Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی ۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے ۔ یہی قول مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبر ، ضحاک ، مکحول ، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے ۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے ( مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25؀ۧ ) 4- النسآء:25 ) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں ، وہ بدکار نہ ہوں ، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں ۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے ۔ اسی طرح بھولی بھالی ، پاک دامن ، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے ۔ ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا ، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے ۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا ۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا ۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں ۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا ۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے ۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آگیا ہے ۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے ۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا ۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا ۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا ۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں ۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے ۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا ، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا ۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے ۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا ۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا ۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے ۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٢ ) وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں ۔ ( ٣ ) اور دیوث ۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ( ٢ ) ہمیشہ کا نشے کا عادی ( ٣ ) اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے ( ١ ) ہمیشہ کا شرابی ۔ ( ٢ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٣ ) اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا ۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے ، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ دیوث کہتے ہیں بےغیرت شخص کو ۔ نسائی میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلاق دیدے ۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا ۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں ۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ تو اسے منکر کہتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے ۔ جس پر سخت وعید آئی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے ۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا ۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے ۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀ ) 24- النور:32 ) سے ۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سو کوڑے کی سزا صرف کنوارے مرد اور عورت کے لوے ہے۔ جیسا کہ پہلے اس سورة کے حاشیہ نمبر ٣ کے ابتدا میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اسی آیت کی تشریح میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔- عمرو بن شعیب کے دادا نے کہا کہ مرثد بن ابی مرثد (عنصری) نامی ایک شخص قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جایا کرتا تھا۔ مکہ میں ایک فاحشہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ مرثد کی (اسلام لانے سے پہلے) دوست تھی۔ مرثد نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے (مدینہ) لے جائے گا۔ مرثد کہتے ہیں کہ میں ایک چاندنی رات دیواروں کے سایہ میں چھپتے چھپاتے مکہ آیا۔ عناق آئی اور اس نے میرے سایہ کو دیوار کے ساتھ کی طرف سرکتے دیکھا۔ جب میرے قریب آگئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا مرثد ہے ؟ میں نے کہا : ہاں مرثد ہوں وہ کہنے لگی : خوش آمدید آؤ اور ہمارے ہاں یہ رات گزارو میں نے کہا : عناق اللہ نے زنا حرام قرار دیا ہے وہ بول اٹھی : اے خیمہ والو یہ شخص ہے جو تمہارے قیدی اٹھا لے جاتا ہے چناچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے میں خندمہ کی راہ پر چلنے لگا اور ایک غار میں جا گھسا۔ وہ آئے اور میرے سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے پیشاب کیا جو میرے سر پر پڑا۔ تاہم اللہ نے انھیں مجھے دیکھنے سے اندھا کردیا۔ پھر وہ چلے گئے اور میں پھر (مکہ میں) اپنے رفیق کے پاس آیا اور اسے اٹھا لیا وہ ایک بھاری بھر کم آدمی تھا۔ میں اسے اٹھا کر ادخر (کے مقام) تک پہنچا۔ پھر میں نے اس کی مشکیں کھول دیں اور پھر اسے اپنی پشت پر لاد لیا وہ مجھے تھکا تھکا دیتا تھا حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا اور آپ کے پاس حاضر ہو کر کہا : یارسول اللہ کیا میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ آپ چپ رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ تب آپ نے مجھے فرمایا کہ (اس عورت سے نکاح نہ کر) (ترمذی۔ کتاب التفسیر)- ہاں اگر کوئی زانیہ عورت یا زانی مرد اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ کلیتؤہ اپنا طرز حیات بدل لے۔ تو پھر ایسے لوگوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ فحاشی میں مشہور ہوں ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے۔ نہ انھیں لڑکی کا رشتہ دیا جائے نہ ان سے لیا جائے۔- حُرِّمَ ذٰلِکَ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ فعل زنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔۔ الحدیث (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناہ) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکباز اور عفیف مسلمانوں کے لئے بدکاروں سے رشتہ نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً : یہاں ایک سوال ہے کہ کئی زانی مرد عفیف اور پاک دامن عورتوں سے نکاح کرتے ہیں اور کئی زانیہ عورتوں سے عفیف اور پاک دامن مرد نکاح کرلیتے ہیں، تو اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نکاح سے مراد معروف نکاح نہیں ہے، بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی قباحت اور شناعت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زانی مرد اپنی ناجائز ہوس کسی زانیہ ہی سے پوری کرے گا جو اس جیسی بدکار ہے، یا کسی مشرکہ سے جو زنا کو حرام نہیں سمجھتی، اسی طرح زانیہ عورت کی ناجائز ہوس وہی مرد پوری کرے گا جو اس جیسا بدکار ہے، یا کوئی مشرک جو زنا کو حرام نہیں سمجھتا اور ایسا کرنا یعنی زنا کرنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ یہ تفسیر ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت سے مراد زنا کی حرمت ہے، نکاح کی حرمت نہیں۔ - بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ فاسق و فاجر آدمی، جس کی عادت زنا اور فسق ہے، اسے صالح عورتوں سے نکاح کی رغبت نہیں ہوتی، اسے اپنے جیسی کسی خبیث، فاسق اور بدکار عورت یا اس جیسی مشرکہ عورت ہی سے نکاح کی رغبت ہوتی ہے، اسی طرح علانیہ بدکار اور فاسق عورت سے نکاح کی رغبت صالح مردوں کو نہیں ہوتی بلکہ اس جیسے بدکار مردوں ہی کو ہوتی ہے۔ ان مفسرین کے مطابق یہ حکم اکثر لوگوں کا بیان ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے نیکی کوئی پرہیزگار آدمی ہی کرتا ہے، حالانکہ بعض اوقات وہ آدمی بھی نیکی کرلیتا ہے جو پرہیزگار نہیں ہوتا۔ اسی طرح زانی بعض اوقات عفیفہ و مومنہ عورت سے نکاح کرلیتا ہے اور زانیہ عورت سے بعض اوقات عفیف و مومن مرد نکاح کرلیتا ہے۔ مشرک مرد اور مشرکہ عورت کی زانی مرد اور زانیہ عورت کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ جس طرح مشرک مرد اور مشرکہ عورت اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتے ہیں اسی طرح زانی مرد اپنی بیوی کو چھوڑ کر اور زانیہ عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر غیروں سے منہ کالا کرتے ہیں۔ - وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِين :” ذٰلِكَ “ کا اشارہ بعض نے زنا کی طرف قرار دیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، مگر زیادہ درست یہی ہے کہ یہ اشارہ عقد نکاح کی طرف ہے۔ یعنی یہ جانتے ہوئے کہ فلاں عورت بدکار اور غیر تائب ہے، اس سے نکاح کرنا مومن مردوں کے لیے حرام ہے، اسی طرح اپنی پاک دامن بیٹی کو کسی بدکار شخص کے نکاح میں دینا جو تائب نہ ہو، مومنوں کے لیے حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ ) [ النور : ٢٦ ] ” گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بھی مردوں اور عورتوں کے نکاح کے لیے دونوں کے پاک دامن ہونے کی اور بدکار نہ ہونے کی شرط لگائی ہے، چناچہ فرمایا : (اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۭ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ ۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۡ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) [ المائدۃ : ٥ ] ” آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو ، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے۔ “ ” وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ “ کی شان نزول میں مروی حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدکار عورتوں یا بدکار مردوں سے، جو تائب نہ ہوں، نکاح حرام ہے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد ( ) کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ کہنے لگی : ” مرثد ہو ؟ “ میں نے کہا : ” مرثد ہوں۔ “ کہنے لگی : ” مرحباً و اھلاً ، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔ “ میں نے کہا : ” عناق اللہ نے زنا حرام کردیا ہے۔ “ اس نے آواز دی، خیموں والو یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔ چناچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہوگیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کردیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے، میں بھی دوبارہ اپنے ساتھی کے پاس آیا اور اسے اٹھایا، وہ آدمی بھاری تھا، یہاں تک کہ میں اسے ” اذخر “ تک لے آیا (یعنی مکہ سے باہر جہاں اذخر گھاس تھی) ، اس کی بھاری بیڑی کھولی اور اسے اس طرح لے کر چلا کہ میں اسے اٹھاتا تھا اور وہ مجھے تھکا دیتا تھا، حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا۔ تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : ” یا رسول اللہ میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ “ میں نے دو مرتبہ یہ بات کہی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : (اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ النور : ٣ ] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مرثد زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور جو زانیہ یا مشرکہ ہے اس سے نکاح نہیں کرتا مگر جو زانی ہے یا مشرک ہے، اس لیے تو اس (عناق) سے نکاح مت کر۔ “ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة النور : ٣١٧٧۔ نساءي : ٣٢٣٠۔ أبوداوٗد : ٢٠٥١۔ - مستدرک حاکم : ٢؍١٦٦، ح : ٢٧٠١، و قال الألباني حسن الأسناد ]- ابن قیم (رض) نے فرمایا : ” زانیہ عورت سے نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں تصریح فرمائی ہے کہ وہ حرام ہے اور فرمایا کہ جو اس سے نکاح کرے وہ زانی ہے یا مشرک، کیونکہ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی قبول کرے گا اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھے گا یا نہیں۔ اگر وہ اس کے وجوب کا عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو تو وہ مشرک ہے اور اگر اس کی پابندی قبول کرتا ہو اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھتا ہو، پھر اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ زانی ہے۔ پھر اس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی کہ زانی یا مشرک سے نکاح مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ “ اس آیت کے مطابق امام احمد ابن حنبل (رح) پاک دامن مرد کا نکاح زانی غیر تائب عورت سے اور پاک دامن عورت کا نکاح زانی غیر تائب مرد سے حرام قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) نے تفسیر سورة نور میں اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی پُر زور تردید کی جو اس نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ - 3 اگر کسی مرد سے زنا سرزد ہوجائے، پھر وہ توبہ کرلے تو اس کا نکاح پاک دامن عورت سے جائز ہے، اسی طرح زانیہ عورت توبہ کرلے تو اس سے عفیف مومن کا نکاح جائز ہے، جیسا کہ کوئی مشرک مرد یا عورت شرک سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ اس کی دلیل سورة فرقان کی آیت (٧٠) اور دوسری بہت سی آیات ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ میں ایک عورت کے پاس جاتا تھا اور اس کے ساتھ اس کام کا ارتکاب کرتا تھا جو اللہ نے مجھ پر حرام کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اس سے نکاح کروں تو کچھ لوگوں نے کہا ہے : ” إِنَّ الزَّانِيْ لَا یَنْکِحُ إِلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً “ ” زانی نہیں نکاح کرے گا مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے۔ “ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ آیت اس کے متعلق نہیں، تم اس سے نکاح کرلو، جو گناہ ہوگا وہ میرے ذمے رہنے دو ۔ “ (ابن کثیر، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (زنا ایسی گندی چیز ہے کہ اس سے انسان کی طبیعت کا مزاج ہی بگڑ جاتا ہے اس کی رغبت بری ہی چیزوں کی طرف ہوجاتی ہے ایسے آدمی کی طرف رغبت بھی کسی ایسے ہی خبیث النفس کی ہو سکتی ہے جس کا اخلاقی مزاج بگڑ چکا ہو چناچہ زانی (اپنے زانی اور راغب الی الزنا ہونے کی حیثیت سے) نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور (اسی) طرح زانیہ کے ساتھ بھی (اس کے زانیہ اور راغب الی الزنا ہونے کی حیثیت سے) اور کوئی نکاح نہیں کرتا بجز زانی یا مشرک کے اور یہ (ایسا نکاح جو زانیہ کے زانیہ ہونے کی حیثیت کے ساتھ ہو جس کا نتیجہ آئندہ بھی اس کا مبتلائے زنا رہنا ہے یا کسی مشرک عورت کے ساتھ ہو) مسلمانوں پر حرام (اور موجب گناہ) کیا گیا ہے (گو صحت و عدم صحت میں دونوں میں فرق ہو کہ زانیہ بحیثیت زانیہ سے کوئی نکاح کر ہی لے تو گناہ ہونے کے باوجود نکاح منعقد اور صحیح ہوجاوے گا اور مشرکہ سے نکاح کیا تو ناجائز و گناہ ہونے کے علاوہ وہ نکاح ہی نہیں ہوگا بلکہ باطل ہوگا) ۔- معارف و مسائل - زنا کے متعلق دوسرا حکم :- پہلا حکم سزائے زنا کا تھا جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوچکا، یہ دوسرا حکم زانی اور زانیہ کے ساتھ نکاح کرنے سے متعلق ہے اس کے ساتھ مشرک مرد یا مشرک عورت سے نکاح کا بھی حکم ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کے اقوال بہت مختلف ہیں ان سب میں سہل اور اسلم تفسیر وہی معلوم ہوتی ہے جس کو خلاصہ تفسیر میں بین القوسین کی وضاحتوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ آیت کا شروع حصہ کوئی حکم شرعی نہیں بلکہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ کا بیان ہے جس میں زنا کا فعل خبیث ہونا اور اس کے اثرات کی دور رس مضرتوں کا ذکر ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ زنا ایک اخلاقی زہر ہے اس کے زہریلے اثرات سے انسان کا اخلاقی مزاج ہی بگڑ جاتا ہے اسے بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی بلکہ برائی اور خباثت ہی مرغوب ہوجاتی ہے حلال حرام کی بحث نہیں رہتی۔ اور جو عورت اس کو پسند آتی ہے اس کا اصلی مقصود اس سے زنا کرنا اور اس کو زناکاری پر راضی کرنا ہوتا ہے اگر زنا کے ارادے میں ناکام ہوجاوے تو مجبوری سے نکاح پر راضی ہوتا ہے مگر نکاح کو دل سے پسند نہیں کرتا کیونکہ نکاح کے جو مقاصد ہیں کہ آدمی عفیف ہو کر رہے اور اولاد صالح پیدا کرے اور اس کے لئے بیوی کے حقوق نفقہ وغیرہ کا ہمیشہ کے لئے پابند ہوجاوے یہ ایسے شخص کو وبال معلوم ہوتے ہیں اور چونکہ ایسے شخص کو دراصل نکاح سے کوئی غرض ہی نہیں اس لئے اس کی رغبت صرف مسلمان عورتوں ہی کی طرف نہیں بلکہ مشرک عورتوں کی طرف بھی ہوتی ہے اور مشرک عورت اگر اپنے مذہب کی وجہ سے یا کسی برادری کی رسم کی وجہ سے نکاح کی شرط لگا لے تو مجبوراً وہ اس سے نکاح پر بھی تیار ہوجاتا ہے اس کی اس کو کچھ بحث ہی نہیں کہ یہ نکاح حلال اور صحیح ہوگا یا شرعاً باطل ٹھہرے گا۔ اس لئے اس پر یہ بات صادق آگئی کہ اس کی جس عورت کی طرف اصلی رغبت ہوگی اگر وہ مسلمان ہے تو زانیہ کی طرف رغبت ہوگی خواہ پہلے سے زنا کی عادی ہو یا اسی کے ساتھ زنا کر کے زانیہ کہلائے یا پھر کسی مشرک عورت کی طرف رغبت ہوگی جس کے ساتھ نکاح بھی زنا ہی کے حکم میں ہے یہ معنی ہوئے آیت کے پہلے جملہ کے یعنی الزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۔- اسی طرح جو عورت زنا کی خوگر ہو اور اس سے توبہ نہیں کرتی تو سچے مومن مسلمان جن کا مقصود اصلی نکاح اور نکاح کے شرعی فوائد و مقاصد ہیں وہ ایسی عورت سے متوقع نہیں اس لئے ان کو ایسی عورت کی طرف اصلی رغبت نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ یہ عورت نکاح کے بعد بھی اپنی بری عادت زنا نہ چھوڑے گی۔ ہاں ایسی عورت کی طرف رغبت یا تو زانی کو ہوگی جس کا اصلی مقصد اپنی خواہش پوری کرنا ہے نکاح مقصود نہیں۔ اس میں اگر وہ زانیہ کسی اپنی دنیوی مصلحت سے اس کے ساتھ ملنے کے لئے نکاح کی شرط لگا دے تو بادل ناخواستہ نکاح کو بھی گوارا کرلیتا ہے یا پھر ایسی عورت کے نکاح پر وہ شخص راضی ہوتا ہے جو مشرک ہو۔ اور چونکہ مشرک سے نکاح بھی شرعاً زنا ہی ہے اس لئے اس میں دو چیزیں جمع ہوگئیں کہ مشرک بھی ہے اور زانی بھی۔ یہ معنے ہیں آیت کے دوسرے جملے کے یعنی وّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ۔- مذکورہ تفسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت میں زانی اور زانیہ سے مراد وہ ہیں جو زنا سے توبہ نہ کریں اور اپنی اس بری عادت پر قائم رہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی مرد خانہ داری یا اولاد کی مصلحت سے کسی پاکدامن شریف عورت سے نکاح کرلے یا ایسی عورت کسی نیک مرد سے نکاح کرلے تو اس آیت سے اس نکاح کی نفی لازم نہیں آتی۔ یہ نکاح شرعاً درست ہوجائے گا۔- جمہور فقہاء امت امام اعظم ابو حنیفہ، مالک، شافعی وغیرہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے اور صحابہ کرام سے ایسے نکاح کرانے کے واقعات ثابت ہیں تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ نقل کیا ہے اب رہا آیت کا آخری جملہ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤ ْمِنِيْنَ ، اس میں بعض حضرات مفسرین نے تو ذالک کا اشارہ زنا کی طرف قرار دیا ہے تو معنے جملے کے یہ ہوگئے کہ جب زنا ایسا خبیث فعل ہے تو زنا مومنین پر حرام کردیا گیا۔ اس تفسیر پر معنے میں تو کوئی اشکال نہیں رہتا لیکن ذلک سے زنا مراد لینا سیاق آیت سے کسی قدر بعید ضرور ہے اس لئے دوسرے مفسرین نے ذلک کا اشارہ نکاح زانی وزانیہ اور مشرک و مشرکہ کی طرف قرار دیا ہے۔ اس صورت میں مشرکہ سے مسلمان مرد کا نکاح اور مشرک سے مسلمان عورت کا نکاح حرام ہونا تو دوسری نصوص قرآن سے بھی ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے اور زانی مرد سے پاکدامن عورت کا نکاح یا زانیہ عورت سے عفیف مرد کا نکاح حرام ہونا جو اس جملے سے مستفاد ہوگا وہ اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ عفیف مرد زانیہ عورت سے نکاح کر کے اس کو زنا سے نہ روکے بلکہ نکاح کے بعد بھی اس کی زنا کاری پر راضی رہے کیونکہ اس صورت میں یہ دیوثیت ہوگی جو شرعاً حرام ہے۔ اسی طرح کوئی شریف پاکدامن عورت زنا کے خوگر شخص سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد بھی اس کی زنا کاری پر راضی رہے یہ بھی حرام ہے یعنی ان لوگوں کا یہ فعل حرام اور گناہ کبیرہ ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا باہمی نکاح صحیح نہ ہو، باطل ہوجائے۔ لفظ حرام شریعت کی اصطلاح میں دو معنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ گناہ ہے اس کا کرنے والا آخرت میں مستحق سزا ہے اور دنیا میں بھی یہ عمل بالکل باطل کالعدم ہے اس پر کوئی شرعی ثمرہ احکام دنیا کا بھی مرتب نہیں ہوگا جیسے کسی مشرک عورت سے یا جو عورتیں ہمیشہ کے لئے حرام ہیں ان میں سے کسی سے نکاح کرلیا تو یہ گناہ عظیم بھی ہے اور ایسا نکاح شرعاً کالعدم ہے زنا میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ دوسرے یہ کہ فعل حرام ہے یعنی گناہ موجب سزا ہے مگر دنیا میں اس فعل کے کچھ ثمرات رہتے ہیں معاملہ صحیح ہوجاتا ہے جیسے کسی عورت کو دھوکہ دے کر یا اغوا کر کے لے آیا پھر شرعی قاعدے کے مطابق دو گواہوں کے سامنے اس کی مرضی سے نکاح کرلیا تو یہ فعل تو ناجائز و حرام تھا مگر نکاح صحیح ہوگیا اولاد ثابت النسب ہوگی۔ اسی طرح زانیہ اور زانی کا نکاح جبکہ ان کا مقصود اصلی زنا ہی ہو، نکاح محض کسی دنیوی مصلحت سے کرتے ہوں اور زنا سے توبہ نہیں کرتے ایسا نکاح حرام ہے مگر دنیوی احکام میں باطل کالعدم نہیں۔ نکاح کے ثمرات شرعیہ نفقہ، مہر ثبوت نسب اور میراث سب جاری ہوں گے۔ اس طرح لفظ حرم اس آیت میں مشرکہ کے حق میں پہلے معنے کے اعتبار سے اور زانیہ اور زانی کے حق میں دوسرے معنے کے اعتبار سے صحیح اور درست ہوگیا۔ اس تفسیر پر آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہ رہی جیسا کہ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

زانیہ عورت سے نکاح کا بیان - قول باری ہے (الزانی لا یکنح الا زانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لا ینکحھا الا زان او مشرک وحرم ذلک علی المومنین۔ زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور اہل ایمان پر حرام کردیا گیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عمر وبن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ مرثد بن ابی مرثد نامی ایک شخص تھا جو مکہ میں کافروں کے ہاں گرفتار شدہ مسلمانوں کو سواریوں پر بٹھا کر مدینے لایا کرتا تھا۔- مکہ میں عتاق نامی ایک ہیسوار رہتی تھی۔ جس کے اس شخص کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ مرثد نے مکہ میں پھنسے ہوئے ایک شخص کو مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب وہ اس مقصد کے لئے مکہ گیا تو عناق نے اسے دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ آج رات میرے پاس ٹھہرجائو۔ مرثد نے جو ای جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام کردیا ہے۔ یہ سن کر اسے غصہ آگیا اور چلا کر کہنے لگی۔ خیموں میں رہنے والوں ، یہی وہ شخص ہے جو تمہارے قیدیوں کو یہاں سے مدینے پہنچاتا ہے۔ مرثد کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا۔ آپعناق سے نکاح کرنا پسند کریں گے ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ درج بالا آیت کا نزول ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ ” ہم اس سے نکاح نہیں کریں گے۔ “ عمرو بن شعیب نے اس روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ آیت کا نزول زانیہ مشرکہ کے سلستے میں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ صرف زانی یا مشرک نکاح کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ مشرکہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح زنا ہے کیونکہ مشرکہ اس کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی۔- اس آیت کی تفسیر اور اس کے حکم کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید اور یزید بن ہارون نے یحییٰ بن سعید الانصاری سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے کہ انہوں نے کہا ” اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (وانکحو الایامی منکم تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں ان کا نکاح کرادو ) نے منسوخ کردیا ہے ۔ کہاجاتا تھا کہ زانیہ عورت مسلمانوں کی بےنکاحی عورتوں میں سے ہے۔ “ اسی طرح سعید بن المسیب نے یہ بتایا کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں حجاج نے ابن جریج سے روایت سنائی۔ انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا۔ ” کچھ لوگ تھے جو زمانہ جاہلیت میں علانیہ طور پر بدکاری کا اڈا چلانے والی عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ اب جنسی تعلق زنا ہے۔ یہ جان کر انہوں نے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ “ اس طرح مجاہد نے بھی یہ بیان کیا کہ آیت کا نزول چند مخصوص عورتوں کے متعلق ہوا تھا جن کا کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” آیت کا نزول ایک ایسے شخص کے بارے میں ہوا تھا جس نے ایک بیسوا سے اس شرط پر شادی کررکھی تھی کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرتی رہے گی۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ بتایا کہ آیت میں نہی کہ یہ وجہ ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کسی عورت سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ اس کی بدکاری کے کاروبار میں مخل نہیں ہوگا۔- حبیب بن ابی عمرہ نے سعید بن جبیر سے اور نہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” نکاح سے ہم بستری مراد ہے۔ “ ابن شبرمہ نے عکرمہ سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس وقت کوئی انسان زنا کاری کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جیسی زنا کا عورت کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کے غلام شعبہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بدکاری کا اڈہ چلانے والی عورتیں ہوتی تھیں وہ اپنے دروازوں پر جھنڈیاں آویزاں کردیتی تھیں جس طرح جانوروں کا علاج کرنے والے کیا کرتے تھے۔ ان جھنڈیوں کی وجہ سے وہ عورتیں پہچانی جاتیں اور لوگ ان کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے جاتے۔ معمر نے ابراہیم نخعی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ نکاح سے وہ جماع مراد ہے جو ارتکاب زنا کی صورت میں ہوتا ہے عروہ بن الزبیر سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابوبکر حبصاص ان آراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام حضرات نے آیت کے مفہوم کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ اس میں زنا کے فعل میں دونوں کی شرکت کی خبر دی گئی ہے۔- اس معاملے میں عورت بھی مرد کی طرح ہے جب مرد زانی ہوگا تو عورت بھی اس کی طرح زانیہ ہوگی بشرطیکہ اس نے بخوشی اس فعل قبیح کے ارتکاب کی خاطر اس کی بات مان لی ہو۔ جب عورت زانیہ ہوگی تو مرد بھی اس کی طرح زانی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے زنا کے فعل قبیح میں دونوں کی یکسانیت کا حکم بیان فرمادیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدزنا اور آخرت کی سزا کے استحقاق میں بھی دونوں کا حکم یکساں ہوگا۔ نیز قطع سوالات اور اس قسم کے دوسرے احکامات میں بھی دونوں یکساں ہوں گے۔ اس میں ایک اور قول بھی مروی ہے۔ عاصم الاحول نے حسن بصری سے آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس شخص کو حد لگ چکی ہو وہ صرف اسی عورت سے نکاح کرے گا جسے حدلگ چکی ہو۔ “- زانیہ عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، مجاہد، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرلے اور کوئی اور شخص بھی اس کے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دے دے تو پہلے زانی کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت براء (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے (ایک روایت کے مطابق) مروی ہے کہ جب تک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے زانی ہی رہیں گے۔ حضرت علی (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کوئی شوہرزنا کا ارتکاب کرے گا تو اس کی بیوی سے اسے علیحدہ کردیا جائے گا ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب بیوی زنا کا ارتکاب کرے گی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے زانیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کردی ہے انہوں نے اس آیت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے جبکہ فقہاء امصار نکاح کے جواز پر متفق ہیں نیز یہ کہ زنا زانیہ بیوی کو اس کے شوہر کے لئے حرام کردینے کا موجب نہیں ہوتا نہ ہی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واجب ہوتی ہے۔ قول باری (الزانی لا ینکح الا زانیۃ) یا تو جملہ خبر یہ کی صورت میں ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں یاجملہ انشائیہ کی صورت میں ہے اور نہی نیز تحریم پر دلالت کررہا ہے۔ پھر نکاح کے ذکر سے یا تو ہم بستری مراد ہے یا عقد نکاح۔ اب اس فقرے کو جملہ خبر یہ کہ صورت دے کر خیر کے معنوں پر محمول کرنا ممتنع ہے۔ اگرچہ فقرے کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اس امتناع کی وجہ یہ ہے کہ ہم زانی مردوں اور زانیہ عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔- اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ فقرہ خبر کی صورت میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرہ میں حکم اور اور نہی مراد ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو اب یا تو ہم بستری مراد ہوگی یا عقد نکاح۔ جبکہ لغت میں نکاح کے حقیقی معنی وطی اور ہم بستری کے ہیں۔ ہم نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی ہے۔ اس لئے اب اسے وطی کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوگیا ۔ جس طر ح حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے کہ نکاح سے جماع مراد ہے۔ نکاح کو عقد نکاح کے معنوں کی طرف کسی دلالت کی بنا پر پھیرا جاسکتا ہے اس لئے کہ نکاح کا یہ مجازی معنی ہے نیز یہ کہ جب حقیقی مراد ہونا ثابت ہوگیا تو اب مجازی معنی کا دخول منتفی ہوگیا۔ نیز اگر نکاح سے عقدنکاح مرادہوتا تو شوہر یا بیوی کے ارتکاب زنا کی بنا پر دونوں کے درمیان علیحدگی واجب نہ ہوتی اس لئے کہ میاں بیوی دونوں ہی پر زانی ہونے کے وصف کا اطلاق ہوتا تھا کیونکہ آیت زانیہ عورت کے ساتھ زانی مرد کے نکاح کی اباحت کی مقتضی ہے اس لئے یہ بات واجب ہوتی کہ عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ نکاح کا جواز ہوجائے جس کے ساتھ اس نے منہ کالا کیا تھا۔ پیشتر اس سے کہ دونوں تائب ہوجاتے نیز یہ کہ زوجیت کی حالت میں میاں یا بیوی کی زناکاری ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی موجب نہ بنتی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی بھی اہل علم نے یہ مسلک اختیار کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واجب ہوجاتا کہ زنا کار مرد کے لئے مشرکہ سے نکاح کرنا اور زنا کار عورت کے لئے مشرک سے نکاح کرنا جائز ہوجائے۔ جب کہ یہ بات متفقہ طورپر جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کرنا اور مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتوں کو دنیا حرام اور منسوخ ہے۔ اس لئے آیت دو باتوں میں سے ایک پر دلالت کرتی ہے یا تو نکاح سے جماع مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے یا آیت کا حکم منسوخ ہے جیسا کہ سعید بن المسیب سے مروی ہے۔- آیا زنا سے نکاح باطل ہوجاتا ہے ؟- زنا سے نکاح باطل نہیں ہوتا اس پر بعض حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی ہارون بن ریاب ہیں۔ انہوں نے عبیداللہ بن عبید سے اسے نقل کیا ہے اسی طرح عبدالکریم الجرزی نے ابوالزبیر سے سے اس کی روایت کی ہے۔ دونوں سندوں میں صحابی کا واسطہ نہیں ہے اس لئے یہ مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری بیوی لامس یعنی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سا شخص کو اپنی سے تعلقات زن وشو باقی رکھنے کا حکم دیا۔ ان حضرات نے اس شخص کے قول کو ان معنوں پر محمول کیا ہے کہ اس کی بیوی کسی ایسے شخص کو نہیں روکتی جو اس کے ساتھ زنا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اس تاویل کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ روایت درست مان لی جائے تو اس کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو احمق اور بیوقوف قرار دیا ہے نیز اس میں سمجھ بوجھ کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اس کے مال کو ضائع ہونے سے نہیں بچا سکتی یعنی وہ اس کے مال کو کسی مانگنے والے سے روکتی ہے اور نہ ہی چور سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ روایت کی یہ تاویل اولیٰ ہے اس لئے کہ اس کے الفاظ کے یہی حقیقی معنی ہیں جبکہ لمس کو وطی اور ہم بستری پر محمول کرنا کنایہ اور مجاز ہے۔ اس کے برعکس جن معنوں پر ہم نے روایت کو محمول کیا ہے وہ اولیٰ ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے زیادہ مناسب ہے جیسا کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ ” جب تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت پہنچے تو اسے ان معنوں پر محمول کرو یعنی اس کے متعلق ان معنوں کا تصور کرو جو ہدایت سے زیادہ قریب۔ زیادہ پر لطف اور زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوں۔ “- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (اولمستم النساء یا تم نے عورتوں سے ملامت کی ہو۔ ) یہاں جماح کو لمس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ا س شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہیں کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کو نہیں روکتی بلکہ یہ کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کے ہاتھ کو نہیں روکتی ، یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کسی لامس کی شرمگاہ کو نہیں روکتی۔ ارشاد باری ہے (ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم اگر ہم تم پر کوئی کتاب کاغذ میں لکھی ہوئی نازل کرتے اور پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو لیتے) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لمس کے حقیقی معنی ہاتھ لگانا اور ہاتھ سے چھونا ہے۔ جریرا الخطفی کسی گروہ پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے :- الستم لئاما اذترومون جارھم - ولولا ھمولم تمنعوا کف لامس - کیا تم لوگ کمینے اور قابل مذمت نہیں ہو جبکہ تم ان کے پڑوسی پر ظلم ڈھانے کا قصد کررہے ہو اور اگر وہ لوگ نہ ہوتے اور تمہاری مدد نہ کرتے تو تم خود کسی ہاتھ لگانے والے کو ہاتھ کو بھی روک نہ سکتے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ شاعر نے یہاں لمس سے وطی مراد نہیں لی ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ تم لوگ خود تو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفعیہ نہیں کرسکتے اور اپنے امول کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکتے تو پھر تم ان کے پڑوسی پر ظلم کرنے کا ارادہ کیسے کرتے ہو ؟- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک زانیہ عورت سے نکاح کرنا اور اسے نکاح کے تحت رکھنا محفوظ رو ممنوع ہے جب تک وہ زنا کاری کا دھندا کرتی رہے۔ اگر چہ اس کا یہ فعل قبیح نکاح کو فاسد کرنے میں موثر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اہل ایمان محصن عورتوں اور اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اباحت کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمحصنات من المومنات و المحصنات من الذین اوتو الکتب من قبلکم۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال میں خواہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی) یعنی ان میں سے پاک دامن خواتین۔ نیز اگر زانیہ عورت سے زناکاری کے دھندے کی حالت میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ اس کے پیٹ سے کوئی ولدالزنا پیدا ہوگا اور وہ اسے اپنے شوہر کی طرف منسوب کرکے اس کا اسے وارث بنادے گی۔- جن لوگوں نے زانیہ عورت سے نکاح کی اجازت دی ہے ان کی اس اجازت کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ایسی عورت زناکاری سے تائب ہوکر یہ دھندا چھوڑ چکی ہو۔ عورت کی زنا کاری میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب نہیں کرتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیوی پر تہمت زنا لگانے والے شوہر کے ساتھ اسے لعان کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد دونوں کی علیحدگی کا فرمان جاری کیا ہے۔ اگر عورت کے اندر زنا کاری کا وجود علیحدگی کو واجب کردیتا تو پھر شوہر کی طرف سے اس پر زنا کی تہمت لگتے ہی علیحدگی واقع ہوجاتی اس لئے کہ شوہر نے علیحدگی واجب کرنے والے امر کا اعتراف کرلیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر یہ اعتراف کرلیتا ک ہ اس کی بیوی درحقیقت اس کی رضاعی بہن ہے یا اس کے باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری کی تھی تو اس کے اس اعتراف کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجاتی ۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لعان کے بعد علیحدگی کا حکم دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زنا کاری تحریم کی موجب ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو لعان کی بنا پر علیحدگی واجب نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر صورت حال تمہارے قول کے مطابق ہوتی تو نفس قذف کے ساتھ ہی علیحدگی واجب ہوجاتی، لعان کی بنا پر علیحدگی کے وجوب کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن جب نفس قذف یعنی زنا کی تہمت لگاتے ہی علیحدگی واجب نہیں ہوئی تو اس سے معترض کے قول کے فساد پر دلالت حاصل ہوگئی۔- اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ لعان کی بنا پر علیحدگی واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لعان کی حیثیت عورت کے خلاف زنا کی گواہی دینے کی طرح ہے۔ جب عورت کے خلاف لعان کی بنا پر فیصلہ دے دیا گیا تو اس کے ساتھ ہی زنا کی وجہ سے علیحدگی کا حکم بھی دے دیا گیا۔ اس نکتے کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ نکتہ بھی غلط ہے۔ اس لئے کہ عورت کے خلاف اکیلے شوہر کی زنا کی گواہی عورت کو زانیہ قرار دینے کی موجب نہیں ہوتی جس طرح شوہر کے خلاف اکیلی بیوی کی یہ گواہی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، عورت پر تہمت کے سلسلے میں شوہر کو جھوٹا قرار دینے کی موجب نہیں بنتی کیونکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کی دوسرے کے خلاف دی گئی گواہیوں میں سے کوئی گواہی دوسری گواہی کے مقابلہ میں اولیٰ نہیں ہوتی۔ اگر شوہر کے متعلق یہ حکم ہوتا کہ بیوی کے خلاف اس کی زنا کی گواہی کو قبول کرلیا جائے اور اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اس گواہی کے تحت اس پر حد زنا جاری کردی جائے۔ جب عورت کو اس گواہی کی بنا پر حد نہیں لگتی تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کے کہنے کی بنا پر عورت کے متعلق یہ حکم نہیں لگایا جاتا کہ وہ زانیہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اور اہل کتاب میں سے علانیہ طور پر زنا کرنے والا مرد نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے اہل کتاب یا مشرکین میں سے کسی زانیہ کے اور اہل کتاب یا مشرکین کی زانیہ کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے اہل کتاب میں سے کسی زانی یا مشرک کے اور یہ اس قسم کا نکاح جو اہل کتاب میں سے کسی زانیہ کے ساتھ من حیث الزانیہ ہو مشرکہ کے ساتھ ہو مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے۔- یہ آیت کریمہ چند اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ اہل کتاب اور مشرکین عرب کی کنیزوں سے نکاح کرنا چاہتے تھے جو کہ کھلم کھلا زنا کاری میں مبتلا تھیں جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، انہوں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔- اور آیت کریمہ کی اس طرح بھی تفسیر کی گئی ہے کہ اہل قبلہ یا اہل کتاب کا زانی وہ اپنے ہی جیسی زانیہ یا اہل کتاب زانیہ یا مشرکہ ہی کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اہل قبلہ یا اہل کتاب کی زانیہ یا مشرکہ کے ساتھ اہل قبلہ یا اہل کتاب کا زانی یا مشرک ہی زنا کیا کرتا ہے اور یہ فعل زنا مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ الزانی لا ینکح الا زانیۃ “۔ (الخ)- امام نسائی (رح) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ام مہزول نامی ایک عورت بدچلن تھی، اصحاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک صحابی نے اس سے نکاح کرنا چاہا تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، یعنی زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے زانیہ یا مشرکہ کے، اور امام ابو داؤد (رح)، ترمذی (رح) نسائی (رح) اور امام حاکم (رح) نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت نقل کی ہے کہ میرثد نامی ایک شخص مکہ مکرمہ سے قیدیوں کو لے جایا کرتے تھے۔- اور مکہ مکرمہ میں عناق نامی ایک عورت ان کی دوست تھی انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مرثد کہ زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے زانیہ یا مشرکہ کے لہذا تم اس عورت سے شادی مت کرو، اور سعید بن منصور (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کیا تو زانیہ عورتیں بہت خوبصورت تھیں تو لوگ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ پھر ان عورتوں سے نکاح ہی کیوں نہ کرلیں تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃًز) ” - یہ حکم قانون کے درجے میں نہیں بلکہ اخلاق کے درجے میں ہے۔ یعنی اس شرمناک اور گھناؤنے جرم کا ارتکاب کر کے اس شخص نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی پاک دامن ‘ عفتّ مآب مؤمنہ کے لائق ہے ہی نہیں۔ چناچہ اسے چاہیے کہ وہ اس قانونی بندھن کے لیے بھی اپنے جیسی ہی کسی بدکار عورت یا پھر مشرکہ عورت کا انتخاب کرلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :5 یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے ، یا پھر مشرکہ ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے ، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں ۔ اسی طرح زانیہ ( غیر تائبہ ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک ۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں ، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں ۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں ۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد زانی ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی ۔ زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے ، نہ یہ کہ اس حکم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال ، حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا ( طبرانی ، دارقطنی ) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے ، وہ بھی بد کار قرار پائے ۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون ( ) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے ۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے ، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے ۔ اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے ، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے ۔ آیت کا منشا دراصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو ۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے ، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے ۔ آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی ۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی ۔ ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے ۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کرلیں اور حضور سے اجازت مانگی ۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے ۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد ، الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا ۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دیوث ہو ( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ( احمد ، نسائی ، ابو داؤد اور طیالِسی ) ۔ شیخین ، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے ۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا ، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : قبحک اللہ ، الا سترت علی ابنتک ، تیرا برا ہو ، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا ، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا ۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں ( جلد 2 ۔ ص 86 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی جو شخص بدکاری کا عادی ہو، اور اُس پر نہ شرمندہ ہو، نہ توبہ کرتا ہو، اُس کا مزاج ایسی ہی عورت سے ملتا ہے جو بدکار ہو، اس لئے اوّل تو وہ بدکاری ہی کی کوشش میں رہتا ہے، اور اگر نکاح کرنا پڑجائے تو وہ نکاح بھی ایسی ہی بدکار عورت سے کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح جو عورت اسی طرح کی عادی بدکار ہو اس کا مزاج بھی بدکار مرد ہی سے ملتا ہے، اِس لئے اُس سے نکاح وہی کرتا ہے جو خود بدکاری کا عادی رہا ہو، اور اُسے اس بات سے کوئی شرم محسوس نہ ہوتی ہو کہ اُس کی بیوی بدکاری میں ملوّث ہے، اور وہ خود بھی ایسے ہی مرد کو پسند کرتی ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ 3: یعنی بدکار مرد یا عورت کو نکاح کے لئے پسند کرنا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنے لئے شریک زندگی تلاش کرتے وقت اس کی نیکی اور پاک دامنی کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے کسی بدکار مرد یا عورت سے نکاح کرلیا تو اُس نکاح کو باطل نہیں کہا جائے گا، اور اُس پر نکاح کے تمام اَحکام جاری ہوں گے، لیکن اِس غلط انتخاب کا گناہ ضرور ہوگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ حُکم اُن عادی بدکاروں کا ہے جنہوں نے اپنے اس گناہ سے توبہ نہ کی ہو۔ لیکن اگر کسی نے توبہ کرلی تو پھر اُس کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اِس آیت کی تشریح اس کے علاوہ بھی دوسرے طریقوں سے کی گئی ہے لیکن جو تشریح یہاں لکھی گئی ہے وہ آسان اور بے غبار ہے۔ حضرت حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی ’’بیان القرآن‘‘ میں اسی کو ترجیح دی ہے۔