Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] دین کا لفظ چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے (١) اللہ کی خالصتؤہ اور مکمل حاکمیت (٢) بندے کی خالصتؤہ اور مکمل عبودیت (٣) قانون سزا و جزاء اور (٤) قانون جزا و سزا کا عملاً نفاذ۔ اس آیت میں دین تیسرے اور چوتھے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اہل عرب کہتے ہیں کما تدین تدن (یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے) یعنی اس دن اللہ تعالیٰ جو ان مجرموں کو بدلہ دے گا۔ وہ ٹھیک ٹھیک جزا و سزا کے اس قانون کے مطابق ہوگا۔ جس کا ذکر قرآن میں بیشمار مقامات مذکور ہے۔ اور ہر شخص کو واضح طور پر یہ معلوم ہوجائے گا کہ اسے جو سزا دی جارہی ہے فی الواقعہ وہ اللہ کے قانون عدل کے مطابق اسی سزا کا مستحق تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ ۔۔ : ” دِيْنَهُمُ “ سے مراد جزا ہے، کیونکہ وہی پوری دی جائے گی۔ دوسری جگہ فرمایا : (ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى) [ النجم : ٤١ ] ” پھر اسے اس کا بدلا دیا جائے گا، پورا بدلا۔ “- وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ : اللہ تعالیٰ کی صفت ” الْحَقُّ “ کے دو معنی ہیں، ایک معنی ” ثابت “ ہے، کیونکہ اس کی ذات ہمیشہ سے ہے، نہ اس پر پہلے عدم ہے اور نہ اس پر کبھی فنا ہے، دوسری کسی چیز میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ لفظ ” اَللّٰه “ اور اس کی خبر ” الْحَقُّ “ پر الف لام آنے سے اور ان دونوں کے درمیان ” ھُوْ “ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، باقی سب باطل ہیں، کیونکہ حق کے مقابلے میں باطل ہے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَھَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیْدٍ : أَلَا کُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ ) [ بخاري، مناقب الأنصار، باب أیام الجاھلیۃ : ٣٨٤١ ] ” سب سے سچی بات جو شاعر نے کہی ہے، وہ لبید کی بات ہے کہ سن لو اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ “ ” حق “ کا دوسرا معنی عدل و انصاف ہے، مراد ” ذُو الْحَقِّ أَيْ ذو الْعَدْلِ “ ہے، یعنی عدل و انصاف والا ہے، جیسے ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ بول کر مراد ” ذُوالْعَدْلِ “ لیتے ہیں۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بہتان لگانے والوں کو ان کا صحیح بدلا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو حق فیصلہ کرنے والا ہے، سچ کو سچ ظاہر کرنے والا ہے۔ کیونکہ دوسرے حاکم حق فیصلہ کریں بھی تو اس میں خطا اور کوتاہی کا امکان رہتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جس کا ہر فیصلہ حق ہے۔ - 3 اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ” اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ ۔۔ “ سے مراد کفار و منافقین ہی ہیں، کیونکہ مومن کو تو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے ” الْحَقُّ الْمُبِيْنُ ‘ ہونے کا علم ہے، اس لیے اگر اس سے بہتان کی غلطی سرزد ہوجائے تو وہ اللہ کے خوف سے توبہ کرلیتا ہے، جبکہ کافر اور منافق اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بہتان باندھنے پر جمے رہتے ہیں، انھیں قیامت کو اللہ تعالیٰ کے ” الْحَقُّ الْمُبِيْنُ “ ہونے کا علم ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْہِمُ اللہُ دِيْنَہُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ الْمُبِيْنُ۝ ٢٥- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) اس روز اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا واجبی بدلہ پورا پورا دے گا اور اس روز ان کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں فرمایا تھا وہ حق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (یَوْمَءِذٍ یُّوَفِّیْہِمُ اللّٰہُ دِیْنَہُمُ الْحَقَّ ) ” - یہاں پر لفظ ” دین “ بدلے کے معنی میں آیا ہے ‘ جیسے سورة الفاتحہ میں ” یَوْمِ الدِّیْنِ “ کے معنی ہیں ” بدلے کا دن۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani