[١٩] یعنی محض سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کردینا کبیرہ گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا : کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے منتقل کردے (مقدمہ صحیح مسلم)
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ : ” تَلَقّٰی یَتَلَقّٰی “ (تفعل) کسی سے کوئی چیز لینا، جیسے فرمایا : (فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ) [ البقرۃ : ٣٧ ] ” پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے۔ “ یعنی جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے کہ میں نے فلاں سے یوں سنا، فلاں نے یہ کہا وغیرہ۔ - وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ : یعنی یہ صرف تمہارے مونہوں کی بات تھی، نہ تمہارے دل میں اس کا یقین تھا نہ سننے والے کو یقین ہوسکتا تھا، جیسا کہ منافقین کے متعلق فرمایا : (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ) [ آل عمران : ١٦٧ ] ” اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ “- مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ : ” عِلْمٌ“ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی تم اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کچھ علم نہ تھا۔ - وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا : تم اسے معمولی سمجھتے تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ تم اسے ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے، یا کم از کم اس پر خاموش رہتے تھے، کیونکہ اگر تم اسے معمولی نہ سمجھتے تو سختی سے اس کا انکار کرتے اور ایسی بات کرنے والے کو ٹوکتے۔- وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ : حالانکہ بہتان کسی پر بھی ہو، اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے، تو جب وہ ام المومنین پر ہو، جو خاتم الانبیاء، سید المرسلین اور سید ولد آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین گناہوں کا مرتکب قرار دیا اور اس پر عذاب عظیم کے خطرے سے آگاہ فرمایا۔ پہلا گناہ یہ کہ ایک دوسرے سے سن کر اسے پھیلانا برائی کی اشاعت ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔ دوسرا گناہ وہ بات کرنا ہے جس کا علم نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات کرنی چاہیے جس کا علم ہو، ایسی بات کرنا جس کے سچا ہونے کا علم نہ ہو اسی طرح حرام ہے جیسے وہ بات کرنا حرام ہے جس کے جھوٹا ہونے کا علم ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ) [ بني إسرائیل : ٣٦ ] ” اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ “ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ : ٥ ] ” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر بات جو سنے آگے بیان کر دے۔ “ تیسرا گناہ یہ کہ وہ اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے کسی گناہ کو معمولی سمجھنے سے وہ معمولی نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث بن جائے، جب وہ اسے معمولی سمجھ کر بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَان اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَرْفَعُ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَھْوِيْ بِھَا فِيْ جَھَنَّمَ ) [ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان : ٦٤٧٨ ] ” بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے ساتھ اسے بہت سے درجے بلند کردیتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔ “
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ ، تلقی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بات پوچھ اور نقل کرے، یہاں بات کو سن کر بےدلیل اور بلا تحقیق آگے چلتی کردینا مراد ہے۔- وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا ڰ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ یعنی تم تو اس کو معمولی بات خیال کرتے تھے کہ ہم نے جیسا سنا ویسا دوسرے سے نقل کردیا مگر وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ تھا کہ بےدلیل اور بےتحقیق ایسی بات کو چلتا کردیا جس سے دوسرے مسلمان کو سخت ایذا ہو، اس کی رسوائی ہو اور اس کے لئے زندگی دو بھر ہوجائے۔
اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَيِّنًا ٠ۤۖ وَّہُوَعِنْدَ اللہِ عَظِيْمٌ ١٥- تلقی - السّماحة منه والنّدى خلقا«2» ويقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6]- وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔
قول باری ہے : (اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون فافواھکم مالیس لک بہ علم ) ذرا غور تو کرو اس وقت تم کیسی سخت غلطی کررہے تھے۔ جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لپتی چلی جارہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جارہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ لفظ تلقونہ کے حرف قاف کی شد کے ساتھ قرات کی گئی ہے مجاہد کا قول ہے کہ ” تم ایک دوسرے سے اس جھوٹ کو نقل کرتے چلے جارہے تھے تاکہ یہ جھوٹ پوری طرح پھیل جائے۔ “ حضرت عائشہ (رض) سے یہ لفظ تلقونہ مروی ہے۔ یہ لفظ ” ولق الکذب “ (وہ مسلسل جھوٹ بولتا رہا) سے ماخوذ ہے۔ اس کے مفہوم میں تسلسل کے معنی داخل ہیں۔ اسی سلسلے کا ایک اور محاورہ ہے ” ولق فلان فی السیر “ جب کوئی شخص مسلسل سفر پر رہے تو اس وقت یہ فقرہ کہا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی بات کو جس کی حقیقت سے وہ بیخبر تھے مسلسل اپنی زبان پر لانے پر ان کی مذمت کی۔ قول باری : (تقولون بافواھکم مالیس لک بہ علم) کا یہی مفہوم ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے : (ولا تقف مالیس لک ید عندان السمع والبصر والفوا دکل اولئک کان عنہ مسئولا) اس چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کے متعلق تمہیں کچھ علم نہ ہو، بیشک کان، آنکھ اور دل ہر ایک سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس بات کا اگرچہ وہ اپنے گمان وتخمین اور اٹکل کے حساب سے یقین رکھتے تھے لیکن اللہ کے نزدیک ان کا یہ طرز عمل ایک بہت بڑا گناہ تھا، تاکہ آئندہ اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے میں انہیں گناہ کا علم ہوجائے تو وہ اس سے باز رہیں۔- اس کے بعد ارشادہوا : (ولولا اذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بھتان عظیم) اور کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ” ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتان عظیم ہے۔ “ آیت میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہم کسی ایسے شخص کے متعلق جس کا ظاہر اس کی پاکبازی اور سلامت روی کا شاہد ہو اس قسم کی بات سنیں تو اس موقع پر ہمیں کیا کہنا چاہیے۔ قول لاری : (سبحانک ھذا بھتان عظیم) کا مفہوم ہے تیری ذات اس سے مبرا ہے کہ ہم اس جیسے بہتان کے قائل کی تصدیق کی خاطر اس پر کان دھرکے تیرے غضب کو آواز دیں جب کہ ظاہری حیثیت میں یہ بات ایک بہتان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
(١٥) جب کہ تم اس جھوٹ بات کو اپنی زبانوں سے ایک دوسرے سے بیان کر رہے تھے اور اپنی زبانوں سے ایسی بات نکال رہے تھے جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت اور اس کی کوئی دلیل موجود نہیں تھی اور تم اس طوفان کو معمولی سا گناہ سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سزا اور گناہ کے اعتبار سے بہت بھاری بات ہے۔
آیت ١٥ (اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ ) ” - ادھر سے بات سن کر ادھر پہنچا دینا انسانی کمزوری ہے اور اسی انسانی کمزوری کی وجہ سے کوئی بھی ہیجان انگیز بات ” منہ سے نکلی کو ٹھے چڑھی “ کے مصداق دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔- (وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ) ” - اس بارے میں جتنی باتیں تھیں سب سنی سنائی تھیں ‘ ان کے پیچھے نہ کوئی علمی ثبوت تھا اور نہ کوئی گواہ۔- (وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًاق وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ ) ” - کسی بھی مسلمان خاتون پر اس طرح کی تہمت لگا دینا بہت قبیح حرکت ہے ‘ چہ جائیکہ ” بازی بازی با ریش بابا ہم بازی “ کے مصداق اُمّ المومنین (رض) زوجۂ رسول کو ایسی تہمت کا ہدف بنا لیا جائے۔ اللہ کے نزدیک یہ حرکت کس قدر ناپسند یدہ ہوگی
12: اگرچہ اکثر مخلص مسلمان اس تہمت کو جھوٹ ہی سمجھتے تھے، لیکن مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگا تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ اس طرح کی بے بنیاد اور بےدلیل باتوں کا تذکرہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔