Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] یہ اس واقعہ کا قانونی پہلو ہے کہ ایسی شہادتیں جو بدکاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسر آبھی نہ سکتیں تھی۔ کیونکہ قرائن سب کے سب خلاف تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہے اور پیچھے سے آنے والا بھی پکا مسلمان ہے جو انھیں فی الواقعہ اپنی ماں ہی سمجھتا ہے۔ ماں اس سے پردہ بھی کرلیتی ہے اور وہ آپس میں نہ اس وقت ہمکلام ہوتے ہیں اور نہ پورے دوران سفر۔ اور یہ سفر صبح سے لے کر دوپہر تک دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔ عورت اونٹ پر سوار ہے اور مرد خاموش آگے آگے چل رہا ہے۔ تاآنکہ وہ مسلمان کے لشکر سے جاملتا ہے۔ ایسے حالات میں بدگمانی کی محرک صرف دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ گمان کرنے والا خود بدباطن اور خبیث ہو۔ جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا یا کرتا ہوں اور اس طرح دوسرے سب لوگوں کو بھی اپنی ہی طرح سمجھتا ہوں۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایسے موقع کو غیمت مان کر از راہ دشمنی ایسی بکواس کرنے لگے اور منافقوں میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ ۔۔ : ام المومنین عائشہ (رض) پر بہتان لگانے والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اس دعویٰ پر چار گواہ کیوں نہیں لائے، تو جب وہ اس کے گواہ نہیں لائے تو وہی اللہ کے ہاں کامل جھوٹے ہیں۔ ابن عاشور نے اس کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے : ” مطلب یہ ہے کہ جو شخص دیکھے بغیر کوئی خبر دے اسے لازم ہے کہ وہ مشاہدہ کرنے والے کا حوالہ دے اور وہ مشاہدہ کرنے والے اتنی تعداد میں ہونے ضروری ہیں کہ اس قسم کے واقعہ میں اتنی تعداد سے سچ کا یقین حاصل ہوجائے۔ (یہ تعداد زنا کے لیے کم از کم چار ہے) اب ان لوگوں نے جو اُمّ المومنین پر تہمت باندھی تو ان میں سے کسی نے بھی نہ دیکھا اور نہ اتنی تعداد میں دیکھنے والے پیش کیے جس سے کسی پر زنا کا جرم ثابت ہوتا ہے، بلکہ محض خیال اور گمان سے تہمت لگا دی، اس لیے اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ) [ بخاري، الأدب، باب : ( یأیھا الذین آمنوا اجتنبوا۔۔ ) : ٦٠٦٦ ] ”(برے) گمان سے بچو، کیونکہ (برا) گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ “ ” فَاُولٰۗىِٕكَ “ کی تاکید ” هُمُ “ کے ساتھ کرنے اور خبر ” الْكٰذِبُوْنَ “ پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، جس سے مراد ان کے جھوٹا ہونے میں مبالغہ ہے۔ گویا وہ اتنے کامل جھوٹے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کوئی اور جھوٹا ہے ہی نہیں۔ ” اللہ کے ہاں جھوٹے “ سے مقصود ان کے حقیقی جھوٹا ہونے کا بیان ہے، کیونکہ اللہ کا علم کبھی خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا۔ رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص اگر چار گواہ زنا کے ثبوت کے لیے پیش نہ کرسکے تو ممکن ہے وہ سچ ہی کہہ رہا ہو، مگر شرعی فیصلہ ظاہر کے مطابق ہوگا اور اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد نافذ کی جائے گی، تو اس آیت کا یہ مطلب نہیں (اگرچہ دوسرے دلائل سے یہ بات درست ہے) ۔ “ [ التحریر والتنویر ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بالشُّهَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ، اس آیت کے پہلے جملہ میں تو اس کی تلقین ہے کہ ایسی خبر مشہور کرنے والوں کے بارے میں مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ ان کی بات کو چلتا کرنے کے بجائے ان سے مطالبہ دلیل کا کرتے اور چونکہ تہمت زنا کے معاملے میں دلیل شرعی چار گواہوں کے بغیر قائم نہیں ہوتی اس لئے ان سے مطالبہ یہ کرنا چاہئے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس پر چار گواہ پیش کرو یا زبان بند کرو۔ دوسرے جملے میں فرمایا کہ جب وہ چار گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی لوگ جھوٹ ہیں۔- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ایسا ہونا کچھ بعید نہیں کہ ایک شخص نے اپنی آنکھ سے ایک واقعہ دیکھا مگر اس کو اس پر دوسرے گواہ نہیں ملے تو اگر یہ شخص اپنے چشم دید واقعہ کو بیان کرتا ہے تو اس کو جھوٹا کیسے کہا جاسکتا ہے خصوصاً اللہ کے نزدیک جھوٹا کہنا تو کسی طرح سمجھ ہی میں نہیں آتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو سب واقعات کے حقائق معلوم ہیں اور یہ واقعہ وجود میں آنا بھی معلوم ہے تو وہ عند اللہ جھوٹ بولنے والا کیسے قرار پایا۔ اس کے دو جواب ہیں اول یہ کہ یہاں عنداللہ سے مراد حکم اللہ اور قانون الٰہی ہے یعنی یہ شخص قانون الہی اور حکم خداوندی کی رو سے جھوٹا قرار دیا جائے گا اور اس پر حد قذف جاری کی جائے گی کیونکہ حکم ربانی یہ تھا کہ جب چار گواہ نہ ہوں تو واقعہ دیکھنے کے باوجود اس کو بیان نہ کرو اور جو بغیر چار گواہوں کے بیان کرے گا وہ قانوناً اور حکماً جھوٹا قرار پا کر سزا پائے گا۔- دوسرا جواب یہ ہے کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ کوئی کام فضول نہ کرے جس کا کوئی فائدہ نتیجہ نہ ہو خصوصاً ایسا کام جس میں دوسرے مسلمان پر کوئی الزام عائد ہوتا ہو تو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف کسی عیب و گناہ کی شہادت صرف اس نیت سے دے سکتا ہے کہ جرم و گناہ کا انسداد مقصود ہو کسی کو رسوا کرنا یا ایذا دینا مقصود نہ ہو تو جس شخص نے چار گواہوں کے بغیر اس قسم کی شہادت زبان سے نکالی گویا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ میں یہ کلام اصلاح خلق اور معاشرہ کو برائی سے بچانے اور انسداد جرائم کی نیت سے کر رہا ہوں۔ مگر جب شریعت کا قانون اس کو معلوم ہے کہ بغیر چار گواہوں کے ایسی شہادت دینے سے نہ اس شخص پر کوئی حد و سزا جاری ہوگی اور نہ ثبوت بہم پہنچے گا بلکہ الٹی جھوٹ بولنے کی سزا کا میں مستحق ہوجاؤں گا تو اس وقت وہ عند اللہ اپنی اس نیت کے دعویٰ میں جھوٹا ہے کہ میں اصلاح خلق اور انسداد جرائم کی نیت سے یہ شہادت دے رہا ہوں کیونکہ شرعی ضابطہ کے مطابق شہادت نہ ہونے کی صورت میں یہ نیت ہو ہی نہیں سکتی۔ (مظہری)- ایک اہم اور ضروری تنبیہ :- مذکورہ دونوں آیتوں میں ہر مسلمان کو دوسرے مسلمانوں سے حسن ظن رکھنے کی ہدایت اور اس کے خلاف بےدلیل باتوں کی تردید کو واجب قرار دیا ہے اس پر کسی کو یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ہی سے اس خبر کے غلط ہونے پر یقین کیوں نہ فرمایا اور اس خبر کی تردید کیوں نہ کردی اور ایک مہینہ تک تردد کی حالت میں کیوں رہے یہاں تک کہ حضرت صدیقہ عائشہ سے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی لغزش ہوگئی ہو تو توبہ کرلینا چاہئے۔ (کما رواہ البخاری)- وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر حسن ظن رکھنے کا جو حکم ہے وہ اس تردد کے منافی نہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا۔ کیونکہ آپ نے اس خبر کی نہ تصدیق فرمائی اور نہ اس کے مقتضی پر کوئی عمل فرمایا نہ اس کا چرچا کرنا پسند فرمایا بلکہ صحابہ کرام کے مجمع میں یہی فرمایا کہ ما علمت علی اھلی الاخیرا رواہ البخاری یعنی میں اپنی اہلیہ کے بارے میں بھلائی اور نیکی کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ یہ سب انہیں آیات مذکورہ کے مقتضی پر عمل اور حسن ظن رکھنے کے شواہد ہیں۔ البتہ قطعی اور یقینی علم جس سے طبعی تردد بھی رفع ہوجاوے وہ اس وقت ہوا جب آیات برات نازل ہوگئیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ دل میں کوئی شک و تردد پیدا ہوجانا اور احتیاطی تدابیر استعمال کرنا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسن ظن بالمومنین کے منافی نہیں تھا جبکہ اس کے مقتضی پر کوئی عمل نہ کیا گیا ہو۔ جن مسلمانوں پر اس معاملے میں حد قذف کی سزا جاری کی گئی اور ان دو آیتوں میں ان پر عتاب کیا گیا انہوں نے اس خبر کے مقتضیٰ پر عمل کیا تھا کہ اس کا چرچا کیا اور پھیلایا وہ نزول آیات سے پہلے بھی ناجائز و موجب سزا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ۝ ٠ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّہَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللہِ ہُمُ الْكٰذِبُوْنَ۝ ١٣- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے :( لو لا جائوا علیہ باربعۃ شھدآء فاذلم یاتوا بالشھدآء فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون۔ ) وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے، اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ اس آیت نے دو باتیں واضح کردی ہیں۔ اول یہ کہ قاذف پر اگر وہ چار گواہ پیش نہ کرے حد واجب ہوگی۔ دوم یہ کہ زنا کے اثبات کے سلسلے میں چار سے کم گواہ قبول نہیں کیے جائیں گے۔ قول باری ہے : (فاذلم یاتوا بالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم الکاذبون) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی دو معنوں پر مشتمل ہے اول یہ کہ انہوں نے جب چار گواہ پیش نہ کیے تو ایجاب حد کے سلسلے میں عنداللہ ان پر جھوٹے ہونے کا حکم عائد کردیا گیا۔ اس بنا پر آیت کے معنی یہ ہوں گے ” یہ لوگ اللہ کے حکم کے اندر جھوٹے ہیں۔ “ یہ چیز ان پر کذب بیانی کا حکم لگانے کے امر کی مقتضی ہے خواہ عنداللہ وہ سچے ہی کیوں نہ ہوں۔- فی الواقع ایسا ہوسکتا ہے اور اس کی گنجائش بھی ہے۔ جس طرح ہمیں اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ جو شخص اچھے کام کرتا ہو اور برے کاموں سے بچتا ہوا نظر آئے اس پر ہم عادل ہونے کا حکم لگائیں خواہ اللہ کے نزدیک وہ درپردہ فاسق ہی کیوں نہ ہوں ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آیت کا نزول حضرت عائشہ (رض) اور ان پر لگائے جانے والے بہتان کے سلسلے میں ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے : (فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون) فرما کر ان بہتان باندھنے والوں کے بہتان کی اصلیت سے آگاہ کردیا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور ان لوگوں نے اس بہتان طرازی میں سچائی سے یکسر چشم پوشی کی ہے۔ اس لئے جو شخص ان لوگوں کی صداقت کے جواز کا قائل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصل حقیقت کی نقاب کشائی کو رد کرنے کا مرتکب قرار پائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) یہ جھوٹے لوگ اپنے اس قول پر چار عادل گواہ کیوں نہ لائے جو ان کی تصدیق کرتے، سو جس حالت میں یہ لوگ گواہ قاعدہ مطابق نہیں لائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (لَوْلَا جَآءُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآءَ ج) “ - اس طرح کے الزام کے ثبوت کے لیے چار گواہ پیش کرنے کا حکم اس سے پہلے سورة النساء ‘ آیت ١٥ میں نازل ہوچکا تھا (سورۃ النساء ٤ ہجری میں نازل ہوچکی تھی) ۔ چناچہ ان لوگوں کے لیے لازمی تھا کہ چار گواہ پیش کرتے ورنہ خاموش رہتے۔- (فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓءِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ ) ” - چار گواہوں کی عدم موجود گی میں اسلامی قانون کے مطابق وہ لوگ جھوٹے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :14 اللہ کے نزدیک یعنی اللہ کے قانون میں ، اللہ کے قانون کے مطابق ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا ، اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں ۔ اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں ۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی ۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے ، یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے ، بلکہ صرف اس بنیاد پر اتنا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے ۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا ، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا ۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر دن دہاڑے ، ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے ۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی ۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو ۔ ورنہ قرائن ، جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی ، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani