اخلاق و آداب کی تعلیم ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے ، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المومنین کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے ۔ ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا ۔ حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو حضرت عائشہ کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور یہ یقینا جھوٹ ہے ۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کرسکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن ۔ آپ نے فرمایا پس حضرت عائشہ تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں ۔ پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا ۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں کا ذکر ہوا ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی ۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ حصرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا ۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہئے ۔ اس لئے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے ۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا ۔ پھر فرمایا کہ ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں ۔ فاسق و فاجر ہیں ۔
1 2 1یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فورا اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا ؟
[١٥] اس واقعہ افک کی پوری روئیداد خود حضرت عائشہ (رض) کی زبانی سنئے۔- حضرت عائشہ (رض) نے (خود اپنا واقعہ افک یوں) بیان کیا کہ آپ کی عادت تھی کہ جب آپ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ ساتھ لے جاتے۔ چناچہ آپ نے ایک غزوہ (بنی مصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا۔ پس میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی اور یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودہ سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے جب آپ اس غزوہ سے فارع ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آن پہنچے۔ ایک رات کوچ کا حکم ہوا یہ حکم سن کر اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ظفار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ پر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں۔ اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کمسن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔- لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار (جو اونٹ کے نیچے آگیا تھا) مجھے مل گیا میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گوی۔ جہاں رات کو اترے تھے۔ دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (سب جاچکے ہیں) میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا اور میں سوگئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کے لئے) ھفوان بن معطل سلمی مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للؤہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے انا للؤہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بیٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے تاآنکہ ہم لشکر سے سو اس وقت جاملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے۔ اور جن لوگوں نے قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے اس تہمت کو سب زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ البتہ ایک بات سے مجھے وہم سا پیدا ہوا۔ وہ یہ تھی کہ آپ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ آپ تشریف لاتے، سلام علیک کہتے پھر یہ پوچھ کر کہ (اب طبیعت) کیسی ہے چل دیتے۔ اس بات سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بات کی خبر نہ تھی۔- بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور ابھی کمزور ہی تھی کہ مناصع کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (سلمیٰ ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اپنے گھروں کے نزدیک ہم پاخانے نہیں بناتے تھے بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لئے جنگل جایا کرتے۔ کیونکہ گھروں کے قریب پاخانہ بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطع کی ماں جو ابو رہم بن عبدمناف کی بیٹی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی، ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ تھی۔ اسی کا بیٹا مسلح تھا۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو کہنے لگی : مسطح ہلاک ہوگا، میں نے اسے کہا : کیا بکتی ہو، کہا تم ایسے شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟ وہ کہنے لگی : اے بھولی لڑکی، کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا جو وہ کہتا ہے ؟ پوچھا کیا کہتا ہے ؟ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی۔ تو رسول اللہ تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا، اب کیسی ہے ؟ میں کہا : آپ مجھے اجازت دیجئے میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں۔ رسول اللہ نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا۔ امی یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹی اتنا رنج نہ کرو۔ اللہ کی قسم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں میں نے کہا : سبحان اللہ لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔ چناچہ میں یہ ساری رات روتی رہی۔ صبح ہوگئی۔ مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ اس سلسلہ میں ان سے مشورہ چاہتے تھے۔ چناچہ اسامہ بن زید نے آپ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ (رض) ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اسامہ کو آپ کی بیویوں سے محبت تھی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہ (رض) پاکدامن اور بےقصور ہیں۔ اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے کها : یارسول اللہ اللہ تعالیٰ آپ پر تنگی نہیں کرے گا۔ عائشہ (رض) کے علاوہ اور بھی بہت عورتیں ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ ٹھیک ٹھیک بتلا دے گی چناچہ آپ نے بریرہ کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تم نے کوئی ایسی بات بھی دیکھی ہے کہ عائشہ (رض) کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو ؟ بریرہ کہنے لگیں : اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ ہاں میں اس میں ایک بات دیکھتی ہوں اور اس سے چشم پوشتی کر جاتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ ابھی کم سن بچی ہے۔ آٹا گندھا پڑا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے - (ان شہادتوں کے بعد) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن ابی سلول کے خلاف آپ نے مدد چاہی۔ فرمایا۔ مسلمانوں اس شخص کے مقابل کوئی میری حمایت کرتا ہے۔ جس نے میرے اہل خانہ کے بارے میں مجھے دکھ پہنچایا ؟ میں نے تو اپنے اہل خانہ میں بھلائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص سے یہ لوگ متہمم کرتے ہیں اس میں بھی میں نے بھلائی ہی دیکھی ہے۔ وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں آتا بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ یہ سنکر سعد بن معاذ (اوس قبیلہ کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے بجا لائیں گے یہ بات سن کر حضرت سعد بن عبادہ جو خزرج قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے۔ وہ ایک نیک بخت آدمی تھے مگر قومی حمیت نے آدبوچا تو کہنے لگے : سعد بن معاذ اللہ کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اسے مارے گا نہ مارسکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زادہ بھائی تھے۔ کھڑے ہو کر سعد بن عبادہ سے کہنے لگے : اللہ کی قسم تو جھوٹا ہے ہم ضرور اسے قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے ؟ اس پر دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں۔ نبی اکرم ابھی منبر پر ہی تھے۔ آپ انھیں سمجھاتے اور تھماتے رہے جب وہ خاموش ہوئے تو آپ بھی خاموش ہوگئے۔- میرا وہ دن بھی رونے دھونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی۔ نہ میر آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی۔ میرے والدین سمجھے کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالات میں آپ تشریف لائے اسلام کیا۔ پھر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ بھر آپ انتظار کرتے رہے مگر وحی نہ آئی۔ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا : عائشہ (رض) مجھے کو تیری نسبت ایسی ایسی خبر آئی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تیری بریت فرمائے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے تو اللہ سے اپنے قصور کی معافی مانگ اور توبہ کر۔ جب بندہ گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے جب آپ یہ گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ رسول اللہ کو جواب دیں وہ کہنے لگے اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے کہا کہ تم جواب دو اس نے کہہ دیا کہ میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں آخر میں خود ہی جواب دینے لگے۔ میں ایک کمزور لڑکی تھی۔ قرآن مجھ کو زیادہ یاد نہ تھا۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ لوگوں نے سنی ہے آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے۔ اور اگر میں گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتیں ہوں جیسے حضرت یوسف کے والد کی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں کہ اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے - یہ کہہ کر میں نے کرو بدلی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں۔ لہذا اللہ تعالیٰ ضرور میری بریت کردے گا۔ مگر اللہ کی قسم مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی آیات نازل کرے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی میں اپنا شان اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی۔ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ کوئی خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بریت واضح ہوجائے گی۔ پھر اللہ کی قسم ابھی رسول اللہ وہاں سے ہلے بھی نہ تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی وہاں سے باہر گیا کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ معمول کے موافق آپ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا۔ مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی تھی جب امی موقوف ہوئی تو آپ خوش تپے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات آپ صل ٣ نے یہی کی : عائشہ (رض) اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت فرما دی میری والدہ مجھے کہنے لگی : اٹھو اور آپ کا شکریہ ادا کروں۔ میں نے کہا۔ اللہ کی قسم میں نہیں اٹھوں گی۔ میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ( اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۭ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 11) 24 ۔ النور :11) پوری دس آیات۔ جب یہ آیات اتری تو ابوبکر (رض) نے، جو محتاجی اور رشتہ کی وجہ سے مسطح کی مدد کیا کرتے تھے، کہا : اللہ کی قسم آئندہ میں مسطح کو کچھ نہیں دیا کروں گا جبکہ اس نے عائشہ (رض) کے متعلق ایسی باتیں کیں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 22) 24 ۔ النور :22) یہ آیت سن کر ابوبکر صدیق (رض) کہنے لگے : اللہ کی قسم مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ پھر وہ مسطح سے پہلا سا سلوک کرنے لگے اور کہا : اللہ کی قسم جب تک مسطح زندہ تھا میں یہ معمول بند نہ کروں گا - حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ : (اس تہمت کے زمانہ میں) آپ زینب بن جحش (ام المومنین) سے میرا حال پوچھتے کہ تم عائشہ (رض) کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو عائشہ (رض) کو اچھا ہی سمجھتی ہوں آپ کی بیویوں میں سے زینب ہی میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انھیں بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن سے اس بارے میں جھگڑنے لگی تو جیسے دورے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اس مفصل حدیث کی رو سے مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے :- ١۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ کو ایک بہتان ہی سمجھتے تھے۔ وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ کو ہی نہیں، صفوان بن معطل کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔- ٢۔ اس قصہ کا براہ راست صدمہ آپ کی ذات کو پہنچتا تھا۔ اور آپ کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے بہتان تراشوں کا صفایا بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب قومی اور قبائل عصبت کی بناء پر اس میں جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ جانکاہ خود اپنی ذات پر برداشت کرلیا۔ مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔- ٣۔ آپ اس سلسلہ میں پورا مہینہ بےتاب و بےقرار رہے اس لئے کہ یقینی علم۔۔ یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا۔ ورنہ آپ دوسروں سے حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں کوئی استفسار نہ فرماتے۔ اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ جو کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا ثابت نہ کرنے لگیں۔- ٤۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ) نے اس واقعہ کو حتمی تردید اس لئے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لئے تردید مخالفین کی نظروں میں کچھ۔۔ نہیں رکھتی۔- ٥۔ حضرت عائشہ (رض) کے والدین بھی ذاتی طور پر حضرت عائشہ (رض) کو پاکباز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی والدہ ام رومان کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لئے نہ کرسکتے تھے یا پاکبازی کا بیان اس لئے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کرسکتا۔- ٦۔ آپ نے اس سلسلہ میں حضرت اسامہ بن زید، حضرت بریرہ اور ام المومنین حضرت زینب بنت حجش سے استفسار فرمایا اور یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پرزور الفاظ میں حضرت عائشہ (رض) کی پاکبازی کا بیان دیا۔ حضرت زینب جو حضرت عائشہ (رض) کی سوکن اور حضرت عائشہ (رض) کے بیان کے مطابق ان کے مقابلہ کی چوٹ تھیں۔ انہوں نے بھی حضرت عائشہ (رض) کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ چوتھے گھر کے فرد حضرت علی (رض) تھے جن سے آپ نے استفسار فرمایا۔ انہوں نے اس الزام کی تردید یا حضرت عائشہ (رض) کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کبیدگی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا۔ تاہم ان کی زبان سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا حضرت عائشہ (رض) کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔ - ٧۔ عامہ ن المسلمین کی بھی اخلاقی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقوں کے پرزور پروپیگنڈہ کے باوجود تین افراد کے سوائے کوئی ان سے متاثر نہ ہوسکا ان میں سے بھی حمنہ بنت جحش اپنی بہن کی خاطر اور حضرت عائشہ (رض) کو نیچے دکھانے کی وجہ سے اس بہتان میں شامل ہوگئی تھیں۔- اور اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے خیر کے پہلو یہ تھے :- ١۔ اس واقعہ مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوگیا اور منافقین چھٹ کر سامنے آگئے۔ جو یہ چاہتے تھے کہ اس طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمانوں کی اخلاقی توفق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔- ٢۔ جو افراد اس صدمہ سے جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کے لئے تسلی اور خوش کا باعث ہوئی۔ جب وحی ختم ہوئی تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشی کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) کے والدین کی خوشی کا بھی یہ اثر تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو آپ کا شکریہ ادا کرنے کو کہا۔ اور آئندہ کے لئے ان کا لقب ہی صدیقہ پڑگیا۔- ٣۔ مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دیئے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و بخوبی مقابلہ کرسکیں۔- [١٦] جب اس بہتان کا عام چرچا ہونے لگا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا : لوگ حضرت عائشہ (رض) کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت ایوب کہنے لگے : لوگ بکواس کرتے ہیں۔ تم ہی خود ہی بتلاؤ۔ کہ تم ایسا کام کرسکتی ہو ؟ وہ کہنے لگی : ہرگز نہیں وہ کہنے لگے : پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ (رض) صدیقہ تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طہر و مطہر ہیں۔ ان کی نسبت ایسا بےحد گمان کیوں کیا جائے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کرسکتا تھا اور صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہے اور مسلمانوں کی اکثریت کی فکر کا اندازہ یہی تھا۔
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا : بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا کہ ” کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو تم نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا “ اس کے بجائے فرمایا : ” کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت کو سچا سمجھنے والے مرد اور عورتیں دونوں تھے، اس لیے دونوں کو متنبہ کرنے کے لیے خاص طور پر ان کے مومن ہونے کا ذکر فرمایا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی تہمت کی وجہ سے کسی مومن کے متعلق اپنے دل میں برا گمان نہ آنے دیا جائے۔- 3 اس آیت کے تین مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر اپنے دلوں میں (عائشہ (رض) کے متعلق) اچھا گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح بہتان ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس بہتان کو سن کر مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں اچھا گمان کرتے۔ یعنی تم اپنے متعلق سوچتے کہ اگر تم اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ اکیلے ہوتے تو کبھی یہ حرکت کرتے۔ تو تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ صفوان ( ) اپنی اور تمام مومنوں کی ماں کے ساتھ ایسا خیال بھی کرے گا، بلکہ کیا تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی قافلے سے بچھڑی ہوئی کوئی خاتون مل جائے تو اس کے ساتھ ایسی خسیس حرکت کرو۔ یہ وہی شخص سوچ سکتا ہے جس میں ایمان نہ ہو اور انتہائی گندے ذہن کا مالک ہو، وہ دوسرے کو بھی ایسا ہی گندا سمجھے گا جیسا خود گندا ہے۔ پاک باز شخص دوسرے کے متعلق بھی پاک بازی ہی کا گمان کرے گا۔ - تیسرا معنی یہ ہے کہ ” بِاَنْفُسِهِمْ “ سے مراد دوسرے مومن ہیں، کیونکہ تمام مومن ایک جان کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَاتَقْتُلُوْا اَنْفَسَکُمْ ) [ النساء : ٢٩ ] ” اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ “ اور فرمایا : (فَسَلِّمُوْا عَلیٰ اَنْفُسِکُم) [ النور : ٦١ ] ” اپنے آپ کو سلام کہو۔ “ اور فرمایا : (وَلَاتَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُم) [ الحجرات : ١١ ] ” اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ۔ “ مراد کسی دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو سلام کہنا اور کسی دوسرے پر عیب لگانا ہے۔ یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے بارے میں یعنی دوسرے مومنوں کے بارے میں اچھا گمان کرتے، کیونکہ وہ اور دوسرے مومن ایک ہی ہیں۔ نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ فِيْ تَرَاحُمِھِمْ وَ تَوَادِّھِمْ وَ تَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی عُضْوًا تَدَاعٰی لَہُ سَاءِرُ جَسَدِہِ بالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی ) [ بخاري، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم : ٦٠١١ ] ” تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم، ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ایک دوسرے پر شفقت کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہو تو اس کی خاطر سارا جسم بخار اور بیداری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ “- وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ : صاف جھوٹ اور صریح بہتان اس لیے کہ جو کچھ ہوا اس میں شک کی گنجائش ہی نہ تھی، ام المومنین (رض) دن کے وقت عین دوپہر کی روشنی میں صفوان بن معطل (رض) کی سواری پر آرہی ہیں۔ صفوان مہار پکڑے ہوئے ہیں، پورا لشکر آپ کو دیکھ رہا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس موجود ہیں۔ اگر (بالفرض) شک والی کوئی بات ہوتی تو وہ چھپ چھپا کر آتے، اکٹھے آنے کی جرأت نہ کرتے اور دن کے بجائے رات کو آتے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی رات کو آئے تھے، فرمایا : (وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ) [ یوسف : ١٦ ] ” اور وہ اپنے باپ کے پاس اندھیرا پڑے روتے ہوئے آئے۔ “ اس لیے یہ بات واضح تھی کہ ام المومنین (رض) پر جو الزام لگایا گیا صاف جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور ایمان والے ہر مرد اور عورت کو یہی کہنا لازم ہے۔
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرً آ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ، یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس تہمت کی خبر سنی تھی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے بارے میں یعنی اپنے مسلمان بھائی بہن کے بارے میں نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔ اس آیت میں کئی چیزیں قابل غور ہیں اول یہ کہ بِاَنْفُسِهِمْ کے لفظ سے قرآن کریم نے یہ اشارہ کیا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو بدنام و رسوا کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی کو رسوا کرتا ہے کیونکہ اسلام کے رشتہ نے سب کو ایک بنادیا ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام مواقع میں یہ اشارہ استعمال فرمایا ہے جیسا ایک جگہ فرمایا وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ یعنی عیب نہ لگاؤ اپنے آپ کو۔ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی بھائی مسلمان مرد یا عورت کو۔ دوسری جگہ فرمایا وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ، اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ مراد وہی ہے کہ کسی بھائی مسلمان کو قتل نہ کرو۔ تیسری جگہ فرمایا وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ، یعنی نہ نکالو اپنے آپ کو اپنے گھروں سے۔ یہاں بھی کسی مسلمان بھائی کو اس کے گھر سے نکالنا مراد ہے۔ چوتھی جگہ فرمایا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ، یعنی اپنے آپ کو سلام کرو۔ مراد وہی بھائی مسلمان کو سلام کرنا ہے۔ یہ سب آیات قرآن یہ ضمنی ہدایت دیتی ہیں کہ ایک مسلمان جو دوسرے کسی بھی مسلمان پر عیب لگاتا یا اس کو ایذا و نقصان پہنچاتا ہے حقیقت کے اعتبار سے خود اپنے کو عیب دار کرتا ہے اور خود نقصان و تکلیف اٹھاتا ہے کیونکہ اس کا انجام پوری قوم کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے بقول سعدی - چو از قومے یکے بےدانشی کرد - نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را - قرآن کی اسی تعلیم کا اثر تھا کہ جب مسلمان ابھرے تو پوری قوم کے ساتھ ابھرے، ان کا ہر فرد ابھرا۔ اور اسی کے چھوڑنے کا نتیجہ آج آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سب گرے اور ہر فرد گرا۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل نظر ہے کہ مقام کا تقاضا یہ تھا کہ لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَتُم بِاَنفُسِکُم خَیراً بصیغہ خطاب کہا جاتا جیسا کہ شروع میں سَمِعْتُمُوْهُ بصیغہ خطاب آیا ہے مگر قرآن کریم نے اس مختصر جملے کو چھوڑ کر اس جگہ طرز بدلا کہ صیغہ خطاب یعنی ظَنَنتُم کے بجائے ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ فرمایا۔ اس میں ہلکا سا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ فعل جن لوگوں سے سرزد ہوا وہ اس فعل کی حد تک مومنون کہلانے کے مستحق نہیں کیونکہ ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے حسن ظن قائم رکھتا۔- تیسری بات یہ قابل نظر ہے کہ اس آیت کے آخری جملے وّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تقاضا ایمان کا یہ تھا کہ مسلمان اس خبر کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کا علم کسی دلیل شرعی سے نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے ساتھ نیک گمان رکھنا اور بلا کسی دلیل کے عیب و گناہ کی بات اس کی طرف منسوب کرنے کو جھوٹ قرار دینا عین تقاضائے ایمان ہے۔- مسئلہ :- اس سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے ساتھ اچھا گمان رکھنا واجب ہے جب تک کسی دلیل شرعی سے اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے اور جو شخص بلا دلیل شرعی کے اس پر الزام لگاتا ہے اس کی بات کو رد کرنا اور جھوٹا قرار دینا بھی واجب ہے کیونکہ وہ محض ایک غیبت اور مسلمان کو بلا وجہ رسوا کرنا ہے۔ (مظہری)
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَيْرًا ٠ۙ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ ١٢- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔
قول باری ہے : (لو لا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اس وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے) اس میں اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کے متعلق نیک گمان رکھیں جن کا ظاہر عدالت اور پاکدامنی کی نشاندہی کرتا ہو اور ان کے متعلق صرف گمان کی بنا پر فیصلہ نہ کریں ۔ وہ اس لئے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر بہتان لگایا تھا انہوں نے مشاہدہ کی بنا پر یہ بات نہیں کہی بلکہ صرف اپنے گمان اور اٹکل کی بنا پر الزام تراشی کی تھی۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت عائشہ (رض) لشکر اسلام سے پیچھے رہ گئیں اور صفوان بن المعطل کے اونٹ پر سوار ہوکر آئیں جس کی مہار صفوان (رض) پکڑے ہوئے تھے تو انہوں نے بہتان طرازی شروع کردی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کا ظاہر اس کی عدالت یعنی سلامت روی کی نشاندہی کرتا ہو اس کے متعلق حسن ظن رکھنا اور سوء ظن نہ رکھنا واجب ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ مسلمانوں کے تمام امور کو جن کا تعلق ان کے عقود ان کے افعال اور ان کے تمام تصرفات سے ہو صحت اور جواز پر محمول کیا جائے انہیں فساد پر محمول کرنا اور گمان نیز اٹکل کی بنا پر انہیں غلط معنی پہنانا جائز نہیں ہے۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ پایا جائے اور پھر دونوں نکاح کا اعتراف کرلیں تو ان کی تکذیب جائز نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق واجب ہے۔ امام مالک کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں اپنے نکاح کا ثبوت پیش نہ کرسکیں تو انہیں حد لگائی جائے گی۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دینار اور ایک درہم دو درہموں اور دو دیناروں کے بدلے فروخت کردے تو ہم درہم ودیناروں اور ایک دینار دو درہموں کے بالمقابل قرار دیں گے۔ کیونکہ ہمیں اہل ایمان کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نیز یہ حکم بھی ہے کہ ان کے معاملات کو ہواز کے پہلو پر محمول کریں۔ اس لئے اس سودے کو بھی جواز کے پہلو پر محمول کیا جائے گا اور اس کی وہی صورت ہے جو ابھی بیان ہوئی ہے اسی طرح اگر کوئی شخص جڑائو تلوار جس میں ایک سو درہم کی چاندی لگی ہو دو سو درہم میں فروخت کردے تو ہم ایک سو درہم کو ایک سو درہم کے بالمقابل قرار دیں گے اور باقی ایک سو کو تلوار کا بدل بنادیں گے اس طرح ہم بائیں اور مشتری کے اس سودے کو جائز سودے پر محمول کریں گے، عدم جواز یا فساد پر محمول نہیں کریں گے۔- تمام مسلمان عادل ہیں - یہ چیز امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ تمام مسلمان عادل ہیں جب تک کسی سے کوئی شک میں ڈالنے والی بات کا صدور نہ ہوجائے اس لئے کہ ہم جب مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے اور ظن وتخمین کی بنا پر ان پر ایسی بہتان طرازی کرنے والے کی تکذیب پر مامور ہیں جن سے ان کی ثقاہت اور عدالت مجروح ہوجائے تو ہمیں اس کا بھی حکم ہے کہ ان سے دوستی رکھیں اور ان کی ظاہری حالت پر ان کے متعلق ثقاہت و عدالت کا فیصلہ دیں۔ یہ بات انہیں پاک صاف قرار دینے اور ان کی گواہی قبول کرنے کی موجب ہے جب تک ان سے شک وشبہ میں ڈالنے والی کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہوجائے جس سے ان کی گواہی کے متعلق توقف کرنا یا اسے رد کردینا واجب نہ ہوجائے۔ ارشاد باری ہے (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا ۔ بیشک گمان حق کے سلسلے میں کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (ایاکم والظن قانہ اکذاب الحدیث) گمان سے بچو کیونکہ یہ سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔ قول باری۔ (ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے متعلق حسن ظن رکھیں جس طرح یہ قول باری ہے : (فاذا دخلتم بیوتا نسلموا علی انفسکم) جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کہو۔ یعنی ایک دوسرے کو سلام کہو۔ یا جس طرح یہ ارشاد ہے : لا تقتلوا انفسکم۔ اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمام اہل ایمان کو ان پر گزرنے والے احوال کے لحاظ سے ایک جان کی طرق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی کسی صدمے کا سامنا کرنا پڑے تو گویا اس صدمے سے سب کے سب دوچار ہوتے ہیں۔- اس سلسلے میں ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابو عبداللہ احمد بن دوست نے ، انہیں جعفر بن حمید نے، انہیں الولید بن ابوثورنے، انہیں عبدالملک بن عمیر نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (مثل المومنین فی تواصلھم وتراحمھم والذی جعل اللہ بینھم کمثل الحسد اذوجع بعضہ وجع کلہ بالسھر والحمی۔ ) مسلمانوں کی آپس کی دوستی، ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اخوت ومودت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کے ایک حصے کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے تو سارا جسم بےخوابی اور بخار کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن محمد ابن ناجیہ نے انہیں محمد بن عبدالملک بن زتجویہ نے ، انہیں عبداللہ بن ناصح نے، انہیں ابومسلم عبداللہ سن سعید نے مالک بن مغول سے اور انہوں نے حضرت ابوبردہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (المومنون للمومنین کا لبتیان یشد بعضہ بعضا۔ ) مسلمان ایک دوسرے کے لئے اس طرح ہیں جس طرح ایک عمارت ہو کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
(١٢) جب تم لوگوں نے یہ طوفان سنا تھا تو مسلمان مردوں یعنی مسطح اور مسلمان عورتوں یعنی حمنہ نے اپنی ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ گمان نیک کیوں نہ کیا جیسا کہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ گمان کرتے ہو اور زبان سے صاف طور پر یوں کیوں نہ کہا کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :13 یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی ۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا ۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ اگرچہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا ، لیکن اگر اس کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی ، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے ۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے ۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی ۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ، اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی ۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے ۔