی : ” اے بھولی لڑکی کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا ہے ؟ “ میں نے کہا : ” اس نے کیا کہا ہے ؟ “ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا : ” اب کیسی ہو ؟ “ میں نے کہا : ” کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں والدین کے پاس جاؤں ؟ “ میرا ارادہ اس وقت یہ تھا کہ ان سے خبر کی تحقیق کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے پاس آگئی تو میں نے اپنی ماں سے کہا : ” امی لوگ (میرے بارے میں) کیا باتیں کر رہے ہیں ؟ “ اس نے کہا : ” بیٹی اتنا رنج نہ کرو، اللہ کی قسم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو وہ بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔ “ میں نے کہا : ” سبحان اللہ لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔ “ چناچہ میں وہ ساری رات روتی رہی، صبح ہوگئی مگر میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے، نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک آتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ( رض ) کو بلایا، کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کے متعلق مشورہ چاہتے تھے۔ چناچہ اسامہ بن زید نے تو آپ کو اس کے مطابق مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اس کے مطابق کہا جو ان کے دل میں آپ کے گھر والوں کی محبت تھی۔ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ وہ آپ کی اہلیہ ہے اور ہم خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ “ علی ( ) نے کہا : ” یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بتادے گی۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بریرہ ( ) کو بلایا اور اس سے پوچھا : ” کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے کہ عائشہ کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو ؟ “ بریرہ ( ) کہنے لگیں : ” اللہ کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے اس میں کوئی بات نہیں دیکھی جسے میں اس کا عیب سمجھوں، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہے، گھر والوں کا گندھا ہوا آٹا رکھ کر سو جاتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ ‘ ‘(اس کے بعد) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے اور اس دن عبداللہ بن ابی کے خلاف مدد مانگی، فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ مَنْ یَعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ أَذَاہُ فِيْ أَھْلِ بَیْتِيْ ؟ فَوَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَھْلِيْ إِلَّا خَیْرًا، وَ لَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَیْہِ إِلَّا خَیْرًا، وَمَا کَانَ یَدْخُلُ عَلٰی أَھْلِيْ إِلَّا مَعِيَ ) ” مسلمانو اس آدمی کے خلاف کون میری حمایت کرتا ہے جس کی تکلیف مجھے میرے گھر والوں کے متعلق پہنچی ہے، اللہ کی قسم میں نے اپنے اہل خانہ میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور ان لوگوں نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس میں خیر کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا اور وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ “ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری (اوس قبیلے کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ” میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں، اگر وہ اوس قبیلے سے ہے تو میں اس کی گردن اڑاتا ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم بجا لائیں گے۔ “ یہ بات سن کر سعد بن عبادہ، جو خزرج قبیلے کے سردار تھے، کھڑے ہوئے، وہ اس سے پہلے نیک آدمی تھے، مگر قومی حمیّت نے انھیں بھڑ کا دیا، انھوں نے سعد بن معاذ سے کہا : ” اللہ کی قسم تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی قسم نہ تم اسے قتل کرو گے اور نہ ہی قتل کرسکتے ہو۔ “ اتنے میں اسید بن حضیر (رض) جو سعد بن معاذ (رض) کے چچا کے بیٹے تھے، کھڑے ہوئے اور انھوں نے سعد بن عبادہ سے کہا : ” تم جھوٹ کہہ رہے ہو، اللہ کی قسم ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیونکہ تم منافق ہو، منافقوں کی طرف داری کرتے ہوئے، ان کی طرف سے جھگڑتے ہو۔ “ اس پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی منبر ہی پر تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں سمجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی خاموش ہوگئے۔- عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں وہ سارا دن روتی رہی، نہ میرے آنسو تھمتے تھے نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ تک پڑتا تھا۔ (والد نے مجھے گھر واپس جانے کا حکم دیا اور میں گھر چلی گئی) میرے والدین صبح میرے پاس آگئے، میں دو رات اور ایک دن سے مسلسل رو رہی تھی، اس عرصہ میں مجھے نہ نیند آئی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے، والدین کو گمان ہوتا تھا کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے اجازت دے دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ ہم اس حال میں تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے سلام کہا اور بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ آپ ایک مہینا انتظار کرتے رہے، مگر وحی نہیں آئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا، پھر فرمایا : ( أَمَّا بَعْدُ ، یَا عَاءِشَۃُ فَإِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِيْ عَنْکِ کَذَا وَ کَذَا، فَإِنْ کُنْتِ بَرِیْءَۃً فَسَیُبَرِّءْکِ اللّٰہُ ، وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللّٰہَ وَتُوبِيْ إِلَیْہِ ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِہِ ثُمَّ تَابَ إِلَی اللّٰہِ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ ) ” اما بعد عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ بات پہنچی ہے، اگر تو بےگناہ ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ضرور بری کر دے گا اور اگر تو کسی گناہ سے آلودہ ہوئی ہے تو اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ “ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بات ختم کی تو میرے آنسو سوکھ گئے، حتیٰ کہ مجھے ان کا ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا، میں نے اپنے والد سے کہا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ کہا ہے اس کا جواب دیں۔ “ انھوں نے کہا : ” اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔ “ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا : ” آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیں۔ “ انھوں نے کہا : ” اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں میں کیا کہوں۔ “ آخر میں خود ہی جواب دینے لگی، میں نو عمر لڑکی تھی، قرآن میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا، میں نے کہا : ( إِنِّيْ وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ ھٰذَا الْحَدِیْثَ حَتَّی اسْتَقَرَّ فِيْ أَنْفُسِکُمْ وَ صَدَّقْتُمْ بِہِ ، فَلَءِنْ قُلْتُ لَکُمْ : إِنِّيْ بَرِیْءَۃٌ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ أَنّيْ بَرِیْءَۃٌ، لَا تُصَدِّقُوْنَنِيْ بِذٰلِکَ ، وَلَءِنِ اعْتَرَفْتُ لَکُمْ بِأَمْرٍِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ أَنِّيْ مِنْہُ بَرِیْءَۃٌ لَتُصَدِّقُنِّيْ ، وَاللّٰہِ مَا أَجِدُ لَکُمْ مَثَلًا إِلَّا قَوْلَ أَبِيْ یُوْسُفَ قَالَ : ( فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ ) [ یوسف : ١٨ ] ) ” اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ بات سنی ہے، حتیٰ کہ آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ نے اسے سچا سمجھ لیا ہے، اب اگر میں آپ سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں، تو تم مجھے اس میں سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کرلوں، جب کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے یوسف کے باپ نے کہا تھا : ” سو (میرا کام) اچھا صبر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے، جو تم بیان کرتے ہو۔ “ پھر میں نے کروٹ بدل لی اور بستر پر لیٹ گئی۔ میں اس وقت جانتی تھی کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری بےگناہی کی وجہ سے مجھے بری کر دے گا، لیکن اللہ کی قسم مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل کرنے والا ہے جس کی تلاوت کی جائے گی اور میرے دل میں میری شان اس سے کہیں کم تر تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی بات فرمائے گا جس کی تلاوت کی جایا کرے گی۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیند میں خواب دیکھیں گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے پاک قرار دے گا۔ تو اللہ کی قسم ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے چلے نہ تھے، نہ ہی گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر وہ سختی ہونے لگی جو اس موقع پر ہوا کرتی تھی، یہاں تک کہ آپ سے موتیوں کی طرح پسینا ٹپکنے لگا، حالانکہ وہ سردی کا دن تھا۔ ایسا اس کلام کے بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا جو آپ پر نازل ہوتا تھا۔ جب وہ حالت ختم ہوئی تو آپ خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات جو آپ نے کہی یہ تھی : ( یَا عَاءِشَۃُ أَمَّا اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ بَرَّأَکِ ) ” عائشہ اللہ عز و جل نے تمہیں بری کردیا۔ “ میری والدہ نے کہا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اٹھو (اور شکریہ ادا کرو) ۔ “ میں نے کہا : ” اللہ کی قسم میں آپ کی طرف نہیں اٹھوں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : (ۧاِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۔۔ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) [ النور : ١١ تا ٢٠ ] - جب اللہ تعالیٰ نے میری براءت میں یہ آیات نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق ( ) نے، جو محتاجی اور قرابت کی وجہ سے مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا : ” اللہ کی قسم میں مسطح پر کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا، کیونکہ اس نے عائشہ کے متعلق ایسی باتیں کی ہیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) [ النور : ٢٢ ] ” اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے اور اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ یہ آیت سن کر ابوبکر نے کہا : ” کیوں نہیں ؟ اللہ کی قسم مجھے پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ “ اور وہ مسطح پر جو خرچ کیا کرتے تھے دوبارہ کرنے لگے اور کہا : ” اللہ کی قسم میں کبھی یہ معمول بند نہیں کروں گا۔ “ عائشہ (رض) نے فرمایا : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اس تہمت کے زمانہ میں) زینب بنت جحش (رض) سے میرے بارے میں پوچھا کرتے تھے کہ زینب تمہیں کیا معلوم ہے، یا تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو وہ یہی کہتی کہ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، مجھے تو اس کے اچھا ہونے کے سوا کچھ معلوم نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے زینب ہی میرا مقابلہ کرتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی پرہیزگاری کی وجہ سے اسے بچا لیا اور اس کی بہن حمنہ اس کی خاطر لڑنے لگی۔ تو جس طرح دوسرے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب : ( لو لا إذ سمعتموہ ظن المؤمنون۔۔ ) : ٤٧٥٠ ]- اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۔۔ : ایک ذہن کے لوگوں کے گروہ اور جماعت کو ” عُصْبَۃٌ“ اور ” عِصَابَۃٌ“ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں اور ” عَصَبَ یَعْصِبُ “ (ض) کا معنی باندھنا اور مضبوط کرنا ہے، یعنی جو لوگ یہ عظیم بہتان اپنے پاس سے بنا کر لائے ہیں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہے، اس لیے ان سے معاملہ کرتے وقت ان کے ساتھ غیر مسلموں والا سلوک نہ کرو، کیونکہ یہ تمھی میں سے ہیں، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اور بات باہمی فساد تک جا پہنچے۔ جیسا کہ تجربے سے یہ بات ثابت بھی ہوگئی ہے کہ جب آپ نے عبداللہ بن ابی کے مقابلے میں مدد کے لیے کہا تو قریب تھا کہ لوگ لڑ پڑتے، اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں ٹھنڈا نہ کرتے۔ اس لیے اللہ سبحانہ نے یہ کہہ کر کہ ” جو لوگ یہ بہتان لائے ہیں تمھی میں سے ایک گروہ ہیں “ ان کا بہتان اور جھوٹ بھی واضح فرمایا اور زیادہ تعاقب سے بھی منع فرما دیا۔- لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ : یہ بات مخلص مسلمانوں کے اطمینان کے لیے فرمائی، جنھیں اس بہتان سے صدمہ پہنچا تھا، خصوصاً جن کا اس واقعہ سے براہ راست تعلق تھا، مثلاً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر صدیق، عائشہ، ان کی والدہ اور صفوان بن معطل (رض) ۔ فرمایا، تم اس واقعہ کو اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے کئی لحاظ سے بہتر ہے :- 1 اس واقعہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان بن معطل (رض) کو جو رنج و غم پہنچا اور مسلسل ایک ماہ تک وہ شدید کرب میں مبتلا رہے، اس کرب پر صبر اور بہتان لگانے والوں سے درگزر کا یقیناً اللہ کے ہاں بہت اجر ہے، فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک اشارے سے تمام بہتان لگانے والوں کی گردنیں تن سے جدا ہوسکتی تھیں۔ اس اجر کے علاوہ براءت کی آیات نازل ہونے پر ان تمام حضرات کو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا صدمہ پہنچا تھا، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیات اترنے پر ہنس رہے تھے، اسی طرح عائشہ، ان کے والدین، صفوان بن معطل (رض) اور تمام مسلمانوں کو درجہ بدرجہ خوشی ہوئی۔- 2 ام المومنین عائشہ (رض) کو اس واقعہ سے جو عزت ملی امت مسلمہ میں سے کسی کو حاصل نہ ہوسکی کہ ان کی بریت کے لیے قرآن مجید اترا، جو قیامت تک تمام دنیا میں پڑھا جاتا رہے گا اور قرآن نے ان کی جو براءت بیان فرمائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد ام المومنین عائشہ (رض) کی پاکیزہ زندگی اس کی سچی شہادت ہے کہ وہ ہر بہتان سے پاک ہیں۔ اس سے قرآن کا اعجاز بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہ ہوئی ہے، نہ ہوگی۔ - 3 اس واقعہ میں یہ بھی خیر ہے کہ بہتان لگانے والے مخلص مسلمانوں پر حد لگنے سے وہ گناہ سے پاک ہوگئے اور منافقین کا نفاق ظاہر ہوگیا، جس سے آئندہ ان کے نقصانات سے بچنا آسان ہوگیا۔ - 4 اس واقعہ سے صحابہ کرام (رض) کی نیک نفسی اور پاک طینتی بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلسل ایک ماہ کے پروپیگنڈے کے باوجود مخلص مسلمانوں میں سے صرف تین آدمی حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش (رض) اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے، باقی تمام صحابہ اس بدگمانی سے پوری طرح محفوظ رہے۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے عائشہ (رض) کی بدنامی میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ زینب بنت جحش (رض) نے، جو عائشہ (رض) کی برابر کی چوٹ تھیں، سوکن ہونے کے باوجود قسم کھا کر عائشہ (رض) کے پاک ہونے کی شہادت دی۔ ابو ایوب انصاری (رض) اور ان کی بیوی کا واقعہ بھی، جو آگے آ رہا ہے، صحابہ کے کریم النفس اور پاک طینت ہونے کا زبردست ثبوت ہے۔ ابوبکر (رض) کا بہتان لگانے کے باوجود مسطح سے حسن سلوک ان کی خشیت الٰہی اور صبر کا بہترین نمونہ ہے۔ عائشہ (رض) کا حسان بن ثابت (رض) سے بہتان کے باوجود حسن سلوک اور ان کی عزت افزائی کرنا ان کے عالی نفس ہونے کی دلیل ہے۔- 5 اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ایک ماہ تک مسلسل کرب میں مبتلا نہ رہتے۔ اس سے اس غلو کی جڑ کٹ گئی جس میں اس سے پہلے یہود و نصاریٰ مبتلا ہوئے اور جس میں بعض نادان مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ - 6 اس واقعہ کے نتیجہ میں زنا اور قذف کی حد نازل ہوئی اور قیامت تک کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کی عصمت و عفت بہتان طرازوں سے محفوظ کردی گئی اور مسلم معاشرے میں بےحیائی کی اشاعت کا پوری طرح سد باب کردیا گیا۔- لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ : یعنی جس شخص نے اس فتنے میں جتنا حصہ لیا اسی قدر گناہ گار ہوا اور سزا کا مستحق ہوا۔ کسی نے اپنے پاس سے بہتان باندھ کر طوفان اٹھایا، کسی نے بہتان باندھنے والے کی زبانی موافقت کی، کوئی سن کر ہنس دیا، کسی نے خاموشی سے سن لیا، حالانکہ اسے انکار کرنا چاہیے تھا اور کسی نے سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ صاف جھوٹ ہے، یہ بات کہنے والوں کو اللہ نے پسند فرمایا، باقی سب کو تھوڑا بہت الزام دیا۔ - وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ : اس سے مراد رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ہے، جیسا کہ خود عائشہ (رض) نے فرمایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر اسی کے متعلق فرمایا کہ اس کی تکلیف مجھے میرے گھر والوں کے متعلق پہنچی ہے، دیکھیے زیر تفسیر آیت کا پہلا فائدہ۔ بعض روایات میں حسان بن ثابت (رض) کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ حسان بن ثابت (رض) کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے سن کر یہ بات آگے کردی، ورنہ یہ بہتان گھڑنے والا عبداللہ بن ابی ہی تھا۔ یہی ظالم لوگوں کو جمع کرتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں کے منہ سے کہلوایا کرتا تھا۔ اس کے لیے عذاب عظیم اس لیے کہ دوسرے تمام لوگوں کا گناہ اس کے سر پر بھی تھا، کیونکہ اس نے اس کی ابتدا کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ سَنَّ فِي الإِْسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً ، کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَيْءٌ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ۔۔ : ١٠١٧ ] ” جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوگا اور ان کا گناہ بھی جو اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔ “ عذاب عظیم کا مطلب یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نہیں ہوگی، وہ کفر پر فوت ہوگا اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوگا، جو ” اَلدَّرْکُ الْأَسْفَلُ مِنَ النَّارِ “ ہے۔ [ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ ] اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس جماعت کے دوسرے لوگوں کو توبہ کی توفیق عطا ہوگی۔
ربط آیات :- جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور کا بیشتر حصہ ان احکام سے متعلق ہے جو عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے بالمقابل عفت و عصمت پر دست اندازی اور اس کی خلاف ورزی کی دنیوی سزا میں اور ان پر آخرت کا وبال عظیم ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے حد زنا پھر حد قذف اور پھر لعان کا بیان آ چکا ہے۔ حد قذف کے ضمن میں کسی پاکدامن عورت پر جب تک چار گواہوں کی شہادت نہ ہو زنا کا الزام لگانا گناہ عظیم قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کیلئے حد شرعی اسی کوڑے لگانے کی جاری فرمائی ہے۔ یہ مسئلہ عام مسلمان پاکدامن عورتوں سے متعلق تھا۔ اور چونکہ ٠٦ ہجری میں بعض منافقین نے ام المومنین حضرت صدیقہ عائشہ پر ایسی تہمت گھڑی تھی، اور تقلیداً بعض مسلمان بھی اس کا تذکرہ کرنے لگے تھے یہ معاملہ عام مسلمان پاکدامن عورتوں کے معاملہ سے کہیں زیادہ اشد تھا۔ اس لئے قرآن کریم نے حضرت صدیقہ عائشہ کی برات اور پاکی کے بیان میں اس جگہ دس آیتیں مذکور الصدر نازل فرمائیں جن میں حضرت صدیقہ کی برات و نزاہت کا اعلان اور ان کے معاملہ میں جن لوگوں نے افتراء و بہتان میں کسی طرح کا حصہ لیا تھا ان سب کو تنبیہ اور دنیا و آخرت میں ان کے وبال کا بیان ہے۔ یہ بہتان بندی کا واقعہ قرآن و حدیث میں واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے۔ افک کہتے ہیں بدترین قسم کے جھوٹ و افترا و بہتان کو۔ ان آیات کی تفسیر سمجھنے میں قصہ افک کے معلوم ہونے کو بڑا دخل ہے اس لئے مناسب ہے کہ پہلے مختصر طور پر یہ قصہ بیان کردیا جاوے۔- قصہ افک و بہتان :- صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں یہ واقعہ غیر معمولی طویل تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بنی المصطلق میں جس کو غزوہ مریسیع بھی کہا جاتا ہے ٠٦ ہجری میں تشریف لے گئے تو امہات المومنین میں سے حضرت صدیقہ عائشہ ساتھ تھیں، حضرت عائشہ کا اونٹ جس پر ان کا ہودج (پردہ دار شغدف) ہوتا تھا اور چونکہ اس وقت احکام پردہ کے نازل ہوچکے تھے تو معمول یہ تھا کہ صدیقہ عائشہ اپنے ہودج میں سوار ہوجائیں پھر لوگ اس ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے۔ غزوہ سے فراغت اور مدینہ طیبہ کی طرف واپسی میں ایک روز یہ قصہ پیش آیا کہ ایک منزل میں قافلہ ٹھہرا آخر شب میں کوچ سے کچھ پہلے اعلان کیا گیا کہ قافلہ روانہ ہونے والا ہے تاکہ لوگ اپنی اپنی ضرورتوں سے فارغ ہو کر تیار ہوجاویں۔ حضرت صدیقہ عائشہ کو قضاء حاجت کی ضرورت تھی اس سے فراغت کے لئے جنگل کی طرف چلی گئیں وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ کر گرگیا اس کی تلاش میں ان کو دیر لگ گئی۔ جب واپس اپنی جگہ پہنچیں تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوچکا ہے ان کے اونٹ کا قصہ یہ ہوا کہ جب کوچ ہونے لگا تو عادت کے مطابق حضرت صدیقہ عائشہ کا ہودج یہ سمجھ کر اونٹ پر سوار کردیا گیا کہ حضرت صدیقہ اس میں موجود ہیں اٹھاتے وقت بھی کچھ شبہ اس لئے نہ ہوا کہ اس وقت حضرت صدیقہ کی عمر کم اور بدن میں نحیف تھیں کسی کو یہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ ہودج خالی ہے چناچہ اونٹ کو ہانک دیا گیا۔ حضرت صدیقہ نے اپنی جگہ واپس آ کر قافلہ کو نہ پایا تو بڑی دانشمندی اور وقار و استقلال سے کام لیا کہ قافلہ کے پیچھے دوڑنے یا ادھر ادھر تلاش کرنے کے بجائے اپنی جگہ چادر اوڑھ کر بیٹھ گئیں اور خیال کیا کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور رفقاء کو یہ معلوم ہوگا کہ میں ہودج میں نہیں ہوں تو مجھے تلاش کرنے کے لئے یہاں پہنچیں گے، اگر میں ادھر ادھر کہیں اور گئی تو ان کو تلاش میں مشکل ہوگی اس لئے اپنی جگہ پر چادر میں لپٹ کر بیٹھ رہیں۔ آخر رات کا وقت تھا نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ کر آنکھ لگ گئی۔- دوسری طرف قدرت نے یہ سامان کیا کہ حضرت صفوان بن معطل صحابی جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ قافلہ کے پیچھے رہیں اور قافلہ روانہ ہونے کے بعد گری پڑی کوئی چیز رہ گئی ہو تو اس کو اٹھا کر محفوظ کرلیں۔ وہ صبح کے وقت اس جگہ پہنچے، ابھی روشنی پوری نہ تھی اتنا دیکھا کہ کوئی آدمی پڑا سو رہا ہے۔ قریب آئے تو حضرت صدیقہ عائشہ کو پہچان لیا کیونکہ انہوں نے پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے ان کو دیکھا تھا۔ پہچاننے کے بعد انتہائی افسوس کے ساتھ ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا، یہ کلمہ صدیقہ کے کان میں پڑا تو آنکھ کھل گئی اور چہرہ ڈھانپ لیا۔ حضرت صفوان نے اپنا اونٹ قریب لا کر بٹھا دیا۔ حضرت صدیقہ اس پر سوار ہوگئیں اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر پیادہ پا چلنے لگے یہاں تک کہ قافلہ میں مل گئے۔- عبد اللہ بن ابی بڑا خبیث منافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن تھا اس کو ایک بات ہاتھ لگ گئی اور کم بخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی سنی سنائی اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ جیسے حضرت حسان و حضرت مسطح مردوں میں سے اور حضرت حمنہ عورتوں میں سے تفسیر در منثور میں بحوالہ ابن مردویہ حضرت ابن عباس کا یہی قول نقل کیا ہے کہ اعانہ ای عبداللہ ابن ابی حسان و مسطح و حمنہ۔- جب اس منافق کے بہتان کا چرچا ہوا تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے سخت صدمہ پہنچا۔ صدیقہ عائشہ کو تو انتہائی صدمہ پہنچنا ظاہر ہی ہے عام مسلمانوں کو بھی اس سے سخت رنج و افسوس ہوا۔ ایک مہینہ تک یہی قصہ چلتا رہا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیقہ کی برات اور بہتان باندھنے یا اس میں شریک ہونے والوں کی مذمت میں مذکورہ بالا آیات نازل فرما دیں جن کی تفسیر آگے آتی ہے۔ قرآنی ضابطہ کے مطابق جس کا ذکر ابھی حد قذف کے تحت میں آ چکا ہے تہمت لگانے والوں سے شہادت کا مطالبہ کیا گیا وہ تو ایک بالکل ہی بےبنیاد خبر تھی گواہ کہاں سے آتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تہمت لگانے والوں پر شرعی ضابطہ کے مطابق حد قذف جاری کی، ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگائے۔ بزار اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مسلمانوں پر حد قذف جاری فرمائی۔ مسطح، حمنہ، حسان اور طبرانی نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر عبداللہ بن ابی منافق جس نے اصل تہمت گھڑی تھی اس پر دوہری حد جاری فرمائی پھر مومنین نے توبہ کرلی اور منافقین اپنے حال پر قائم رہے (بیان القرآن)- خلاصہ تفسیر - (اے مسلمانو تم جو صدیقہ عائشہ کے متعلق جھوٹی تہمت کی شہرت سے رنجیدہ ہو اس میں خود صدیقہ بھی داخل ہیں تو تم زیادہ غم نہ کرو کیونکہ) جن لوگوں نے یہ طوفان (حضرت صدیقہ عائشہ کی نسبت) برپا کیا ہے وہ تمہارے میں کا ایک (چھوٹا سا) گروہ ہے (کیونکہ تہمت لگانے والے کل چار تھے، ایک بالذات اور جھوٹی تہمت گھڑنے والا یعنی عبداللہ ابن ابی منافق، اور تین بالواسطہ جو اس کی خبر سے متاثر ہوگئے یعنی حسان، مسطح و حمنہ جو مومن مخلص تھے ان سب کو قرآن نے (منکم) میں داخل کیا یعنی مسلمانوں میں، حالانکہ عبداللہ ابن ابی منافق تھا اس کی وجہ ان کا ظاہری دعوائے اسلام تھا۔ مطلب آیت کا تسلی دینا ہے کہ زیادہ غم نہ کرو، اول تو خبر جھوٹی، پھر ناقل بھی کل چار ہی آدمی اور زیادہ آدمی تو اس کے مخالف ہی ہیں پس عرفاً بھی یہ موجب زیادہ غم کا نہ ہونا چاہئے، آگے ایک اور طریقہ پر تسلی ہے کہ) تم اس (بہتان بندی) کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو (گو ظاہر میں غم کی بات ہے مگر واقع میں اس سے تمہارا ضرر نہیں) بلکہ یہ (بااعتبار انجام کے) تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے (کیونکہ اس غم سے تم کو صبر کا ثواب ملا، تمہارے درجے بڑھے۔ خصوصاً متہم حضرات کی براة کے لئے نص قطعی آئی اور آئندہ بھی مسلمانوں کے حق میں خیر ہے کہ ایسے مصیبت زدہ اس واقعہ سے تسلی حاصل کیا کریں گے پس تمہارا تو کوئی ضرر نہ ہوا البتہ ان چرچا کرنے والوں کا ضرر ہوا کہ) ان میں سے ہر شخص کو جتنا کسی نے کچھ کیا تھا گناہ ہوا (مثلاً زبان سے کہنے والوں کو زیادہ گناہ اور سن کر خاموش رہ جانے والوں کو یا دل سے بدگمانی کرنے والوں کو اس کے موافق گناہ ہوا) اور ان میں جس نے اس (بہتان) میں سب سے بڑا حصہ لیا (کہ اس کو اختراع کیا مراد اس سے عبداللہ بن ابی منافق ہے) اس کو (سب سے بڑھ کر) سخت سزا ہوگی (مراد اس سے جہنم ہے جس کا استحقاق پہلے سے بوجہ کفر و نفاق و عداوت رسول کے بھی تھا اب اور زیادہ سزا کا مستحق ہوگیا، یہ تو غم زدوں کے ضرر کی نفی اور بہتان باندھنے والوں کے ضرر کا اثبات تھا آگے (ان میں جو مومنین تھے ان کو ناصحانہ ملامت ہے کہ) جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں (جن میں حسان و مسطح بھی آگئے) اور مسلمان عورتوں نے (جن میں حمنہ بھی آگئیں) اپنے آپس والوں کے ساتھ (یعنی حضرت صدیقہ اور ان صحابی کے ساتھ دل سے) گمان نیک کیوں نہ کیا اور (زبان سے) یہ کیوں نہ کہا کہ یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ درمنثور میں ابو ایوب اور ان کی زوجہ کا یہی قول مروی ہے۔ اس میں بہتان باندھنے والوں کے ساتھ وہ بھی شامل ہیں جو سن کر خاموش رہے یا شک میں پڑگئے ان سب پر بھی ملامت ہے جن میں عام مومنین و مومنات بھی داخل ہوگئے۔ آگے اس تہمت کو رد کرنے اور نیک گمان رکھنے کے وجوب کی وجہ ارشاد ہے کہ) یہ (بہتان لگانے والے) لوگ اس (اپنے قول) پر چار گواہ کیوں نہ لائے (جو کہ اثبات زنا کے لئے شرط ہے) سو جس حالت میں یہ لوگ گواہ (موافق قاعدہ کے) نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک (جو قانون ہے) اس کے اعتبار سے) یہ جھوٹے ہیں (آگے بہتان لگانے والوں میں جو مومن تھے ان پر بھی رحمت کا ذکر ہے) اور اگر (اے حسان و مسطح و حمنہ) تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا دنیا میں (بھی کہ توبہ کی مہلت دی) اور آخرت میں (بھی کہ توبہ کی توفیق دی اور اس کو قبول بھی کرلیا اگر یہ نہ ہوتا) تو جس شغل میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب واقع ہوتا (جیسا عبداللہ بن ابی کو بوجہ عدم توجہ کے ہوگا گو اس وقت مہلت دنیا میں اس کو بھی دے دیگئی مگر مجموعہ دارین میں رحمت نہیں ہے اور اس سے معلوم ہوگیا کہ صحابہ مقبول التوبہ اور پاک ہو کر آخرت میں مرحوم ہیں اور علیکم میں خطاب مومنین کو ہونے کا قرینہ اولاً اوپر کی آیت میں یہ ارشاد ہے ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ثانیا فِي الْاٰخِرَةِ فرمانا کہ منافق تو آخرت میں جہنم کے درک اسفل یعنی نچلے طبقہ کا مستحق ہے وہ یقیناً مرحوم فی الاخرہ نہیں ہو سکتا۔ ثالثاً آگے يَعِظُكُمُ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ میں طبرانی نے ابن عباس کا قول نقل کیا یرید مسطحا و حمنة و حسانا۔ کذا فی الدار المنثور یعنی وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ کے مخاطب صرف تین مومن ہیں۔ یعنی مسطح، حمنہ، حسان، آگے اس کا بیان ہے کہ مومنین پر اگر اللہ کا خاص فضل نہ ہوتا کہ ان کو توبہ کی توفیق دی اور توبہ بھی کرلی تو جو کام انہوں نے کیا تھا وہ اپنی ذات میں عذاب عظیم کا موجب تھا فرمایا) جبکہ تم اس (جھوٹ بات) کو اپنی زبان سے نقل در نقل کر رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کی تم کو (کسی دلیل سے) مطلق خبر نہیں (اور ایسی خبر کے ناقل کا کاذب ہونا فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ میں بیان ہوچکا ہے) اور تم اس کو ہلکی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات (یعنی موجب گناہ عظیم) تھی (اول تو کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت خود بڑی معصیت ہے پھر وہ بھی کون، ازواج مطہرات میں سے کہ ان پر تہمت لگانا جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء کا سبب بنا پس اس میں بہت سے اسباب معصیت کے جمع تھے) اور تم نے جب اس (بات) کو (اول) سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے بھی نکالیں۔ معاذ اللہ یہ تو بڑا بہتان ہے (جیسا کہ بعض صحابہ نے اسی طرح کہا تھا جیسا کہ سعد بن معاذ و زید بن حارثہ و ابی ایوب سے اسی طرح کا قول منقول ہے اور زائد کی نفی نہیں ہے ممکن ہے اور بہتوں نے کہا ہو۔ مطلب یہ کہ قاذفین اور ساکتین سب کو یہی کہنا چاہئے تھا۔ یہاں تک تو ماضی پر ملامت تھی اب مستقبل کے لئے نصیحت ہے جو کہ اصل مقصود ہے ملامت کا پس ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھر ایسی حرکت مت کرنا اگر تم ایمان والے ہو اور اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے (جس میں نصیحت اور حد قذف اور قبول توبہ جو اوپر مذکور ہوچکے ہیں سب داخل ہیں) اور اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے (تمہارے دل کی ندامت کا حال بھی اس کو معلوم ہے اس لئے توبہ قبول کرلی اور سیاست کی حکمت بھی خوب جانتا ہے اس لئے تمہیں سیاسةً دنیا میں سزا دی گئی بھذا فسرہ بن عباس رواہ فی الدار۔ یہاں تک نزول براءة سے قبل تہمت کا تذکرہ کرنے والوں کا ذکر تھا۔ آگے ان کا ذکر ہے جو قرآن میں نزول براءة کے بعد بھی باز نہ آویں اور ظاہر ہے ایسا شخص بےایمان ہی ہوگا پس ارشاد ہے) جو لوگ (بعد نزول ان آیات کے بھی) چاہتے ہیں (یعنی اس کی کوشش عملی کرتے ہیں) کہ بےحیائی کی بات کا مسلمانوں میں چرچا ہو۔ (یعنی یہ خبر شائع ہو کہ ان مسلمانوں میں بےحیائی کی بات ہے۔ حاصل مطلب یہ کہ جو لوگ ان حضرات مقدسین کی طرف سے زنا کی نسبت کرتے ہیں) ان کے لئے دنیا و آخرت میں سزائے دردناک (مقرر) ہے اور (اس امر پر سزا کا تعجب مت کرو کیونکہ) اللہ تعالیٰ جانتا ہے (کہ کون معصیت کس درجہ کی ہے) اور تم (اس کی حقیقت پوری) نہیں جانتے (رواہ فی الدر عن ابن عباس، آگے ان لوگوں کو خطاب ہے جنہوں نے توبہ کرلی اور اس پر آخرت کے عذاب عظیم سے محفوظ ہوگئے (اور اے تائبین) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے (جس نے تم کو توفیق توبہ کی دی) اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق بڑا رحیم ہے (جس نے تمہاری توبہ قبول کرلی) تو تم بھی (اس وعید سے) نہ بچتے (آگے مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بلا تخصیص اس معصیت مذکورہ کے، تمام معاصی سے احتراز رکھنے کا امر اور تزکیہ بالتوبہ کی تصریح ہے جو اہتمام کے واسطے بعنوانات مختلفہ مکرر ہے ارشاد فرماتے ہیں کہ) اے یمان والو تم شیطان کے قدم بقدم مت چلو (یعنی اس کے اغواء واضلال پر عمل مت کرو) اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلتا ہے تو وہ (ہمیشہ ہر شخص) کو بےحیائی اور نامعقول ہی کام کرنے کو کہے گا (جیسا اس واقعہ افک میں تم نے دیکھ لیا) اور (شیطان کے قدم بقدم چل چلنے کے اور گناہ سمیٹ لینے کے بعد اس کے وبال و ضرر سے جو کہ ثابت ہو ہی چکا تھا نجات دیدینا یہ بھی ہمارا ہی فضل تھا ورنہ) اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی (توبہ کر کے) پاک صاف نہ ہوتا (یا تو توبہ کی توفیق ہی نہ ہوتی جیسا منافقین کو نہ ہوئی اور یا توبہ قبول نہ کی جاتی، کیونکہ ہم پر کوئی چیز واجب تو ہے نہیں) و لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے (توبہ کی توفیق دے کر) پاک و صاف کردیتا ہے (اور بعد توبہ کے اپنے فضل سے وعدہ قبولیت کا بھی فرما لیا ہے) اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (پس تمہاری توبہ سن لی اور تمہاری ندامت جان لی اس لئے فضل فرما دیا۔ آگے اس کا بیان ہے کہ بعد نزول آیات براءة کے بعض صحابہ نے (جن میں ابوبکر صدیق بھی ہیں، رواہ البخاری اور دوسرے صحابہ بھی ہیں۔ کذا فی الدر المنثور عن ابن عباس) شدت غیظ میں قسم کھالی کہ جس جس نے یہ چرچا کیا ہے جن میں حاجت مند بھی تھے ان کو اب سے کسی قسم کی مالی امداد نہ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عفو تقصیر اور امداد جاری کردینے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں) اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی اور (دنیوی) وسعت والے ہیں وہ اہل قرابت کو اور مساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں (یعنی اس قسم کے مقتضیٰ پر قائم نہ رہیں بلکہ توڑ ڈالیں یہ مطلب ہے ورنہ قسم تو ہو ہی چکی تھی، یعنی ان صفات کا مقتضیٰ ہے امداد کرنا خصوصاً جس میں کوئی سبب امداد کرنے کا ہو جیسے حضرت مسطح کہ وہ حضرت ابوبکر کے نزدیک کے رشتہ دار بھی ہیں اور مسکین اور مہاجر بھی ہیں، آگے ترغیب کے لئے فرماتے ہیں کہ) اور چاہئے کہ یہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کر دے (سو تم بھی اپنے قصور واروں کو معاف کردو) بیشک اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (سو تم کو بھی تخلق باخلاق الٰہیہ چاہئے آگے منافقین کی وعید کی تفصیل ہے جس کا اوپر اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ الخ میں اجمالاً ذکر تھا یعنی) جو لوگ (بعد نزول آیات کے بدکاری کی) تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو پاکدامن ہیں (اور) ایسی باتوں (کے کرنے اور اس کے ارادے) سے (بھی محض) بیخبر ہیں (اور) ایمان والیاں ہیں (اور جن کی براءة نص قرآن سے ثابت ہوچکی ہے اور جمع لانا اس لئے ہے کہ سب ازواج مطہرات کو شامل ہوجاوے کہ الطیبات سے سب کی طہارت ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جو ایسی مطہرات کو متہم کریں کافر اور منافق ہی ہو سکتے ہیں) ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جاتی ہے (یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت خاصہ سے دارین میں بوجہ کفر کے دور ہوں گے) اور ان کو (آخرت میں) بڑا عذاب ہوگا جس روز ان کے خلاف ان کی زبانیں گواہی دیں گی اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں بھی (گواہی دیں گے) ان کاموں کی جو کہ یہ لوگ کیا کرتے تھے (مثلاً زبان کہے گی کہ اس نے میرے ذریعہ سے فلاں فلاں کفر کی بات بکی۔ اور ہاتھ پاؤں کہیں گے کہ اس نے ترویج کفریات کے لئے یوں تگا پو کی) اس روز اللہ تعالیٰ ان کو انکار واجبی بدلہ پورا پورا دے گا اور (اس روز ٹھیک ٹھیک) ان کو معلوم ہوگا کہ اللہ ہی ٹھیک فیصلہ کرنے والا (اور) بات (کی حقیقت) کو کھول دینے والا ہے (یعنی اب تو بوجہ کفر کے اس بات کا اعتقاد ان کو کما حقہ نہیں مگر قیامت کے روز معلوم ہوجاوے گا اور یہ معلوم کر کے بالکل نجات سے مایوس ہوجائیں گے، کیونکہ ان کے مناسب فیصلہ عذاب ابدی ہے یہ آیتیں غیر تائبین کے بارے میں ہیں جو نزول آیات برات کے بعد بھی اعتقاد تہمت سے باز نہیں آئے۔ تائبین کو فَضْلُ اللّٰهِ وَرَحْمَتُهٗ میں مرحوم دارین فرمایا اور غیر تائبین کو لُعِنُوْا میں ملعون دارین فرمایا۔ تائبین کو لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ میں عذاب سے محفوظ بتلایا تھا اور غیر تائبین کو لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ میں و نیز اس سے قبل والَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ الخ میں مبتلائے عذاب بتلایا۔ تائبین کے لئے فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ میں بشارت عفو و غفران یعنی ستر معصیت کی فرمائی تھی اور غیر تائبین کے لئے تَشْهَدُ اور يّوَفِّيْهِمُ میں وعید عدم عفو اور فضیحت کی فرمائی۔ تائبین کو مَا زَكٰي مِنْكُمْ الخ میں طاہر بتلایا تھا غیر تائبین کو اگلی آیت میں خبیث فرمایا جس میں مضمون برات پر استدلال کر کے قصہ کو ختم فرمایا ہے یعنی یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں (ایک مقدمہ تو یہ ہوا اور دوسرا مقدمہ ضروریات سے ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر چیز آپ کے لائق اور مناسب ہی دی گئی ہے اور وہ ستھری ہی چیزیں ہیں تو ضرور اس مقدمہ ضروریہ کے اعتبار سے آپ کی بی بی بھی ستھری ہیں اور ان کے ستھرے ہونے سے اس تہمت خاص سے حضرت صفوان کا منزہ ہونا بھی لازم آیا اسی لئے آگے فرماتے ہیں کہ) یہ اس بات سے پاک ہیں جو یہ (منافق) بکتے پھرتے ہیں، ان (حضرات) کے لئے (آخرت میں) مغفرت اور عزت کی روزی (یعنی جنت) ہے۔- معارف و مسائل - حضرت صدیقہ عائشہ کے خصوصی فضائل و کمالات اور قصہ افک کا کچھ بقیہ :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں نے آپ کے خلاف اپنی ساری ہی تدبیریں صرف کر ڈالیں اور آپ کو ایذا پہنچانے کی جو جو صورتیں کسی کے ذہن میں آسکتی تھیں وہ سبھی جمع کی گئیں۔ کفار کی طرف سے جو ایذائیں آپ کو پہنچی ہیں ان میں شاید یہ آخری سخت اور روحانی ایذا تھی کہ ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ عالم و فاضل اور مقدس ترین ام المومنین صدیقہ عائشہ پر اور ان کے ساتھ حضرت صفوان بن معطل جیسے مقدس صحابی پر عبداللہ ابن ابی منافق نے تہمت گھڑی۔ منافقین نے اس کو رنگ دیئے اور پھیلایا۔ اس میں سب سے زیادہ رنج دہ یہ بات ہوئی کہ چند سیدھے سادے مسلمان بھی ان کی سازش سے متاثر ہو کر تہمت کے تذکرے کرنے لگے۔ اس بےاصل و بےدلیل ہوائی تہمت کی چند روز میں خود ہی حقیقت کھل جاتی مگر ام المومنین کو اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو اس تہمت سے روحانی ایذا پہنچنی تھی حق تعالیٰ نے اس کے ازالہ اور صدیقہ کی برات کے لئے وحی الٰہی کے کسی اشارہ پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قرآن کے تقریباً دو رکوع ان کی برات میں نازل فرمائے۔ اور جن لوگوں نے یہ تہمت گھڑی یا جن لوگوں نے اس کے تذکرے میں حصہ لیا ان سب پر عذاب دنیا و آخرت کی ایسی وعیدیں بیان فرمائیں کہ شاید اور کسی موقع پر ایسی وعیدیں نہیں آئیں۔- درحقیقت اس واقعہ افک نے حضرت صدیقہ عائشہ کی عفت و تقدس کے ساتھ ان کی اعلیٰ عقل و فہم کے کمالات کو بھی روشن کردیا۔ اسی لئے اس واقعہ میں جو آیات اوپر مذکور ہوئیں ان میں سے پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس حادثہ کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لئے خیر ہے اس سے بڑی خیر کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے دس آیات میں ان کی پاکی اور نزاہت کی شہادت دی جو قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ خود صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی جگہ یہ تو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر میری صفائی اور برات ظاہر فرما دیں گے مگر میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ میرے معاملہ میں قرآن کی آیات نازل ہوجاویں گی جو ہمیشہ پڑھی جاویں گی۔ اس جگہ واقعہ کی کچھ مزید تفصیل جان لینا بھی آیات کے سمجھنے میں معین ہوگا اس لئے اس کو مختصراً لکھا جاتا ہے۔- اس سفر سے واپس آنے کے بعد حضرت صدیقہ اپنے گھریلو کاموں میں مشغول ہوگئیں ان کو کچھ خبر نہیں تھی کہ منافقین نے ان کے بارے میں کیا خبریں اڑائی ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں خود حضرت صدیقہ کا بیان یہ ہے کہ سفر سے واپسی کے بعد کچھ میری طبیعت خراب ہوگئی اور سب سے بڑی وجہ طبیعت خراب ہونے کی یہ ہوگئی کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ لطف کرم اپنے ساتھ نہ دیکھتی تھی جو ہمیشہ سے معمول تھا بلکہ اس عرصہ میں آپ کا معاملہ یہ رہا کہ گھر میں تشریف لاتے اور سلام کرتے پھر پوچھ لیتے کیا حال ہے اور واپس تشریف لے جاتے تھے۔ مجھے چونکہ اس کی کچھ خبر نہ تھی کہ میرے بارے میں کیا خبر مشہور کی جا رہی ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس طرز عمل کا راز مجھ پر نہ کھلتا تھا۔ میں اسی غم میں گھلنے لگی۔ ایک روز اپنی کمزوری کی وجہ سے مسطح صحابی کی والدہ ام مسطح کو ساتھ لے کر میں نے قضاء حاجت کے لئے باہر جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء بنانے کا رواج نہ تھا۔ جب میں قضاء حاجت سے فارغ ہو کر گھر کی طرف آنے لگی تو ام مسطح کا پاؤں ان کی بڑی چادر میں الجھا اور یہ گر پڑیں۔ اس وقت ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا تعس مسطح یہ ایسا کلمہ ہے جو عرب میں بددعا کے لئے استعمال ہوتا ہے اس میں ماں کی زبان سے اپنے بیٹے مسطح کے لئے بددعا کا کلمہ سن کر صدیقہ عائشہ کو تعجب ہوا۔ ان سے فرمایا کہ یہ بہت بری بات ہے تم ایک نیک آدمی کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر کا شریک تھا یعنی ان کا بیٹا مسطح، اس پر ام مسطح نے تعجب سے کہا کہ بیٹی کیا تم کو خبر نہیں کہ مسطح میرا بیٹا کیا کہتا پھرتا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا کہتا ہے تب ان کی والدہ نے مجھے یہ سارا واقعہ اہل افک کی چلائی ہوئی تہمت کا اور مسطح کا اس میں شریک ہونا بیان کیا۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر میرا مرض دوگنا ہوگیا۔ جب میں گھر میں واپس آئی اور حسب معمول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے سلام کیا اور مزاج پرسی فرمائی تو صدیقہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں آپ نے اجازت دیدی۔ منشاء یہ تھا کہ والدین سے اس معاملہ کی تحقیق کریں۔ میں نے جا کر والدہ سے پوچھا، انہوں نے تسلی دی کہ تم جیسی عورتوں کے دشمن ہوا کرتے ہیں اور ایسی چیزیں مشہور کیا کرتے ہیں تم اس کے غم میں نہ پڑو خود بخود معاملہ صاف ہوجاوے گا۔ میں نے کہا، سبحان اللہ لوگوں میں اس کا چرچا ہوچکا میں اس پر کیسے صبر کروں۔ میں ساری رات روتی رہی، نہ میرا آنسو تھما نہ آنکھ لگی۔ دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اس خبر کے پھیلنے سے سخت غمگین تھے اور اس عرصہ میں اس معاملے کے متعلق کوئی وحی بھی آپ پر نہ آئی تھی اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، اور اسامہ بن زید جو دونوں گھر کے ہی آدمی تھے ان سے مشورہ لیا کہ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ حضرت اسامہ بن زید نے تو کھل کر عرض کیا کہ جہاں تک ہمارا علم ہے ہمیں عائشہ کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں۔ ان کی کوئی بات ایسی نہیں جس سے بدگمانی کی راہ پیدا ہو۔ آپ ان افواہوں کی کچھ پرواہ نہ کریں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے (آپ کو غم و اضطراب سے بچانے کے لئے) یہ مشورہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کچھ تنگی نہیں فرمائی اگر افواہوں کی بناء پر عائشہ کی طرف سے کچھ تکدر طبعی ہوگیا ہے تو عورتیں اور بہت ہیں۔ اور آپ کا یہ تکدر اس طرح بھی رفع ہوسکتا ہے کہ بریرہ جو صدیقہ عائشہ کی کنیز ہیں ان سے ان کے حالات کی تحقیق فرما لیجئے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بریرہ سے پوچھ گچھ فرمائی بریرہ نے عرض کیا کہ اور تو کوئی بات عیب کی مجھے ان میں نظر نہیں آئی بجز اس کے کہ نو عمر لڑکی ہیں بعض اوقات آٹا گوندھ کر رکھ دیتی ہیں خود سو جاتی ہیں بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے (اس کے بعد حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ دینا اور برسر منبر تہمت گھڑنے والوں اور افواہ پھیلانے والوں کی شکایت کا ذکر فرمانا اور طویل قصہ مذکور ہے۔ آگے کا مختصر قصہ یہ ہے کہ) صدیقہ فرماتی ہیں کہ مجھے یہ سارا دن پھر دوسری رات بھی مسلسل روتے ہوئے گزری میرے والدین بھی میرے پاس آگئے تھے وہ ڈر رہے تھے کہ رونے سے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھ گئے اور جب سے یہ قصہ چلا تھا اس سے پہلے آپ میرے پاس آ کر نہ بیٹھے تھے پھر آپ نے ایک مختصر خطبہ شہادت پڑھا اور فرمایا اے عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ باتیں پہنچی ہیں۔ اگر تم بری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں بری کردیں گے (یعنی برات کا اظہار بذریعہ وحی فرما دیں گے) اور اگر تم سے کوئی لغزش ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا کلام پورا فرما لیا تو میرے آنسو بالکل خشک ہوگئے، میری آنکھوں میں ایک قطرہ نہ رہا۔ میں نے اپنے والد ابوبکر صدیق سے کہا کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا جواب دیجئے۔ ابوبکر نے عذر کیا کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ جواب دیجئے انہوں نے بھی عذر کردیا کہ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ اب مجبور ہو کر مجھے ہی بولنا پڑا، میں ایک کم عمر لڑکی تھی اب تک قرآن بھی زیادہ نہیں پڑھ سکی تھی۔ اس وقت اس رنج و غم اور انتہائی صدمہ کی حالت میں جبکہ اچھے اچھے عقلاء کو بھی کوئی معقول کلام کرنا آسان نہیں ہوتا حضرت صدیقہ نے جو کچھ فرمایا وہ ایک عجیب و غریب عاقلانہ فاضلانہ کلام ہے اس کے الفاظ بعینہ لکھے جاتے ہیں۔- واللہ لقد عرفت لقد سمعتم ھذا الحدیث حتی استقر فی انفسکم و صدقتم بہ ولئن قلت لکم انی بریئة واللہ یعلم اتی برئیة لا تصدقونی ولان اعترفت لکم بامر واللہ یعلم انی منہ برئیة لتصدقونی واللہ لا اجد لی ولکم مثلا الا کما قال ابو یوسف فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون - " بخدا مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے اس بات کو سنا اور سنتے ہی یہاں تک کہ آپ کے دل میں بیٹھ گئی اور آپ نے اس کی (عملاً تصدیق کردی۔ اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں اس سے بری ہوں جیسا کہ اللہ جانتا ہے کہ واقع میں بری ہوں تو آپ میری تصدیق نہ کریں گے اور اگر میں ایسے کام کا اعتراف کرلوں جس سے میرا بری ہونا اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو آپ میری بات مان لیں گے۔ واللہ اب میں اپنے اور آپ کے معاملہ کی کوئی مثال بجز اس کے نہیں پاتی جو یوسف (علیہ السلام) کے والد یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کی غلط بات سن کر فرمائی تھی کہ میں صبر جمیل اختیار کرتا ہوں اور اللہ سے اس معاملہ میں مدد طلب کرتا ہوں جو تم بیان کر رہے ہو "۔- صدیقہ فرماتی ہیں کہ اتنی بات کر کے میں الگ اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئی اور فرمایا کہ مجھے یقین تھا کہ جیسا کہ میں فی الواقع بری ہوں اللہ تعالیٰ میری برات کا اظہار بذریعہ وحی ضرور فرماویں گے۔ لیکن یہ وہم و خیال بھی نہ تھا کہ میرے معاملے میں قرآن کی آیات نازل ہوں گی جو ہمیشہ تلاوت کی جاویں گی کیونکہ میں اپنا مقام اس سے بہت کم محسوس کرتی تھی۔ ہاں یہ خیال تھا کہ غالباً آپ کو خواب میں میری برات ظاہر کردی جاوے گی۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اس مجلس سے ابھی نہیں اٹھے تھے اور گھر والوں میں بھی کوئی نہیں اٹھا تھا کہ آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی جس سے سخت سردی کے زمانے میں آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹنے لگتا تھا جب یہ کیفیت رفع ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنستے ہوئے اٹھے اور سب سے پہلا کلمہ جو فرمایا وہ یہ تھا ابشری یا عائشہ اما اللہ فقد ابراک یعنی اے عائشہ خوشخبری سنو اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں بری کردیا۔ میری والدہ نے کہا کہ کھڑی ہوجاؤ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہو میں نے کہا کہ نہ میں اس معاملہ میں اللہ کے سوا کسی کا احسان مانتی ہوں نہ کھڑی ہوں گی میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں کہ اسی نے مجھے بری فرمایا۔- حضرت صدیقہ کی چند خصوصیات :- امام بغوی نے انہیں آیات کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو ان کے علاوہ کسی دوسری عورت کو نصیب نہیں ہوئیں اور صدیقہ عائشہ بھی (بطور تحدیث بالنعمة) ان چیزوں کو فخر کے ساتھ بیان فرمایا کرتی تھیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آنے سے پہلے جبرائیل امین ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور فرمایا کہ یہ تمہاری زوجہ ہے (رواہ الترمذی عن عائشة) اور بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل امین اپنی ہتھیلی میں یہ صورت لے کر تشریف لائے تھے۔- دوسری یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوا کسی کنواری لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔ تیسری یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ان کی گود میں ہوئی۔ چوتھی یہ کہ بیت عائشہ ہی میں آپ مدفون ہوئے۔ پانچویں یہ کہ آپ پر اس وقت بھی وحی نازل ہوتی تھی جبکہ آپ حضرت صدیقہ کے ساتھ ایک لحاف میں ہوتے تھے دوسری کسی بی بی کو یہ خصوصیت حاصل نہ تھی۔ چھٹی یہ کہ آسمان سے ان کی برات نازل ہوئی۔ ساتویں یہ کہ وہ خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ہیں اور صدیقہ ہیں اور ان میں سے ہیں جن سے دنیا ہی میں مغفرت کا اور رزق کریم کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے۔ ( مظھری)- حضرت صدیقہ کی فقیہانہ اور عالمانہ تحقیقات اور فاضلانہ تقریر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ بن طلحہ نے فرمایا کہ میں نے صدیقہ عائشہ سے زیادہ فصیح وبلیغ نہیں دیکھا۔ (رواہ الترمذی)- تفسیر قرطبی میں نقل کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچے کو گویائی دے کر اس کی شہادت سے ان کی برات ظاہر فرمائی اور حضرت مریم (علیہا السلام) پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کی شہادت سے ان کو بری کیا اور حضرت صدیقہ عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دس آیات نازل کر کے ان کی برات کا اعلان کیا، جس نے ان کے فضل و عزت کو اور بڑھا دیا۔- آیات مذکورہ کی اجمالی تفسیر خلاصہ تفسیر کے عنوان میں آ چکی ہے اب آیات کے خاص خاص جملوں سے متعلق کچھ مباحث ہیں وہ دیکھئے۔- اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ، افک کے اصلی لغوی معنے پلٹ دینے اور بدل دینے کے ہیں۔ بدترین قسم کا جھوٹ جو حق کو باطل سے اور باطل کو حق سے بدل دے پاکباز متقی کو فاسق، فاسق کو متقی پرہیزگار بنا دے اس جھوٹ کو بھی افک کہتے ہیں۔ عصبہ کے معنے جماعت کے ہیں جو دس سے چالیس تک ہو، اس سے کم و بیش کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے منکم سے مراد مومنین ہیں۔ اس تہمت کا اصل گھڑنے والا اگرچہ مسلمان نہیں بلکہ منافق عبداللہ ابن ابی تھا جو مومنین میں داخل نہیں مگر منافقین جو دعویٰ اسلام کا کرتے تھے ان پر بھی ظاہری احکام مومنین کے جاری ہوتے تھے اس لئے منکم کے لفظ میں اس کو بھی شامل کرلیا گیا۔ مسلمانوں میں سے دو مرد اور ایک عورت اس میں مبتلا ہوئے جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیات نازل ہونے کے بعد حد قذف جاری فرمائی۔ کما مر سابقا۔ مگر مومنین سب تائب ہوگئے اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی ان میں سے حضرت حسان اور مسطح دونوں شرکائے بدر میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مغفرت کا اعلان فرما دیا ہے۔ اسی لئے حضرت صدیقہ عائشہ کے سامنے کوئی حضرت حسان کی برائی کرتا تو وہ پسند نہ کرتی تھیں اگرچہ یہ بھی ان دو مردوں میں شامل تھے جن پر حد قذف لگائی گئی تھی اور صدیقہ فرماتی تھیں کہ حسان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کفار کا شاعرانہ مقابلہ خوب کیا ہے اس لئے ان کو برا نہیں کہنا چاہئے۔ اور وہ جب صدیقہ عائشہ کے پاس حاضر ہوتے تو ان کو تعظیم تکریم کے ساتھ بٹھاتی تھیں۔ (مظہری وغیرہ)- لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ، یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیقہ عائشہ اور صفوان اور تمام مومنین کو ہے جن کو اس افواہ کی اشاعت سے صدمہ پہنچا۔ اور معنے یہ ہیں کہ اس واقعہ کو آپ برا نہ سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں برات نازل فرما کر ان کا اعزاز اور بڑھا دیا اور جن لوگوں نے یہ حرکات کی تھیں ان کی وعید شدید نازل فرما دی جو قیامت تک محرابوں میں پڑھی جائے گی۔- لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ، یعنی جن لوگوں نے اس بہتان میں جتنا حصہ لیا اسی مقدار سے اس کا گناہ لکھا گیا ہے اور اسی تناسب سے اس کو عذاب ہوگا۔ جس نے یہ خبر گھڑی اور چلتی کی جس کا ذکر آگے آتا ہے وہ سب سے زیادہ عذاب کا مستحق ہے، جس نے خبر سن کر تائید کی وہ اس سے کم، جس نے سن کر سکوت کیا وہ اس سے کم۔- وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ، لفظ کبر بکسر الکاف کے معنے بڑے کے ہیں مراد یہ ہے جس نے اس تہمت میں بڑا کام کیا یعنی اس کو گھڑا اور چلتا کیا اس کے بعد عذاب عظیم ہے مراد اس سے عبداللہ بن ابی منافق ہے (رواہ البغوی وغیرہ)
اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَۃٌ مِّنْكُمْ ٠ۭ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّكُمْ ٠ۭ بَلْ ہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ ٠ۭ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ٠ۚ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ١١- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیان کے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔- عُصْبَةُ- والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، - ( ع ص ب ) العصب - العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار - حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] - ( ش ر ر ) الشر - وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- 7-- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
واقعہ افک میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبر کا پھل - قول باری ہے : (ان الذین جائو ا بالا فک عصبۃ منکم لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم۔ ) جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لئے خیر ہی ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جنہوں نے حضرت عائشہ (رض) پر بہتان باندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ افک جھوٹ کو کہتے ہیں۔ اس بہتان کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو سخت ذہنی کوفت ، پریشانی اور صدمے کے سامنے کرنا پڑا لیکن انہوں نے صبر کیا اس لئے یہ ان کے حق میں خیر بن گیا۔ اس بہتان پر ان کا صبر اور ان کا کرب ان کے حق میں شر ثابت نہیں ہوا بلکہ چندہ وجوہ کی بنا پر یہ خیر قرار پایا۔ اول تو یہ کہ انہیں صبر کرنے کا ثواب ملا، دوم یہ کہ انہیں اس وقت زبردست مسرت حاصل ہوئی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ (رض) کی برات اور پاکدامنی کا اعلان کردیا گیا۔ سوم یہ کہ اس کے ذریعے انہیں قاذف کے احکامات معلوم ہوگئے۔- قول باری ہے۔ (لکل امری منھم ما اکتسب من الاثم) جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا۔ یعنی…واللہ اعلم…جس نے جتنا گناہ سمیٹا اتنی ہی اسے اس کی سزا ملی۔- قول باری ہے :(والذی تولی کبرہ۔ اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا) روایت میں ہے کہ یہ شخص عبداللہ ابی بن سلول تھا۔ (کبرہ) کے معنی ہیں اس کا بڑا حصہ۔ یعنی اس بہتان طرازی کا بڑا حصہ ۔ منافقین عبداللہ بن ابی کے پاس اکٹھے ہوئے اور اس کی رائے اور حکم کے تحت اس بہتان کی لوگوں میں اشاعت کرتے اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے۔ عبداللہ بن ابی اس کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کو ذہنی کوفت پہنچانا اور ان کی ذات پر کیچڑاچھالنا چاہتا تھا۔
(١١) جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) کی نسبت یہ طوفان بدتمیزی برپا کیا ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔- یہ آیات مبارکہ کذاب اور واقعہ کو گھڑنے والا عبداللہ بن ابی سلول منافق اور حسان بن ثابت انصاری اور مسطح بن اثاثہ اور عباد بن عبدالمطلب اور حمنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ابی بن سلول منافق نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) پر تہمت لگائی تھی، اور یہ بقیہ مومن اس منافق کے کہنے میں آگئے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس چیز کو اپنے حق میں آخرت میں بھی برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے حق میں ثواب و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا اس معاملہ میں حصہ لیا تھا گناہ ہوا - اور ان میں سے جس نے یعنی عبداللہ بن ابی سلول منافق نے اس طوفان میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے کہ اس واقعہ کو اس نے گھڑا اور سارے مدینہ میں اس کو پھیلایا اس کو سب سے بڑھ کر سخت سزا ہوگی کہ دنیا میں حد قذف اس پر لگائی جائے گی اور آخرت میں دوزخ میں جلے گا۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ان الذین جآء و باالافک عصبۃ “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سفر پر تشریف لے جانا چاہتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے جس کا نام نکل جاتا اس کو ساتھ لے جاتے ایک مرتبہ ایک جہاد پر تشریف لے گئے اور قرعہ میں میرا نام نکل آیا اس لیے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل دی یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے بعد کا ہے۔- چناچہ میں کجاوہ میں سوار ہو کر چلتی بھی تھی اور جہاں کہیں پڑاؤ ہوتا تھا میرا کجاوہ اتار لیا جاتا تھا غرض کہ ہم چل دیے جہاد سے فارغ ہونے کے بعد جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوئے اور ہم سب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا اعلان فرما دیا، اعلان سنتے ہی میں بھی اٹھی اور پیدل جا کر لشکر سے نکل کر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر منزل پر آئی سینہ کو ٹٹول کر دیکھا تو ظفاری نگینوں کا ہار جو میں پہنے ہوئی تھی نہ معلوم کہاں ٹوٹ کر نکل گیا فورا میں اس کی تلاش کے لیے لوٹی اور تلاش کرنے میں دیر لگ گئی جو گروہ میرا کجاوہ کستا تھا اس نے میرا کجاوہ کو اٹھا کر اسی اونٹ پر کس دیا جس اونٹ پر کہ میں سوار ہوتی تھی۔- کیوں کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ میں کجاوہ میں ہوں اور اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری فربہ اندام نہیں ہوتی تھیں کھانا تھوڑا کھایا کرتی تھیں اور میں تو ویسے بھی نوخیز لڑکی تھی اس لیے جن لوگوں نے کجاوہ کو اونٹ پر اٹھا کر رکھا ان کو کجاوہ کی گرانی کا اندازہ نہ ہوا۔ غرض کہ اونٹ اٹھا کر وہ لوگ چل دیے اور لشکر کے چلے جانے کے بعد مجھ کو ہار مل گیا میں پڑاؤ پر آئی تو وہاں نہ کوئی کہنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا میں اپنے پڑاؤ پر آگئی اور خیال کیا کہ جب میں لوگوں کو نہیں ملوں گی تو ضرور یہیں لوٹ کر آئیں گے میں اپنی جگہ بیٹھی ہوئی تھی کہ آنکھوں میں نیند غالب آگئی، اور میں سو گئی، صفوان بن معطل لشکر کے پیچھے پچھلی رات سے چلے آرہے تھے وہ صبح کو اس جگہ پہنچے، جہاں میں پڑی ہوئی سو رہی تھی دور سے انھیں ایک سوتا ہوا شخص معلوم ہوا میرے پاس آئے تو مجھ کو پہچان لیا کیوں کہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے میں ان کے سامنے نکلا کرتی تھی، انہوں نے جو مجھے دیکھ کر انا للہ پڑھی تو میری آنکھ کھل گئی انہوں نے مجھے پہچان لیا میں نے اپنا چہرہ چادر سے چھپا لیا اللہ کی قسم انہوں نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ میں نے سوائے انا للہ کے ان کی زبان سے اور کوئی کلمہ سنا، انہوں نے فورا یہ کیا کہ اپنی اونٹنی بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے پیر سے دبائے رکھا میں اونٹنی پر سوار ہوگئی وہ خود بےچارے پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے یہاں تک کہ ہم لشکر میں اس وقت پہنچے جب کہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت میں وہ اترے ہوئے تھے اب لوگوں نے طوفان اٹھایا اور جس کی قسمت میں تباہی لکھی ہوئی تھی وہ تباہ ہوا اور سب سے بڑا اس طوفان کا بانی وموجد عبداللہ بن ابی بن سلول منافق ملعون تھا خیر ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ تک میں بیمار رہی، لوگ طوفان برپا کرنے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے لیکن مجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی ایک ذرا ساوہم مجھے اس بات سے پیدا ہوا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری بیماری کے زمانہ میں جو مہربانیاں میرے حال پر فرمایا کرتے تھے وہ اس بیماری کے زمانہ میں نہیں پاتی تھی۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حجرے میں تشریف لاتے اور سلام کرنے کے بعد فرماتے اب کیسی ہو اور تشریف لے جاتے، اس سے بیشک مجھ کو وہم ہوا مگر اس طوفان کی مجھ کو خبر تک بھی نہ تھی، بیماری سے اچھی ہونے کے بعد لاغری اور کمزوری ہی کی حالت میں، میں باہر نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں مناصع کی طرف چلی مناصع اس زمانے میں ہمارا پائے خانہ تھا اور ہم راتوں رات وہاں جایا کرتے تھے اور اس زمانہ میں ہماری حالت بالکل ابتدائی عربوں کی طرح تھی، گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے ہمیں تکلیف بھی ہوتی تھی، ام مسطح ابورہم بن مطلب بن عبد مناف کی لڑکی تھیں اور ان کی ماں ضمر بن عامر کی بیٹی تھیں جو حضرت ابوبکر (رض) کی خالہ تھیں اور ام مسطح کے شوہر کا نام اثاثہ بن عاد بن عبد المطلب تھا، غرض کہ ضرورت سے فارغ ہو کر میں اور ام مسطح گھر کی طرف آئے، راستہ میں ام مسطح اپنی چادر میں الجھ کر گریں اور بولیں مسطح ہلاک ہو میں نے کہا کہ تم نے برا کیا، کیا ایسے آدمی کو بددعا دیتی ہوں جو غزوہ بدر میں شریک ہوا ہے بولیں بھولی بھالی کیا تو نے اس کی بات نہیں سنی ؟ میں نے کہا اس کی کیا بات ہے چناچہ مسطح کی والدہ نے تہمت لگانے والوں کا قول بیان کیا یہ سن کر میری بیماری میں اور اس بیماری کا اضافہ ہوگیا گھر واپس آئی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے انہوں نے سلام کرنے کے بعد پوچھا تمہارا کیا حال ہے میں نے عرض کیا کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں اپنے والدین کے پاس چلی جاؤں، اس اجازت لینے کی غرض یہ تھی کہ میں اپنے والدین کی طرف سے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی، چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے والدین کے یہاں چلی آئی اور آکر والدہ سے پوچھا کہ لوگ کیا چہ میگوئیاں کر رہے ہیں انہوں نے کہا بیٹی تو غم مت کر کیوں کہ اللہ کی قسم اگر کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور اس کا خاوند اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں اس پر بڑی بڑی باتیں رکھ دیا کرتی ہیں۔- میں نے کہا سبحان اللہ لوگ کیا کیا باتیں ملا رہے ہیں (اور آپ یہ کہہ رہے ہیں) غرض اس رات کو ساری رات میں روتی رہی اور میرے آنسو نہیں تھمے اور نہ نیند آئی، صبح کو میں رو ہی رہی تھی کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور حضرت اسامہ (رض) کو اپنی بیوی کے طلاق کے معاملہ میں مشورہ کے لیے طلب فرمایا کیوں کہ وحی آنے میں دیر ہوگئی تھی حضرت اسامہ (رض) نے تو وہی مشورہ دیا جو ان کو معلوم تھا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ پاک دامن ہے اور جیسا کہ ان کے دل میں آپ کی ازواج سے محبت تھی، چناچہ عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ آپ کی بیوی ہیں ہمیں تو ان کے متعلق کسی برائی کا علم نہیں مگر حضرت علی (رض) نے عرض کیا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے تنگی نہیں رکھی ہے ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں اگر آپ خادمہ کو بلا کر دریافت کریں گے تو وہ آپ کو سچ سچ بیان کردیں گی اور عائشہ (رض) کی سچائی ظاہر ہوجائے گی، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ (رض) کو بلایا اور فرمایا بریرہ (رض) تمہیں عائشہ (رض) کی طرف سے کبھی کوئی شک کی بات نظر آئی، حضرت بریرہ (رض) نے عرض کیا قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں نے تو عائشہ (رض) کی کوئی بات قابل گرفت کبھی دیکھی ہی نہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ وہ کمسن لڑکی ہیں، گھر کا گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں، بکری کا بچہ اس کو آکر کھا لیتا ہے اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممبر پر تشریف فرما ہو کر عبداللہ بن ابی سلول منافق مردود کے مقابل مدد چاہی، فرمایا مسلمانو کون میری حمایت کرتا ہے کون میری مدد کرتا ہے ایسے شخص کے مقابلہ میں جس کی جانب سے مجھے اپنے گھروالوں کے متعلق اذیت پہنچی ہے، اللہ کی قسم مجھے تو اپنی بیوی میں کوئی برائی نظر نہیں آتی لوگو میں ان کو نیک اور پاک دامن یہ سمجھتا ہوں اور جس شخص کا ذکر کیا ہے اس کو بھی نیک بخت جانتا ہوں وہ تو کبھی میرے گھر میں اکیلا نہیں آیا، ہمیشہ میرے ہی ساتھ آیا، یہ سن کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس شخص کے مقابلہ میں آپ کی مدد کو تیار ہوں، اگر یہ شخص اوس قبیلہ کا ہے تو ابھی میں اس کو قتل کردیتا ہوں اور اگر ہمارے بھائیوں میں سے خزرج کا ہے تو آپ جو حکم دیں ہم پورا کریں گے، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں سعد بن معاذ کی یہ بات سن کر سعد بن عبادہ (رض) اٹھ کھڑے ہوئے جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، وہ پہلے بہت نیک بخت آدمی تھے مگر اس وقت ان کو ایک قومی غیرت نے آگھیرا، سعد بن معاذ سے کہنے لگے اللہ کی بقاء کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اس کو مارے گا اور نہ مار سکے گا، اتنے میں اسید بن حضیر (رض) جانثار صحابی جو سعد بن معاذ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہوگئے اور سعد بن عبادہ (رض) سے کہنے لگے اللہ کی بقاء کی قسم تو جھوٹا ہے ہم تو ضرور اس شخص کو قتل کریں گے کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرف داری کرتا ہے بس اس گفتگو پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے آدمی کھڑے ہوگئے اور آپس میں لڑنے والے ہی تھے مگر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر ہی تھے آپ ان کو ٹھنڈا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ سب خاموش ہوئے تب آپ بھی خاموش ہوگئے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اس دن سارے دن میرا یہ حال رہا کہ نہ میرے آنسو بند ہوتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی، صبح کو میرے والدین بھی میرے پاس موجود تھے اور میرا تو دو رات اور ایک دن سے یہی حال تھا کہ نہ نیند آتی تھی اور نہ آنسو ہی تھمتے تھے میرے والدین یہ سمجھے کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو ہی رہی تھی اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے اسے اجازت دے دی وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی اسی حالت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے یہاں تشریف لائے، آپ نے سلام کیا اور سلام کر کے بیٹھ گئے اس سے قبل جب سے میرے اوپر یہ بہتان لگایا گیا تھا آپ کبھی میرے پاس نہیں بیٹھے تھے ایک مہینہ تک آپ رکے رہے، میرے بارے میں کوئی وحی نہ آئی، غرض کہ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا، پھر فرمایا اما بعد عائشہ (رض) مجھے تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے۔- اگر تو پاک ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاک دامنی عنقریب بیان فرمادے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور سرزد ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اپنے قصور کی مغفرت مانگ اور توبہ کر کیوں کہ جب کوئی بندہ اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کی درگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ بخش دیتا ہے جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گفتگو ختم کرچکے تو اللہ کی قدرت یک بارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی مجھ کو معلوم نہ ہوا، میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا جواب دیں انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ آپ کو کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ ام رومان سے کہا کہ آپ تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا جواب دیں انہوں نے کہا میں نہیں جانتی کیا جواب دوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں بالآخر میں ہی جواب کے لیے مستعد اور میں ایک کمسن لڑکی تھی قرآن کریم بھی مجھے زیادہ یاد نہ تھا خیر میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ نے سنی ہے وہ آپ کے دلوں میں جم گئی ہے اور آپ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں تو ایسی صورت میں اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں جب بھی آپ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں فرضی طور پر ایک گناہ کا اقرار کرلو (جو میں نے نہیں کیا) اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ سمجھیں گے اللہ کی قسم میں اس وقت اپنی اور آپ کی مثال ایسی سمجھتی ہوں جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تھی انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کہتی ہوں کہ ( آیت) ” فصبر جمیل “۔ اور آپ کی باتوں پر اللہ ہی میری مدد فرمانے والا ہے، حضرت عائشہ (رض) ہیں کہ یہ کہہ کر میں نے اپنے بستر پر کروٹ بدل لی اور مجھے یہ یقین تھا کہ کیونکہ میں پاک ہوں تو اللہ تعالیٰ میری پاکی ضرور ظاہر فرمائے گا مگر اللہ کی قسم مجھے ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں قرآن کریم کی ایسی آیتیں نازل فرمائے گا جو قیامت تک پڑھی جائیں گی میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں اللہ ایسا کلام اتارے کہ جو ہمیشہ پڑھا جائے، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ایسا خواب نظر آجائے گا جس سے آپ کے سامنے میری پاکیزگی ظاہر ہوجائے گی۔- حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں پھر اللہ کی قسم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس جگہ بیٹھے ہوئے تھے نہ آپ اپنی اس جگہ سے اٹھے اور اسی طرح گھر میں جو حضرات تھے نہ اس میں سے کوئی باہر گیا کہ آپ پر وحی اترنا شروع ہوگئی اور حسب معمول آپ پر وحی کی سختی ہونے لگی اور پسینہ موتی کی طرح آپ کے بدن مبارک سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ سردی کا دن تھا مگر نزول وحی کے وقت آپ پر ایسی ہی سختی ہوتی تھی، خیر جب وحی کی حالت ختم ہوگئی دیکھا تو آپ مسکرا رہے ہیں، پھر پہلی بات آپ نے جو کی وہ یہی فرمائی کہ عائشہ (رض) تمہیں پاک صاف کردیا، یہ سن کر میری والدہ کہنے لگیں اٹھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو میں نے کہا واہ اللہ کی قسم میں تو کبھی بھی آپ کے شکریہ کے لیے نہیں اٹھوں گی میں تو فقط اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کروں گی جو عزت اور بزرگی والا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ( آیت) ” ان الذین جآء و بالافک “۔ (الخ) پوری دس آیتیں نازل ہوئیں، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے میری پاک دامنی میں یہ آیتیں نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) جو پہلے مسطح بن اثاثہ کے ساتھ اس کی غربت اور رشتہ داری کی وجہ سے جو مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے کہنے لگے اللہ کی قسم اب تو میں مسطح کو کچھ نہیں دوں گا جب اس نے حضرت عائشہ (رض) کے میں ایسی باتیں کیں اور رشتہ داری کا خیال نہیں کیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ( آیت) ولا یاتل اولو الفضل منکم “۔ (الخ) یعنی تم سے وسعت اور بزرگی والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس قسم کی قسم کھالیں کہ اپنے عزیزوں یا مسکین اور مہاجروں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ دیں گے، تو یہ آیتیں سن کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرمانے لگے اللہ کی قسم میں یہی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مسطح سے حسب عادت سلوک کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ میں مسطح کے ساتھ اس سلوک کو کبھی ختم نہیں کروں گا۔- اور اس باب میں طبرانی (رح) میں حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) اور بزار (رح) میں ابوہریرہ (رض) اور ابن مردویہ (رح) میں ابو الیسر (رض) سے روایات نقل ہیں۔- اور امام طبرانی (رح) نے خصیف (رح) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر (رض) سے دریافت کیا کہ زنا اور قذف میں سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے، فرمایا زنا، میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو لوگ تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو کہ پاک دامن ہیں، انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت عائشہ (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہے اس روایت کی سند میں یحییٰ حمانی ہیں جو ضعیف ہیں۔
(لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْط بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط) “ - یہ واقعہ گویا اللہ تعالیٰ کے بہت سے احکام اور قوانین کے نزول کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی کی وجہ سے امت کو شریعت کے اہم امور کی تعلیم دی جائے گی۔ اس واقعہ کا خلاصہ یوں ہے :- ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ بنی مصطلق کے لیے تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت عائشہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھیں۔ آپ (رض) ایک الگ ہودج (کجاوہ) میں سفر کرتی تھیں۔ واپسی کے سفر کے دوران ایک جگہ جب قافلے کا پڑاؤ تھا آپ (رض) صبح منہ اندھیرے قضائے حاجت کے لیے گئیں۔ واپسی آپ (رض) کا ہار کہیں گرگیا اور اس کی تلاش میں آپ (رض) کو اتنی دیر ہوگئی کہ قافلے کے کوچ کا وقت ہوگیا۔ جن لوگوں کو آپ (رض) کا ہودج اونٹ پر باندھنے اور اتارنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیا۔ آپ (رض) چونکہ بہت دبلی پتلی تھیں اور آپ (رض) سمیت ہودج کا وزن بہت زیادہ نہیں ہوتا تھا ‘ اس لیے اٹھاتے ہوئے وہ لوگ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ ہودج خالی ہے اور آپ (رض) اس میں موجود نہیں ہیں۔ بہر حال جب آپ (رض) پڑاؤ کی جگہ پر واپس آئیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا۔ واپس آکر آپ (رض) نے سوچا ہوگا کہ اگر پیدل قافلے کے پیچھے جانے کی کوشش کروں گی تو نہ جانے رات کے اندھیرے میں راستہ بھٹک کر کس طرف چلی جاؤں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسی جگہ پر بیٹھی رہوں ‘ تا وقتیکہ لوگوں کو میرے بارے میں پتا چلے کہ میں ہودج میں نہیں ہوں اور وہ مجھے تلاش کرتے ہوئے واپس اس جگہ پہنچ جائیں۔ چناچہ آپ (رض) وہیں بیٹھ گئیں۔ بیٹھے بیٹھے آپ (رض) کو نیند آگئی اور آپ (رض) وہیں زمین پر سو گئیں۔- اس زمانے میں عام طور پر سفر کے دوران ایک شخص قافلے کے پیچھے پیچھے سفر کرتا تھا تاکہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اگر کوئی ساتھی پیچھے رہ گیا ہو تو اس کی مدد کرے یا قافلے کی کوئی گری پڑی چیز اٹھا لے۔ اس سفر کے دوران اس ذمہ داری پر حضرت صفوان بن معطل (رض) مامور تھے۔ وہ اجالے کے وقت قافلے کے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو دور سے انہیں ایک گٹھڑی سی پڑی دکھائی دی۔ قریب آئے تو ام المؤمنین (رض) کو زمین پر پڑے پایا۔ نیند کے دوران آپ (رض) کا چہرہ کھل گیا تھا اور حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے چونکہ انہوں نے آپ (رض) کو دیکھا تھا اس لیے پہچان گئے۔ (حجاب کا حکم سورة الاحزاب میں ہے جو ایک سال پہلے ٥ ہجری میں نازل ہوچکی تھی۔ اس سے پہلے خواتین حجاب نہیں کرتی تھیں۔ ) حضرت صفوان (رض) نے آپ (رض) کو دیکھ کر اونچی آواز میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔ یہ سن کر آپ (رض) کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے آپ (رض) کے سامنے اپنا اونٹ بٹھا دیا۔ آپ (رض) خاموشی سے سوا رہو گئیں اور وہ نکیل پکڑے آگے آگے چلتے رہے۔ جب وہ آپ (رض) کو لے کر قافلے میں پہنچے تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ُ خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے شور مچا دیا کہ خدا کی قسم ‘ تمہارے نبی کی بیوی بچ کر نہیں آئی (معاذ اللہ ) باقی منافقین نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور یوں یہ بےسروپا بات بڑھتے بڑھتے ایک طوفان کا روپ دھار گئی۔ منافقین کی اس سازش سے بعض بہت ہی مخلص مسلمان بھی متأثر ہوگئے ‘ جن میں حضرتّ حسان بن ثابت (رض) (دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاعر) بھی تھے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کی براءت میں یہ آیات نازل فرما کر آپ (رض) کی پاکدامنی اور پاکبازی پر گواہی دی تو تب جا کر یہ معاملہ ختم ہوا۔ یہ واقعہ تاریخ اسلامی میں ” واقعہ افک “ کے نام سے مشہور ہے۔- (لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ج) “ - جس کسی کا جتنا حصہ اس طوفان کے اٹھانے میں ہے اس کو اسی قدر اس کا بدلہ ملے گا۔- (وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) “ - اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہے ‘ جو اس بہتان کے باندھنے اور اس کی تشہیر کرنے میں پیش پیش تھا۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :8 اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا ۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے ۔ اِفک کے معنی ہیں بات کو الٹ دینا ، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا ۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں ۔ یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا ۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت اذیت میں مبتلا رہے ، میں روتی رہی ، میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے ، آخر کار ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے ۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے ۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان ( حضرت عائشہ کی والدہ ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے ۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے ۔ حضور نے فرمایا عائشہ ، مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں ۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا ۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو ، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کر دیتا ہے ۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے ۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں ۔ انہوں نے فرمایا بیٹی ، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں ۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں ۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں ، کیا کہوں ۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے ، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے ، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ مان لیں گے ۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا ۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل ( اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے ان کے بیٹے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا ۔ سورہ یوسف ، رکوع 10 میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی ۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا ۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی ۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے ۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا ۔ اتنے میں یکایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی ، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے ۔ ہم سب خاموش ہو گئے ۔ میں تو بالکل بے خوف تھی ۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے ۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش تھے ۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ ، اللہ نے تمہاری برأت نازل فرما دی ۔ اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آیتیں سنائیں ( یعنی آیت نمبر 11 سے نمبر 21 تک ) ۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو ۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا ، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری برأت نازل فرمائی ۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا ۔ ( واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے ) ۔ اس موقع پر یہ نکتۂ لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے دراصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے جسے نقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے ۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو وہ گواہی لائے ۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی ۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر 80 کوڑے برسا دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے ۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا ۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے ۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :9 روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے ۔ عبد اللہ بن ابی ۔ زید بن رفاعہ ( جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹا تھا ) ۔ مِسْطَح بن اُثاثہ ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش ۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑ گئے تھے ۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :10 مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں ، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے مفید ثابت ہو گا ۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، منافقین نے یہ شوشہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دیں جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا ، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا ۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ، دوسری طرف حضرت ابوبکر اور ان کے خاندان والوں نے ، اور تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک ، کیسے ضابطہ و متحمل ، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا ، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو ، جن پر جرم قذف ثابت تھا ، حد لگوا دی ، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا ۔ حضرت ابوبکر کا اپنا رشتہ دار ، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے ، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا ، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا ، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی ۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا ، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا ، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا ۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں ، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا ۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا ، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ، خدا کی قسم ، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی ۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا ، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں ۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا ۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا ۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ایوب کی ماں اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ؟ وہ بولیں خدا کی قسم میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی ۔ حضرت ابوایوب نے کہا تو عائشہ تم سے بدرجہا بہتر ہیں ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا ، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا ۔ پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا ، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا ۔ اس کی بدولت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، اور پیدا ہو جائیں تو ان کا بروقت تدارک کیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں ہیں ، جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں ، اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے ، ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہ کے معاملے میں سخت پریشان رہے ۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے ، کبھی ازواج مطہرات سے ، کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور کبھی حضرت اسامہ سے ۔ آخر کار حضرت عائشہ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا ۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ گچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو وہ علم حاصل ہو گیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچانے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے ۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو ۔ اول روز ہی وحی آ جاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 595 تا 598 ) ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :11 یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا ۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے ، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے ۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا ۔ بخاری ، طبرانی ، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول ، منقول ہے کہ : الذی تولیٰ کبرہ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پریشان دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے ۔ عورتیں بہت ہیں ۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں ۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا ۔ ان کا مقصد صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کو رفع کرنا تھا ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :12 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں ، یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا ۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے ۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون ( قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں ) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا ، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا ۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہو گئے تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے ۔ ایک یہ کہ قائل ( خواہ وہ مرد ہو یا عورت ) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا ، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا ، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا ۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آ جائے اور وہ گناہ سے باز رہ جائے ۔ یہ تو اس عورت میں ہے جبکہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو ۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں ، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی ، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمسائے یا واقف کار کی بیوی بہن ، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے ۔ اس کے معنی پھر یہ ہو جاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتے ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمسائے یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جائے تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا ، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا ۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا ۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا ، جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا ۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی ، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا ، بلکہ وہ مسلمان تھا ، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا ، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہو چکا تھا ۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بات زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا ۔
9: یہاں سے آیت نمبر 26 تک جس واقعے کی طرف اشارہ ہے، اُس کا پسِ منظر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ منوَّرہ تشریف لانے کے بعد اسلام کو جو تیز رفتار فروغ حاصل ہوا، اُس پر کفر کی طاقتیں دانت پیس رہی تھیں۔ خود مدینہ منوَّرہ میں ان منافقوں کا ایک گروہ موجود تھا جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے خلاف کینہ بھرا ہوا تھا، اور وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع چھوڑتے نہیں تھے۔ اِسی زمانے میں غزوہ بنو المصطلق پیش آیا جس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، واپسی کے سفر میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا تو حضرت عائشہ کا ایک ہار گم ہوگیا، اور وہ اس کی تلاش میں جنگل کی طرف نکل گئیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اِس واقعے کا علم نہیں تھا، اِس لئے آپ نے لشکر روانہ ہونے کا حکم دے دیا، اور جب حضرت عائشہؓ واپس آئیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں ذہانت اور تحمل کا غیر معمولی مقام عطا فرمایا تھا، وہ پریشان ہو کر اِدھر اُدھر جانے کے بجائے اسی جگہ بیٹھ گئیں جہاں سے روانہ ہوئی تھیں، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اُن کی غیر موجودگی کا احساس ہوگا تو آپ ان کی تلاش میں اِسی جگہ یا تو خود تشریف لائیں گے یا کسی کو بھیجیں گے۔ قافلوں کا ایک دستور یہ تھا کہ ایک شخص کو قافلے کے بالکل پیچھے اس طرح رکھا جاتا تھا کہ قافلے کی روانگی کے بعد وہ یہ دیکھتا ہوا آئے کہ کوئی چیز گری پڑی تو نہیں رہ گئی ہے۔ اس قافلے میں آپ نے حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ عنہ کو اِس کام پر مقرّر فرمایا تھا۔ وہ جب اس جگہ سے گذرے جہاں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں تو اُنہیں اس سانحے کا علم ہوا، اور پھر اُنہوں نے اپنا اُونٹ ام المؤمنین کو پیش کیا، جس پر سوار ہو کر وہ مدینہ منوَّرہ پہنچ گئیں۔ اس واقعے کو منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے ایک بتنگڑ بنا لیا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے تنہا صفوان بن معطلؓ کے ساتھ سفر کیا ہے، اور اس کی وجہ سے آپ پر وہ گھناونی تہمت لگائی جسے زبان سے نکالنا بھی ایک غیرت مند مسلمان کے لئے مشکل ہے۔ عبداللہ بن ابی نے اِس تہمت کو اتنی شہرت دی کہ دو تین سادہ لوح مسلمان بھی اِس کے فریب میں آگئے، اور اس طرح کئی دن تک یہ بے سروپا باتیں لوگوں میں پھیلائی جاتی رہیں۔ بالاخر سورہ نور کی یہ آیات نازل ہوئیں جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی مکمل برات ظاہر کرنے کے ساتھ ان لوگوں کو سخت وعیدیں سنائیں جو اس سازش کے کرتا دھرتا تھے۔ 10: یعنی اگرچہ بظاہر یہ واقعہ بڑا تکلیف دہ تھا، لیکن انجام کے لحاظ سے تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے، اوّل تو اس لئے کہ اس کے ذریعے وہ لوگ بے نقاب ہوگئے جو خانوادۂ نبوّت کے خلاف سازشیں کرتے تھے، دوسرے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا مقام بلند لوگوں پر ظاہر ہوا، تیسرے اس واقعے سے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی، اس پر انہیں بڑا ثواب ہوا۔ 11: اِس سے مراد منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی ہے جس نے یہ ساری سازش تیار کی تھی۔