Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسئلہ رجم اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے ، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں ۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام ، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے ۔ اس میں صاف صاف ، کھلے کھلے ، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو ۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی ۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو ۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی ۔ ہاں امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، ایک نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا ، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں ۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے ۔ یہ حضرت انیس رضی اللہ عنہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے ۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا ۔ چنانچہ اس بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا رضی اللہ عنہا ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا ۔ چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی ، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے ، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا ، چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے ۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو ، خواہ عورت ہو ۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے ، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے ۔ یاد رکھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے ، قرآن میں جو نہ تھا ، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا ، جس طرح نازل ہوئی تھی ۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا ۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا ۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے ۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں ۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا ۔ کسی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا ۔ یا اسی کے مثل ۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے ، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا ۔ واللہ اعلم ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا ، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا ۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں ۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں ۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے ۔ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ، مالک رحمتہ اللہ علیہ ، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں ۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہو جائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا ۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے سنگسار کرایا ۔ مسند احمد ، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میری بات لے لو ، میری بات لے لو ، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا ۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے ۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے ۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو ، پہنچ جائے ، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے ۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو ، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی ۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے ۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر ، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں ۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے ۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت ( ولا تاخذ کم الخ ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے ۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں ۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے ۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے ۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے ۔ رجم بری چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں ۔ اسے علانیہ سزا دی جائے ، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے ۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہو جائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے ۔ عطا رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں چار ہوں ۔ زہری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں ، چار ہوں یا اس سے زیادہ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ ربیعہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں پانچ ہوں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دس ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت ، عبرت اور سزا ہو ۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] اس سورة کی پہلی آیت بطور تمہید ہے۔ جس میں صیغہ جمع متکلم کا تین بار تکرار کرکے اس سورة میں نازل کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نیز فرمایا کہ ان احکام کی حیثیت بعض سفارشات کی نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ احکام ہیں بھی ایسے جس میں کسی قسم کا الجھاؤ یا ابہام نہیں تاکہ ہر کوئی حکم تم پر مشتبہ ہوجائے۔ اور ان احکام کو تمہیں ہر وقت یاد رکھنا چاہئے بھولنا نہیں چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا :” سُوْرَةٌ“ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے اور یہ مبتدا محذوف ” ھٰذِہِ “ کی خبر ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”(یہ) ایک عظیم سورت ہے۔ “- ” اَنْزَلْنٰهَا “ (ہم نے اسے نازل کیا) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے (ہم نے ) کے ساتھ فرمایا ہے، بلکہ ” اَنْزَلْنٰهَا “ ” فَرَضْنٰهَا “ اور ” َاَنْزَلْنَا فِيْهَآ “ تینوں میں زور جمع متکلم کے صیغہ ” ہم نے “ پر ہے، یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ” ہم “ ہیں۔ اس لیے اسے کسی بےاختیار واعظ کی بات سمجھ کر ہلکا نہ سمجھ بیٹھنا، بلکہ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کی مٹھی میں ساری کائنات ہے، جو ہر جان دار کی پیشانی پکڑے ہوئے ہے اور تم مر کر بھی اس کی گرفت سے نہیں نکل سکتے۔- ” اَنْزَلْنٰهَا “ (نازل کرنے) سے ظاہر ہے کہ اسے اتارنے والا بلندی پر ہے اور اس نے اسے بلند مقام عرش سے اتارا ہے، جیسا کہ خود اس نے فرمایا : (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى) [ طٰہٰ : ٥ ] ” وہ بیحد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔ “ ان مفسروں پر افسوس ہوتا ہے جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس لیے وہ ” ہم نے نازل کیا “ کی بھی تاویل بلکہ تحریف پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت میں نہیں، نہ کسی جگہ میں ہے، وہ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ دائیں ہے نہ بائیں، نہ آگے ہے اور نہ پیچھے۔ پھر وہ کہاں ہے ؟ کہتے ہیں کسی جگہ بھی نہیں۔ مگر وہ اس فطری تقاضے کا کیا کریں گے جو ہر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اور اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائے۔ ان حضرات میں سے کئی ایسے دیدہ دلیر بزرگ بھی گزرے ہیں اور کئی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ بلکہ جو شخص یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کو یہ خوف بھی نہیں آتا کہ ان کے فتوے کی زد میں کون کون آ رہا ہے۔ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لونڈی کے ایمان کا امتحان لیتے ہوئے دو سوال کیے تھے، ایک یہ کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : ” آسمان میں۔ “ دوسرا سوال یہ کیا کہ میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : ” آپ اللہ کے رسول ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ مومنہ ہے۔ “ [ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام في الصلاۃ۔۔ : ٥٣٧ ]- وَفَرَضْنٰهَا : یعنی اس سورت میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ محض سفارشات نہیں ہیں کہ جی چاہے تو مانو، ورنہ جو جی میں آئے کرتے رہو، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن پر عمل کرنا ہم نے تم پر اور تمہارے بعد آنے والوں پر فرض کردیا ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا “ سے اس سورت کی عظمت اور اہمیت بیان کرنا مقصود ہے، یہ مقصد نہیں کہ دوسری سورتوں کی یہ شان نہیں ہے۔- وَاَنْزَلْنَا فِيْهَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : یعنی اس سورت میں ہم نے جو احکام و مسائل بیان کیے ہیں ان میں کوئی پیچیدگی یا ابہام نہیں ہے، صاف اور واضح ہدایات ہیں، جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی، تو ہم اس پر عمل کیسے کرتے ؟ اس پر زور تمہید سے اس سورت میں مذکور احکام کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ اس کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سورة نور مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی چونسٹھ آیتیں اور نو رکوع ہیں - سورة نور کی بعض خصوصیات :- اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر و حجاب کے متعلق ہیں اور اسی کی تکمیل کے لئے حد زنا کا بیان آیا۔ پچھلی سورت یعنی مومنون میں مسلمانوں کی فلاح دنیا و آخرت کو جن اوصاف پر موقوف رکھا گیا ہے ان میں ایک اہم وصف شرمگاہوں کی حفاظت تھی جو خلاصہ ہے ابواب عفت کا۔ اس سورت میں عفت کے اہتمام کے لئے متعلقہ احکام ذکر کئے گئے ہیں، اسی لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آئی ہیں۔- حضرت فاروق اعظم نے اہل کوفہ کے نام اپنے ایک فرمان میں تحریر فرمایا علموا نساء کم سورة النور، یعنی اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو ۔ - خود اس سورت کی تمہید جن الفاظ سے کی گئی ہے کہ سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا، یہ بھی اس سورت کے خاص اہتمام کی طرف اشارہ ہے۔ - خلاصہ تفسیر - یہ ایک سورت ہے جس (کے الفاظ) کو (بھی) ہم (ہی) نے نازل کیا ہے اور اس (کے معانی یعنی احکام) کو (بھی) ہم (ہی) نے مقرر کیا ہے (خواہ وہ فرض و واجب ہوں یا مندوب مستحب) اور ہم نے (ان احکام پر دلالت کرنے کے لئے) اس (سورت) میں صاف صاف آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم سمجھو (اور عمل کرو) زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد (دونوں کا حکم یہ ہے کہ) ان میں سے ہر ایک کے سو درے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے (کہ رحم کھا کر چھوڑ دو یا سزا میں کمی کردو) اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے (تاکہ ان کی رسوائی ہو اور دیکھنے سننے والوں کو عبرت ہو) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰہَا وَفَرَضْنٰہَا وَاَنْزَلْنَا فِيْہَآ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ ١- زنا - الزِّنَاءُ : وطء المرأة من غير عقد شرعيّ ، وقد يقصر، وإذا مدّ يصحّ أن يكون مصدر المفاعلة، والنّسبة إليه زَنَوِيٌّ ، وفلان لِزِنْيَةٍ وزَنْيَةٍ قال اللہ تعالی: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] ، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] ، وزنأ في الجبل بالهمز زنأ وزنوءا، والزّناء : الحاقن بوله، و «نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» «3» .- ( ز ن ی ) الزنا - عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنے کا نام زنا ہے یہ اسم مقصود ہے اگر اسے ممدور پڑھا جائے تو باب مفاعلہ کا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف نسبت کے وقت زنوی کہا جائے گا اور فلاں لزنیۃ ( بکسرہ زاو فتح آں ) کے معنی ہیں فلاں حرام زادہ ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] زافی مرد سوائے زانیہ یا مشر کہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور فاجرہ عورت سوائے فاجرہ کے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرتی ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] زانیہ عورت اور زانی مرد ۔ اور اگر مہموز اللام سے ہو جیسے زنا فی الجبل زناء وزنوء ۔ تو اس کے معنی پہاڑ پر چڑھنے کے ہوتے ہیں ۔ الزناء ۔ حاقن یعنی پیشاب روکنے والے کو کہتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ«نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» آدمی کو چاہیئے کہ حاقن ہونے کی صورت میں نماز نہ پڑھے ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) یہ سورت ہے جس کے الفاظ کو ہم نے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نازل کیا ہے اور اس کے حلال و حرام کو بھی ہم ہی نے مقرر کیا ہے اور اس صورت میں ہم نے واضح طور پر اوامرو نواہی اور فرائض و حدود کو بیان کیا ہے تاکہ تم اوامرو نواہی کو سمجھو اور حدود کو معطل نہ کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰہَا وَفَرَضْنٰہَا) ” - سورت کے آغاز کا یہ انداز تمام سورتوں میں منفرد ہے۔ ” سُوْرَۃٌ“ کا لفظ یہاں پر بطور اسم نکرہ استعمال ہوا ہے۔ اس کو اگر تفخیم کے لیے مانا جائے تو اس کے معنی یوں ہوں گے کہ یہ ایک عظیم سورت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :1 ان سب فقروں میں ہم نے پر زور ہے ۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہیں ، اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا ۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں ، اور جس کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے ۔ دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ سفارشات نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں ، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے ۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو ۔ تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جا رہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے ۔ بس یہ اس فرمان مبارک کی تمہید ( ) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس تمہید کا انداز بیان خود بتا رہا ہے کہ سورہ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فرما رہا ہے ۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani