Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مکار منافق اہل نفاق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم جہاد کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ بےقرار ہیں ، آپ کے حکم کی دیر ہے فرمان ہوتے ہی گھر بار بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ان سے کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے ، زبانی ڈینگیں بہت ہیں ، عملی حصہ صفر ہے ۔ تمہاری قسموں کی حقیقت بھی معلوم ہے ، دل میں کچھ ہے ، زبان پر کچھ ہے ، جتنی زبان مومن ہے اتنا ہی دل کافر ہے ۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ہیں ۔ ان قسموں کو تو یہ لوگ ڈھال بنائے ہوئے ہیں تم سے ہی نہیں بلکہ کافروں کے سامنے بھی ان کی موافقت اور ان کی امداد کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن اتنے بزدل ہیں کہ ان کا ساتھ خاک بھی نہیں دے سکتے ۔ اس جملے کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کاشیوہ چاہے نہ کہ قسمیں کھانے اور ڈینگیں مارنے کا ۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں دیکھو نہ وہ قسمیں کھاتے ہیں نہ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں ، ہاں کام کے وقت سب سے آگے نکل آتے ہیں اور فعلی حصہ بڑھ چڑھ کر لیتے ہیں ۔ اللہ پر کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل سے باخبر ہے ۔ ہر عاصی اور مطیع اس پر ظاہر ہے ۔ ہر ایک باطن پر بھی اس کی نگاہیں ویسی ہی ہیں جیسی ظاہر پر ، گو تم ظاہر کچھ کرو لیکن وہ باطن پر بھی اگاہ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یعنی قرآن اور حدیث کی اتباع کرو اگر تم اس سے منہ موڑ لو ، اسے چھوڑ دو تو تمہارے اس گناہ کا وبال میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ۔ اس کے ذمے تو صرف پیغام الہٰی پہنچانا اور ادائے امانت کر دینا ہے ۔ تم پر وہ ہے جس کے ذمے دار تم ہو یعنی قبول کرنا ، عمل کرنا وغیرہ ۔ ہدایت صرف اطاعت رسول میں ہے ، اس لئے کہ صراط مستقیم کا داعی وہی ہے جو صراط مستقیم اس اللہ تک پہنچاتی ہے جس کی سلطنت تمام زمین آسمان ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صرف پہنچادینا ہی ہے ۔ سب کا حساب ہمارے ذمے ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ ) 88- الغاشية:21 ) ، تو صرف ناصح و واعظ ہے ۔ انہیں نصیحت کر دیا کر ، تو ان کا وکیل یا داروغہ نہیں ۔ وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعیاء کی طرف وحی الہٰی آئی کہ تو بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑا ہو جا ۔ میں تری زبان سے جو چاہوں گا نکلواؤں گا ، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو آپ کی زبان سے بہ حکم الہٰی یہ خطبہ بیان ہوا ۔ اے آسمان سن ، اے زمین خاموش رہ ، اللہ تعالیٰ ایک شان پوری کرنا اور ایک امر کی تدبیر کرنے والا ہے وہ چاہتا ہے کہ جنگلوں کو آباد کردے ۔ ویرانے کو بسا دے ، صحراوں کو سرسبز بنا دے ، فقیروں کو غنی کر دے ، چرواہوں کو سلطان بنا دے ، ان پڑھوں میں سے ایک امی کو نبی بنا کر بھیجے جو نہ بدگو ہو نہ بد اخلاق ہو ، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ہو ، اتنا مسکین صفت ہو اور متواضع ہو کہ اس کے دامن کی ہوا سے چراغ بھی نہ بجھے ، جس کے پاس سے وہ گزرا ہو ۔ اگر وہ سوکھے بانسوں پر پیر رکھ کر چلے تو بھی چراچراہٹ کسی کے کان میں نہ پہنچے ۔ میں اسے بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا ، وہ زبان کا پاک ہوگا ، اندھی آنکھیں اس کی وجہ سے روشن ہوجائیں گی ، بہرے کان اس کے باعث سننے لگیں گے ، غلاف والے دل اس کی برکت سے کھل جائیں گے ۔ ہر ایک بھلے کام سے میں اسے سنواردوں گا ۔ حکمت اس کی باتیں ہوں گی ، صدق و وفا کی کی طبیعت ہوگی ، عفو ودرگزر کرنا اور عمدگی وبھلائی چاہنا اس کی خصلت ہوگی ۔ حق اس کی شریعت ہوگی ، عدل اس کی سیرت ہوگی ، ہدایت اس کی امام ہوگی ۔ اسلام اس کی ملت ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہوگا ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) گمراہی کے بعد اس کی وجہ سے میں ہدایت پھیلاوں گا ، جہالت کے بعد علم چمک اٹھے گا ، پستی کے بعد اس کی وجہ سے ترقی ہوگی ۔ نادانی اس کی ذات سے دانائی میں بدل جائے گی ۔ کمی زیادتی سے بدل جائے گی ، فقیری کو اس کی وجہ سے میں امیری سے بدل دوں گا ۔ اس کی ذات سے جداجدا لوگوں کو میں ملا دوں گا ، فرقت کے بعد الفت ہوگی ، انتشار کے بعد اتحاد ہوگا ، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا ، مختلف دل ، جداگانہ خواہشیں ایک ہو جائیں گی ۔ بیشمار بند گان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے ، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کردوں گا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی ، بیشمار بندگان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے ، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کر دونگا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی ، بھلائیوں کا حکم کرنے والی برائیوں سے روکنے والی ہوگی ، موحد مومن مخلص ہوں گے ، اللہ کے جتنے رسول اللہ کی طرف سے جو لائے ہیں یہ سب کو مانیں گے ، کسی کے منکر نہ ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

531اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہوجاؤ۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] طاعہ معروفہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا سچے دل سے عبد کیا ہو۔ وہ اطاعت کرکے دکھا دیتے ہیں اور انھیں قسمیں کھانے کی کبھی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔ قسمیں کھانے اور قسمیں کھا کر یقین دلانے اور اپنا اعتماد بحال کرنے کی تو ضرورت ہی تب پیش آتی ہے جب کسی کا اعتماد مجروح ہوچکا ہو۔ اور آئندہ بھی اس کی صحیح صورت یہ نہیں کہ بس پکی قسمیں کھا کر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ عملی طور پر اطاعت کرکے دکھا دیں۔ اس طرح قسمیں کھانے کے بغیر ہی ان کا اعتماد بحال ہوجائے گا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جتنی اور جیسی وہ اطاعت کر رہے ہیں تو وہ پہلے ہی سب کو معلوم ہے۔ پہلے بھی لوگ ایسے بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے اور یقین دہانیاں کراتے تھے۔ قسمیں کھانے کے بعد ویسی اطاعت کی ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے ؟- [٨١] یعنی تم لوگف اگر قسمیں کھا کر لوگوں کو اپنی بات کا یقین دلا بھی دو تو اللہ کے سامنے تو تمہاری ایسی چالاکیاں اور فریب کاریاں کسی کام نہیں آسکتیں۔ جو تمہاری تمام ظاہری اور باطن خباثتوں سے پوری طرح باخبر ہے اور وہ کسی وقت بھی تمہاری عیاری اور نفاق کا پردہ چاک کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۔۔ : ” جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ “ کی دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ فعل محذوف کا مصدر ہے، جو اس فعل کی تاکید کر رہا ہے : ” أَيْ أَقْسَمُوْا باللّٰہِ یَجْھَدُوْنَ أَیْمَانَھُمْ جَھْدًا “ اور ” جَھْدَ اَیْمَانِھِم “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی قسم کھانے کی زیادہ سے زیادہ جو طاقت رکھتے تھے اس کے ساتھ انھوں نے قسم کھائی۔ یہ ” جَھَدَ نَفْسَہُ “ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے اس نے اپنی جان کی آخری طاقت لگا دی۔ دوسری ترکیب یہ ہے کہ یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے : ” أَيْ أَقْسَمُوْا باللّٰہِ مُجْتَھِدِیْنَ فِيْ أَیْمَانِھِمْ “ یعنی انھوں نے قسموں میں اپنی پوری کوشش لگاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی۔ (شوکانی) یعنی منافقین کو اپنے طرز عمل کی وجہ سے احساس تھا کہ مسلمان ہماری بات کا اعتبار نہیں کرتے تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ سے زیادہ پکی قسمیں کھا کر کہا کہ اگر آپ ہمیں ہمارے گھروں اور اہل و عیال سے نکلنے کا حکم دیں تو ہم ان سے نکل جائیں گے اور اگر جہاد کا حکم دیں تو ہم ہر صورت آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلیں گے، غرض جو کہیں گے اس پر عمل کریں گے۔ درحقیقت ان کا قسم کھانا ہی اس بات کی چغلی کر رہا تھا کہ ان کی بات کا اعتبار نہیں، جیسا کہ متنبی نے کہا ہے ؂- وَ فِيْ یَمِیْنِکَ فِیْمَا أَنْتَ وَاعِدُہُ- مَا دَلَّ أَنَّکَ فِي الْمِیْعَادِ مُتَّھَمُ- ” اور تو جس بات کا وعدہ کر رہا ہے اس پر تیرے قسم کھانے میں اس بات کی دلیل ہے کہ تو اپنے وعدے میں قابل اعتبار نہیں۔ “- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دے کہ قسمیں مت کھاؤ۔- طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ : ” أَيْ الْمَطْلُوْبُ مِنْکُمْ طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ“ یعنی مطلوب تم سے قسمیں لینا نہیں بلکہ مطلوب جانے پہچانے طریقے کے مطابق فرماں برداری ہے اور یہی کافی ہے، قسموں کی ضرورت نہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے : ” طَاعَتُکُمْ طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ“ کہ قسمیں مت کھاؤ، تمہاری اطاعت جانی پہچانی اور تمہارا جھوٹ مشہور و معروف ہے، سب جانتے ہیں کہ تم کیسی اطاعت کرتے ہو۔ قسمیں کھانے سے تم مطیع نہیں بن جاؤ گے، تم جو کچھ کر رہے ہو یا کرو گے، جتنا چاہو چھپانے کی کوشش کرو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس دوسری تفسیر کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے : (يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ ۚ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ ) [ التوبۃ : ٩٦ ] ” تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہوجاؤ تو بیشک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ لَىِٕنْ اَمَرْتَہُمْ لَيَخْرُجُنَّ۝ ٠ۭ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا۝ ٠ۚ طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝ ٥٣- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - يَمِينُ ) قسم)- في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ.- الیمین - بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ- [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (واقسموا باللہ جھد ایمانھم لئن امرتھم لیخرجن قل لا تقسموا طاعۃ معروفۃ) (یہ منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ” آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں۔ “ ان سے کہو ” قسمیں نہ کھائو، تمہاری طاعت کا حال معلوم ہے “۔ مجاہد کا قول ہے ۔ یہ تمہاری زبانی طاعت ہے جس کا حال معلوم ہے، یہ عقیدے کی بنیاد پر طاعت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے ان کی جھوٹی قسموں کی خبر دی ہے۔ ایک قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ طاعت اور بھلی بات تمہاری ان قسموں سے بہتر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣) اور حضرت عثمان (رض) قسم کھا رہے ہیں کہ اگر آپ حکم دیں تو سارا مال اللہ کے راستے میں نکال دیں، آپ ان سے فرما دیجیے اطاعت وفرمانبرداری کرو جو تم پر فرض ہے اللہ تعالیٰ کو نیکی وبدی کی پوری خبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَءِنْ اَمَرْتَہُمْ لَیَخْرُجُنَّ ط) ” - منافقین سے جب بھی کسی قربانی کا تقاضا کیا جاتا یا جہاد کے لیے نکلنے کا مرحلہ آتا تو وہ بہانے تراشتے ہوئے قسمیں کھاتے کہ ہمیں فلاں مجبوری ہے ‘ فلاں مسئلہ درپیش ہے ‘ لیکن اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دیں گے تو ہم بہرحال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ضرور نکلیں گے۔ جماعتی زندگی میں یہ نمونہ آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ امیر کی طرف سے ایک واضح حکم آجانے کے بعد بھی کچھ لوگ بہانے بناتے ہیں ‘ اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں اور مجبوریاں گنوانے کے بعد یوں بھی کہتے ہیں کہ ” ویسے اگر آپ حکم دیں تو ہم حاضر ہیں “ گویا جو پہلے حکم دیا گیا ہے وہ حکم نہیں ہے ؟ امیر کی بات کو آپ حکم کیوں نہیں سمجھ رہے ؟- تو کیا جہاد کے لیے ایک واضح حکم کے بعد منافقین یہ توقع رکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ خوشامد کر کے اسے راضی کریں کہ اجی آپ ضرور جہاد کے لیے تشریف لے جائیں - (قُلْ لَّا تُقْسِمُوْاج طاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ ط) ” - جب تم لوگ مجھے اللہ کا رسول تسلیم کرنے اور مجھ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو تو باقی تمام اہل ایمان کی طرح میری اطاعت اختیار کرو۔ میری طرف سے جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اسے قبول کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :81 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان سے جو اطاعت مطلوب ہے وہ معروف اور معلوم قسم کی اطاعت ہے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو ، نہ کہ وہ اطاعت جس کا یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پڑے اور پھر بھی یقین نہ آ سکے ۔ جو لوگ حقیقت میں مطیع فرمان ہوتے ہیں ان کا رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوتا ۔ ہر شخص ان کے طرز عمل کو دیکھ کر محسوس کر لیتا ہے کہ یہ اطاعت گزار لوگ ہیں ۔ ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ اسے رفع کرنے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پیش آئے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :82 یعنی یہ فریب کاریاں مخلوق کے مقابلے میں تو شاید چل بھی جائیں مگر خدا کے مقابلے میں کیسے چل سکتی ہیں جو کھلے اور چھپے سب حالات ، بلکہ دلوں کے مخفی ارادے اور خیالات تک سے واقف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

40: جب جہاد کا موقع نہ ہوتا تو یہ منافق لوگ منہ بھر بھر کر قسمیں کھاتے تھے کہ اگر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا تو یہ جہاد کے لئے اپنے گھروں سے نکل کر کھڑے ہوں گے، لیکن جب وقت آتا تو کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے جہاد سے جان چھڑا لیتے تھے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ تمہاری فرماں برداری کی حقیقت تو سب کو معلوم ہے۔ باربار تجربہ ہوچکا ہے کہ وقت پڑنے پر تمہاری ساری قسمیں دَھری رہ جاتی ہیں۔