پہلے تحقیق کرو پھر بولو پہلے تو نیک گمانی کا حکم دیا ۔ یہاں دوسرا حکم دے رہا ہے کہ بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کا کلمہ بغیر تحقیق ہرگز نہ نلکالنا چاہئے ۔ برے خیالات ، گندے الزامات اور شیطانی وسوسوں سے دور رہنا چاہئے ۔ کبھی ایسے کلمات زبان سے نہ نکالنے چاہیں ، گو دل میں کوئی ایساوسوسہ شیطانی پیدا بھی ہو تو زبان قابو میں رکھنی چاہئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر فرمالیا ہے ، جب تک وہ زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں ( بخاری ومسلم ) تمہیں چاہئے تھا کہ ایسے بےہودہ کلام کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ ہم ایسی لغویات سے اپنی زبان نہیں بگاڑتے ۔ ہم سے یہ بے ادبی نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے خلیل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کی نسبت کوئی ایسی لغویات کہیں ، اللہ کی ذات پاک ہے ۔ دیکھو خبردار آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہو ورنہ ایمان کے ضبط ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص ایمان سے ہی کورا ہو تو وہ تو بے ادب ، گستاخ اور بھلے لوگوں کی اہانت کرنے والا ہوتا ہی ہے ۔ احکام شرعیہ کو اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔
1 6 1دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ پیش نہیں کیا۔ جبکہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشیوں کو جھوٹا نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رض) کو حد قذف لگائی گئی (مسند احمد، جلد۔ 6 عبد اللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا ہی میں پاک کردیا گیا۔ دوسرے اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلتًا اس سزا دینے سے گریز کیا گیا (فتح القدیر)
[٢٠] اس آیت میں ایک بڑا قیمتی اخلاقی ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہئے۔ تاکہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ امین کے علم میں نہ آجائے۔ یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جائے تاآنکہ اس کی امانت و دیانت کا کوئی یقینی ثبوت ہاتھ نہ آجائے۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ پر محض بدظنی کی بنا پر بہتان لگانا پھر اسے ہوا دینا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بلکہ اتنا سنگین جرم تھا کہ اس کی بنا پر تم پر عذاب نازل ہوسکتا تھا۔ یہ اللہ کی رحمت اور مہربانی ہی تھی کہ اس نے تمہیں ایسے عذابن سے محفوظ رکھا۔
وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ ۔۔ : اس سے پہلے آیت (١٣) میں یہ ادب سکھایا تھا کہ جب اچھے لوگوں کے بارے میں کوئی نامناسب بات سنی جائے تو ان کے متعلق اچھا گمان رکھنا لازم ہے۔ اب اس کے متعلق دوسرا ادب بیان فرمایا کہ اگر کوشش کے باوجود کوئی وسوسہ یا خیال دل میں آجائے تو اسے زبان پر ہرگز نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِيْ عَمَّا وَسْوَسَتْ أَوْ حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَھَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہِ أَوْ تَکَلَّمْ ) [ بخاري، الأیمان والنذور، باب إذا حنث ناسیا ۔۔ : ٦٦٦٤، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ اپنے دل میں کریں، جب تک وہ اسے قول یا عمل میں نہ لائیں۔ “ یعنی جب تم نے یہ بات سنی تو بجائے اس کے کہ اس پر خاموش رہتے، یا اس پر یقین کرتے، یا اسے آگے پھیلاتے، تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہ کہا کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم یہ بات زبان پر لائیں، بلکہ ایسی بات سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کے لیے ساتھ ہی یہ بھی کہنا تھا : (ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ) تو پاک ہے کہ تیرے نبی کی بیوی بدکاری کے ارتکاب سے آلودہ ہو، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کی بیوی بدکار ہو، وہ کافر تو ہوسکتی ہے، بدکار نہیں، کیونکہ انبیاء کفار کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ جو چیز کفار کے نزدیک قابل نفرت ہو وہ اس سے پاک ہوں اور ظاہر ہے کہ عورت کی بدکاری ان کے نزدیک بھی قابل نفرت ہے۔
وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ڰ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ، یعی ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تھی تو یوں کہہ دیتے کہ ہمارے لئے ایسی بات زبان سے نکالنا جائز نہیں۔ پاک ہے اللہ، یہ تو بڑا بہتان ہے۔ اس آیت میں مکرر وہی ہدایت ہے جو اس سے پہلی ایک آیت میں آ چکی ہے اس میں یہ مزید وضاحت ہے کہ مسلمانوں کو ایسی خبر سننے کے وقت کیا عمل کرنا چاہئے وہ یہ کہ صاف کہہ دیں کہ ایسی بات بلا کسی دلیل کے زبان سے نکالنا بھی ہمارے لئے جائز نہیں یہ تو بہتان عظیم ہے۔- ایک شبہ اور جواب :- اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ جیسے کسی واقعہ کا صدق بغیر دلیل کے معلوم نہیں ہوتا اس لئے اس کا زبان سے نکالنا اور چرچا کرنا ناجائز قرار پایا اسی طرح کسی کلام کا کاذب ہونا بھی تو بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا کہ اس کو بہتان عظیم کہہ دیا جائے۔ جواب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو گناہوں سے پاک صاف سمجھنا اصل شرعی ہے جو دلیل سے ثابت ہے اس کے خلاف جو بات بغیر دلیل کے کہی جائے اس کو جھوٹا سمجھنے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کافی ہے کہ ایک مومن مسلمان پر بغیر کسی دلیل شرعی کے الزام لگایا گیا ہے لہٰذا یہ بہتان ہے۔
وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا ٠ۤۖ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِيْمٌ ١٦- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - تکلم - ومُكالَمَةُ اللہ تعالیٰ العبد علی ضربین :- أحدهما : في الدّنيا .- والثاني : في الآخرة .- فما في الدّنيا فعلی ما نبّه عليه بقوله : ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ- الآية [ الشوری 51] ، وما في الآخرة ثواب للمؤمنین وکرامة لهم تخفی علینا كيفيّته، ونبّه أنه يحرم ذلک علی الکافرین بقوله : إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران 77] . وقوله : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] جمع الکلمة، وقیل : إنهم کانوا يبدّلون الألفاظ ويغيّرونها، وقیل : إنه کان من جهة المعنی، وهو حمله علی غير ما قصد به واقتضاه، وهذا أمثل القولین، فإنّ اللفظ إذا تداولته الألسنة واشتهر يصعب تبدیله، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة 118] أي : لولا يكلّمنا اللہ مواجهة، وذلک نحو قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] «1» .- بندے سے اللہ تعالیٰ کا ہم کلام ہونا دو قسم پر ہے یعنی یا دنیا میں اور یا آخرت میں ۔ چناچہ آیت ما کان لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُالآية [ الشوری 51] اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہمام کے ذریعہ سے ۔۔۔۔۔ میں دنیا میں ہم کلام ہونے کا بیان ہے اور آخرت میں ثواب و کرامت کے طور پر صرف مومنین ہے ہم کلام ہوگا جس کی کیفیت ہم سے مخفی ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ [ آل عمران 77] کے آخر میں لاکہہ کر تنبیہ کی ہے کہ کفار اس نعمت عظمٰی سے محروم رہیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] کہ کلمات کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں ۔ میں کلم کلمتہ کی جمع ہے ۔ اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ وہ الفاظ میں تبدل و تغیر کرتے تھے اور بعض نے تحریف معنوی مراد لی ہے یعنی آیت کو اس کے مقتضٰی کے خلاف معنی پر حمل کرنا یہ دوسرا قول قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ الفاظ کے مشہور اور متدادل ہونے کے بعد ان میں تبدیلی کرنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينا آيَةٌ [ البقرة 118] اور جو لوگ کچھ نہیں جانتے ( یعنی مشرک ہیں ) وہ کہتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بالمشابہ گفتگو کیوں نہیں کرتا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ إلى قوله : أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب بتم سے درخواست کرتے ہیں ۔ ہمیں خدا کو ظاہر ( یعنی آنکھوں سے دکھا دو ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ.- قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔
(١٦) اور تم نے جب اس بات کو سنا تھا تو اسی وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے ہرگز مناسب نہیں کہ ایسی جھوٹی بےاصل بات اپنے منہ سے نکالیں، معاذ اللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔