یہ حکمت بھرے احکام ، یہ روشن ، اس قرآن کریم میں اللہ ہی نے بیان فرمائی ہیں ۔ عقلمندوں کو ان کے سمجھنے کی توفیق دی ہے ، رب جسے چاہے اپنی سیدھی راہ پر لگائے ۔
4 6 1اللہ تعالیٰ اسے نظر صحیح اور قالب صادق عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے لئے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں، اسے اختیار کر کے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ جاتا ہے۔
[٧٤] یعنی یہ جتنی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں، غور و فکر کرنے والوں کو ان سے اللہ تعالیٰ کی بخوبی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور جو ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے اسے ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ : دیکھیے اسی سورت کی آیت (٣٤) کی تفسیر۔- وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ : دیکھیے اسی سورت کی آیت (٣٥) کی تفسیر۔- 3 یہ آیت آئندہ آیات کی تمہید ہے، جن میں منافقین کا ذکر فرمایا ہے کہ یقیناً ہم نے تو کھول کر بیان کرنے والی عظیم الشان آیات نازل کی ہیں، مگر ان کے ذریعے سے صراط مستقیم کی ہدایت دینا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ آگے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جنھیں ہدایت دینا اللہ کی مشیت نہیں ہے۔
خلاصہ تفسیر - ہم نے (حق کے) سمجھانے والے دلائل ( ہدایت عام کے لئے) نازل فرمائے ہیں اور (ان عام میں سے) جس کو اللہ چاہتا ہے راہ راست کی طرف (خاص) ہدایت فرماتا ہے (کہ وہ الوہیت کے حقوق علمیہ یعنی عقائد صحیحہ اور حقوق عملیہ یعنی اطاعت کو بجا لاتا ہے ورنہ بہت سے محروم ہی رہتے ہیں) اور یہ منافق لوگ (زبان سے) دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے اور (خدا و رسول کا) حکم (دل سے) مانا پھر اس کے بعد (جب عمل کر کے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا وقت آیا تو) ان میں کا ایک گروہ (جو بہت زیادہ شریر ہے خدا و رسول کے حکم سے) سرتابی کرتا ہے (اس وقت سے وہ صورت مراد ہے کہ جب ان کے ذمہ کسی کا حق چاہتا ہو اور صاحب حق اس منافع سے درخواست کرے کہ چلو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لے چلیں اس موقع پر یہ سرتابی کرتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ آپ کے اجلاس میں جب حق ثابت ہوجاوے گا تو اسی کے موافق آپ فیصلہ کریں گے جیسا عنقریب آیت وَاِذَا دُعُوْٓا میں اس موقع کا یہی بیان آتا ہے اور تخصیص ایک فریق کی باوجودیکہ تمام منافقین ایسے ہی تھے اس لئے ہے کہ غریب غرباء کو باوجود کراہت قلبی کے صاف انکار کرنے کی جرأت و ہمت نہیں ہوا کرتی یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کو کچھ وجاہت اور قوت حاصل ہو) اور یہ لوگ بالکل ایمان نہیں رکھتے (یعنی دل میں تو کسی منافق کے بھی ایمان نہیں مگر ان کا تو وہ ظاہری ملمع شدہ ایمان بھی نہ رہا جیسا اس آیت میں ہے وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ اور اس آیت میں ہے قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ اور بیان اس حکم عدولی کا یہ ہے کہ) یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جاتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے (اور ان کے خصوم کے) درمیان میں فیصلہ کردیں تو ان میں کا ایک گروہ (وہاں حاضر ہونے سے) پہلو تہی کرتا ہے (اور ٹالتا ہے اور یہ بلانا اگرچہ رسول ہی کی طرف ہے مگر چونکہ آپ کا فیصلہ حکم خداوندی کی بناء پر ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی نسبت کردی گئی غرض جب ان کے ذمہ کسی کا حق چاہتا ہے تب تو ان کی یہ حالت ہوتی ہے) اور اگر (اتفاق سے) ان کا حق (کسی دوسرے کے ذمہ ہو) تو سر تسلیم خم کئے ہوئے (بےتکلف آپ کے بلانے پر) آپ کے پاس چلے آتے ہیں (کیونکہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں حق کا فیصلہ ہوگا اس میں ہمارا فائدہ ہے۔ آگے ان لوگوں کے اعراض اور حاضر نہ ہونے کی وجہ و اسباب چند احتمالات کے طور پر بیان کر کے اور سب احتمالات کی نفی اور ایک احتمال کا اثبات ہے) آیا (اس اعراض کا سبب یہ ہے کہ) ان کے دلوں میں (کفر یقینی کا) مرض ہے (یعنی ان کو اس کا یقین ہے کہ آپ اللہ کے رسول نہیں) یا یہ (نبوت کی طرف سے) شک میں پڑے ہیں (کہ رسول نہ ہونے کا یقین تو نہیں مگر رسول ہونے کا بھی یقین نہیں) یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرنے لگیں (اور ان کے ذمہ جو حق ہے اس سے زائد دلا دیں، سو واقعہ یہ ہے کہ ان اسباب میں سے کوئی بھی سبب) نہیں (ہے) بلکہ (اصلی سبب یہ ہے کہ) یہ لوگ (ان مقدمات میں) برسر ظلم (ہوتے) ہیں (اس لئے حضور نبوی میں مقدمہ لانا پسند نہیں کرتے کہ ہم ہار جاویں گے اور باقی اسباب سابقہ سب منفی ہیں) مسلمانوں (کی شان اور ان) کا قول تو جب ان کو (کسی مقدمہ میں) اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے یہ ہے کہ وہ (خوشی خوشی) کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے (تمہارا کلام) سن لیا اور (اس کو) مان لیا (اور پھر فوراً چلے جاتے ہیں یہ ہے علامت اس کی کہ ایسوں کا آمنا اور اطعنا کہنا دنیا میں بھی صادق ہے) اور ایسے (ہی) لوگ (آخرت میں میں بھی) فلاح پائیں گے اور (ہمارے یہاں کا تو قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانے اور اللہ سے ڈرے اور اس کی مخالفت سے بچے بس ایسے لوگ بامراد ہوں گے اور (نیز ان منافقین کی یہ حالت ہے کہ) وہ لوگ بڑا زور لگا کر قسمیں کھایا کرتے ہیں کہ واللہ (ہم ایسے فرمانبردار ہیں کہ) اگر آپ ان کو (یعنی ہم کو حکم دیں (کہ گھر بار سب چھوڑ دو ) تو وہ (یعنی ہم) ابھی (سب چھوڑ چھاڑ) نکل کھڑے ہوں آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) فرمانبرداری کی حقیقت معلوم ہے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے ( اور اس نے مجھ کو بتلا دیا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤ ْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ اور) آپ (ان سے) کہئے کہ (باتیں بنانے سے کام نہیں چلتا کام کرو یعنی) اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو (آگے اللہ تعالیٰ اہتمام شان مضمون کے واسطے خود ان لوگوں کو خطاب فرماتا ہے کہ رسول کے اس کہنے کے اور تبلیغ کے بعد) پھر اگر تم لوگ (اطاعت سے) روگردانی کرو گے تو سمجھ رکھو کہ (رسول کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) رسول کے ذمہ وہی تبلیغ (کا کام) ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا ہے۔ (جس کو وہ کرچکے اور سبکدوش ہوگئے) اور تمہارے ذمہ وہ (اطاعت کا کام) ہے جس کا تم پر بار رکھا گیا ہے (جس کو تم نہیں بجا لائے پس تمہارا ہی ضرر ہوگا) اور اگر (روگردانی نہ کی بلکہ) تم نے ان کی اطاعت کرلی (جو عین اطاعت اللہ ہی کی ہے) تو راہ پر جا لگو گے اور (بہرحال) رسول کے ذمہ صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے (آگے تم سے باز پرس ہوگی کہ قبول کیا یا نہیں۔ )
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ٠ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٤٦- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
(٤٦) ہم نے بذریعہ جبریل امین اوامرو نواہی کے واضح احکامات اور دلائل نازل فرمائے اور اللہ تعالیٰ جس کو اہل سمجھتا ہے اسے پسندیدہ دین اسلام کی طرف خاص ہدایت فرماتا ہے۔