Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورة النساء آیت۔15میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورة نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کردی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ 22اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔ 23تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بدقسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درآنحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] زنا کی سزا سے متعلق پہلا حکم سورة نور کی آیت نمبر ١٥ اور ١٦ میں نازل ہوا تھا۔ جن کا ترجمہ یہ ہے تم میں سے جو عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں، ان پر چار مردوں کی گواہی لاؤ، پھر اگر وہ چاروں گواہی دے دیں تو تم ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو تاآنکہ وہ مرجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے دوسری راہ مقرر کردے۔ اور جو پھر دو مرد تم میں سے اسی جرم کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا دو (٤: ١٥، ١٦)- ان آیات سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں :- ١۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے ابتدائی سزا ان کو ایذا پہنچانا تھا جس میں لعنت علامت اور مارپیٹ سب کچھ شامل ہے۔ البتہ عورتوں کے لئے یہ اضافی سزا تھی کہ تازیست انہینگھر میں نظر بند رکھا جائے۔- ٢۔ ایسی سزا کا حکم عارضی اور تاحکم ثانی ہے۔- ٣۔ یہ سزا حکومت سے نہیں بلکہ معاشرہ سے تعلق رکھتی تھی۔- ٦ ہجری میں واقعہ افک پیش آیا جس کے نتیجہ میں ٦ ہجری کے آخر میں سورة نور میں یہ سزا مقرر کی گئی جو اس آیت میں مذکور ہے۔- اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے صرف کنوارے زانی کے لئے ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کی دلیل اس سے اگلی آیت ہے جو یوں ہے : زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ اور زانیہ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک مرد کے ساتھ اور مومنوں پر یہ چیز حرام کردی گئی ہے (٢٤: ٣)- اب دیکھئے کہ اس آیت میں (١) جن زانیوں کی سزا کا ذکر ہے ان کے ساتھ نکاح کی بھی ممانعت ہے اور یہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ مرد اور عورت غیر شادی شدہ ہوں۔- (٢) زانی مرد سے نکاح کا حق صرف زانیہ عورت کو دیا گیا ہے۔ اب وہ عورت پہلے ہی شادی شدہ ہو تو زنا کے بعد اس کا مستحق کوئی زانی ہی ہوسکتا ہے، نہ کہ اس کا پہلا خاوند جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔ اس طرح یہ سزا یا قید زانی کے حق میں تو مفید رہے گی۔ مگر پرہیزگار خاوند کے حق میں خانہ بربادی کا باعث بنے گی اور یہ چیز منشائے الٰہی کے خلاف ہے۔- (٣) ہمارے اس دعویٰ کی تائید سورة نساء کی آیت نمبر ٢٥ سے بھی ہوتی ہے جو یوں ہے اور تم سے جو لوگ مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ پھر اگر وہ لونڈیاں نکاح کے بعد بھی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کو دی جائے - اس آیت میں پہلی بار جو لفظ محصنت آیا ہے۔ اس کا معنی تو آزاد غیر شادی شدہ عورت کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ جس سے نکاح کی ہدایت کی جارہی ہے اور دوسری بار جو اس آیت میں محصنت کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی بھی لامحالہ آزاد غیر شدہ شادی عورت ہی لینا پڑے گا اور آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو درے ہے۔ لہذا منکوحہ زانیہ لونڈی کی سزا آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہے۔- اس آیت میں جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ سورة نور میں مذکور سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہوسکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کردیتی ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ آزاد عورت کی سزا کا نصف ہے۔ اور نصف رجم بنتی ہے اور نصف رجم چونکہ ممکن نہیں۔ اس لیے حدیث میں وارد شدہ سزائے رجم درست نہیں ہوسکتی۔ درست بات یہ ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے۔- اس اعتراض کے جواب سے پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ لونڈی کا آزاد ہونا بھی احصان (یا زنا سے بچاؤ) کا ذریعہ ہے اور نکاح دوسرا ذریعہ ہے۔ آزاد عورت ایک لحاظ سے تو پہلے ہی محصن ہوتی ہے۔ شادی کے بعد احصان کا دوسرا درجہ بھی حاصل کرلیتی ہے۔ لہذا لغوی لحاظ سے ہم محض آزاد کنواری عورت کو محصن کہہ سکتے ہیں اور بیاہی عورت کو بھی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد ہو اب منکرین حدیث اس اعتراض میں لوگوں کو فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنت کا ترجمہ تو بیاہی آزاد کرلیتے ہیں۔ حالانکہ جس آیت (٢: ٢٤) میں لونڈی کی سزا مذکور ہے اس میں محصنت کا ترجمہ آزاد بیاہی عورت ہو ہی نہیں سکتا۔ جب کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ اور منکرین حدیث کا تو شیوہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں۔ پھر سارے ذخیرہ حدیث پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ تو واضح بات ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کا زنا کرنا کنوارے جوڑے کے زنا کرنے سے شدید جرم ہے۔ زنا کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کنوار لڑکا اور لڑکی زنا کریں۔ اس قسم کے زنا کو سابقہ تہذیبوں میں معیوب ضرور سمجھا جاتا رہا ہے لیکن قابل دست اندازی سرکار جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سابقہ شریعتوں میں بھی ایسے زنا کی سزا نسبتاً کم تجویز کی گئی تھی۔ دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی کنوارا کسی شادی عورت سے یا شادی شدہ مرد کسی کنواری عورت سے زنا کرے اسے) ( کہتے ہیں۔ تیسری قسم یہ ہے کہ فریقین شادی شدہ ہوں۔ یہ اقسام سابقہ تند ہوں اور علی ھذالقیاس شریعتوں میں بھی ایسے جرائم سجھے جاتے رہے ہیں جن میں حکومت بھی مداخلت کرسکتی ہے اور فریقین میں سے ہر کسی کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ایسا دعویٰ عدالت میں لے جائے اور اس طرح کے دعوؤں کی اصل بنیاد کسی بھی فریق کے حقوق کی پامالی ہوتی تھی نہ کہ فعل زنا۔ مثلاً کوئی شخص کسی بیاہی عورت سے زنا کرکے پیدا ہونے والے بچے کی تربیت کا سارا بوجھ بھی بیاہی عورت کے خاوند پر ڈال دیتا ہے اور اس کی وراثت میں بھی اسے حصہ دار بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر شادی شدہ مرد زنا کرتا ہے اور اس کی بیوی اس کا یہ فعل برداشت نہیں کرتی تو وہ عدالت میں نالش کرسکتی ہے۔ اور اگر فریقین شادی شدہ ہوں تو اور بھی زیادہ تمدنی اور خاندانی جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلامی شریعت کا امتیازی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے محض زنا کو ہی اصل جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردی جو قرآن میں مذکور ہے اور یہ کم سے کم سزا ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ محض زنا صرف کنوارے جوڑے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا زنا خواہ فریقین کی رضا مندی سے ہو تب بھی انھیں سو سو کوڑے کی سزا ضرور ملے گی۔- اسلام نے سب سے پہلے فحاشی کے ذرائع کا سد باب کیا۔ سورة احزاب جو اس سورة سے قریباً ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی، میں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی زیب وزینت ظاہر نہیں کرسکتیں ان کا اصل مقام گھر ہے۔ لہذا وہ دور جاہلیت کی طرح گھر سے باہر اپنی زیب وزینت کا اظہار بھی نہیں کرسکتیں اور اگر ضرورتاً جانا پڑے تو بڑی چادر اوڑھ کر ہی جاسکتی ہیں۔ پھر اس سورة نور میں مزید ایسے بہت سے احکامات دیئے گئے جو فحاشی کے سدباب کا ذریعہ تھے۔ نیز یہ حکم دیا گیا کہ معاشرہ میں جو لوگ مجرد ہیں خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد، غلام ہوں یا لونڈیاں، اور وہ بیوہ یا مطلقہ عورتیں ہوں یا ایسے مرد ہوں جن کی بیویاں فوت ہوچکی ہوں سب کے نکاح کردیئے جائیں (٢٤: ٣١، ٣٢) نیز نکاح کے سلسلہ میں انھیں تمام ممکنہ سہولتیں دی گئیں۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ مہر کی رقم یا بیوی کے نان نفقہ کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے انھیں پاکدامن رہنے اور روزہ رکھنے کی ہدایات دی گئیں۔- اب یہ تو واضح ہے کہ ان احکامات اور حدود وقیود کے بعد زنا کا زیادہ خطرہ نوجوان اور بےزوج قسم کے لوگوں یعنی کنوارے مردوں اور کنواری عورتوں سے ہی ہوسکتا تھا کیونکہ ان کے پاس شہوت کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ لہذا قرآن نے ایسے لوگوں کے زنا کے جرم کو اصل بنیاد قرار دیا ہے۔ دوسرے ایک جائز ذریعہ تکمیل خواہش موجود ہونے کے باوجود اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کی سزا ہی شدید تر ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی سزا وہی رہنے دی جو شریعت موسوی میں موجود تھی۔ اور یہ بات ہم پہلے بھی سورة انعام کی آیت نمبر ٩٠ کے الفاط فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ کے ضمن میں بتلا چکے ہیں کہ سابقہ شریعتوں کے ایسے احکام جن کے متعلق کتاب و سنت میں کسی قسم کی نکیر نہ وارد ہو وہ بھی شریعت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو یہی رجم ہے اور دوسری مثال اعضاء وجوارح کا قصاص ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٤٥ میں حکایتہ یوں بیان فرمایا۔ کہ ہم نے اس (تورات) میں یہ لکھا دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا قصاص ہوگا یہ حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اعضا وجوارح کے قصاص کے متعلق الگ کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ احکام ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کے مطابق فیصلے صادر فرمائے۔- اسی طرح ایک یہودی اور یہودن کے سنا کا مقدمہ آپ کے پاس آیا یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ یہود یہ مقدمہ آپ کے پاس اس غرض سے لائے تھے کہ موسوی شریعت میں اس کی سزا رجم ہے شاید شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا کچھ نرم ہو۔ چناچہ انہوں نے مقدمہ پیش کرنے والے سے کہہ دیا تھا کہ اگر اس کا فیصلہ رجم کی صورت میں دیا جائے تو قبول نہ کرنا اور اگر اس کے علاوہ اور فیلہ دیا جائے تو قبول کرلینا۔ جیسا کہ سورة مائدہ کی آیت نمبر ٤١ میں مذکور ہے۔ آپ نے یہود سے تورات منگوالی تو اس میں رجم کا حکم موجود تھا پر ان کے ایک بہت بڑے عالم ابن صعودیا کو بلا کر شہادت لی تو اس نے بھی اعتراف کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت کے زنا کی سزا رجم ہے۔ چناچہ آپ نے ان دونوں کے رجم کا فیصلہ دے دیا اور فرمایا : یا اللہ میں نے تیرے ایک ایسے حکم کو زندہ کیا ہے۔ جسے ان لوگوں نے مار ڈالا تھا - (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے : بخاری، کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط، مسلم۔ کتاب المدود۔ باب حد الزنا۔ ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہودین)- امام بخاری اس واقعہ کو کتاب الحدود کے بجائے کتاب المحاربین میں اس لئے لائے ہیں کہ ان کے نزدیک شادی شدہ جوڑے کا زنا محض زنا نہیں بلکہ اس سے شدید تر جرم، اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ ہے اور محاربہ کی قرآن میں مذکور سزاؤں میں سے ایک سزا یقتلوا یعنی کسی کو ایذائیں دے دے کر بری طرح سے مار ڈالنا اور وہ رجم کو بھی اسی قسم کے سزا سمجھتے ہیں۔- حد رجم سے انکار سب سے پہلے اولین منکرین حدیث یعنی معتزلہ نے پھر بعض خوارج نے کیا تھا۔ ان کے انکار کی وجہ محض انکار حدیث کے سلسلہ میں ان کی عصبیت تھی مگر آج کے دور میں ایک اور وجہ بھی اس میں شامل ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب اسلام کی ایسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں سمجھتے ہیں۔ لہذا مغربیت سے مرعوب ذہن ایسی سزاؤں سے فرار اور انکار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انکار حدیث یا قرآنی آیات کی تاویل کی وجوہ صرف دو ہی ہوسکتی ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسری موجودہ دور کے نظریات سے مرہوبیت پہلے ادوار میں بھی یہی دو وجوہ انکار حدیث اور تاویل قرآن کا باعث بنتی رہی ہیں اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔- احادیث میں رجم سے متعلق ایک آیت کا بھی ذکر آتا ہے جو بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کے آخری ایام میں مسجد نبوی میں جمعہ کے دن مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جسے تقریباً سب محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ اس خطبہ کے درج ذیل الفاط قابل غور ہیں۔ آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا :- اس کتاب اللہ میں رجم کی بھی آیت موجود تھی جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور اکرم کے زمانہ میں بھی، رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ کہنے لگے کہ ہم رجم کے حکم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مرجائیں۔ کتاب اللہ ( حضرت عمر (رض) کی کتاب اللہ سے مراد تمام منزل من اللہ احکام ہوتے تھے) میں رجم کا حکم مطلقہ حق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم الجعلی)- اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ آیت قرآن میں موجود تھی تو گئی کہاں ؟ اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وہ منسوخ ہوگوی۔ یہ ناسخ و منسوخ کی بحث چونکہ الگ تفصیل کی محتاج ہے۔ لہذا اسے ہم نے اس کے مناسب مقام سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦ کے تحت درج کردیا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں۔ (سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰی الاَّ مَاشَاء اللّٰہُ ) (٨٧: ٦، ٧) یعنی ہم آپ کو پڑھائیں گے جو آپ کو فراموش نہ ہوگا مگر جو کچھ اللہ چاہے تو پر آخر ان لوگوں کو کیوں اعتراض ہے ؟- دوسرا یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر یہ آیت منسوخ التلاوت ہے تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ منسوخ التلاوت آیت نہیں بلکہ اس حکم کے بقا کی دوسری تین وجوہ ہیں ایک یہ کہ تورات کا یہ حکم شریعت محمدیہ میں یہی بدستور باقی رکھا گیا ہے۔ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے اور دوسری وجہ وہ متواتر احادیث ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ تین صورتوں کی علاوہ کسی کو جان سے مار ڈالنا حرام ہے۔ شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگسار کرکے مار ڈالنا، بطور یہ قصاص اور قتل مرتد اور ان تمام صورتوں میں قتل کرنا حکومت کا کام ہے، عوام کا نہیں۔ علاوہ ازین اس حکم رجم کو باقی رکھنے کا ذریعہ وہ واقعات ہیں جن پر آپ نے رجم کی سزا دی۔ - اس مقام پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کوئی حدیث یا سنت نبوی جب صحیح ثابت ہوجائے تو وہ بالکل اسی طرح واجب الاتباع ہوتی ہے جس طرح قرآنی احکام واجب الاتباع ہیں۔ اور اگر اس کلیہ سے انحراف کیا جائے گا تو قرآن کے احکام پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔- پھر کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو خود تو سنت کو حجت تسلیم کرتے ہیں مگر منکرین حدیث کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شائد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کی سزا میں سورة نور کے نازل ہونے سے پہلے دی ہوں۔ لیکن ان کا یہ خیال بھی غلط ہے سورة نور ٦٥ ہجری میں نازل ہوئی تھی اور ہمیں چند ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں یہ داخلی شہادت موجود ہے کہ رجم کے یہ واقعات البد کے ہیں۔ مثلاً- ١۔ غامدیہ عورت کا رجم ہوا۔ حضرت خالد بن ولید نے اسے پتھر مارا۔ جس سے خون کے چند چھینٹے حضرت خالد پر پڑگئے۔ تو آپ نے اس عورت کو گالی دی اس پر آپ نے حضرت خالد کو سخت تنبیہ کی اور حضرت خالد صلح حدیبیہ اور فتح مکہ (٨ ھ) کے درمیانی عرصہ میں اسلام لائے تھے۔ صلح حدیبیہ سے واپسی پر سورة فتح نازل ہوئی جس کا ترتیب نزول کے لحاظ سے نمبر ١١١ ہے جبکہ سورة نور کا نمبر ١٠٢ ہے۔ لہذا غامدیہ عورت والا واقعہ سورة نور کے نزول سے بہت بعد کا ہے۔- ٢۔ عسیف یا مزدور لڑکے کے مقدمہ کی پیشی کے وقت ابوہریرہ (رض) خود وہاں موجود تھے اور وہ خود ہی اس روایت کے راوی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ کنا عند النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بخاری۔ کتاب الادو۔ باب اعتراف المزبا) اور اس واقعہ میں اس مزدور کی مالکہ کو رجم کیا گیا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) جنگ خیبر (٧ ہجری) کے موقع پر آپ کے پاس حاضر ہو کر ایمان لائے جبکہ سورة نور اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔- ٣۔ یہودی اور یہودن کے رجم کے وقت حضرت عبداللہ بن ابی الحارث وہاں موجود تھے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ان دونوں کو رجم کیا جبکہ آپ اپنے دادا کے ساتھ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔ (فتح الباری۔ باب احکام اہل الذمہ ج ١٢ ص ١٤٤)- پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب حضرت عمر (رض) نے صحابہ کی ایک کثیر تعداد کے سامنے مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو مجمع میں سے کسی نے بھی حضرت عمر (رض) کے بیان پر اعتراض نہیں کیا پھر اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ متفق علیہ چلاآرہا ہے۔ جس کا ماسوائے منکرین حدیث کے کسی نے انکار نہیں کیا۔ آج وحشیانہ سزا کے مغربی تخیل سے مرعوب ہو کر منکرین حدیث کا ماہوار رسالہ طلوع اسلام ایک طرف تو اس مسئلہ کو پھیپھڑوں تک کا زور لگا کر اچھال رہا ہے اور دوسری طرف قرآن میں مذکور شرعی حدود کو زیادہ سے زیادہ شرعی سزائیں قرار دے رہا ہے اور ان میں رعایت کی کوئی بات خواہ وہ قرآن کے بجائے کسی کمزور سے کمزور روایت یا تاریخ سے مل جائے اسے تسلیم کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتا ہے۔- رجم سے متعلق ان تصریحات کے بعد اب ہم کچھ احادیث کا مکمل ترجمہ اور مکمل حوالہ درج کر رہے ہیں۔ جو حد اور اقامت حد سے متعلقہ احکام و ہدایت اور شرائط پر روشنی ڈالتی ہیں :- ١۔ ماعز بن مالک اسلمی کے رجم کا واقعہ بخاری میں کئی ابو اب کے تحت مذکور ہے۔ ہم ان حدیثوں کا ملخص بیان پیش کرتے ہیں :- حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص (ماعز بن مالک اسلمی) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ اس نے آپ کو آواز دی اور کہنے لگا۔ یارسول اللہ میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ یہی الفاظ کہی۔ جب اس نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دی۔ تو آپ نے اسے اپنے پاس بلا کر پوچھا : کیا تو مجنون تو نہیں ؟ وہ کہنے لگا۔ نہیں پھر آپ نے فرمایا : تیرا نکاح ہوچکا ہے ؟ اس نے کہا، جی ہاں پھر آپ نے کہا : نکاح کے بعد صحبت کرچکا ہے۔ اس نے کہا، جی ہاں پھر آپ نے کہا : شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا یا مساس کیا ہوگا یا آنکھ سے دیکھ ہوگی ؟ اس نے کہا، نہیں یارسول اللہ پھر آپ نے صاف صاف ننگے لفظوں میں پوچھا : کیا تو نے دخول کیا تھا ؟ اس نے کہا جی ہاں تب آپ نے صحابہ سے فرمایا اس کو لے جاؤ اور رجم کرو۔ پھر ہم لوگوں نے اس کو عید گاہ میں لے جاکر رجم کیا۔ جب اسے پتھر پڑے تو بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم نے اسے مدینہ کے پتھریلے میدان میں جاپکڑا اور اسے رجم کر ڈالا۔ بعد میں اس واقعہ کی اطلاع آپ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا : جب وہ بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ دیا ہوتا (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن)- ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک یہودی اور یہودن لائے گئے۔ جنہوں نے بدکاری کی تھی۔ آپ نے یہودیوں سے پوچھا : تم اپنی کتاب میں اس جرم کی کیا سزا پاتے ہو ؟ وہ کہنے لگے : ہمارے عالموں نے منہ کا کالا کرنا اور دم کی طرف منہ کرکے سوار کرانا اس کی سزا بتلائی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ بن سلام کہنے لگے۔ یارسول اللہ ان سے تورات منگوائیے۔ تورات لائی گئی تو ایک یہودی رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ اس سے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا (ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھا جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ پھر آپ نے حکم دیا تو وہ دونوں رجم کئے گئے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں یہ دونوں بلاط کے پاس رحم کئے گئے اور میں نے دیکھا کہ یہودی یہودن پر جھک گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط)- ٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد دونوں کہتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق ہمارا فیصلہ فرما دیجئے۔ یہ سن کر دوسرا فریق جو کچھ زیادہ سمجھ دار تھا کھڑا ہو کر کہنے لگا : ہاں یارسول اللہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے موافق فرمائیے۔ اور بات کرنے کی مجھے اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا : اچھا : بتلاؤ۔ وہ کہنے لگا : میرا بیٹا اس شخص کے پاس نوکر تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے بدفعلی کی۔ میں نے سو بکریاں اور ایک غلام بطور فدیہ اسے دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے کئی عالموں سے یہ مسئلہ پوچھا : وہ کہتے ہیں کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے پڑیں گے اور ایک سال کی جلاوطنی ہوگی۔ اور اس کی بیوی کا رجم ہوگا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا : اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں کتاب اللہ کے مطابق تم دونوں کا فیصلہ کرونگا۔ سو بکریاں اور غلام جو تو نے دیا ہے تجھے واپس ہوگا۔ اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔ اور اے انسی (بن ضحاک) تو کل صبح اس ( دوسرے فریق) کی بیوی کے پاس جاکر پوچھ اگر وہ اقرار کرے تو اسے رجم کردینا۔ چناچہ دورے دن انیس اس عورت کے پاس گئے، اس نے اقرار کرلیا تو انیس نے اسے رجم کیا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اعتراف الزنا)- ٤۔ حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ غامدیہ کی ایک عورت آپ کے پاس آکر کہنے لگی : یارسول اللہ میں نے بدفعلی کی ہے۔ مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے اس کو پھیر دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگی۔ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح لوٹانا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قسم میں حاملہ ہوں۔ آپ نے فرمایا : ابھی نہیں تاآنکہ تو بچہ جن لے۔ پھر جب اس نے بچہ جنا تو بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کرلے آئی اور کہا : اب تو میں بچہ جن چکی آپ نے فرمایا : جا اسے دودھ پلا حتیٰ کہ اس کا دودھ چھڑائے۔ پھر جب اس نے دودھ چھڑایا تو بچے کو لے کر آئی جس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور کہنے لگی یہ بچہ ہے میں اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اب یہ کھانا کھاتا ہے آپ نے یہ ایک مسلمان کے حوالے کیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے سینے تک گڑھا کھودا جائے اور لوگوں کو اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا۔ خون کے چھینٹے حضرت خالد کے منہ پر پڑے تو آپ نے اس عورت کو گالی دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد کو گالی دیتے سن لیا تو حضرت خالد سے فرمایا : خالد یہ کیا بات ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو بخش دیا جائے۔ پھر آپ نے نماز جنازہ کا حکم دیا۔ نماز پڑھی گئی پھر دفن کی گئی۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا)- ٥۔ حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مجھ سے (شرع کی باتیں) سیکھ لو۔ اللہ نے (زانی) عورتوں کے لئے ایک راہ نکالی۔ جب کنوارا، کنواری سے زنا کرے۔ تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اگر شوہر دیدہ عورت، زن دیدہ مرد سے زنا کرے تو سو کوڑے اور رجم ہے (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) - ٦۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت (فاطمہ بنت اسود) نے چوری کی تو قریشیوں کو فکر لاحق ہوئی (کہ اب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا) انہوں نے کہا : اس مقدمے میں آپ سے سفارش کی جرأت اسامہ بن زید کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ جو آپ کا محبوب ہے۔ خیر اسامہ نے اس سلسلہ میں آپ سے بات کی تو آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سفارش کرتے ہو ؟ پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا : تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی طاقتور چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دالتا (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل)- ٧۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے عویمر عجلانی اور اس کی بیوی میں معافی کا فیصلہ دیا اور میں نے یہ حدیث بیان کی تو ایک شخص مجھ سے پوچھنے لگا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے حق میں آپ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو شہادتوں کے بغیر رجم کرسکتا تو اس عورت کو ضرور کرتا ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : نہیں، یہ ایک اور عورت تھی۔- ٨۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی ان پر تکلیف شرعی نہیں یہاں تک کہ پیدا رہو دوسرے بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو اور تیسرے مجنون، یہاں تک کہ اسے عقل آئے (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فیمن لا یجب علیہ الحد)- ٩۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ٹالنے کی کوشش کرو۔ اور مجرم کی رہائی کی کوئی بھی شکل نظر آرہی ہو تو اسے چھوڑ دو ۔ اس لئے کہ حاکم اگر مجرم کو معاف کردینے میں غلطی کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ سزا دینے میں غلطی کرے (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فی وزء الحدود)- ١٠۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کردی۔ اللہ آخرت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت اس سے دور کردے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کا عیب چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اور جب تک کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں ہوتا ہے (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فی الستر علی المسلم)- ١١۔ حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ (اسی طرح) حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) نے کوڑے بھی لگائے اور جلاوطن بھی کیا (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فی النفی)- ١٢۔ حضرت علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک عورت (فجر کی) نماز کے ارادہ سے نکلی اسے ایک مرد ملا جس نے اسے چھپالیا پھر اس سے اپنی حاجت پوری کی وہ چیخنے لگی تو مرد چلا گیا۔ اتفاق سے ایک اور آدمی اس کے پاس سے گزرا تو اس عورت نے کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا اور ایسا کیا ہے۔ پھر کچھ مہاجر وہاں سے گزرے تو عورت نے وہی بات دہرائی۔ لوگوں نے اس مرد کو پکڑ لیا جس کے متعلق عورت کا گمان تھا کہ اس نے بدفعلی کی ہے۔ مگر حقیقتاً وہ زانی نہ تھا۔ اور اسے آپ کے پاس لے گئے۔ آپ نے اس کے رجم کا حکم دے دیا۔ اب وہ شخص کھڑا ہوا جس نے زنا کیا تھا کہنے لگا : یارسول اللہ اصل مجرم میں ہوں۔ آپ نے عورت سے فرمایا : تم چلی جاؤ۔ اللہ نے تجھے (جبر کی وجہ سے) بخش دیا۔ اور ملزم سے بھی آپ نے اچھا بات کہی۔ پھر مجرم کے متعلق فرمایا کہ اسے رجم کردو۔ نیز فرمایا کہ اس شخص نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر تمام شہر والے ایسی توبہ کریں تو اس کی توبہ قبول ہوجائے (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فی المراۃ اذا استکرھت علی الزنا)- ١٣۔ حضرت ابو بردہ بن تیار کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے علاوہ دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے جائیں (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب کم التضریر والادب)- ١٤۔ حضرت بہزاد بن حکیم اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو ایک الزام میں قید رکھا (نسائی۔ کتاب سطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب والحبس)- ١٥۔ حضرت نعمان بن بشیر کے پاس قبیلہ کلاعی کے لوگ آئے اور کہا کہ جولا ہوں نے ہمارا سامان چرا لیا ہے۔ نعمان نے ان جولا ہوں کو کچھ دن قید رکھا پھر چھوڑ دیا۔ کلاعی لوگ پھر نعمان کے پاس آکر کہنے لگے : آنے جولا ہوں کو چھوڑ دیا، نہ ان کا امتحان لیا نہ مارا۔ نعمان نے کہا : کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں انھیں ماروں ؟ مگر دیکھو اگر تمہاری سامان ان کے پاس نکل آیا تو خیر ورنہ میں اسی قدر تمہاری پیٹھ کر ماروں گا وہ کہنے لگے : کیا یہ تمہارا حکم ہے۔ نعمان نے کہا : یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب و الحبس)- ١٦۔ حضرت ابو امیہ مخزومی کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک چور آیا جو چوری کا اقرار کرتا تھا لیکن اس کے پاس مال نہ ملا۔ آپ نے اسے فرمایا : میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی وہ کہنے لگا : نہیں میں نے چوری کی ہے آپ نے فرمایا : اس کو لے جاؤ اس کا ہاتھ کاٹو پھر لاؤ لوگ اسے لے گئے۔ پھر اس کا ہاتھ کاٹا پھر لے کر آئے۔ آپ نے اسے فرمایا : کہو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ چناچہ اس نے یہ دعا کی پھر آپ نے فرمایا : یا اللہ اس کی توبہ قبول کر (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب تلقین السارق)- ١٧۔ حضرت صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر تہ کرکے سر کے نیچے رکھی اور سو گئے۔ چور آیا اور چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچی (ان کی آنکھ کھلی) تو دوڑ کر چوڑ کو پکڑ لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے اور بتلایا کہ اس نے میری چادر چرالی ہے۔ آپ نے چور سے پوچھا : کیا تو نے چادر چرائی تھی ؟ وہ کہنے لگا ہاں آپ نے دو آدمیوں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ تب صفوان کہنے لگے : یارسول اللہ میری نیت یہ نہ تھی کہ ایک چادر کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے آپ نے فرمایا : یہ کام پہلے کرنے کا تھا (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب مایکون حزرا ومالایکون)- ١٨۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی ملک میں لا کا جاری ہونا وہاں کے لوگوں کے لئے تیس دن (اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس دن بارش برسنے سے بہتر ہے (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الترغیب فی اقامہ ن الحد)- ١٩۔ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوالبسر کعب بن عمرو) آپ کے پاس آکر کہنے لگا : یارسول اللہ میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو پھر وہ شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ وہ کہنے لگا : پڑھی ہے آپ نے فرمایا : تو بس اللہ نے تیرا گناہ یا تیری سزا کو معاف کردیا ہے (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اذا اقر بالحد۔۔ )- اب ہم مندرجہ بالا احادیث کا ماحصل درج ذیل دفعات کی شکل میں پیش کرتے ہیں :- ١۔ کنوارے مرد اور کنواری عورت کو سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ (حدیث نمبر ٣ اور نمبر ٥) جلاوطنی سے مراد ملک بدر کرنا نہیں بلکہ اتنے فاصلہ پر بھیجنا ہے جس کو شرعی اصطلاح میں سفر کرسکتے ہوں۔ اور اس جلاوطنی کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کم از کم زانی جوڑے کے ملاپ کی راہ کو ہی بند کردیا جائے اور اس کی امکانی صورتوں کو ختم کردیا جائے (حدیث نمبر ٣) اور یہ مقصد بعض علماء کے نزدیک قید میں دالنے سے بھی پورا ہوسکتا ہے اور اگر ایسا کوئی خطرہ موجود نہ ہو تو قاضی جلاوطنی کی سزا کو موقوف بھی کرسکتا ہے۔ لیکن سو کوڑے کی سزا بہرحال قائم رہے گی۔ گویا سو کوڑے تو اللہ کی مقرر کردہ حد ہے اور ایک سال کی جلاوطنی بطور تعزیر ہے۔- ٢۔ کوڑا ایسا ہونا چاہئے جو نہ زیادہ سخت ہو کہ سو کوڑے پڑنے پر چمڑی ہی ادھیڑ ڈالے اور گوشت ننگا ہوجائے اور یہ مفہوم جلدۃ کے لغوی معنی میں شامل ہے اور نہ زیادہ نرم جس کو مجرم سزا بھی نہ سمجھے۔ بلکہ ایسا ہونا چاہئے جو نہ بالکل نیا اور سخت ہو اور زیادہ پرانا اور نرم ہو۔ - ٣۔ اسی طرح کوڑے مارنے والے (جلاد) کو بھی کوڑے اتنے زور سے نہ مارنے چاہیویں کہ ایسا معلوم ہو جیسے وہ کوئی اپنا ذاتی انتقام لے رہا ہے۔ نہ وہ پیچھے سے دوڑ کر پورے زور سے کوڑے برسائے اور نہ بالکل آہست ہمارے جس کی مجرم کو تکلیف ہی نہ ہو۔۔ بلکہ درمیانہ روش اختیار کرنا چاہئے۔ اور وہ درمیانہ روش یہ ہے کہ سو کوڑے کھانے کے بعد نہ اس کا گوشت ننگا ہونا چاہئے۔ نہ ایسا ہونا چاہوے کہ وہ سو کوڑے کھانے کے بعد مرجائے یا بےہوش ہو کر گرپڑے یا اس کے بدن کا قیمہ اڑنے لگے۔- ٤۔ کوڑے برساتے وقت چہرے اور شرم گاہ کو ضرور بچانا چاہوے۔ باقی کوڑے بھی کسی ایک ہی جگہ مثلاً سرین پر نہ مارے جائیں بلکہ بدن کے مختلف حصوں پر بانٹ کر مارے جائیں۔ مرد کو یہ سزا کھڑا کرکے اور عورت کو بٹھلا کردی جائے۔ مرد کا جسم ننگا ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ مگر عورت کا جسم مستور ہونا چاہئے۔ البتہ بدن پر کوئی اتنا موٹا کپڑا بھی نہ ہو جو سزا کے اثر کو ہی کم یا زائل کردے۔- ٥۔ اگر مجرم کمزور ہو تو سو کوڑوں کی تعداد بالاقساط بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ یعنی روزانہ پچیس تیس کوڑے لگا دیئے جائیں۔ اور بہت زیادہ کمزور ہو تو جھاڑو وغیرہ جس میں سو تنکے ہوں اسے سزا دے کر حد پوری کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر عورت حاملہ ہو، یا نفاس میں ہو یا بچہ کو دودھ پلاتی ہو تو سزا کو اس وقت تک موخر کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤)- ٦۔ سو کوڑے کی سزا کی شرائط یہ ہیں کہ مجرم آزاد ہو۔ عاقل ہو، بالغ، مجنون اور دیانہ نہ ہو۔ (حدیث نمبر ٨)- ٧۔ رجم کی سزا کے لئے چند شرائط اور بھی ضروری ہیں۔ یعنی شادی شدہ ہو اور اپنی بیوی ہمبستری بھی کرچکا ہو۔ (حدیث نمبر ١) اور بعض علماء کے نزدیک مسلمان ہونا بھی شرط ہے اور ذمیوں پر اس کا اطلاق نہ ہوگا اور جو رسول اللہ نے یہودی جوڑے کو رجم کرایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب میں یہی سزا واجب تھی اور ان سے اعتراف بھی کروایا گیا تھا (حدیث نمبر ٢)- ٨۔ اگرچہ حدیث نمبر ٥ میں شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا سو کوڑے اور رجم دونوں ہیں۔ تاہم دور نبوی اور خلفائے راشدین میں صرف رجم پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ احادیث نمبر ١ تا نمبر ٤ سے ظاہر ہے۔ البتہ حضرت علی (رض) نے اپنے دور خلافت میں ایک محصنہ زانیہ کو یہ دونوں سزائیں دیں۔ جمعرات کے دن اس کو سو کوڑے لگائے اور یہ فرمایا یہ سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے اور جمعہ کے دن اسے رجم کیا اور فرمایا یہ سزا سنت رسول کے مطابق ہے۔ یہ واقعہ مسنداحمد میں تفصیلاً مذکور ہے اور بخاری میں مجلاً (بخاری۔ کتاب المحارہین۔ باب رجم المحصن)- ٩۔ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کیا جائے گا مگر عورت کے لئے سینہ تک گڑھا کھود کر اس میں اسے داخل ہونے کو کہا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤)- ١٠۔ اگر انسان سے کوئی بےحیائی کا حدی جرم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ عدالت میں جاکر اعتراف کرنے کی بجائے اللہ کے حضور توبہ استغفار پر اکتفا کرے (حدیث نمبر ١، نمبر ٤)- ١١۔ اسی طرح اگر شخص کسی دوسرے کو کسی گناہ میں مبتلا دیکھ لے تو اسے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کرے کہ عدالت میں یا حاکم کے پاس اس کی رپورٹ کر دے۔ یا دوسروں کو بتلاتا پھرے۔ (حدیث نمبر ١) بشرطیکہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو۔ حقوق العباد سے نہ ہو۔ - ١٢۔ اگر کوئی مجرم عدالت میں جاکر اپنے جرم کا اقرار کرے تو قاضی اسے یہ تلقین کرسکتا ہے۔ کہ واپس چلے جاؤ اور اللہ سے توبہ استغفار کرو اور اسے سزا دینے کا۔۔ نہ کرے۔- (حدیث نمبر، نمبر ٤) اسی طرح اگر کوئی مجرم عدالت میں مبہم بیان دے تو بھی قاضی اسے ایسی تلقین کرسکتا ہے (حدیث نمبر ١٩)- ١٣۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار معتبر عاقل، بالغ مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے اور یہ گواہی صرف مردوں کی ہوگی جس میں ایک مرد کے بجائے دو عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ عورتوں کی گواہی کا تعلق صرف مالی امور میں معتبر ہے۔ اور یہ شہادت صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کسی ایک گواہ کے بیان سے بھی معاملہ مشکوک ہوگیا تو مجرم سزا سے بچ سکتا ہے کیونکہ شبہ کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ (حدیث نمبر ٩) اس صورت میں گواہوں کی شامت آسکتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تو ان گواہوں پر قذف کی حد لگائی جائے گی۔ چناچہ دور فاروقی میں ایک ایسا واقعہ ہوا بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مغیرہ بن شعبہ گورنر بصرہ پر زنا کی تہمت لگائی اور تین گواہ بھی پیش کردیئے۔ ان میں سے ایک گواہ کا بیان مبہم ہونے کی بنا پر حضرت مغیرہ تو سزا سے بچ گئے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے دو ساتھیوں کو حضرت عمر (رض) نے قذف کی حد لگائی تھی۔ اور تیسرا گواہ مبہم بیان کی وجہ سے بچ گیا تھا۔- اور دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ان میں قذ کی حد نہیں لگے گی اور ان کی وجوہ یہ ہیں (١) یہ گواہ قذف کے مدعی بن کر نہیں آتے بلکہ زنا کے گواہ ہوتے ہیں۔ (٢) حضرت عمر (رض) نے گواہوں کو جو سزا دی تو یہ خصوصی حالات میں تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ اور ابوبکر صدیق (رض) میں پہلے سے چپقلش موجود تھا اور گواہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دوست تھے۔ (٣) اگر اس طرح زنا کے گواہوں کے ادنیٰ سے شبہ کی بنا پر مار پڑنے لگے تو کبھی کوئی شخص گواہی پر تیار نہ ہوگا۔ ہماری رائے میں دوسرا گروہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایسے بےحیائی کے مقدمات میں شہادت اور افواہوں میں دلچسپی لینے سے حتیٰ الامکان گریز ہی کرنا چاہئے۔ اور جہاں کہیں ایسی گندگی نظر آئے بھی تو اسے نشر کرنے کی بجائے پردہ پوشی سے کام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔- ١٤۔ شہادات کا بعد ثبوت جرم کا دوسرا معتبر ذریعہ ملزم کا اپنا اقرار ہے۔ مجرم اگر چار گواہیوں کے عوض چار بار اقرار کرے تو یہ بہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث نمبر ١ اور نمبر ٤ سے معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایک بار کا اقرار بھی ثبوت جرم کے لئے کافی ہے۔ (حدیث نمبر ٣)- ١٥۔ ثبوت جرم کا تیسرا معتبر ذریعہ حمل ہے۔ اگر عورت کنواری یا بےشوہر ہے اور اسے حمل ہوجائے تو یہ قرینہ کی معتبر شہادت ہے اور اس بنا پر سزا دی جاسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٤) نیز حضرت عمر (رض) کا وہ خطبہ جس کا ذکر رجم کے بیان میں گزر چکا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المحدبین۔ باب رجم الجعلیٰ )- ١٦۔ قاضی کو یہ حاصل ہے کہ وہ مجرم کے اقرار کے بعد بھی صورت حال کی پوری تحقیق کرے۔ اگر اسے کسی قسم کا شبہ پڑجائے تو وہ مجرم کو چھوڑ سکتا ہے کیونکہ مجرم کو سزا دینے میں غلطی کرنے سے اسے معاف کردینے میں غلطی کرنا بہتر ہے۔ (حدیث نمبر ٩)- ١٧۔ زنا کا جرم کسی قیمت پر قابل راضی نامہ نہیں۔ نہ ہی مال و دولت یا تاوان سے کسی کی عصمت و آبرو کی سودا بازی ہوسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٣)- ١٨۔ التبہ ایسے حدی جرائم جن کا مالی معاملات سے تعلق ہو۔ مقدمہ عدالت میں آنے سے بیشتر قابلی راضی نامہ ہوتے ہیں۔ مثلاً چور کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے اور اس سے مسروقہ مال لے کر بھی معافی دی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی شرائط جو صاحب حق تسلیم کرلے اس پر راضی نامہ ہوسکتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٧)- ١٩۔ مالی مقدمات میں اقبال جرم کرانے کے لئے ملزم کو قید تو کیا جاسکتا ہے مگر اسے بدنی سزا نہیں دی جاسکتی۔ (حدیث نمبر ١٤، ١٥)- ٢٠۔ مقدمہ عدالت میں آجانے کے بعد مجرم کے حق میں سفارش کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ (حدیث نمبر ٦)- ٢١۔ جرم ثابت ہوجانے کے بعد قاضی حد کی سزا میں کوئی کمی و بیشی کرنے کا مجاز نہیں۔ ( سورة نور۔ آیت نمبر ٢)- ٢٢۔ فوجداری مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔ ایسے فیصلے اسے شہادتوں کی بنیاد پر ہی کرنا ہوں گے۔ (حدیث نمبر ٧)- ٢٣۔ حد جاری ہونے کے بعد مجرم اس گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے۔ لہذا اسے برے لفظوں سے قطعاً یاد نہ کیا جائے۔ اس پر جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤ اور نمبر ١٢)- ٢٤۔ زنا کا ایک فریق اگر اپنے گناہ کا اقرار کرلے تو قاضی اسے یہ نہیں پوچھے گا کہ دوسرا فریق کون ہے ؟ اگر اس پر پردہ پڑا ہے تو یہی بات اسلام کے مطابق ہے۔ نیز اسلامی قانون لوگوں کو سزا دینے کے لئے بےچین نہیں ہے۔ (حدیث نمبر ٤، نمبر ١)- ٢٥۔ اور اقرار کرنے والا فریق دوسرے فریق کا پتہ بتلاتا ہے تو دوسرے فریق سے معلوم کیا جائے گا اگر وہ بھی اقرار کرلے تو اس پر حد جاری ہوگی۔ (حدیث نمبر ٣) اور اگر انکار کردے تو وہ بچ جائے گا۔ البتہ بعض علماء کے نزدیک پتہ بتلانے والے پر قذف کی حد بھی جاری ہوگی۔ لیکن یہ بات قاضی کی تحقیق اور صوابدید پر منحصر ہے۔- ٢٦۔ حدود جاری کرنے والے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی بیشمار خیرو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٨)- ٢٧۔ اگر رجم کا مجرم اقرار کے بعد اپنے اقرار سے پھرجائے یا بھاگ کھڑا ہو تو اسے مزید سزا نہیں دی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١)- ٢٨۔ عورت سے اگر بالجبر زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١٢)- ١٩۔ حدود کے علاوہ کسی جرم کی تعزیر میں قاضی بدنی سزا دس کوڑوں سے زیادہ دینے کا مجاز نہیں۔ (حدیث نمبر ١٣)- [٤] مندرجہ بالا احکام و ہدایت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی قانون اس تلاش میں نہیں رہتا کہ کوئی مجرم ملے تو اسے سزا دے ڈالی جائے۔ بلکہ اس کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ مجرم سزا سے بچ جائے۔ پہلے تو وہ مجرم کو خود ہدایت دیتا ہے کہ اپنا جرم کسی کو نہ بتلائے بلکہ اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ پھر معاشرہ کے افراد کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو جرم میں مبتلا دیکھ لے تو اس پر پردہ ڈالے اور کسی کے آگے بیان نہ کرے۔ پھر قاضی کو ہدایت دیتا ہے کہ مجرم کو سمجھائے اور توبہ استغفار کی تلقین کرکے اسے واپس پہنچ دے۔ پھر اس کا قانون شہادت اتنا سخت ہے کہ شائد ہی کوئی جرم شہادتوں کی بنا پر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہو۔ قاضی کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ شہادت یا مجرم کے اقرار میں کسی طرح کا۔۔ جائے یا مجرم اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جاوے پھر وہ مجرم کی حالت دیکھتا ہے کہ آیا وہ سزا کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ ان سب مراحل سے گزرنے اور جرم کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے بعد پھر جو سزا دیتا ہے۔ وہ یقیناً سخت بھی ہے اور اس کا تعلق بھی بدنی سزا سے ہوتا ہے اس وقت لگانے کی حد تک تو نرمی کا برتاؤ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر مجرم پر ترس کھانے کا مطلق رو دار نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے مجرم پر ترس کھانا فی الحقیقت پورے معاشرے پر ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا اے صاحبان عقل و خرد تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے (٢: ١٧٩) بالفاظ دیگر ایک شخص کو قصاص میں مار ڈالنے سے سارے معاشرہ کو جینے کا حق ملتا ہے۔ اور وہ امن و چین سے رہ سکتے ہیں۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی قانون حدود قصاص اور تعزیرات کو بھی اللہ کا دین فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ بھی اقامت دین کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دین کا اطلاق صرف عبادات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس لفظ کے معنی کی وسعت میں شریعت کے تمام تر احکام آجاتے ہیں۔- [٥] یعنی مجرموں کو یہ بدنی سزائیں برسر عام دی جائیں تاکہ انھیں اپنے کئے پر زیادہ سے زیادہ شرمندگی ہو۔ اور دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ - اب ایسے اسلامی معاشرہ کے مقابلہ میں ان لوگوں پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے جو اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں قرار دینے میں اور اس کا پروپیگنڈہ کرنے میں اپنے پھیپھڑوں تک کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں صرف ایسے مجرموں پر ترس آتا ہے جو حکومت کے حامی یا اس کے رکن ہوتے ہیں۔ اور ترس اس لئے آتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر ان کی حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مجرموں نے لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ اور فساد کے ذریعہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اور جو مجرم حکومت کے مخالف ہوں ان کے لئے علیحدہ عقوبت خانے بنائے جاتے ہیں اور ان مجرموں کے ایسے ایسے جاں گداز روح فرسا عذاب دیئے جاتے ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ اور یہ سب ظلم تنگ و تار کوٹھڑیوں میں ڈھائے جاتے ہیں کہ کسی کا دیکھنا تو درکنرا کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح بسا اوقات پولیس حوالات کے دوران ملزموں کو مار مار کر ہلکان کردیتی ہے۔ اور اس کی مثال بالکل ہری ہے جیسے موجودہ دور حکومت کے مہذب لوگ دوسرا نکاح کرنا تو جرم سمجھتے ہیں مگر حرام طریقے پر بیسیوں۔۔ اور شناسائیں رکھی ہوتی ہیں اور اسلام جو حلال طریقے سے چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا ۔۔ : سورة نساء کی آیات (١٥، ١٦) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کے متعلق چار مردوں کی گواہی کے بعد انھیں گھروں میں بند رکھنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا فرما دے۔ اسی طرح زنا کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو توبہ کرنے تک ایذا و تکلیف دینے کا حکم دیا اور یہاں سورة نور کی زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے کنوارے مرد اور کنواری عورت کی سزا بیان فرمائی۔ جیسا کہ عبادہ ابن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خُذُوْا عَنِّيْ ، خُذُوْا عَنِّيْ ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً ، الْبِکْرُ بالْبِکْرِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَ نَفْيُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بالثَّیِّبِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَالرَّجْمُ ) [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی : ١٦٩٠ ] ” مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ “ اس آیت سے بالاتفاق سورة نساء کی آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔- اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ : یہ مبتدا ہے، اس کی خبر ” فَاجْلِدُوْا “ ہے۔ اس پر ” فاء “ اس لیے آئی ہے کہ مبتدا میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے، کیونکہ الف لام، ” أَلَّذِيْ “ کے معنی میں ہے، یعنی جو زنا کرنے والی عورت اور جو زنا کرنے والا مرد ہے۔ اس آیت میں مسلم حکام کو حکم ہے کہ جو عورت یا جو مرد بھی زنا کا ارتکاب کرے، خواہ وہ کسی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر ان کا مقدمہ تمہارے پاس لایا جائے، جب وہ شادی شدہ نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ شادی شدہ زانیہ اور زانی کے لیے رجم کا حکم ہے، جیسا کہ گزشتہ فائدہ میں مذکور حدیث میں آیا ہے، مزید تفصیل آگے آئے گی۔- 3 غیر مسلم ذمی اگر زنا کا ارتکاب کریں اور مسلم حکام کے پاس مقدمہ لایا جائے تو ان کا فیصلہ بھی کتاب و سنت کے مطابق کیا جائے گا، جیسا کہ سورة مائدہ (٤٨، ٤٩) میں مذکور ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھوں نے آپ سے ذکر کیا کہ ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا تَجِدُوْنَ فِي التَّوْرَاۃِ فِيْ شَأْنِ الرَّجْمِ ؟ ) ” تم تورات میں رجم کے متعلق کیا پاتے ہو ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہم انھیں ذلیل کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ “ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : ” تم نے جھوٹ کہا، تورات میں رجم یقیناً موجود ہے۔ “ چناچہ وہ تورات لائے اور اسے کھولا، تو ان میں سے ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور جو اس سے پہلے اور اس کے بعد تھا اسے پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سے کہا : ” ہاتھ اٹھا۔ “ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس میں رجم کی آیت موجود تھی، تو کہنے لگے : ” اے محمد اس نے سچ کہا ہے، اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور دونوں کو سنگسار کردیا گیا۔ [ بخاري، الحدود، باب أحکام أہل الذمۃ و إحصانہم إذا زنوا و - رفعوا إلی الإمام : ٦٨٤١ ]- امام بخاری (رض) کے باب کے عنوان قائم کرنے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل ذمہ اگر مقدمہ مسلمانوں کے پاس لائیں تو ان کے لیے بھی زنا کی سزا وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں پر بھی رجم کا حکم نافذ فرمایا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری ملاحظہ فرمائیں۔ جن روایات میں اس حد کے نفاذ کے لیے اسلام کی شرط آئی ہے، ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح سند سے ثابت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ذمی غیر مسلموں کو بیشک اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہے، مگر انھیں بےحیائی اور بدکاری پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔- ” اَلزَّانِيَةُ “ کو ” وَالزَّانِيْ “ سے پہلے لانے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عموماً زنا کی ترغیب عورتوں کی طرف سے ہوتی ہے، اگر ان کی طرف سے کوئی اشارہ یا مسکراہٹ یا بےحجابی یا کلام میں دلکشی نہ ہو تو مرد کو اقدام کی جرأت کم ہی ہوتی ہے۔ اسامہ ابن زید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) [ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ : ٥٠٩٦ ] ” میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ “ اس کے علاوہ زنا کی قباحت اور اس کی عار عورتوں کے لیے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ بکارت اور حمل کے مسائل کا سامنا انھی کو ہوتا ہے۔ ” فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا “ اس لیے فرمایا کہ زنا کی ترغیب عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے، سزا دونوں کو ایک جیسی ملے گی۔- فَاجْلِدُوْا : ” جِلْدٌ“ کا معنی چمڑا ہے۔ اس لفظ سے فقہاء نے دو مسائل اخذ کیے ہیں، ایک یہ کہ مارنے کے لیے کوڑا چمڑے کا ہونا چاہیے، جو درمیانہ ہو، نہ بہت سخت نہ بالکل نرم۔ دوسرا یہ کہ ضرب یعنی مار کا اثر جلد تک رہنا چاہیے، ایسی ضرب نہ ہو جس سے گوشت پھٹ جائے، اور یہ کوڑے چہرے اور نازک حصوں کو چھوڑ کر جسم کے الگ الگ حصوں پر مارے جائیں نہ کہ ایک ہی جگہ، اور پوری طاقت سے ہاتھ بلند کرکے نہیں بلکہ ہاتھ کندھے سے بلند کیے بغیر درمیانی ضرب لگائی جائے۔ زمخشری نے فرمایا : ” اَلْجِلْدُ “ کا معنی جلد پر ضرب ہے، چناچہ ” جَلَدَہُ “ (اس نے اس کی جلد پر مارا) ایسے ہی ہے جیسے ” ظَہَرَہُ “ (اس نے اس کی پشت پر مارا) ، ” بَطَنَہُ “ (اس نے اس کے پیٹ پر مارا) اور ” رَأَسَہُ “ (اس نے اس کے سر پر مارا) ۔ آج کل حکومتیں جلادوں کے ہاتھوں جس قسم کے کوڑے مرواتی ہیں، جن کے لیے جلادوں کو باقاعدہ مشق کروائی جاتی ہے کہ وہ ایک ہی جگہ پڑیں، پھر ملزم کو ٹکٹکی پر باندھ کر اس کے چوتڑوں پر اس طرح کوڑے برسائے جاتے ہیں کہ جلاد دور سے دوڑتا ہوا آ کر پوری قوت سے کوڑا مارتا ہے، ایک ہی جگہ چند کوڑے لگنے کے بعد گوشت کے ٹکڑے اڑنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات ہڈیاں ننگی ہوجاتی ہیں اور وہ ساری عمر کے لیے روگی بن جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کوڑے مارنے کی وحشیانہ سزا کسی بھی جرم میں مقرر نہیں کی گئی، بلکہ اگر زنا کا ارتکاب ایسے کنوارے شخص سے ہو جو سو کوڑے برداشت نہ کرسکتا ہو تو اس کے لیے رعایت بھی موجود ہے۔ سعید بن سعد بن عبادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلے میں ایک ناقص اعضا والا کمزور آدمی تھا، اسے دیکھا گیا کہ محلے کی ایک لونڈی سے بدکاری کر رہا تھا۔ سعد بن عبادہ (رض) نے اس کا معاملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا تو آپ نے فرمایا : ” اسے سو کوڑے مارو۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ وہ اس سے کمزور ہے، اگر ہم نے اسے سو کوڑے مارے تو وہ مرجائے گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَخُذُوْا لَہُ عِثْکَالًا، فِیْہِ ماءَۃُ شِمْرَاخٍ ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً وَاحِدَۃً ) [ ابن ماجہ، الحدود، باب الکبیر والمریض یجب علیہ الحد : ٢٥٧٤ ]” پھر کھجور کا ایک خوشہ لو، جس میں سو ٹہنیاں ہوں اور وہ - اسے ایک ہی بار مار دو ۔ “ - وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ ۔۔ : کیونکہ بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرے پر ظلم ہے۔ پہلی امتوں پر حدود الٰہی میں نرمی ہی سے تباہی آئی۔ حدود اللہ کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے اور ان پر وبائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ الْمُھَاجِرِیْنَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیْتُمْ بِھِنَّ ، وَ أَعُوْذُ باللّٰہِ أَنْ تُدْرِکُوْھُنَّ : لَمْ تَظْھَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا بِھَا، إِلَّا فَشَا فِیْھِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِيْ لََمْ تَکُنْ مَضَتْ فِيْ أَسْلَافِھِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ ، إِلَّا أُخِذُوْا بالسِّنِیْنَ وَ شِدَّۃِ الْمَؤُوْنَۃِ وَ جَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْھِمْ ، وَلَمْ یَمْنَعُْوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِھِمْ ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ ، وَ لَوْ لَا الْبَھَاءِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا وَلَمْ یَنْقُضُوْا عَھْدَ اللّٰہِ وَ عَھْدَ رَسُوْلِہِ ، إِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِھِمْ ، فَأَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ أَیْدِیْھِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَءِمَّتُھُمْ بِکِتَاب اللّٰہِ ، وَ یَتَخَیَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ ، إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ بَأْسَھُمْ بَیْنَھُمْ ) [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ٤٠١٩۔ مستدرک حاکم : ٤؍٥٤٠، ح : ٨٦٢٣، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب : ٢١٨٧ ] ” اے مہاجرین کی جماعت پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوگئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم انھیں پاؤ، کسی قوم میں جب بھی فحاشی (بےحیائی و بدکاری) عام ہوتی ہے، جو ان میں علانیہ کی جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں اور جو بھی قوم ماپ اور تول میں کمی کرتی ہے انھیں قحط سالیوں، مشقت کی سختی اور بادشاہ کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے اور کوئی بھی قوم اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا چھوڑ دیتی ہے تو ان کے لیے آسمان سے بارش روک لی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو بارش سرے ہی سے نہ ہو اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کردیے جاتے ہیں جو ان کے قبضے سے کئی چیزیں چھین لیتے ہیں اور جن کے امراء اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی لڑائی آپس میں ڈال دیتا ہے۔ “ - یہ نتیجہ حدود اللہ کو معطل کرنے کا ہے، جب کہ حدود اللہ قائم کرنے سے بےحساب برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دیکھیے سورة مائدہ (٦٦) اور سورة اعراف (٩٦) ۔- وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں مارتے وقت تمہارے دل میں ان پر رحم اور شفقت کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو، بلکہ ” فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ “ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حد نافذ کرنے میں تمہاری طرف سے کوئی نرمی یا ترس رکاوٹ نہ بنے۔ رہا مارتے ہوئے، یا یہ منظر دیکھ کر دل میں رحم و شفقت کا کوئی جذبہ پیدا ہونا تو یہ طبعی بات ہے، اس پر آدمی کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس پر کوئی گناہ ہے۔ گناہ یہ ہے کہ ترس کھا کر حد نافذ نہ کی جائے، یا ترس کھا کر حد نہ لگانے کی سفارش کی جائے، یا اس قدر آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ حد کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ قرہ مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ میں بکری ذبح کرتا ہوں تو میں اس پر رحم کرتا ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالشَّاۃُ إِنْ رَحِمْتَھَا رَحِمَکَ اللّٰہُ ، مَرَّتَیْنِ ) [ الأدب المفرد للبخاري : ٣٧٣۔ مسند أحمد : ٣؍٤٣٦، ح : ١٥٥٩٨ ] ” اور بکری پر اگر تو رحم کرے گا تو اللہ تجھ پر رحم کرے گا۔ “ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔ “- 3 وہ جرم، جس کی حد اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے، وہ حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے آپس میں معاف کیا جاسکتا ہے، حاکم کے پاس مقدمہ پیش ہونے کے بعد نہ سفارش کی اجازت ہے، نہ حاکم کو حد معاف کرنے کا اختیار ہے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَعَافَوُا الْحُدُوْدَ فِیْمَا بَیْنَکُمْ فَمَا بَلَغَنِيْ مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ ) [أبوداوٗد، الحدود، باب یعفی عن الحدود۔۔ : ٤٣٧٦۔ نساءي : ٤٨٩٠، قال الألباني صحیح ] ” حدود کو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردیا کرو، کیونکہ میرے پاس جو بھی حد آئے گی واجب ہوجائے گی۔ “- عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ قریش کو مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا، جس نے چوری کی تھی، کہنے لگے : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق کون بات کرے ؟ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیارے اسامہ بن زید کے سوا کون یہ جرأت کرے گا۔ “ تو اسامہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ؟ ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّمَا ضَلَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَنَّھُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ ، وَ إِذَا سَرَقَ الضَّعِیْفُ فِیْھِمْ أَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ ، وَایْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ یَدَھَا ) [ بخاري، الحدود، باب کراھیۃ الشفاعۃ في الحد إذا رفع إلی السلطان : ٦٧٨٨۔ مسلم : ١٦٨٨ ] ” کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کر رہے ہو ؟ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور خطبہ دیا، فرمایا : ” لوگو تم سے پہلے لوگ اسی لیے گمراہ ہوگئے کہ جب اونچا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چوری کرتی تو یقیناً محمد اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ “- وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : اللہ تعالیٰ کی حدود کے دو مقصد ہیں، ایک یہ کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے، دوسرا یہ کہ وہ اس کے لیے اور لوگوں کے لیے عبرت بنے اور وہ اس جرم سے باز رہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) [ المائدۃ : ٣٨ ] ” اور جو چوری کرنے والا ہے اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔ اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔ “ چور کا کٹا ہوا ہاتھ عبرت کے لیے کافی ہے، یہاں زانی کے لیے حد لگاتے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونے کا حکم دیا، تاکہ باعث عبرت ہو۔ کوڑے مارتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی بجائے خود ایک سزا ہے، کیونکہ کوڑوں کی تکلیف تو ختم ہوجاتی ہے مگر رسوائی کا احساس جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے حد لگانے کی صورت میں اس بات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی کہ حد معطل کردی جائے، یا اس میں کمی یا نرمی کی جائے۔ - 3 شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کی حد رجم ہے جو قرآن، سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ یہ حکم قرآن مجید میں موجود آیات کے ساتھ بھی ثابت ہے اور قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہے جس کی تلاوت منسوخ ہے، لیکن اس کا حکم باقی ہے۔ قرآن مجید میں موجود آیت کے ذکر سے پہلے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ پہلے انبیاء اور ان کی امتوں پر نازل شدہ احکام جو قرآن نے ذکر فرمائے ہیں اور قرآن و سنت میں ان کے منسوخ ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا، ان پر عمل ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی پوری امت پر فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں اٹھارہ (١٨) پیغمبروں کا نام لیا اور ان کے آباء اور اولاد و اخوان کا ذکر فرمایا، پھر فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ) [ الأنعام : ٩٠ ] ” یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ “ رجم کی سزا کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ میں تورات کے حوالے سے فرمایا ہے : (وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ) [ المائدۃ : ٤٣ ] ” اور وہ تجھے کیسے منصف بنائیں گے جب کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے۔ “ یہ حکم رجم تھا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے فوائد میں گزر چکا۔ چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کے موافق فیصلہ فرمایا اور فرمایا : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَکَ إِذْ أَمَاتُوْہُ ) ” اے اللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا، جب انھوں نے اسے مردہ کردیا تھا۔ “ مفصل حدیث اس طرح ہے کہ براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک یہودی کے پاس سے گزرے جس کا منہ کالا کیا ہوا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بلایا اور فرمایا : ( ھٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ کِتَابِکُمْ ؟ قَالُوْا نَعَمْ ، فَدعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَاءِھِمْ ، فَقَالَ أَنْشُدُکَ باللّٰہِ الَّذِيْ أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوْسٰی أَھٰکَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ کِتَابِکُمْ ؟ قَالَ لَا، وَلَوْ لَا أَنَّکَ نَشَدْتَنِيْ بِھٰذَا لَمْ أُخْبِرْکَ ، نَجِدُہُ الرَّجْمَ ، وَلٰکِنَّہُ کَثُرَ فِيْ أَشْرَافِنَا، فَکُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِیْفَ تَرَکْنَاہُ ، وَإِذَا أَخَذْنَا الضَّعِیْفَ ، أَقَمْنَا عَلَیْہِ الْحَدَّ ، قُْلْنَا تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلٰی شَيْءٍ نُقِیْمُہُ عَلَی الشَّرِیْفِ وَالْوَضِیْعِ ، فَجَعَلْنَا التَّحْمِیْمَ وَالْجَلْدَ مَکَان الرَّجْمِ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَکَ إِذْ أَمَاتُوْہُ فَأَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ ) [ مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ في الزنٰی : ١٧٠٠ ] ” کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد ایسے ہی پاتے ہو ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہاں “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا : ” میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی، کیا تم اپنی کتاب میں زنا کی حد ایسے ہی پاتے ہو ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ ہم وہ (حد) رجم ہی پاتے ہیں، لیکن یہ کام (زنا) ہمارے بڑے لوگوں میں عام ہوگیا تو ہم جب بڑے کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کردیتے۔ تو ہم نے کہا، آؤ ہم کسی ایسی سزا پر متفق ہوجائیں جو ہم اونچے لوگوں اور کمزور لوگوں سب پر قائم کریں، تو ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنا مقرر کردیا۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے اللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا جب انھوں نے اسے مردہ کردیا تھا۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے رجم کردیا گیا۔ “ اس حدیث کے بعد سورة مائدہ کی آیات (٤١ تا ٥٠) ملاحظہ فرمائیں، رجم اللہ کا حکم ہونا بالکل واضح ہوجائے گا۔- تورات کے اس حکم رجم کو اللہ کا حکم قرار دے کر اس پر عمل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اعضا کے قصاص کا ذکر تورات کے حوالے سے فرمایا۔ قرآن میں اعضا کے قصاص کا اس کے سوا کہیں ذکر نہیں، اس کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعضا کے قصاص کا حکم دیا اور امت اعضا کے قصاص پر متفق ہے، فرمایا : (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) [ المائدۃ : ٤٥ ] ” اور اس میں ہم نے ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلا ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ “ مائدہ کی آیت (٤٨) میں قرآن کو پہلی کتابوں پر ” مُھَیْمِناً “ فرمانے سے ایک مقصد یہ بھی ظاہر ہے کہ شادی شدہ زانی کے رجم اور نفس اور اعضا کے قصاص کا مسئلہ اب قرآن کے زیر حفاظت ہے۔- 3 قرآن کی وہ آیت جس میں رجم کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت منسوخ اور حکم باقی ہے، اس کا ذکر امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) نے منبر پر نہایت شدّ و مد سے فرمایا، جب آپ کو فکر ہوئی کہ کچھ لوگ قرآن میں رجم کا صریح لفظ نہیں دیکھیں گے تو اس کا انکار کردیں گے (جیسا کہ خارجیوں نے اور ہمارے زمانے کے کچھ آزاد خیال لوگوں نے کیا ہے) تو اس کے ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر (رض) اور اپنے عمل کا حوالہ بھی دیا۔ ابن عباس (رض) سے عمر بن خطاب (رض) کا خطبہ مروی ہے، جو انھوں نے اپنے آخری حج سے واپس آ کر مدینہ میں دیا۔ اس میں مذکور ہے کہ انھوں نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بالْحَقِّ ، وَ أَنْزَلَ عَلَیْہِ الْکِتَابَ ، فَکَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاھَا وَ عَقَلْنَاھَا وَ وَعَیْنَاھَا، رَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ رَجَمْنَا بَعْدَہُ ، فَأَخْشَی إِنْ طَال بالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ یَّقُوْلَ قَاءِلٌ، وَاللّٰہِ مَا نَجِدُ آیَۃَ الرَّجْمِ فِيْ کِتَاب اللّٰہِ ، فَیَضِلُّوْا بِتَرْکِ فَرِیْضَۃٍ أَنْزَلَھَا اللّٰہُ ، وَالرَّجْمُ فِيْ کِتَاب اللّٰہِ حَقٌّ عَلٰی مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ، إِذَا قَامَتِ الْبَیِّنَۃُ ، أَوْ کَانَ الْحَبَلُ ، أَوِ الْاِعْتِرَافُ ) [ بخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰی من الزنا إذا أحصنت : ٦٨٣٠ ] ” اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، سمجھا اور یاد کرلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ میں ڈرتا ہوں کہ اگر لوگوں پر لمبا زمانہ گزر گیا تو کوئی کہنے والا کہے کہ اللہ کی قسم ہم اللہ کی کتاب میں رجم کو نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو ترک کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے اس شخص پر جو شادی شدہ ہو، مرد ہو یا عورت، جب دلیل قائم ہوجائے، یا حمل ہو یا اعتراف ہو۔ “ - 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی احادیث میں رجم کا حکم منقول ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت کے فائدہ (١) میں گزرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ماعز اسلمی اور غامدیہ کو رجم کرنا تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں مذکور ہے، اسی طرح یہود کو رجم کرنا فائدہ (٣) اور فائدہ (١٠) میں گزرا ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رجم کو اللہ کی کتاب کا فیصلہ قرار دے کر اس پر عمل کرنا صحیح بخاری میں مروی ہے، ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) نے بیان کیا کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : ( أَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلَّا مَا قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ ) ” میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہر حال میں ہمارے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیں۔ “ تو وہ شخص کھڑا ہوگیا جس سے اس کا جھگڑا تھا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا۔ اس نے کہا : ” آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ فرمائیں اور مجھے (بات کرنے کی) اجازت دیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کہو “ اس نے کہا : ” میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا تو اس نے اس کی بیوی سے زنا کرلیا، میں نے اس کے بدلے سو بکریاں اور ایک خادم دے کر اس کی جان چھڑائی۔ پھر میں نے کچھ اہل علم آدمیوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس کی بیوی پر رجم ہے۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَاب اللّٰہِ جَلَّ ذِکْرُہُ ، الْمِاءَۃُ شَاۃٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ ماءَۃٍ وَ تَغْرِیْبُ عَامٍ ، وَاغْدُ یَا أُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا، فَغَدَا عَلَیْھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا ) [ بخاري، الحدود، باب الاعتراف بالزنا : ٦٨٢٧، ٦٨٢٨ ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور تمہارے درمیان اللہ جل ذکرہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ وہ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور اے انیس صبح اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ اعتراف کرلے، تو اسے رجم کر دو ۔ “ وہ صبح اس کے پاس گئے، اس نے اعتراف کرلیا تو انھوں نے اسے رجم کردیا۔ “- 3 امت مسلمہ میں کچھ لوگوں نے رجم کا انکار کیا۔ بعض نے کوڑوں اور رجم بلکہ تمام حدود ہی کو وحشیانہ سزائیں قرار دے کر ان کا انکار کردیا۔ ایسے لوگوں کو امت مسلمہ بدترین منافق ہی کے طور پر پہچانتی ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسلام کا لبادہ انھوں نے مسلمانوں میں شامل رہ کر کفر کی نمائندگی کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اس لیے ان کے نفاق کا علم عام ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے، بلکہ مسلمان ہمیشہ اس انتظار میں ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ کب وہ مبارک وقت آئے گا جب عہد نبوی اور خلافت راشدہ کی طرح اللہ کی حدود قائم ہوں گی اور معاشرے میں امن و امان اور عفت و پاک دامنی کا دور دورہ ہوگا۔ - 3 اللہ کی حدود کو اصل نقصان ان لوگوں نے پہنچایا اور انھی کے ہم نواؤوں کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی حدود معطل ہوئیں، جنھوں نے اگرچہ حدود اللہ کا انکار نہیں کیا، نہ کنوارے زانی کے لیے کوڑوں کی حد کا اور نہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی حد کا، مگر انھوں نے ایسے حیلے ایجاد کرلیے جن سے کسی زانی پر (کنوارا ہو یا شادی شدہ) حد نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور لطف یہ کہ ان لوگوں کے موجودہ ہم نوا ان فقہی قوانین کو اللہ کا حکم قرار دینے پر اور انھیں بطور اسلام ملک میں نافذ کرنے پر مُصِر ہیں۔ ہم ان میں سے چند شقیں یہاں نقل کرتے ہیں : 1 اجرت پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 2 دار الحرب اور دار البغی میں زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 3 جن عورتوں سے نکاح حرام ہے (ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی، بھانجی اور بھتیجی وغیرہ) ان سے نکاح کرکے زنا کرے تو اس پر حد نہیں، خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ حرام ہے۔ 4 جس حکمران کے اوپر کوئی حکمران نہ ہو وہ زنا کرے تو اس پر حد نہیں۔ 5 اگر زانی دعویٰ کر دے کہ وہ اس کی بیوی ہے تو حد ساقط ہوجائے گی، خواہ وہ کسی اور کی بیوی ہو اور وہ کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔ یہ ہیں ان کے چند حیلے، تو فرمائیے وہ کون سا زانی ہوگا جو جھوٹا دعویٰ کرکے حد سے جان نہیں بچائے گا ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - اس سورت کی پہلی آیت تو بطور تمہید کے ہے جس سے اس کے احکام کا خاص اہتمام بیان کرنا مقصود ہے اور احکام میں سب سے پہلے زنا کی سزا کا ذکر جو مقصود سورت، عفت اور اس کے لئے نگاہوں تک کی حفاظت، بغیر اجازت کسی کے گھر میں جانے اور نظر کرنے کی ممانعت کے احکام آگے آنے والے ہیں زنا کا ارتکاب ان تمام احتیاطوں کو توڑ کر عفت کے خلاف انتہائی حد پر پہنچنا اور احکام الٰہیہ کی کھلی بغاوت ہے۔ اسی لئے اسلام میں انسانی جرائم پر جو سزائیں (حدود) قرآن میں متعین کردی گئی ہیں زنا کی سزا بھی ان تمام جرائم کی سزا سے اشد اور زیادہ ہے زنا خود ایک بہت بڑا جرم ہونے کے علاوہ اپنے ساتھ سینکڑوں جرائم لے کر آتا ہے اور اس کے نتائج پوری انسانیت کی تباہی ہے۔ دنیا میں جتنے قتل و غارت گری کے واقعات پیش آتے ہیں تحقیق کی جائے تو ان میں بیشتر کا سبب کوئی عورت اور اس سے حرام تعلق ہوتا ہے اس لئے شروع سورت میں اس انتہائی جرم و بےحیائی کا قلع قمع کرنے کے لئے اس کی حد شرعی بتلائی گئی ہے۔- زنا ایک جرم عظیم اور بہت سے جرائم کا مجموعہ ہے اس لئے اسلام میں اس کی سزا بھی سب سے بڑی رکھی گئی ہے :- قرآن کریم اور احادیث متواترہ نے چار جرائم کی سزا اور اس کا طریقہ خود متعین کردیا ہے کسی قاضی یا امیر کی رائے پر نہیں چھوڑا انہیں متعینہ سزاؤں کو اصطلاح شرع میں حدود کہا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی جرائم کی سزا کو اس طرح متعین نہیں کیا گیا بلکہ امیر یا قاضی مجرم کی حالت اور جرم کی حیثیت اور ماحول وغیرہ کے مجموعہ پر نظر کر کے جس قدر سزا دینے کو انسداد جرم کے لئے کافی سمجھے وہ سزا دے سکتا ہے ایسی سزاؤں کو شریعت کی اصطلاح میں تعزیرات کہا جاتا ہے۔ حدود شرعیہ پانچ ہیں۔ چوری، ڈاکہ، کسی پاکدامن عورت پر تہمت رکھنا، شراب پینا اور زنا کرنا۔ ان میں سے ہر جرم اپنی جگہ بڑا سخت اور دنیا کے امن وامان کو برباد کرنے والا اور بہت سی خرابیوں کا مجموعہ ہے لیکن ان سب میں بھی زنا کے عواقب اور نتائج بد جیسے دنیا کے نظام انسانیت کو تباہ و برباد کرنے والے ہیں وہ شاید کسی دوسرے جرم میں نہیں۔- (١) کسی شخص کی بیٹی، بہن، بیوی پر ہاتھ ڈالنا اس کی ہلاکت کا مترادف ہے۔ شریف انسان کو سارا مال و جائداد اور اپنا سب کچھ قربان کردینا اتنا مشکل نہیں جتنا اپنے حرم کی عفت پر ہاتھ ڈالنا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں روزمرہ یہ واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ جن لوگوں کے حرم پر ہاتھ ڈالا گیا ہے وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر زانی کے قتل و فنا کے درپے ہوتے ہیں اور یہ جوش انتقام نسلوں میں چلتا ہے اور خاندانوں کو تباہ کردیتا ہے۔- (٢) جس قوم میں زنا عام ہوجائے وہاں کسی کا نسب محفوظ نہیں رہتا۔ ماں بہن بیٹی وغیرہ جن سے نکاح حرام ہے جب یہ رشتے بھی غائب ہوگئے تو اپنی بیٹی اور بہن بھی نکاح میں آسکتی ہے جو زنا سے بھی زیادہ اشد جرم ہے۔- (٣) غور کیا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بدامنی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے اس کا بیشتر سبب عورت اور اس سے کم مال ہوتا ہے۔ جو قانون عورت اور دولت کی حفاظت صحیح انداز میں کرسکے ان کو ان کے مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے وہ ہی قانون امن عالم کا ضامن ہوسکتا ہے۔ یہ جگہ زنا کے تمام مفاسد اور خرابیاں جمع کرنے اور تفصیل سے بیان کرنے کی نہیں۔ انسانی معاشرہ کے لئے اس کی تباہ کاری کے معلوم ہونے کے لئے اتنا بھی کافی ہے اسی لئے اسلام نے زنا کی سزا کو دوسرے سارے جرائم کی سزاؤں سے اشد قرار دیا ہے۔ وہ سزا آیت مذکورہ میں اس طرح بیان کی گئی ہے الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۔ اس میں عورت زانیہ کا ذکر پہلے اور مرد زانی کا بعد میں لایا گیا ہے سزا دونوں کی ایک ہی ہے عام قیاس بیان احکام کا یہ ہے کہ اکثر تو صرف مردوں کو مخاطب کر کے حکم دے دیا جاتا ہے عورتیں بھی اس میں ضمناً شامل ہوتی ہیں ان کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی سارے قرآن میں يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے صیغہ مذکر سے جو احکام بیان کئے گئے ہیں عورتیں بھی اس میں بغیر ذکر شامل قرار دی گئی ہیں۔ شاید حکمت اس کی یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مستور رہنے کا حکم دیا ہے ان کے ذکر کو بھی ذکر رجال کے ضمن میں مستور کر کے بیان کیا گیا ہے اور چونکہ اس طرز سے یہ احتمال تھا کہ کسی کو یہ شبہ ہوجائے کہ یہ سب احکام مردوں ہی کے لئے ہیں عورتیں ان سے سبکدوش ہیں اس لئے خاص خاص آیات میں مستقلاً عورتوں کا ذکر بھی کردیا جاتا ہے وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ اور جہاں مرد و عورت دونوں ہی کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو ترتیب طبعی یہ ہوتی ہے کہ مرد کا ذکر مقدم عورت کا بعد میں ہوتا ہے۔ چوری کی سزا میں اسی ضابطہ عرفیہ کے مطابق والسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا فرمایا ہے جس میں مرد چور کو مقدم اور عورت کو موخر ذکر کیا ہے مگر سزائے زنا میں اول تو عورت کے ذکر کے ضمنی آجانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ صراحةً ذکر مناسب سمجھا گیا دوسرے عورت کا ذکر مرد پر مقدم کر کے بیان کیا گیا۔ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اول تو عورت ضعیف الخلقة اور طبعی طور پر قابل رحم سمجھی جاتی ہے اگر اس کا صراحةً ذکر نہ ہوتا تو کسی کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید عورت اس سزا سے مستثنیٰ ہے۔ اور عورت کا ذکر مقدم اس لئے کیا گیا کہ فعل زنا ایک ایسی بےحیائی ہے جس کا صدور عورت کی طرف سے ہونا انتہائی بیباکی اور بےپروائی سے ہوسکتا ہے کیونکہ قدرت نے اس کے مزاج میں فطری طور پر ایک حیاء اور اپنی عفت کی حفاظت کا جذبہ قویہ ودیعت فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کے لئے بڑے سامان جمع فرمائے ہیں۔ اس کی طرف سے اس فعل کا صدور بہ نسبت مرد کے زیادہ اشد ہے بخلاف چور کے کہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے کسب اور کمائی کی قوت دی ہے۔ اپنی ضروریات اپنے عمل سے حاصل کرنے کے مواقع اس کے لئے فراہم کئے ہیں نہ یہ کہ ان کو چھوڑ کر چوری کرنے پر اتر آئے، یہ مرد کے لئے بڑا عار اور عیب ہے۔ عورت کے چونکہ یہ حالات نہیں ہیں اگر اس سے چوری کا صدور ہوجائے تو مرد کی نسبت سے اہوں اور کم درجہ ہے۔- فَاجْلِدُوْا لفظ جلد کوڑا مارنے کے معنے میں آتا ہے وہ جلد سے مشتق ہے کیونکہ کوڑا عموماً چمڑے سے بنایا جاتا ہے۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ لفظ جلد سے تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کوڑوں یا دروں کی ضرب اس حد تک رہنی چاہئے کہ اس کا اثر انسان کی کھال تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوڑے لگانے کی سزا میں اسی توسط و اعتدال کی تلقین عملاً فرمائی ہے کہ کوڑا نہ بہت سخت ہو جس سے گوشت تک ادھڑ جائے اور نہ بہت نرم ہو کہ اس سے کوئی خاص تکلیف ہی نہ پہنچے۔ اس جگہ اکثر حضرات مفسرین نے یہ روایات حدیث سند اور الفاظ کے ساتھ لکھ دی ہیں۔- سو کوڑوں کی مذکورہ سزا صرف غیر شادی شدہ مرد و عورت کیلئے مخصوص ہے شادی شدہ لوگوں کی سزا سنگساری ہے : - یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زنا کی سزا کے احکام بتدریج آئے ہیں اور خفت سے شدت کی طرف بڑھتے گئے ہیں جیسے شراب کی حرمت میں بھی اسی طرح کی تدریج خود قرآن میں مذکور ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے زنا کی سزا کا سب سے پہلا حکم تو وہ تھا جو سورة نساء کی آیات نمبر ١٦، ١٥ میں مذکور ہے وہ یہ ہے :- وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا، وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَ آ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا (سورة نساء)- اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے پھر اگر وہ گواہی دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ۔ اور جو مرد کریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کا خیال چھوڑ دو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔- ان دونوں آیتوں کی مکمل تفسیر اور ضروری بیان سورة نساء میں آ چکا ہے۔ یہاں اس لئے اس کا اعادہ کیا گیا ہے کہ زنا کی سزا کا ابتدائی دور سامنے آجائے۔ ان آیتوں میں ایک تو ثبوت زنا کا خاص طریقہ چار مردوں کی شہادت کے ساتھ ہونا بیان فرمایا ہے۔ دوسرے زنا کی سزا عورت کے لئے گھر میں قید رکھنا اور دونوں کے لئے ایذا پہنچانا مذکور ہے اور ساتھ اس میں یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ سزائے زنا کا یہ حکم آخری نہیں آئندہ اور کچھ حکم آنے والا ہے اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا کا یہی مفہوم ہے۔- مذکورہ سزا میں عورتوں کو گھر میں قید رکھنا اس وقت کافی قرار دیا گیا اور دونوں کو ایذا دینے کی سزا کافی قرار دی گئی مگر اس ایذا اور تکلیف کی کوئی خاص صورت خاص مقدار اور حد بیان نہیں فرمائی ہے بلکہ الفاظ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کی ابتدائی سزا صرف تعزیری تھی جس کی مقدار شریعت سے متعین نہیں ہوئی بلکہ قاضی یا امیر کی صوابدید پر موقوف تھی اس لئے ایذا دینے کا مبہم لفظ اختیار فرمایا گیا مگر ساتھ ہی اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ ان مجرموں کے لئے سزا کا کوئی اور طریقہ جاری کیا جائے۔ جب سورة نور کی آیت مذکورہ نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ سورة نساء میں جو وعدہ کیا گیا تھا اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا یعنی یہ کہ " یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور سبیل بتادے " تو سورة نور کی اس آیت نے وہ سبیل بتلا دی یعنی سو کوڑے مارنے کی سزا عورت مرد دونوں کیلئے متعین فرما دی۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابن عباس نے سو کوڑے مارنے کی سزا کو غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے مخصوص قرار دے کر فرمایا۔- یعنی الرجم للثیب و الجلد للبکر (صحیح بخاری کتاب التفسیر صفحہ ٦٥٧)- یعنی وہ سبیل اور سزائے زنا کی تعیین یہ ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت سے یہ گناہ سرزد ہو تو ان کو سنگسار کر کے ختم کیا جائے اور غیر شادی شدہ کے سو کوڑے مارنا سزا ہے۔- ظاہر ہے کہ سورة نور کی مذکورہ آیت میں تو بغیر کسی تفصیل کے سزائے زنا سو کوڑے ہونا مذکور ہے۔ اس حکم کا غیر شادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص ہونا اور شادی شدہ کے لئے رجم یعنی سنگساری کی سزا ہونا ان کو کسی دوسری دلیل حدیث سے معلوم ہوا ہوگا اور وہ حدیث صحیح مسلم، مسند احمد سنن نسائی، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عبادہ ابن صامت کی روایت سے اس طرح آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکر بالبکر جلد مائة و تغریب عام و الثیب بالثیب جلد مائة و الرجم۔ (ابن کثیر)- مجھ سے علم حاصل کرلو مجھ سے علم حاصل کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے زانی مرد و عورت کے لئے وہ سبیل جس کا وعدہ سورة نساء کی آیت میں ہوا تھا اب سورة نور میں فرما دی ہے وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سکوڑے اور سال بھر جلاوطنی اور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سو کوڑے اور سنگساری۔- غیر شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے جو آیت نور میں مذکور ہے اس حدیث میں اس کے ساتھ ایک مزید سزا کا ذکر ہے کہ مرد کو سال بھر کے لئے جلاوطن بھی کردیا جائے اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ یہ سال بھر کی جلاوطنی کی سزا مرد زانی کو سو کوڑوں کی طرح لازمی ہے یا قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ ضرورت سمجھے تو سال بھر کے لئے جلا وطن بھی کر دے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہی آخری صورت صحیح ہے یعنی حاکم کی رائے پر موقوف ہے۔ دوسری بات اس حدیث میں یہ ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سنگساری سے پہلے سو کوڑوں کی سزا بھی ہے مگر دوسری روایات حدیث اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اکثر خلفاء راشدین کے تعامل سے ثابت یہ ہے کہ یہ دونوں سزائیں جمع نہیں ہوں گی۔ شادی شدہ پر صرف سزائے سنگساری جاری کی جائے گی۔ اس حدیث میں خاص طور پر یہ بات قابل نظر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا کی تفسیر فرمائی ہے۔ اور تفسیر میں جو بات سورة نور کی آیت میں مذکور ہے یعنی سو کوڑے لگانا۔ اس پر کچھ مزید چیزوں کا اضافہ بھی ہے اول سو کوڑے کی سزا کا غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے مخصوص ہونا، دوسرے سال بھر کی جلاوطنی کا اضافہ تیسرے شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم و سنگساری کا حکم۔ ظاہر ہے کہ اس میں سورة نور کی آیت پر جن چیزوں کی زیادتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی وہ بھی وحی الٰہی اور حکم ربانی ہی سے تھی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى، اور پیغمبر اور ان سے براہ راست سننے والوں کے حق میں وہ وحی جو بصورت قرآن تلاوت کی جاتی ہے اور وہ وحی جس کی تلاوت نہیں ہوتی دونوں برابر ہیں۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے مجمع عام کے سامنے اس پر عمل فرمایا۔ ماعز اور غامدیہ پر سزائے رجم و سنگساری جاری فرمائی۔ جو تمام کتب حدیث میں اسانید صحیحہ کے ساتھ مذکور ہے اور حضرت ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی کی روایت صحیحین میں ہے کہ ایک غیر شادی شدہ مرد نے جو ایک شادی شدہ عورت کا ملازم تھا اس کے ساتھ زنا کیا۔ زانی لڑکے کا باپ اس کو لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ واقعہ اقرار سے ثابت ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا قضین بینکم بکتاب اللہ، یعنی میں تم دونوں کے معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ پھر یہ حکم صادر فرمایا کہ زانی لڑکا جو غیر شادی شدہ تھا اس کو سو کوڑے لگائے جاویں اور عورت شادی شدہ تھی اس کو رجم و سنگسار کرنے کے لئے حضرت انیس کو حکم فرمایا انہوں نے خود عورت سے بیان لیا اس نے اعتراف کرلیا تو اس پر بحکم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجم و سنگساری کی سزا جاری ہوئی (ابن کثیر)- اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کو سو کوڑے لگانے کی دوسرے کو سنگسار کرنے کی سزا دی اور دونوں سزاؤں کو قضاء بکتاب اللہ فرمایا، حالانکہ آیت سورة نور میں صرف کوڑوں کی سزا کا ذکر ہے، سنگساری کی سزا مذکور نہیں۔ وجہ وہی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح اور تفصیلی حکم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا تھا وہ سارا کتاب اللہ ہی کے حکم میں ہے گو اس میں سے بعض حصہ کتاب اللہ میں مذکور اور متلو نہیں۔ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں حضرت فاروق اعظم کا خطبہ بروایت ابن عباس مذکور ہے صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔- قال عمر بن خطاب و ھو جالس علی منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اللہ بعث محمدا صلے اللہ علیم وسلم بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ علیہ ایة الرجم قرانا ھا وعیناھا وعقلناھا فرجم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل ما نجد الرجم فی کتاب اللہ تعالیٰ فیضلوا بترکہ فریضة انزلھا اللہ وان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنا اذا احصن من الرجال و النساء اذا قامت البینة او کان الحبل او الاعتراف (مسلم ص ٦٥ ج ٢)- حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جبکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر تشریف رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ پر نازل ہوا اس میں آیت رجم بھی ہے جس کو ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد رجم کیا، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یوں نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ ایک دینی فریضہ چھوڑ دینے سے گمراہ ہوجاویں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور سمجھ لو کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے اس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اس کے زنا پر شرعی شہادت قائم ہوجائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے۔- یہ روایت صحیح بخاری میں بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے (بخاری ١٠٠٩ جلد ٢) اور نسائی میں اس روایت کے بعض الفاظ یہ ہیں۔- انا لا نجد من الرجم بداً فانہ حد من حدود اللہ الا وان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قد رجم و جمنا بعدہ ولو لا ان یقول قائلون ان عمر زاد فی کتاب اللہ ما لیس فیہ تکبت فی ناحیة المصحف و شھد عمر بن الخطاب و عبد الرحمن بن عوف و فلان و فلان ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجم و رجمنا بعدہ الحدیث (ابن کثیر)- زنا کی سزا میں ہم شرعی حیثیت سے رجم کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے خوب سمجھ لو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد بھی رجم کیا۔ اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کہنے والے کہیں گے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا ہے تو میں قرآن کے کسی گوشہ میں بھی اس کو لکھ دیتا۔ اور عمر بن خطاب گواہ ہے عبد الرحمن بن عوف گواہ ہیں اور فلاں فلاں صحابہ گواہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا۔- حضرت فاروق اعظم کے اس خطبہ سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم رجم کی کوئی مستقل آیت ہے جو سورة نور کی آیت مذکورہ کے علاوہ ہے مگر حضرت فاروق اعظم نے اس آیت کے الفاظ نہیں بتلائے کہ کیا تھے۔ اور نہ یہ فرمایا کہ اگر وہ اس آیت نور کے علاوہ کوئی مستقل آیت ہے تو قرآن میں کیوں نہیں اور کیوں اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ صرف اتنا فرمایا کہ اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھ پر کتاب اللہ میں زیادتی کا الزام لگائیں گے تو میں اس آیت کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔ (کما رواہ النسائی)- اس روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وہ واقعی قرآن کی کوئی آیت ہے اور دوسری آیات کی طرح اس کی تلاوت واجب ہے تو فاروق اعظم نے لوگوں کی بدگوئی کے خوف سے اس کو کیسے چھوڑ دیا جبکہ ان کی شدت فی امر اللہ معروف و مشہور ہے اور یہ بھی قابل غور ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس آیت کو قرآن میں داخل کردیتا بلکہ ارشاد یہ فرمایا کہ میں اس کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔- یہ سب امور اس کے قرائن ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے سورة نور کی آیت مذکورہ کی جو تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی جس میں آپ نے سو کوڑے لگانے کے حکم کو غیر شادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص فرمایا اور شادی شدہ کے لئے رجم کا حکم دیا۔ اس مجموعی تفسیر کو اور پھر اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعامل کو کتاب اللہ اور آیت کتاب اللہ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا اس معنی میں کہ آپ کی یہ تفسیر و تفصیل بحکم کتاب اللہ ہے وہ کوئی مستقل آیت نہیں۔ ورنہ حضرت فاروق اعظم کو کوئی طاقت اس سے نہ روک سکتی کہ قرآن کی جو آیت رہ گئی ہے اس کو اس کی جگہ لکھ دیں۔ حاشیہ پر لکھنے کا جو ارادہ ظاہر فرمایا وہ بھی اسی کی دلیل ہے کہ درحقیقت وہ کوئی مستقل آیت نہیں بلکہ آیت سورة نور ہی کی تشریح میں کچھ تفصیلات ہیں۔ اور بعض روایات میں جو اس جگہ ایک مستقل آیت کے الفاظ مذکور ہیں وہ اسناد و ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ میں نہیں کہ اس کی بنا پر قرآن میں اس کا اضافہ کیا جاسکے۔ حضرات فقہاء نے جو اس کو منسوخ التلاوة غیر منسوخ الحکم کی مثال میں پیش کیا ہے وہ مثال ہی کی حیثیت میں ہے اس سے درحقیقت اس کا آیت قرآن ہونا ثابت نہیں ہوتا۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورة نور کی آیت مذکورہ میں جو زانیہ اور زانی کی سزا سو کوڑے لگانا مذکور ہیں یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل تشریح و تصریح کی بنا پر غیر شادی شدہ لوگوں کے لئے مخصوص ہے۔ اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے۔ یہ تفصیل اگرچہ الفاظ آیت میں مذکور نہیں مگر جس ذات اقدس پر یہ آیت نازل ہوئی خود ان کی طرف سے ناقابل التباس وضاحت کے ساتھ یہ تفصیل مذکور ہے اور صرف زبانی تعلیم و ارشاد ہی نہیں بلکہ متعدد بار اس تفصیل پر عمل بھی صحابہ کرام کے مجمع کے سامنے ثابت ہے اور یہ ثبوت ہم تک تواتر کے ذریعہ پہنچا ہوا ہے۔ اس لئے شادی شدہ مرد و عورت پر سزائے رجم کا حکم درحقیقت کتاب اللہ ہی کا حکم اور اسی کی طرح قطعی اور یقینی ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم کتاب اللہ کا حکم ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم سنت متواترہ سے قطعی الثبوت ہے جیسا کہ حضرت علی سے یہی الفاظ منقول ہیں کہ رجم کا حکم سنت سے ثابت ہے اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔- ایک ضروری تنبیہ :- اس مقام پر جہاں جہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے الفاظ احقر نے لکھے ہیں ان الفاظ کو ایک آسان تعبیر کی حیثیت سے لکھا گیا ہے۔ اصلی الفاظ محصن اور غیر محصن، یا ثیب اور بکر کے حدیث میں آئے ہیں۔ اور محصن کی شرعی تعریف اصل میں یہ ہے کہ جس شخص نے نکاح صحیح کے ساتھ اپنی زوجہ سے مباشرت کرلی ہو اور وہ عاقل بھی ہو۔ مراد احکام میں سب جگہ یہی مفہوم ہے تعبیر کی سہولت کے لئے شادی شدہ کا لفظ لکھا جاتا ہے۔- سزائے زنا میں تدریج کے تین درجے :- مذکورہ بالا روایات حدیث اور آیات قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا زنا کی سزا ہلکی رکھی گئی کہ قاضی یا امیر اپنی صوابدید پر اس جرم کے مرتکب مرد و عورت کو ایذا پہنچائے، اور عورت کو گھر میں مقید رکھا جائے، جیسا کہ سورة نساء میں اس کا حکم آیا ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جس کا حکم سورة نور کی اس آیت میں آیا ہے کہ دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جاویں۔ تیسرا درجہ وہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا کہ سو کوڑوں کی سزا پر ان لوگوں کے لئے اکتفا کیا جائے جو شادی شدہ نہ ہوں اور شادی شدہ مرد و عورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا رجم و سنگساری ہے۔- اسلامی قانون میں جس جرم کی سزا سخت ہے اس کے ثبوت کے لئے شرائط بھی سخت رکھی گئی ہیں : - جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ زنا کی سزا اسلام میں سب جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی قانون میں اس کے ثبوت کے لئے شرائط بھی بہت سخت رکھی گئی ہیں جن میں ذرا بھی کمی رہے یا شبہ پیدا ہوجائے تو زنا کی انتہائی سزا جس کو حد کہا جاتا ہے وہ معاف ہوجاتی ہے صرف تعزیری سزا بقدر جرم باقی رہ جاتی ہے۔ تمام معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت ثبوت کے لئے کافی ہوجاتی ہے مگر حد زنا جاری کرنے کے لئے چار مرد گواہوں کی عینی شہادت جس میں کوئی التباس نہ ہو شرط ضروری ہے جیسا کہ سورة نساء کی آیت میں گزر چکا ہے۔ دوسری احتیاط اور شدت اس شہادت میں یہ ہے کہ اگر شہادت زنا کی کوئی شرط مفقود ہونے کی بنا پر شہادت رد کی گئی تو پھر شہادت دینے والوں کی خیر نہیں۔ ان پر قذف یعنی زنا کی جھوٹی تہمت کا جرم قائم ہو کر حد قذف اسی کوڑے لگائے جانے کی صورت میں جاری کی جاتی ہے۔ اس لئے ذرا سا شبہ ہونے کی صورت میں کوئی شخص اس کی شہادت پر اقدام نہیں کرسکتا۔ البتہ جس صورت میں صریح زنا کا ثبوت نہ ہو مگر شہادت سے دو مرد و عورت کا غیر مشروع حالت میں دیکھنا ثابت ہوجائے تو قاضی ان کے جرم کی حیثیت کے مطابق تعزیری سزا کوڑے لگانے وغیرہ کی جاری کرسکتا ہے سزائے زنا اور اس کی شرائط وغیرہ کے مفصل احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔- کسی مرد یا جانور کے ساتھ فعل قبیح کا حکم : - یہ مسئلہ کہ مرد کسی مرد کے ساتھ یا جانور کے ساتھ یہ فعل کرے تو وہ زنا میں داخل ہے یا نہیں اور اس کی سزا بھی سزائے زنا ہے یا کچھ اور، اس کی تفصیل سورة نساء کی تفسیر میں گزر چکی ہے کہ اگرچہ لغت اور اصطلاح میں یہ فعل زنا نہیں کہلاتا اور اسی لئے اس پر حد زنا کا اطلاق نہیں ہوتا مگر اس کی سزا بھی اپنی سختی میں زنا کی سزا سے کم نہیں۔ صحابہ کرام نے ایسے شخص کو زندہ جلا دینے کی سزا دی ہے۔- لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ ، سزائے زنا چونکہ بہت سخت ہے اور اس کا احتمال ہے کہ سزا جاری کرنے والوں کو ان پر رحم آجائے سزا کو چھوڑ بیٹھیں یا کم کردیں اس لئے اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ دین کے اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں مجرموں پر رحم اور ترس کھانا جائز نہیں۔ رافت و رحمت اور عفو و کرم ہر جگہ محمود ہے مگر مجرموں پر رحم کھانے کا نتیجہ ساری خلق خدا کے ساتھ بےرحمی ہے اس لئے ممنوع و ناجائز ہے۔- وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ ، یعنی سزائے زنا جاری کرنے کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے۔ اسلام میں سب سزاؤں اور خصوصاً حدود کو منظر عام پر جاری کردینے کا طریقہ رائج ہے تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو مگر ایک جماعت کو اس میں حاضر و موجود رہنے کا حکم یہ بھی سزائے زنا کی خصوصیت ہے۔- اسلام میں ابتداء جرائم کی پردہ پوشی کا حکم ہے لیکن جب معاملہ شہادت سے ثابت ہوجائے تو پھر مجرموں کی پوری رسوائی بھی عین حکمت قرار دی گئی ہے :- فواحش اور بےحیائی کی روک تھام کیلئے شریعت اسلام نے دور دور تک پہرے بٹھائے ہیں عورتوں پر پردہ لازم کردیا گیا۔ مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا۔ زیور کی آواز یا عورت کے گانے کی آواز کو ممنوع قرار دیا گیا کہ وہ بےحیائی کے لئے محرک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جس شخص سے ان معاملات میں کوتاہی دیکھی جائے اس کو خلوت میں تو سمجھانے کا حکم ہے مگر اس کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں۔ لیکن جو شخص ان تمام شرعی احتیاطوں کو توڑ کر اس درجہ میں پہنچ گیا کہ اس کا جرم شرعی شہادت سے ثابت ہوگیا تو اب اس کی پردہ پوشی دوسرے لوگوں کی جرأت بڑھانے کا موجب ہو سکتی ہے اس لئے اب تک جتنا اہتمام پردہ پوشی کا شریعت نے کیا تھا اب اتنا ہی اہتمام اس کی تفضیح اور رسوائی کا کیا جاتا ہے اسی لئے زنا کی سزا کو صرف منظر عام پر جاری کرنے پر کفایت نہیں فرمائی بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو اس میں حاضر اور شریک رہنے کا حکم دیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (مستکبرین بہ سامراً تھجرون اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھاٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے) لفظ تھجرون کی ایک قرأت حرف تاء کے فتحہ اور حرف جیم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ ایک قرأت کے مطابق حرف تاء مضموم اور حرف جیم مکسور ہے۔ اس لفظ کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ تم حق سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ “ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” تم بکواس کرتے ہو۔ “ ھجر بکواس کرنے کو کہتے ہیں۔ جن حضرات نے پہلی قرأت کی ہے ان کے نزدیک یہ لفظ ھجر بمعنی چھوڑنا سے ہی نکلا ہے جیسا کہ حضرت ابن بع اس وغیرہ سے مروی ہے۔ جب مریض بیماری کے دبائو میں آ کر ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور ہذیانی انداز میں باتیں کریں تو کہا جاتا ہے۔ ” اھجر المریض “ ایک قول کے مطابق لفظ (سامراً ) کو واحد کے صیغے میں بیان کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ظرفیت کے معنی ادا کر رہا ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے ۔” لیلا تھجرون “ (تم رات کے وقت بکواس کرتے رہتے ہو) مشرکین کی عادت تھی کہ رتا کے وقت کعبہ کے ارد گرد ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے اور دنیا بھر کی گپیں ہانکتے (ایک قول کے مطابق اس لفظ کے معنی اگرچہ سماء یعنی اکٹھے بیٹھ کر گپ ہانکنے کے ہیں لیکن لفظ (سامراً ) اس لئے واحد لایا گیا ہے کہ یہ مصدر کے مقام میں ہے جس طرح کہا جاتا ہے ” قوموا قیاماً (کھڑے ہو جائو)- رات کو گپیں ہانکنا شیوئہ مومن نہیں - یعنی رات کے وقت باتیں کرنے اور گپیں ہانکنے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ شعبہ نے ابو المنہال سے، انہوں نے حضرت ابوبرزہ اسلمی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے کو اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے شعبہ نے منصور سے، انہوں نے خزیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے (الا سمو الالرجلین مضل او مسافر۔ دو شخصوں کے سوا کسی کے لئے رات کو باتیں کرنا درست نہیں ہے ایک نمازی اور دوسرا مسافر ) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ باتیں کرنے کے متعلق رخصت والی روایتیں بھی موجود ہیں۔ اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی نہ کسی معاملے پر رتا کے وقت تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی بھی آدھی آدھی رات تک باتیں کرتے رہتے تھے۔- مسجد میں حد جاری کرنا - امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ مساجد میں حدود جاری نہیں کیے جائیں گے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف کا کہنا ہے کہ قاضی ابن ابی لیلیٰ نے مسجد میں حد جاری کی تھی۔ امام ابوحنیفہ نے ان کے اس اقدام کو غلط قرار دیا۔ امام مالک کا قول ہے کہ تادیب کے طور پر مسجد میں پانچ کوڑے وغیرہ لگا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر سخت پٹائی مقصود ہو اور حد جاری کرتا ہو تو پھر یہ کام مسجد میں نہیں کیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن مسلم المل کی نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لاتقام الحدود فی المساجد ولا یقتل یا لولدا الوالد۔ مساجد میں حدود جاری نہیں کیے جائیں گے اور بیٹے کے بدلے باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ (جنبوا مساجد کم صبیا نکم ومجا نینکم ورفع اصواتکم وشواکم وبیعکم واقامۃ حدود کم وجمود ھا فی جمعکم وضعوا علی ابوایھا المطاھر اپنے بچوں اور پاگلوں کو مساجد سے دور رکھو ان میں اپنی آوازیں بلند کرنے، خرید و فروخت کرنے اور حدود جاری کرنے سے پرہیز کرو۔ جمعہ کے دنوں میں مساجد کو دھونی دو اور مساجد کے دروازوں پر پاک کرنے والی چیزیں یعنی پانی وغیرہ رکھو) نظر اور قیاس کی جہت سے بھی مساجد میں حدود ہماری کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ اس لئے کہ جب کسی شخص پر حد جاری کی جائے گی تو اس بات کا خطرہ ہوگا کہ ضربات کی تکلیف سے کہیں اس کے جسم سے ایسی نجاست وغیرہ خارج نہ ہوجائے جس سے مسجدکو پاک رکھنا ضروری ہوتا ہے۔- اس شخص کا حکم جو عمل قوم لوط کا ارتکاب کرتا ہے - امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ لواطت کے مرتکب کو تعزیر کی جائے گی اور اسے حد نہیں لگائی جائے گی امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو سنگسار کردیا جائے گا خواہ یہ محصن ہوں یا غیر محصن ہوں۔ عثمان الیتی ، جس بن صالح، امام ابو یوسف، امام محمد اور شافعی کا قول سے کہ لواطت کی حیثیت زنا جیسی ہے حسن، ابراہیم اور عطا کا بھی یہی قول ہے۔ ابولکرحبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا یحل دام اموسیٰ مسلم الاباحدی ثلاث زنا بعد احصان وکفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس۔ ایک مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورتوں میں سے ایک صورت کے اندر حلال ہوتا ہے۔ صفت احصان سے متصف ہونے کے بعد زنا کاری کرے۔ ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے اور کسی کو ناحق قتل کردے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمان کے قتل کو تین باتوں میں سے کسی ایک بات تک محدود کردیا۔ لواطت کا مرتکب اس سے خارج ہے اس لئے کہ لواطت زنا نہیں ہے۔- اگر لواطت کو زنا قرار دینے والے حضرات اس روایت سے استدلال کریں جس کے راوی عاصم بن عمرو ہیں، انہوں نے سہیل سے، انہوں نے ابو صالح سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (الذی یعمل عمل قوم لوط فارجسموالا علی والا سقل وارجموھا جمیعا جو شخص عمل قوم لوط کا ارتکاب کرے تو اعلیٰ اور اسفل یعنی فاعل ومفعول دونوں کو رجم کردو) نیز اس روایت سے جسے الدرادردی نے عمر وبن ابی عمرو سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من وجدتھوہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا المفاعلی والمفعول بہ جس شخص کو تم عمل قوم لوط کا مرکتب پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو تو اس استدلال کے جواب میں کہا جائے گا کہ عاصم بن عمرو اور عمرو بن ابی عمرو دونوں ضعیف راوی ہیں۔- اس کی روایت کی بنیاد پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی حد کا نفاذ جائز ہے۔ یہاں یہ کہنا جائز ہے کہ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجاتی تو اس کے حکم پر اس وقت عمل ہوتا جب فاعل اور مفعول دونوں لواطت کو حلال سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب سب کرتے۔ ہمارا بھی یہی قول ہے کہ جو شخص اس فعل قبیح کو حلال سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے گا وہ قتل کا سزاوار قرار پائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ( فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں قتل کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جارہی ہے آپ کے اس ارشاد کی حیثیت آپ کے ارشاد : (من بدل دینہ فاقتلوہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرلے اسے قتل کردو) کی طرح ہے۔ اس لئے کہ لواطت کے مرتکب کس سزا علی الاطلاق قتل نہیں ہے بلکہ جو حضرات اسے زنا جیسا فعل قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی سزا رجم ہے بشرطیکہ مجرم محصن ہو اور جو حضرات اس فعل کو زنا کی حیثیت نہیں دیتے اور اس کے فاعل کے قتل کو واجب قرار دیتے ہیں وہ رجم کے طور پر اس پر قتل کا حکم عائد کرتے ہیں۔ اسی طرح لواطت کے مرتکب کو علی الا طلاق قتل کردینا کسی کا بھی قول نہیں ہے۔ اگر لواطت کی حیثیت زنا جیسی ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محصن اور غیر محضن کے حکم میں فرق ضرور رکھتے۔ آپ نے ان دونوں میں فرق نہیں رکھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس پر قتل کی سزا حد کے طور پر واجب نہیں کی ہے۔- ایسا شخص جو کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا حکم - امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور عثمان البتی کا قول ہے ایسے شخص کی تعزیر کی جائے گی، اس پر حد جاری نہیں ہوگی، حضرت ابن عمر (رض) سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اوزاعی کا وقل ہے کہ اس پر حد جاری کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لا یحل دمرا مری مسلم الا یاحدی ثلاث زنا بعداحصان وکفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس) اس فعل کے مرتکب کے قتل کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ لغت کے لحاظ سے یہ فعل زنا نہیں کہلاتا۔ اور قیاس کے طور پر اس کا اثبات جائز نہیں ہے۔ عمرو بن ابی عمرو نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من وجدتموہ علی بھیمۃ فاقتلوہ واقتلوا لبھیمۃ۔ جس شخص کو تم کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کرتے پائو اسے قتل کردو اور چوپائے کو بھی مار ڈالو) اس روایت کا راوی عمرو بن ابی عمرو ضعیف ہے۔ اس کی روایت کی بنیاد پر کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی۔- اس کے ساتھ شعبہ، سفیان اورک ابوعوانہ کی روایت بھی ہے جو انہوں نے عاصم سے نقل کی ہے انہوں نے، انہوں نے ابورزین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ” جو سخص کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب کرے اس پر کوئی حد نہیں۔ “ اس روایت کو اسرائیل، ابوبکر بن عیاش، ابوالاحوص اور شریک تمام راویوں نے عاصم سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے ابوزرین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی روایت کی ہے۔ اگر عمروبن ابی عمرو کی روایت درست ہوتی تو حضرت ابن عباس (رض) اس کے خلاف روایت نہ کرتے جبکہ انہوں نے خود دوسروں تک اس کی روایت کی ہے۔ تاہم اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو اسے اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب اس فعل کا مرتکب اسے حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتا ہو۔- فصل - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ایک طائفہ شاذہ نے جو کسی شمار وقطار میں نہیں یعنی خوارج نے رجم کا انکار کیا ہے، حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رجم کا ثبوت ہے۔ آپ نے رجم کا حکم دیا تمام لوگوں نے اسے نقل کیا اور اس سلسلے میں اس کثرت سے روایت ہوئی کہ اس کے متعلق شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ امت کا اس حکم پر اجماع ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) ، حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت زید بن خالد (رض) نیز دوسرے صحابہ (رض) نے رجم کے حکم کی روایت کی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے خطبہ کے دوران فرمایا تھا ” اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا ہے تو میں اس حکم کو مصحف میں لکھ دیتا۔ “- درج بالا رایوں میں سے بعض حضرات نے ماعز کے رجم کا واقعہ نقل کیا ہے اور بعض نے جہینیہ اور غامدیہ (دو عورتوں کے نام جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ارتکاب زنا کی بنا پر رجم کردیا گیا تھا) کے رجم کی روایت بیان کی ہے۔ ماعز کے متعلق روایت کئی احکام پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں تین مرتبہ واپس کردیا تھا جب انہوں نے چوتھی مرتبہ آپ کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تو آپ نے یہ معلوم کیا کہ ان کی عقل ٹھکانے ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا :- ” اسے جنون تو نہیں ہوگیا ؟ “ صحابہ نے عرض کیا ” نہیں “۔ پھر آپ نے ان کے منہ کی بوسونگھنے کا حکم کہ کہیں شراب نہ پی رکھی ہو اور نشے میں زنا کا اعتراف کررہے ہوں۔ پھر آپ نے ان سے کہا۔” شاید تم نے صرف ہاتھ لگایا ہو، شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہو ؟ “ لیکن جب وہ ارتکاب زنا کے صریح اعتراف پر اڑے رہے تو آپ نے ان کے احصان کے بارے میں سوال کیا۔ پھر جب پتھروں کی بارش کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی اور آپ کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” تم نے اسے بھاگنے کیوں نہیں دیا۔ “ آپ نے انہیں تین دفعہ واپس کیا پھر چوتھی مرتبہ اعتراف پر ان کی عقل کی درستی کے متعلق سوال کیا، یہ بات اسی پر دلالت کرتی ہے کہ حد زنا اس وقت تک واجب نہیں ہوتی جب تک مجرم چار مرتبہ اقرار نہ کرلے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حسدفقد وجب ۔ تم اپنے درمیان حدود کو نظر انداز کرو جس حد کے متعلق مجھے اطلاع ملے گی اس کا نفاذ واجب ہوجائے گا) اگر ایک دفعہ اقرار کی بنا پر حد واجب ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے اقرار پر بھی ماعز کے متعلق پوچھ گچھ کرتے، پھر آپ ان کے متعلق ان کے پڑوسیوں اور گھر والوں سے پوچھا کہ آیا اس کی عقل ٹھکانے ہے یا نہیں ؟- آپ کا یہ اقدام اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام المسلمین پر حد جاری کرنے میں پوری احتیاط لازم ہے نیز یہ ضروری ہے کہ تحقیق وتفتیش کے ذریعے معاملہ کی تہ تک رسائی حاصل کی جائے۔ پھر آپ نے ماعز سے پوچھا کہ زنا کیا ہے، اس کی کیفیت کیسی ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا ” شاید تم نے صرف ہاتھ لگایا ہے ۔ شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہے۔ “ اس پوری تحقیق وتفتیش سے دو حکم اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ اول یہ کہ صر ف زنا کے اعتراف پر انحصار نہیں کیا جائے گا بلکہ مجرم سے زنا کی کیفیت اور اس کا مفہوم معلوم کرنے کی پوری جستجو کی جائے گی یہاں تک کہ جب وہ اس کی کیفیت ایسے انداز میں بیان کردے گا کہ اس کے بعد اس کے زنا ہونے میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی تو پھر اس پر حد جاری کی جائے گی۔ دوم یہ کہ آپ نے ماعز سے فرمایا : ” شاید تم نے صرف اسے ہاتھ لگایا ہے، شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہے۔ “ یہ فرما کر آپ نے گویا انہیں اپنے اقرار سے رجوع کرلینے کی تلقین کی۔ آپ نے (لعلک لمست۔ شاید کہ تم نے اسے صرف ہاتھ لگایا ہے) فرما کر اس طرح لمس مراد لیا ہے جس طرح مروی ہے کہ آپ نے چور سے فرمایا تھا۔ ” میرا خیال یہ نہیں کہ اس نے چوری کی ہوگی۔ “ اس کی نظیر وہ روایت ہے جو حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ موسم حج کے دوران آپ کے پاس ایک عورت لائی گئی جسے حمل ٹھہر گیا تھا، لوگوں نے کہا اس نے زنا کیا ہے۔ عورت رو رہی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے فرمایا : ” روتی کیوں ہو، عورت کے ساتھ بعض دفعہ زیادتی ہوجاتی ہے۔ “ یہ کہہ کر آپ گویا اسے تلقین کررہے تھے کہ وہ زنا بالجبر کا اقرار کرلے۔ عورت نے آپ کو بتایا کہ وہ سوئی ہوئی تھی کہ ایک مرد اس پر سوار ہوگیا۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر میں اس عورت کو قتل کردیتا۔ یعنی رجم کا حکم جاری کردیتا تو مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ان دونوں جنگلوں کے درمیان آگ نہ داخل ہوجائے۔ پھر آپ نے اسے جانے دیا اور حد جاری نہیں کی۔ روایت ہے کہ جب شراحہ نے حضرت علی (رض) کے سامنے زنا کا ارتکاب کا اقرار کیا تو آپ نے اس سے فرمایا : شاید تم نے اپنے اوپر جبر کرکے یہ کام کیا ہو۔ “ اس نے جواب دیا : ” نہیں میں نے بخوشی اس فعل کا ارتکاب کیا تھا مجھے اس پر کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ “ یہ سن کر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : ” تم لوگوں نے ماعز کو بھاگ جانے، کیوں نہیں دیا۔ “ اقرار سے رجوع کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ جب ماعز نے اس سزا سے بچنے کی کوشش کی جس کے لئے انہوں نے شروع میں اپنی جان پیش کردی تھی تو اس موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تم لوگوں نے اسے کیوں نہ بھاگ جانے دیا۔- سزا سرعام دی جائے - قول باری ہے (والیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین اور ان کی سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے) ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے ۔ لفظ طائفہ کا اطلاق ایک مرد سے لے کر ایک ہزار تک پر ہوتا ہے پھر انہوں نے آیت (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا اگر مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں) کی تلاوت کی۔ عطاء کا قول ہے کہ طائفہ کا اطلاق دو مردوں اور ان سے زائد پر ہوتا ہے ۔ حسن اور ابوبریدہ کا قول ہے کہ طائفہ کا اطلاق دس پر ہتا ہے۔ محمد بن کعب القرظی نے قول باری (ان نعف عن طآئفۃ منکم۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کردیں گے) کی تفسیر میں کہا ہے کہ آیت کا مصداق ایک شخص تھا۔ زہری نے کہا ہے کہ ولیشھد عذابھما طائفۃ) میں تین یا اس سے زائد افراد مراد ہیں۔- قتادہ کا قول ہے مسلمانوں کے ایک گروہ کو موجود رہنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان کے لئے سزا کا یہ منظر نصیحت اور عبرت بن جائے۔ امام مالک اور لیث بن سعید سے منقول ہے کہ چار آدمی موجود ہوں کیونکہ گواہوں کی تعداد بھی چار ہوتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی موجودگی کے سلسلے میں قتادہ نے جو بات کہی ہے وہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ایک گروہ کی موجودگی کے سلسلے میں قتادہ نے جو بات کہی ہے وہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ سزا کا یہ منظر ان کے لئے نصیحت اور عبرت کا سبب بن جائے تاکہ خود مجرم آئندہ ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ پیدا ہوسکے۔ بہتر یہ ہے کہ اس موقعہ پر ایسے لوگوں کی موجودگی ہو جن کے ذریعے یہ بات خوب پھیلے اور دوسروں تک پہنچ جائے جس کے نتیجے میں لوگ ایسی حرکت سے باز رہیں۔ اس لئے کہ حدود کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ان کے خوف سے لوگ اس قسم کے جرائم سے باز رہیں اور ان میں ایسے جرائم کے ارتکاب کی ہمت ہی نہ پیدا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) غیر شادی شدہ زنا کرنے والی عورت اور غیر شادی شدہ زنا کرنے والا مرد ان میں سے ہر ایک کو زنا کرنے پر سو سو درے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر حد قائم کرنے اور حکم الہی کو ان پر نافذ کرنے میں ذرا بھی رحم نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔- اور ان دونوں کو سزا دینے کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہیے تاکہ وہ حدود اللہ کو محفوظ کرلیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ) ” - یہ اللہ کے دین اور اس کی شریعت کا معاملہ ہے۔ ایسے معاملے میں حد جاری کرتے ہوئے کسی کے ساتھ کسی کا تعلق ‘ انسانی ہمدردی یا فطری نرم دلی وغیرہ کچھ بھی آڑے نہ آنے پائے۔- (اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج) ” - یہ غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے حد ہے جو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ البتہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا رجم ہے جو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریعت اسلامی کا ایک مستقل بالذاتّ ماخذ ہے۔ رجم کی سزا کا قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ شریعت موسوی ( علیہ السلام) میں یہ سزا موجود تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سابقہ شریعت کے ایسے احکام جن کی قرآن میں نفی نہیں کی گئی اپنی امت میں جوں کے توں جاری فرمائے ہیں۔ ان میں رجم اور قتل مرتد کے احکام خاص طور پر اہم ہیں۔ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے رجم کی سزا متعدد احادیث ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ‘ خلفائے راشدین کے تعامل اور اجماع امت سے ثابت ہے۔- (وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - اس حد کو عام پبلک میں کھلے عام جاری کرنے کا حکم ہے۔ اس سے یہ اصول ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اسلامی شریعت دراصل تعزیرات اور حدود کو دوسروں کے لیے لائقِ عبرت بنانا چاہتی ہے۔ اگر کسی مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چپکے سے پھانسی دے دی جائے اور لوگ اسے ایک خبر کے طور پر سنیں تو ان کے ذہنوں میں اس کا وہ تاثر قائم نہیں ہوگا جو اس سزا کے عمل کو براہ راست دیکھنے سے ہوگا۔ اگر کسی مجرم کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جائے تو اس سے کتنے ہی لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ چناچہ اسلامی شریعت سزاؤں کے تصور کو معاشرے میں ایک مستقل سدراہ ( ) کے طور پر مؤثر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس میں بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ایک کو سزا دی جائے تو لاکھوں کے لیے باعث عبرت ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

" سورة النُّوْر حاشیہ نمبر : 2 اس مسئلے کے بہت سے قانون ، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریع الہی کا سمجھنا مشکل ہے ۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے: ( ۱ ) زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے ، یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شو ہو ، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں ۔ اس فعل کا اخلاقا برا ہونا ، یا مذہبا گناہ ہونا ، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا ، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں ۔ اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے ، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے ، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے ۔ اس عالمگیر اتفاق رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں ، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو ، اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی ، کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور نشو و نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے جد میں آنے کا سبب بنا ہ ۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا ، کیونکہ تمدن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے ، اور پھر خاندانں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہے ۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں ، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے ، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے ۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلم عہد و وفا پر مبنی نہ ہو انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ انہی وجوہ سے انسان اس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب ، ایک بڑی بد اخلاقی ، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے ۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدباب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے ۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے ، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے الجھ کر رہ گیا ہے ۔ ( ۲ ) زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم ، یعنی قانونا مستلزم سزا ہونے کا مسئلہ ہے ، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ زنا ، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں ۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن خراب کرتا گیا ہے ۔ رویہ نرم ہوتا چلا گیا ہے ۔ اس معاملہ میں اولین تساہل جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا ، یہ تھا کہ محض زنا ( ) اور زنا بزن غیر ( ) میں فرق کر کے ، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی اور صرف موخر الذکر کو جرم مسلتزم سزا قرار دیا گیا ۔ محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی مرد خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو ۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں ، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے ۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے ، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔ قدیم مصر ، بابل ، آشور ( اسیریا ) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی ۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا ، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے ۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے ۔ کتاب خروج میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو ، جس کی نسبت ( یعنی منگنی ) نہ ہوئی ہو ، پھسلا کر اس سے مباشرت کرلے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے ، لیکن اگر اس کا باپ ہرگز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے ، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق ( یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو ) اسے نقدی دے ۔ ( باب 22 ۔ آیت 16 ۔ 17 ) کتاب استثناء میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی ( تقریبا 55 روپے ) تاوان دلوایا جائے ( باب 22 ۔ آیت 28 ۔ 29 ) البتہ اگر کوئی شخص کاہن ( یعنی پروہت ، ) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے ، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی ، ( 319-2 ) یہ تخیل ہندوؤں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منوکی دھرم شاستر سے مقابلہ کر کے دیکھیے ، وہاں لکھا ہے کہ : جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضا مندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے ۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کرلے ۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے ۔ ( ادھیائے 8 اشلوک 365 ۔ 366 ) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جاسکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو ( اشلوک 377 ) دراصل ان سب قوانین میں زنا بزن غیر ہی اصل اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص ( خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو ۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ یہ تھی کہ ان دونوں نے ملک کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کردیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے ۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خرچ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے ۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کی یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے ۔ یونان اور روم میں ابتداء ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کردے ، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان وصول کرلے ۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کردیا جائے ، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی 1 3 جائداد ضبط کر کے اسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصے میں بھیج دیا جائے ۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی ۔ لیو ( ) اور مارسین ( ) کے دور میں اس سزا کو حبس دوام میں تبدیل کردیا گیا ، پھر قیصر جسٹینین نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کردیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے نکلوا لے ، ورنہ ساری عمر وہیں پڑا رہنے دے ۔ یہودی قانون میں زنا بزن غیر کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں: اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کرے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو ، تو ان دونوں کو سزا ملے ، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی ۔ ( احبار 19 ۔ 20 ) جو شخص دوسرے کی بیوی سے ، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں ۔ ( احبار 20 ۔ 10 ) اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں ۔ ( استثناء 22 ۔ 22 ) اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو ( یعنی اس کی منگنی ہو ) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں ۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا ، پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہوچکی ہو ، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبرا اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا ۔ ( استثناء 22 ۔ 22 تا 26 ) لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء ، فقہاء ، امراء اور عوام سب اس قانون کو عملا منسوخ کرچکے تھے ۔ یہ اگرچہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا اور خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا ، مگر اسے عملا نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا ، حتی کہ یہودیوں کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو ۔ حضرت عیسی علیہ السلام جب دعوت حق لے کر اٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے ( یوحنا باب 8 ۔ آیت 1 ۔ 11 ) اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسی کو کنویں یا کھائی دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کردیں ۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے ، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحت کی خاطر خدائی قانون بدل ڈالا ۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانوان پیغمبر صاحب کو ، دیکھ لینا ، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی ۔ لیکن حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر الٹ دیا ۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے ۔ یہ سنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی ۔ ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہوگیا اور حاملات شرح متین کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہوکر رہ گئی ۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کرا کے رخصت کردیا ، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ کرتے نہ اس پر کوئی شہادت قائم ہوئی تھی اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانون الہی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے ۔ عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور قصور قائم کرلیا ۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد ، غیر شادی شدہ عورت سے کرے تو یہ گناہ تو ہے ، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے ۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق خواہ وہ عورت ہو یا مرد ، شادی شدہ ہو یا دونوں شادی شدہ ہوں ، تو یہ جرم ہے ، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل عہد شکنی ہے نہ کہ محض زنا ۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہوکر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اس نے اس عہد وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا ۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طرف اپنی بیوی پر دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا ۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے ، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی دو دھاری تلوار ہے ۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کرلے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی ، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کرسکے گی ۔ اور ایسا ہی حشر اس مرد کا بھی ہوگا جو بیوی پر بے وفائی کا دعوی کر کے تفریق کی ڈگری لے ، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاح ثانی کا حق نہیں دیتا ۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریک زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے ۔ موجودہ زمانے کے مغربی قوانین جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں ، انہی مختلف تصورات پر مبنی ہیں ۔ ان کے نزدیک زنا عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو ، جرم بہرحال نہیں ہے ۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے ، جبکہ فریق ثانی کی مرضی کے خلاف زبردستی اس سے مباشرت کی جائے ۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکاب زنا ، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیے ہے ، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کرلے ۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہوتی ہے ، اور دونوں پر دعوی کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کرسکتا ہے ۔ ( ۳ ) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جرم مستلزم سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہوکر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے عہد شکنی کی یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی ، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا ، اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا ۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے جس کی اگر آزادی ہوجائے تو ایک طرف نوع انسانی کی اور دوسرے طرف تمدن انسانی کی جڑ کٹ جائے ۔ نوع کے بقاء اور تمدن کے قیام ، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابل اعتماد رابطے تک محدود ہو ۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی گنجائش موجود رہے ، کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشات نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں ، وہاں ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوں گے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے ۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے موثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے ۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بے ٹکٹ سفر کرتے تو کم درجے کا مجرم ہے ، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے ۔ ( ۴ ) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کرتا ، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے ، اور یہ قانون تعزیر اس نے محض ایک آخری چارہ کار کے طور پر تجویز کی ہے ۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں ، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے ۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے ، اسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ، اس میں قانون الہی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے ، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالی سخت باز پرس کرے گا ۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے ۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے ۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے ۔ اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تاکہ یا تو مصالحت ہوجائے ، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہوکر جہاں دل ملے نکاح کرلیں ۔ یہ سب کچھ آپ سورہ بقرہ ، سورہ نساء ، اور سورہ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اور اسی سورہ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کردیے جائیں ، حتی کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے ۔ پھر وہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے ، اس کی تحریک کرنے والے ، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہوسکتے ہیں ۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورہ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں ، اور مسلمان عورتوں کے لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کردی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت کے ساتھ بیٹھو ، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو ، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں ۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے ان تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبی کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں ۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی ، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند کیا گیا ، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کردیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں ۔ ان سب کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورہ نور میں اشاعت فحش کو بھی روکا جارہا ہے ، قحبہ گری ( ) کی قانونی بندش بھی کی جارہی ہے ، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جارہی ہے ، غض بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے جارہے ہیں تاکہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے ، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جارہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں ۔ اس سے آپ اس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے ۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیر اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کر ناجائز طریقے سے ہی اپنی خواہش نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال ادھیڑ دی جائے ، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے ان بہت سے لوگوں کو نفسیاتی آپریشن کردیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں ۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذواقین اور ذواقات اخلاقی قیود سے آزاد ہوکر مزے لوٹتے پھریں ۔ اس نقطہ نظر سے کوئی شخس اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کرلے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ کم و بیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں ردو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کرسکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مصلح بن بیٹھا ہو ، یا پھر وہ مفسد ایسا کرسکتا ہے جس کی اصل نیت اس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیم مطلق نے تجویز کی ہے ۔ بقیہ تفسیر آیت 6 پر ملاحظہ کریں "

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ وہ سزا ہے جو مرد یا عورت کے زنا کرنے پر قرآن کریم نے مقرر فرمائی ہے، اور جسے اصطلاح میں حد زنا کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشادا اور اپنے عمل سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اگر زنا کا ارتکاب کسی غیر شادی شدہ مرد یا عورت نے کیا ہو تب تو یہی سزا دی جائے گی، اور اگر اس جرم کا ارتکاب شادی شدہ مرد یا عورت نے کیا ہو، تو اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے۔ اس مسئلے کی مکمل تحقیق میری کتاب عدالتی فیصلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔