Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منافق کی زبان اور ، دل منافقوں کا حل بیان ہو رہا ہے کہ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں ۔ عمل کچھ ہے قول کچھ ہے ۔ اس لئے کہ دراصل ایماندار نہیں ۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے ، قرآن وحدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں جیسے آیت ( الم تر الی الذین یزعمون سے صدودا ) تک کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے ۔ ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے ، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہوجائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے ، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں ۔ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں ۔ اس لئے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بے ایمانی گھر کر گئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یاخوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں ، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں ۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے ۔ دراصل یہی لوگ جابر ہیں ، ظالم ہیں ، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے ، بہت سے تھے ، انہیں جب اپنا مطلب قرآن وحدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے سے صاف انکار کر جاتے ۔ پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر سچے مومنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے ۔ وہ تو قرآن وحدیث سنتے ہی ، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب ، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بدری صحابی ہیں ۔ انصاری ہیں ، انصاروں کے ایک سردار ہیں ، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی ، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی ، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جارہا ہو ، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین ، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا ۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا ۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی ، اللہ کی ، اس کے رسول کی ، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی میں ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسلام کا مضبوط کڑا ، اللہ کی وحدانیت کی گواہی ، نماز کی پابندی ، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے ۔ جو احادیث وآثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں ۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہو جائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لئے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

471یہ منافقین کا بیان ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن دلوں میں کفر وعناد تھا یعنی اعتقاد صحیح سے محروم تھے۔ اس لئے زبان سے اظہار ایمان کے باوجود ان کے ایمان کی نفی کی گئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یعنی اپنے عمل سے اپنے قول کی خود ہی تردید کردیتے ہیں۔ ان کے دعوی کے دو جز تھے ایک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، دوسرے اطاعت کرنا۔ اب چونکہ انہوں نے منہ پھیر کر اطاعت سے انکار کردیا ہے لہذا تو یہ اپنے دعویٰ کے پہلے جز یعنی ایمان لانے کے سلسلہ میں جھوٹے ہوئے۔ اگر سچے دل سے ایمان لائے ہوتے تو کبھی اطاعت سے منہ نہ پھیرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کا بھی عمل اس کے قول یا زبانی دعویٰ کے خلاف ہو۔ حقیقتاً وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا : اس جملے کا ” وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ “ پر عطف ہے، گویا اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں جنھیں ہدایت دینا اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا، یہ وہ لوگ ہیں جو ظاہر تو اسلام کرتے ہیں لیکن دل میں کفر چھپائے ہوئے ہیں، یہ منافق لوگ ہیں۔ اس آیت کا مضمون سورة نساء کی آیات (٦٠ تا ٦٥) سے ملتا جلتا ہے، ان کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝ ٠ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٤٧- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٧) یہ آیت مبارکہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے درمیان ایک زمین کے بارے جھگڑا چل رہا تھا اور حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) کے ساتھ رسول اکرم (رض) کی خدمت میں فیصلہ کے لیے جارہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو جانے سے منع کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت فرمائی۔- کہ قوم عثمان (رض) دعوی تو کرتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر سچائی کے ساتھ ایمان لے آئے اور جس چیز کا ہمیں حکم دیا گیا اسے ہم نے دل سے مانا، پھر اس ایمان و اطاعت کے دعوے کے بعد ان کا ایک گروہ حکم الہی سے سرتابی کرتا ہے اور یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط) ” - یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہیں ‘ اطاعت کا دم بھی بھرتے ہیں لیکن اس کے بعد ان کا طرز عمل کچھ اور ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :76 یعنی اطاعت سے رو گردانی ان کے دعوائے ایمان کی خود تردید کر دیتی ہے ، اور اس حرکت سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ انہوں نے جھوٹ کہا جب کہا کہ ہم ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: منافقین چونکہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے ان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے خلاف معاندانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہتی تھیں، چنانچہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ بشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا، یہودی جانتا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق کا فیصلہ کریں گے اس لئے اس نے بشر کو پیشکش کی کہ چلو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرالیں، بشر کے دل میں چور تھا، اس لئے اس نے آپ سے فیصلہ کرانے کے بجائے ایک یہودی سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی، اس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔