Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقوٰی سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : ” وَيَتَّقْهِ “ اصل میں ” یَتَّقِیْہِ “ تھا، آیت کے شروع میں اسم جازم ” مَن “ کی وجہ سے اس کی یاء گرگئی اور لفظ ” یَتَّقِہِ “ ہوگیا، جس میں قاف اور ہاء دونوں پر کسرہ ہے، پھر تخفیف کے لیے قاف کو ساکن کردیا، جیسے ” کَتْفٌ“ کی تاء کو ساکن کیا گیا۔ (ابوالسعود) یعنی صرف باہمی جھگڑے کے لیے ہی نہیں بلکہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور کوئی کوتاہی ہوجائے تو اللہ سے ڈرے، اس گناہ سے توبہ کرے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور جو ایسا کریں سو وہی مراد پانے والے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فوز و فلاح کے لئے چار شرطیں :- وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ اس آیت میں چار چیزیں بیان کر کے فرمایا ہے کہ جو ان چار چیزوں کے پابند ہیں وہ ہی بامراد اور دین و دنیا میں کامیاب ہیں۔- ایک واقعہ عجیبہ :- تفسیر قرطبی میں اس جگہ ایک واقعہ حضرت فاروق اعظم کا نقل کیا جس سے ان چاروں چیزوں کے مفہوم کا فرق اور وضاحت ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم ایک روز مسجد نبوی میں کھڑے تھے اچانک ایک رومی دہقانی آدمی بالکل آپ کے برابر آ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا انا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ، حضرت فاروق اعظم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ تو کہا میں اللہ کے لئے مسلمان ہوگیا ہوں۔ حضرت فاروق اعظم نے پوچھا کیا اس کا کوئی سبب ہے اس نے کہا ہاں۔ بات یہ ہے کہ میں نے تورات، انجیل، زبور اور انبیاء سابقین کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ مگر حال میں ایک مسلمان قیدی قرآن کی ایک آیت پڑھ رہا تھا وہ سنی تو معلوم ہوا کہ اس چھوٹی سی آیت نے تمام کتب قدیمہ کو اپنے اندر سمو لیا ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ فاروق اعظم نے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے ؟ تو اس رومی دہقان نے یہی آیت مذکورہ تلاوت کی اور اس کے ساتھ اس کی تفسیر بھی عجیب و غریب اس طرح بیان کی کہ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ فرائض الہیہ کے متعلق ہے۔ وَرَسُوْلَهٗ سنت نبوی کے متعلق ہے وَيَخْشَ اللّٰهَ گزشتہ عمر کے متعلق ہے وَيَتَّقْهِ آئندہ باقی عمر کے متعلق ہے۔ جب انسان ان چار چیزوں کا عامل ہوجائے تو اس کو اولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ کی بشارت ہے اور فائزہ وہ شخص ہے جو جہنم سے نجات پائے اور جنت میں اس کو ٹھکانا ملے۔ فاروق اعظم نے یہ سن کر فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کے کلام میں اس کی تصدیق موجود ہے آپ) نے فرمایا ہے اوتیت جوامع الکلم یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے جامع کلمات عطا فرمائے ہیں جن کے الفاظ مختصر اور معانی نہایت وسیع ہیں۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝ ٥٢- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) اور اگلی آیت بھی حضرت عثمان بن عفان (رض) کے بارے میں ان کی اس درخواست پر نازل ہوئی، انہوں نے عرض کیا تھا اللہ کی قسم یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کی رضا ہو تو میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خیرات کر دوں، چناچہ اللہ تعالیٰ ان کی تعریف میں فرما رہے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور سابقہ چیزوں پر اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور آئندہ اس کی مخالفت سے بچے، ایسے ہی حضرات جنت حاصل کر کے بامراد اور دوزخ سے دور ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani