عروج اسلام لازم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا ، لوگوں کا سردار بنا دے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے ۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے ، حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی ۔ مکہ ، خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا ۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی ، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا ۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے ۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے ، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا ۔ اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے ۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا ، آپ کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھالی ، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا ، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا ۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے ، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا ۔ بصری ، دمشق ، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا ۔ آپ کی قوت ، طبیعت ، آپ کی نیکی ، سیرت ، آپ کے عدل کا کمال ، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے ۔ تمام ملک شام ، پورا علاقہ مصر ، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا ۔ سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑگئے ، خود کسری کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی ۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا ۔ قیصر کو فنا کر دیا ۔ مٹا دیا ۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے ۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصی مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں ۔ اندلس ، قبرص ، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے ۔ کسری قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی ۔ دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی ۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے ۔ قرآن کے جمع کرنے ، اس کے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں ۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے ۔ ( مسلمانو رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے ۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا ، لیٹا رہے ۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین آمین ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے ( مسلم ) آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجم کیا گیا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے ۔ سب کے سب قریشی ہوں گے ، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے ، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں ۔ چنانچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں ۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا ۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا ، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا ، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا ۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا ۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اہل اسلام بہت خائف تھے ۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں ، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے ۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے ۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابو بکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک ۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا ۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 26 ) 8- الانفال:26 ) ، یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا ۔ پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا آیت ( عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ١٢٩ۧ ) 7- الاعراف:129 ) ، بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے ۔ اور آیت میں ہے ( وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ Ĉۙ ) 28- القصص:5 ) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بطور وفد آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھاہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا ۔ یقین مان کہ کسری بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے ۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں ۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسری کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقینا پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔ مسند میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اسکا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے ۔ ( بخاری ومسلم ) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے ۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے ۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی ۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی ۔ بخاری ومسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے ۔
5 5 1بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا تھا (ان اللہ زوی لی الارض، فرایت مشارقھا ومغاربھا، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا) (صحیح مسلم ) " اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا " پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی " حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر و شرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ 5 5 2یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ 5 5 3اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
[٨٣] اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ آدم اور اس کی اولاد دنیا میں وہ نظام حیات قائم کرے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بھی اور بعد میں وقتاً فوقتاً ان کی اولاد کو بذریعہوحی بتلا بھی دیا تھا۔ اور نظام خلاف کے قائم کرنے کے لئے جو اوصاف درکار تھے وہ سب آدم اور اس کی اولاد کی فطرت میں ودیعت کردیئے گئے تھے۔ ساتھ ہی انسان کو قوت ارادہ و اختیار بھی دیا گیا۔ اور اسی میں حضرت انسان کی آزمائش رکھ دی گئی کہ آیا وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اس مقصد خلافت کو پورا کرتا ہے یا نہیں ؟ اور چونکہک ایسے اوصاف ہر انسان کی فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے آدم کی تمام تر اولاد خلافت کی مستحق قرار پاتی ہے۔ التبہ ان سے وہ لوگ از خود خارج ہوجاتے ہیں جو اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے تحت نہ بنائیں۔ اس آیت کی رو سے منافقین کو اس خلافت ارضی کے استحقاق سے خارج کردیا گیا اور ان لوگوں کو بھی جو سرے سے ایمان ہی نہ لائیں یا ان کے اعمال صالح نہ ہوں۔ گویا یہ استحقاق صرف ان لوگوں کے لئے باقی رہ گیا جو ایمان بھی لائیں اور اعمال بھی صالح بجا لائیں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر انھیں زمین اقتدار حاصل ہو تو وہ ایسا نظام حیات قائم کریں گے جو اللہ کے ہاں پسندیدہ اور اس کی منشاء کے مطابق ہو اور یہی لوگ اپنے میں سے کسی بہترین آدمی کو اپنا امیر یا امام یا خلیفہ بنالیں گے اور جب وہ ایسا دین یا نظام حیات قائم کرلیں گے تو اللہ ان کے دین کو اور زیادہ مضبوط بنا دے گا اور ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ شرک کو کسی قیمت پر بھی گوارا نہ کریں گے۔- اس آیت میں منکم سے اور اس سے پہلی آیات میں منافقین مدینے کے ذکر سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ وعدہ صحابہ کرام (رض) کی جماعت سے کیا جارہا ہے اور جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت تک مسلمان تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے تھے فتح خیبر کے بعد مسلمانوں کی معیشت میں صرف اس حد تک آسودگی آوی تھی کہ مہاجرین نے جو باع اور کھجوروں کے درخت معاہدہ مواخات کے تحت انصار سے مزارعت پر لئے تھے وہ انہوں نے واپس کردیئے تھے۔ اور جنگ احزاب سے پہلے تک ملمانوں کی نوخیز ریاست مدینہ کی یہ حالت تھی کہ وہاں ہر وقت کفار کے حملہ سے خوف و ہراس کی فضا چھائی رہتی تھی۔ جنگ احزاب کے خاتمہ پر البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر چڑھائی کرنے کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ اب ہم ان پر چڑھائیں کریں گے۔ مگر مدینہ سے باہر عرب میں لوٹ مار کا بازار گرم رہتا تھا اور کوئی شخص یا کوئی قافلہ خیر خیریت سے سفر نہ کرسکتا تھا۔ اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے۔۔ سے خوف اور پھر اس کے خاتمہ کی خوشخبری دی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوف کے علاوہ تنگ دستی کے خاتمہ کی بھی خوشخبری دی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے پاس بیٹھا تھا کہ دو آدمی آئے۔ ایک تنگی معیشت کی شکایت کرتا تھا اور دوسرا رہزنی کی۔ آپ نے فرمایا : عنقریب ایسا امن ہوگا کہ یہاں سے جانے والا قافلہ بغیر کسی محافظ کے جائے گا اور اے عدی بن حاتم کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہ البتہ اس کی خبر ملی ہے فرمایا : اگر تمہاری عمر زیادہ ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا میں نے دل میں سوچا : قبیلہ بن طے کے لٹیرے جنہوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے اس وقت کہاں جائیں گے۔ اور قیامت نہیں آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چکر لگائے کہ اسے کوئی لینے والا مل جائے لیکن اسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملے گا۔ اور تم لوگ کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا : کسریٰ بن ہرمز ؟ آپ نے کہا اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اور اے عدی اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو ضرور تم ایسے شخص کو دیکھو گے جو مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کرے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہ ملے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ باب الصدقہ قبل۔۔ کتاب بدء الخلق۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) حضرت عدی کہتے ہیں پھر میں نے حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرنے والی عورت کو دیکھا جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتی تھی اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب علامات النبوۃ)- ان حالات میں ایسی پیشین گوئی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری تھی چناچہ اس خوشخبری کا کچھ حصہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی پورا ہوگیا۔ فتح مکہ اور بالخصوص اعلان برات کے بعد عرب بھر سے لوٹ مار کی وارداتیں ختم ہوگئیں۔ اور صحابہ کرام (رض) کو آسودگی بھی میسر آگئی مگر عرب سے باہر ابھی تک خوف و ہراس، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی فضا قائم تھی۔ جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ اور حضرت عثمان (رض) کے زمانہ میں فی الواقعہ اتنی آسودگی ہوگئی کہ ایک شخص اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے نکلتا تو اسے کوئی مستحق زکوٰۃ شخص نہیں ملتا تھا۔- ضمناً اس آیت سے درج ذیل نتائج بھی سامنے آتے ہیں :- ١۔ صحابہ کرام (رض) نے جو نظام خلاف قائم کیا۔ وہی اللہ کے ہاں پسندیدہ دین ہے۔ اور اللہ نے اسی دین کو ان کے لئے پسند فرمایا تھا اور اس نظام خلافت کی خصوصیات سورة حج کی آیت نمبر ٤١ میں یہ بیان فرمائیں کہ ایسے مومنوں کو جب ہم اقتدار بخشتے ہیں تو نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے ہیں۔ بھلے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اعمال صالح کس قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور اس اصطلاح سے شرعاً کون سے اعمال مراد لئے جاسکتے ہیں۔- یہ وضاحت ہیں اس لئے کرنا پڑی ہے کہ بعض کج فہم حضرات اعمال صالح سے مراد صلاحیت رکھنے والے کام لیتے ہیں جیسے وہ اعمال جن سے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہو۔ اس لحاظ سے ان کے نزدیک ہر وہ قوم جو اس وقت اقتدار حاصل کئے ہوئے ہے وہی ایماندار ہے اور اسی کے اعمال صالح ہیں۔ خواہ وہ قوم کافر، مشرک یا دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ کج فکری کتاب و سنت کی تمام تر تعلیمات پر پانی پھیر دیتی ہے۔- ٢۔ یہ نظام خلافت اس قدر مضبوط ہوگیا تھا جس کی تمام روئے زمین پر دھاک بیٹھ گئی تھی۔ اور یہ دور حضرت عثمان (رض) کی شہادت تک مسلسل ترقی پذیر رہا۔ اگرچہ بعد میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات کی بنا پر ان میں انحطاط آنا شروع ہوگیا۔ تاہم یہ نظام بعد میں مدتوں چلتا رہا۔- ٣۔ اس نظام میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا، لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہر قسم کے شرک سے پاک و صاف تھی۔ ان تمام باتوں سے صحابہ کرام (رض) کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔- اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اللہ کا یہ وعدہ صرف صحابہ کرام (رض) کے لئے ہی مخصوص تھا یا بعد کے مومنوں کے لئے بھی ہے ؟ تو اس کا جواب اسی آیت میں مذکور ہے یعنی یہ وعدہ جب صحابہ کرام (رض) سے پہلے کے مومنوں کے لئے بھی تھا تو بعد میں آنے والے مومنوں کے لئے کیوں نہ ہوگا ؟ بشرطیکہ ان میں مندرجہ اوصاف پائے جائیں یعنی وہ سچے مومن ہوں، اعمال صالح بجا لائیں۔ نظام، نماز اور زکوٰۃ قائم کریں۔ اچھے کاموں کا حکم دیں۔ برے کاموں سے روکیں ان کا مقصد محض اللہ کے دین یا نظام خلافت کا قیام ہو۔ اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ان کی زندگیاں شرک سے کلیتہ پاک صاف ہوں۔ صرف اللہ سے ڈرنے والے اور اسی پر توکل کرنے والے ہوں اور باہم متحد ہو کر اور باہمی مشورہ سے کام کریں۔ اور تفرقہ بازی سے بچ رہیں۔ کیونکہ قرآن کریم تفرقہ بازی کو بھی اقسام شرک میں شمار کیا ہے۔ اگر مومن ان اوصاف کو اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ ان سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرے۔- [٨٤] یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے مومنوں یا صحابہ کرام (رض) سے ایسے وعدہ اور پکی خوشخبری کے بعد بھی ان کا ساتھ نہ دے اور کفر و نفاق کی راہ اختیار کرے تو ایسے لوگ یقیناً بدکردار ہیں اور بعض علماء نے اس فقرہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خلفائے راشدین کی خلافت قائم ہونے اور دین کے مضبطو ہونے کے بعد بھی جو شخص اس بات کا انکار کرے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام (رض) کا اختیار کردہ دین اللہ کا پسندیدہ دین نہیں تھا وہ ایسے لوگ فاسق ہیں۔
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۔۔ : منافقین کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے صرف نظر فرماتے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی ساتھیوں کو اور پناہ دینے والوں کو قتل کرتے ہیں۔ اب ایک طرف پورے عرب کے کفار کی دشمنی تھی، دوسری طرف اسلام کے دعوے دار منافقین کی سازشیں تھیں، نتیجتاً مسلمان سخت پریشان اور خوف زدہ رہتے تھے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا طرز عمل بیان کرنے اور انھیں نصیحت کرنے کے بعد مخلص مومنوں کو کئی بشارتیں دیں۔ اُبیَ بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی مدینہ میں آئے اور انصار نے انھیں جگہ دی تو سارا عرب ایک کمان کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوگیا، اس لیے مسلمان رات اسلحہ کے ساتھ گزارتے اور دن بھی اسی حال میں گزارتے، حتیٰ کہ وہ یہ کہنے لگ گئے : ” کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں گے جب ہماری راتیں امن و اطمینان سے گزریں گی، ہمیں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔ “ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْن) [ النور : ٥٥ ] [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠١، ح : ٣٥١٢، قال الحاکم صحیح الإسناد وقال الذھبي صحیح ] اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ” وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ “ کا معنی ہے، جو اس کے بعد نعمت کی ناشکری کرے گا۔ مسلمانوں کی اس خوف کی حالت کا نقشہ سورة انفال (٢٦) میں بہترین صورت میں کھینچا گیا ہے۔ - وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۔۔ : یعنی تم کھلے اور چھپے دشمن کفار و منافقین کی دشمنی سے پریشان نہ ہو، تم میں سے مخلص مومن جو اعمال صالحہ سے آراستہ ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ انھیں عرب و عجم کے کفار و مشرکین کی زمین کا وارث بنائے گا، وہ اس کے جانشین اور حکمران ہوں گے، جیسا کہ اس نے اس سے پہلے کفار و مشرکین کے بعد بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کو جزیرۂ عرب، مصر اور شام کی حکومت بخشی۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے کیا ہوا یہ وعدہ بہت تھوڑے عرصے میں پورا فرما دیا، ہجرت کے بعد دس سال کے اندر، جب کہ ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ، خیبر، بحرین، یمن اور پورے جزیرۂ عرب پر فتح عطا فرما دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجر کے مجوسیوں اور شام کے کئی علاقوں سے جزیہ وصول کرنے لگے، روم کے بادشاہ ہرقل، مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ کی خدمت میں ہدیے ارسال کیے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوئے تو خلفائے اسلام نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر چل کر انھوں نے مشرق و مغرب کا بہت سا حصہ فتح کرلیا۔ اس وقت کے سب سے مضبوط حکمران کسریٰ کے تخت پر قبضہ کرلیا اور قیصر کو اس کے مملوکہ علاقوں شام وغیرہ سے ایسا نکالا کہ اسے قسطنطنیہ میں پناہ لینا پڑی۔ مشرق میں چین اور مغرب میں افریقہ تک اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ مسلمان ان کی گردنوں اور ان کے خزانوں کے مالک بن گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی : ( إِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِيَ الْأَرْضَ ، فَرَأَیْتُ مَشَارِقَھَا وَ مَغَارِبَھَا، وَ إِنَّ أُمَّتِيْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِيَ لِيْ مِنْھَا، وَ أُعْطِیْتُ الْکَنْزَیْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ ) [ مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الأمۃ بعضہم ببعض : ٢٨٨٩ ] ” اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین لپیٹ دی تو میں نے اس کے تمام مشرق اور مغرب دیکھ لیے اور میری امت کی سلطنت اس کے ان مقامات تک پہنچے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے۔ “- وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ : یہ دوسرا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے ان کے اس دین کو اقتدار بخشے گا جو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، یعنی مسلمانوں کو ایسا اقتدار ملے گا جس میں کسی اور آئین و قانون کا نہیں بلکہ اللہ کے دین اسلام کا مکمل غلبہ ہوگا، اس میں اللہ کی بات سب سے اونچی اور اس کا بول سب سے بالا ہوگا۔ دین کا یہ اقتدار پوری دنیا پر ہوگا۔ تمیم داری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ( لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِعِزِّ عَزِیْزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیْلٍ ، عِزًّا یَعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الإِْسْلَامَ ، وَ ذُلًّا یُذِلُّ اللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ ) [ مسند أحمد : ٤؍١٠٣، ح : ١٦٩٥٩، قال محقق المسند إسنادہ صحیح علی شرط مسلم ] ” یہ کام یعنی دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں رات اور دن پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی اینٹوں کا بنا ہوا مکان چھوڑے گا اور نہ ریشم کا بنا ہوا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اس دین کو داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت دے کر اور ذلیل کو ذلت دے کر۔ عزت ایسی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور ذلت ایسی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفر کو ذلیل کرے گا۔ “ اس پیش گوئی کا اکثر حصہ خلفائے راشدین، خلفائے بنی امیہ اور عثمانی خلفاء کے ہاتھوں پورا ہوا اور جو رہ گیا ہے وہ بھی پورا ہو کر رہے گا، مسلمانوں میں دین کی طرف رجوع اور جذبہ جہاد کی بیداری آنے والی صبح روشن کی نوید ہیں۔- وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا : یہ تیسرا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خوف کی حالت بدل کر امن عطا فرمائے گا۔ جہاد کی بدولت کفار یا تو اسلام قبول کرکے اس کے محافظ بن جائیں گے، یا محکوم ہو کر جزیہ دیں گے۔ اللہ کے احکام پر عمل کی بدولت خوش حالی کا دور دورہ ہوگا اور حدود اللہ کے نفاذ کی برکت سے اسلام کے زیر نگیں تمام علاقے امن کی نعمت سے فیض یاب ہوں گے۔ عدی بن حاتم طائی (رض) بیان کرتے ہیں : ” میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا جب آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے آپ سے فاقے کی شکایت کی، پھر ایک اور آیا اور اس نے ڈاکے اور راہ زنی کی شکایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا : ” عدی تم نے حیرہ (شہر) دیکھا ہے ؟ “ میں نے کہا : ” میں نے اسے نہیں دیکھا، لیکن میں نے اس کے متعلق سنا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم اونٹنی پر سوار ایک عورت کو دیکھو گے، وہ حیرہ سے سفر کرے گی، حتیٰ کہ کعبہ کا طواف کرے گی، اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا۔ “ میں نے دل ہی دل میں کہا، تو بنو طے کے وہ بدمعاش کہاں جائیں گے جنھوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے ؟ (آپ نے مزید فرمایا :) ” اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ “ میں نے کہا : ” کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے خزانے، اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم آدمی کو دیکھو گے، وہ سونے یا چاندی سے اپنی لپ بھر کر اس شخص کی تلاش میں نکلے گا جو اس سے اسے قبول کرے، مگر اسے کوئی شخص نہیں ملے گا جو اس سے قبول کرے۔۔ “ عدی (رض) کہتے ہیں : ” پھر میں نے اونٹنی پر سوار ایک عورت کو دیکھا جو حیرہ سے سفر شروع کرتی تھی، حتیٰ کہ کعبہ کا طواف کرتی تھی اور میں ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے اور اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم وہ بھی دیکھ لو گے جو نبی ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آدمی سونے چاندی سے لپ بھر کر صدقہ نکالے گا۔ “ [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ٣٥٩٥ ]- يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا : یعنی وہ لوگ جن کے ساتھ خلافت ارضی، دین کے غلبے اور خوف کے بعد امن عطا کرنے کا وعدہ ہے، وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے، صرف اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں میں ان اوصاف میں سے کسی وصف کی کمی ہوگی یا سرے سے ان سے عاری ہوں گے انھیں حکومت مل بھی جائے تو دین کے غلبے اور امن کی نعمت میسر نہ ہوگی۔ - 3 یہ آیت خلفائے راشدین کی خلافت کے برحق ہونے کی بہت بڑی اور واضح دلیل ہے، کیونکہ اس آیت میں اگرچہ خلافت، تمکین دین اور خوف کے بعد امن کا وعدہ ان تمام لوگوں سے ہے جو ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوں، خواہ کسی زمانے میں ہوں، مگر اس کے سب سے پہلے مخاطب چونکہ صحابہ کرام (رض) تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا جو ” تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ “ اس لیے اس آیت کے سب سے پہلے مصداق بھی وہی ہیں اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر - سکتا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی (رض) کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں خلافت بخشی، ان کے زمانے میں دین غالب ہوا، اللہ کی حدود قائم ہوئیں، مسلمانوں کو امن میسر رہا اور تمام دنیا کے کافر مرعوب و مقہور رہے۔ ان کے بعد بھی جن خلفاء نے جہاد جاری رکھا، اللہ کی حدود پر عمل کیا اور کسی بھی قسم کے شرک سے آلودہ نہیں ہوئے، وہ بھی اس کے مصداق ہیں اور ان کے زمانے میں بھی دین غالب رہا اور مسلمانوں کو امن کی نعمت میسر رہی۔ - آئندہ جو لوگ ان اوصاف سے آراستہ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی یہ وعدہ پورا فرمائے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ خلافت صرف تیس (٣٠) برس قائم رہی ان کی بات اس حد تک تو درست ہے کہ اعلیٰ درجے کے اوصاف والے لوگ یہی خلفاء تھے، کیونکہ وہ براہ راست نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تربیت یافتہ تھے اور انھیں ایمان میں سبقت اور ہجرت کا شرف بھی حاصل تھا، ان کے بعد والوں کو یہ سارے فضائل حاصل نہ تھے، اس لیے ان کی خلافت اس بلند ترین درجے کی نہ تھی، مگر یہ بات غلط ہے کہ اس کے بعد امت مسلمہ اللہ کے اس وعدے سے محروم ہوگئی۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تیس (٣٠) سالوں کے بعد بھی ایسے خلفاء کی پیش گوئی فرمائی ہے جن کے زمانے میں دین غالب ہوگا۔ چناچہ جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا، میرے ساتھ میرے والد بھی تھے، میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : ( لَا یَزَالُ ھٰذَا الدِّیْنُ عَزِیْزًا مَنِیْعًا إِلَی اثْنَيْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً ) ” یہ دین بارہ خلیفوں تک خوب غالب اور محفوظ رہے گا۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بات کی جو لوگوں نے مجھے سننے نہیں دی، میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا ہے ؟ تو انھوں نے بتایا : (کُلُّھُمْ مِنْ قُرَیْشٍ ) ” وہ سب قریش سے ہوں گے۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب الناس تبع لقریش : ٩؍١٨٢١ ] ابو داؤد کی روایت (٤٢٧٩) میں یہ الفاظ بھی ہیں : ( کُلُّھُمْ تَجْتَمِعُ عَلَیْہِ الْأُمَّۃُ ) ” ان سب پر امت مجتمع ہوگی۔ “ علامہ البانی (رض) نے ان الفاظ کو ضعیف کہا ہے۔ - ان بارہ خلفاء سے مسلسل خلفاء مراد ہیں، یا درمیان میں کچھ وقفے سے آنے والے خلفاء مراد ہیں، یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ میں نااہل لوگوں کے بعد پھر نبوی طریقے پر خلافت قائم ہونے کی پیش گوئی فرمائی ہے، حتیٰ کہ آخر زمانے میں مہدی خلیفہ راشد ہوں گے۔ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاء اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاج النُّبُوَّۃِ فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاء اللّٰہُ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَیَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ أَنْ یَّکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَاءَ أَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاج النُّبُوَّۃِ ، ثُمَّ سَکَتَ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٧٣، ح : ١٨٤٣٦، مسند احمد کے محقق اور شیخ البانی نے صحیحہ (٥) میں اسے حسن کہا ہے ] ” تم میں نبوت رہے گی جب تک اللہ نے چاہا کہ رہے، پھر جب وہ اسے اٹھانا چاہے گا اٹھا لے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب چاہے گا کہ اسے اٹھا لے پھر ” ملک عاض “ (دانتوں سے کاٹنے والی بادشاہی) ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، وہ رہے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اٹھانا چاہے گا، تو اٹھا لے گا، پھر جبر والی بادشاہی ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، وہ رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھائے تو اٹھا لے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ “ - اس آیت اور ان احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کو ہمیشہ پُر امید رہنا چاہیے کہ جب بھی مسلمان ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوگئے، اللہ کے ساتھ شرک سے تائب ہوگئے، اپنی روزمرہ کی زندگی، اپنی معیشت، اپنی سیاست، غرض ہر چیز میں غیر اللہ کے حکم سے مکمل منہ موڑ کر ایک اللہ کے حکم پر چلنے لگے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے لگے، اللہ کے سوا ہر حاجت روا اور مشکل کشا کو چھوڑ کر ایک اللہ سے استغاثہ و استعانت کرنے لگے، بزدلی اور دنیا سے محبت کے بجائے شوق شہادت سے سرشار ہو کر جہاد کرنے لگے، تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور خلافت علی منہاج النبوۃ کی نعمت عطا فرمائے گا، کیونکہ اسے ایمان اور عمل صالح سے مزین ایسے بندے مطلوب ہیں جو ” يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ“ کی عملی تصویر ہوں، یعنی صرف اس کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ البتہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب تک مسلمانوں کی موجودہ حالت نہیں بدلتی کہ ان کی عدالتوں میں کفار کا قانون رائج ہے، ان کی تجارت سود پر مبنی ہے، ان کی حکومت کا طریقہ کفار سے لیا ہوا ہے، ان کے معاشرے میں ہندوؤں اور یہود و نصاریٰ کی رسوم جاری ہیں، ان کی مساجد کے اندر پختہ قبروں کی پرستش ہو رہی ہے، ایک اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا ماننے کے بجائے ہر ایک نے اپنا الگ داتا و دستگیر بنا رکھا ہے، وہ ایک امت بننے کے بجائے مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالت کے بدلنے تک اس خلافت کی نعمت کا حصول ایک خوبصورت خواب کے سوا کچھ نہیں جس کا اس آیت میں ذکر ہے ۔- 3 کچھ لوگوں نے چار صحابہ کے سوا تمام صحابہ کرام (رض) کو کافر کہنا اپنے دین کا جز بنا لیا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح والوں سے خلافت عطا کرنے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ کس طرح اور کن لوگوں کے ذریعے سے پورا ہوا ؟ اگر وہ اپنے بارہ (١٢) خود ساختہ اماموں کو حقیقی خلفاء بتائیں تو بتائیں علی اور حسن (رض) کو چھوڑ کر دوسرے دس (١٠) خلفاء و ائمہ کی حکومت زمین کے کس خطے پر تھی، ان میں سے کس نے امن کے ساتھ حکومت کی ؟ ان ائمہ کی حالت تو یہ تھی کہ یہ حضرات خود بتاتے ہیں کہ ان کا بارھواں امام دشمنوں کے خوف سے ایک غار میں چھپ گیا اور آج تک نمودار نہیں ہوا۔ پھر اللہ کا وعدہ کن لوگوں کے ذریعے سے پورا ہوا ؟ ان لوگوں کے باطل پر ہونے کے لیے یہ بات بھی ایک واضح اور فیصلہ کن دلیل ہے کہ اسلام کے مرکز مکہ اور مدینہ میں ان ساڑھے چودہ سو سالوں میں حکومت کرنے والے صحابہ کرام (رض) تھے، یا پھر ان سے محبت کرنے والے۔ آج تک اللہ تعالیٰ نے اس پاک سرزمین میں صحابہ کے دشمنوں کے ناپاک قدم جمنے نہیں دیے۔- وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ : فاسق کے کئی درجے ہیں، کامل فاسق وہی ہے جو ایمان ہی سے نکل جائے۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اس خلافت کے بعد جو لوگ کفر کریں اور کفر ہی پر مریں تو یہی لوگ پورے نافرمان ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جو کوئی خلفائے اربعہ کی خلافت (اور ان کے فضل و شرف) سے منکر ہوا ان الفاظ سے اس کا حال سمجھا گیا۔ “
خلاصہ تفسیر - (اے مجموعہ امت) تم میں جو لوگ ایمان لاویں اور نیک عمل کریں (یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نور ہدایت کا کامل اتباع کریں) ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو (اس اتباع کی برکت سے) زمین میں حکومت عطا فرماوے گا جیسا ان سے پہلے (اہل ہدایت) لوگوں کو حکومت دی تھی (مثلاً بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم قبطیوں پر غالب کیا پھر ملک شام میں عمالقہ جیسی بہادر قوم پر ان کو غلبہ عطا فرمایا اور مصر و شام کی حکومت کا ان کو وارث بنایا) اور (مقصود اس حکومت دینے سے یہ ہوگا کہ) جس دین کو (اللہ تعالیٰ نے) ان کے لئے پسند کیا ہے (یعنی اسلام جیسا کہ دوسری آیت میں ہے رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) اس کو ان کے (نفع آخرت کے) لئے قوت دے گا اور (ان کو جو دشمنوں سے طبعی خوف ہے) ان کے اس خوف کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں (اور) میرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں (نہ جلی نہ خفی جس کو ریاء کہتے ہیں۔ یعنی یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کا مشروط ہے دین پر پوری طرح ثابت قدم رہنے کے ساتھ اور یہ وعدہ تو دنیا میں ہے اور آخرت میں ایمان اور عمل صالح پر جو جزائے عظیم اور دائمی راحت کا وعدہ ہے وہ اس کے علاوہ ہے) اور جو شخص بعد (ظہور) اس (وعدہ) کے ناشکری کرے گا (یعنی دین کے خلاف راستہ اختیار کرے گا) تو (ایسے شخص کے لئے یہ وعدہ نہیں کیونکہ) یہ لوگ نافرمان ہیں (اور وعدہ تھا فرمانبرداروں کے لئے اس لئے ان سے دنیا میں بھی وعدہ حکومت دینے کا نہیں ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے) اور (اے مسلمانو جب ایمان اور عمل صالح کے دنیوی اور دینی فوائد سن لئے تو تم کو چاہئے کہ خوب) نماز کی پابندی رکھو اور زکوة دیا کرو اور (باقی احکام میں بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو تاکہ تم پر (کامل) رحم کیا جائے (آگے کفر و معصیت کا انجام ذکر کیا گیا ہے کہ اے مخاطب) کافروں کی نسبت یہ خیال مت کرنا کہ زمین (کے کسی حصہ) میں (بھاگ جاویں گے اور ہم کو) ہرا دیں گے (اور ہمارے قہر سے بچ جاویں گے نہیں بلکہ وہ خود ہاریں گے اور مقہور و مغلوب ہوں گے۔ یہ تو نتیجہ دنیا میں ہے) اور (آخرت میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔- معارف ومسائل - شان نزول :- قرطبی نے ابوالعالیہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول وحی اور اعلان نبوت کے بعد دس سال مکہ مکرمہ میں رہے تو ہر وقت کفار و مشرکین کے خوف میں رہے پھر ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو یہاں بھی مشرکین کے حملوں سے ہر وقت کے خطرہ میں رہے کسی شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ہم پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم ہتھیار کھول کر امن و اطمینان کے ساتھ رہ سکیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بہت جلد ایسا وقت آنے الا ہے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (قرطبی و بحر) حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا وعد ہے۔ جو اس نے امت محمدیہ سے ان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی تورات و انجیل میں فرمایا تھا۔ (بحر محیط)- اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین چیزوں کا وعدہ فرمایا کہ آپ کی امت کو زمین کے خلفاء اور حکمراں بنایا جائے گا اور اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کو غلاب کیا جائے گا اور مسلمانوں کو اتنی قوت و شوکت دی جائے گی کہ ان کو دشمنوں کا کوئی خوف نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ اس طرح پورا فرما دیا کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں مکہ، خیبر، بحرین اور پورا جزیرة العرب اور پورا ملک یمن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ذریعہ فتح ہوا اور ہجر کے مجوسیوں سے اور ملک شام کے بعض اطراف سے آپ نے جزیہ وصول فرمایا اور شاہ روم ہرقل نے اور شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس اور شاہان عمان اور بادشاہ حبشہ نجاشی وغیرہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایا بھیجے اور آپ کی تعظیم و تکریم کی۔ پھر آپ کی وفات کے بعد حضرت صدیق اکبر ابوبکر خلیفہ ہوئے تو وفات کے بعد جو کچھ فتنے پیدا ہوگئے تھے ان کو ختم کیا اور بلا وفارس اور بلاد شام و مصر کی طرف اسلامی لشکر بھیجے اور بصری اور دمشق آپ ہی کے زمانے میں فتح ہوئے اور دوسرے ملکوں کے بھی بعض حصے فتح ہوئے۔- حضرت صدیق اکبر کی وفات کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو خلیفہ بنانے کا الہام فرمایا۔ عمر بن خطاب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے نظام خلافت ایسا سنبھالا کہ آسمان نے انبیاء (علیہم السلام) کے بعد ایسا نظام کہیں نہ دیکھا تھا ان کے زمانے میں ملک شام پورا فتح ہوگیا اسی طرح پورا ملک مصر اور ملک فارس کا اکثر حصہ انہیں کے زمانے میں قیصر و کسری کی قیصری اور کسروی کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد خلافت عثمانی کا وقت آیا تو اسلامی فتوحات کا دائرہ مشارق و مغارب تک وسیع ہوگیا۔ بلاد مغرب، اندلس اور قبرص تک اور مشرق اقصی میں بلاد چین تک اور عراق، حراسان اہواز سب آپ کے زمانے میں فتح ہوئے اور صحیح حدیث میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ مجھے پوری زمین کے مشارق و مغارب سمیٹ کر دکھائے گئے ہیں اور میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے دکھائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ خلافت عثمانیہ کے دور ہی میں پورا فرما دیا (یہ سب مضمون تفسیر ابن کثیر سے لیا گیا ہے۔ )- اور ایک حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ خلافت میرے بعد تیس سال رہے گی اس کی مراد خلافت راشدہ ہے جو بالکل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر قائم رہی اور حضرت علی مرتضی تک چلی کیونکہ یہ تیس سال کی مدت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے تک پوری ہوئی۔- ابن کثیر نے اس جگہ صحیح مسلم کی یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری امت کا کام چلتا رہے گا جب تک بارہ خلیفہ رہیں گے۔ ابن کثیر نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ حدیث بارہ خلیفہ عادل اس امت میں ہونے کی خبر دے رہی ہے جس کا وقوع ضرروی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب مسلسل اور متصل ہی ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ کچھ وقفوں کے بعد ہوں۔ ان میں سے چار تو یکے بعد دیگرے ہوچکے جو خلفاء راشدین تھے پھر کچھ وقفہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ہوئے ان کے بعد بھی مختلف زمانوں میں ایسے خلیفہ ہوتے رہے اور تاقیامت رہیں گے آخری خلیفہ حضرت مہدی ہوں گے۔ روافض نے جن بارہ خلفاء کو متعین کیا ہے اس کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں بلکہ ان میں سے بعض تو وہ ہیں جن کا خلافت سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ان سب کے درجات برابر ہوں اور سب کے زمانے میں امن و سکون دنیا کا یکساں ہو۔ بلکہ اس وعدہ کا مدار ایمان و عمل صالح پر استقامت اور مکمل اتباع پر ہے اس کے درجات کے اختلاف سے حکومت کی نوعیت و قوت میں بھی فرق و اختلاف لازمی ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں جب اور جہاں کوئی مسلمان عادل اور صالح بادشاہ ہوا ہے اس کو اپنے عمل و صلاح کے پیمانے پر اس وعدہ الہیہ کا حصہ ملا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ یعنی اللہ کی جماعت ہی غالب رہے گی۔- آیت مذکورہ سے خلفاء راشدین کی خلافت اور مقبولیت عند اللہ کا ثبوت :- یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی دلیل بھی ہے کیونکہ جو پیش گوئی اس آیت میں فرمائی گئی تھی وہ بالکل اسی طرح پوری ہوئی۔ اسی طرح یہ آیت حضرات خلفاء راشدین کی خلافت کے حق و صحیح اور مقبول عنداللہ ہونے کی بھی دلیل ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ اپنے رسول اور اس کی امت سے فرمایا تھا اس کا پورا پورا ظہور انہیں حضرات کے زمانے میں ہوا۔ اگر ان حضرات کی خلافت کو حق و صحیح نہ مانا جائے جیسے روافض کا خیال ہے تو پھر قرآن کا یہ وعدہ یہ کہیں پورا نہیں ہوا اور روافض کا یہ کہنا کہ یہ وعدہ حضرت مہدی کے زمانے میں پورا ہوگا ایک مضحکہ خیز چیز ہے اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ چودہ سو برس تو پوری امت ذلت و خواری میں رہے گی اور قرب قیامت میں جو چند روز کے لئے ان کو حکومت ملے گی وہی حکومت اس وعدہ سے مراد ہے معاذ اللہ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وعد اللہ تعالیٰ نے جن شرائط ایمان و عمل صالح کی بنیاد پر کیا تھا وہ شرائط بھی انہیں حضرات میں سب سے زیادہ کامل و مکمل تھیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی پورا پورا انہیں کے عہد میں پورا ہوا ان کے بعد نہ ایمان و عمل کا وہ درجہ قائم رہا نہ خلافت و حکومت کا وہ وقار کبھی قائم ہوا۔- وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ، لفظ کفر کے لغوی معنے ناشکری کے اور اصطلاحی معنے ایمان کی ضد ہیں۔ یہاں لفظی معنے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور اصطلاحی بھی، معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ اپنا یہ وعدہ پورا کر دے، مسلمانوں کو حکومت قوت اور امن وا طمینان اور دین کو استحکام حاصل ہوجائے اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص کفر کرے یعنی اسلام سے پھرجائے یا ناشکری کرے کہ اس اسلامی حکومت کی اطاعت سے گریز کرے تو ایسے لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں۔ پہلی صورت میں ایمان ہی سے نکل گئے اور دوسری صورت میں اطاعت سے نکل گئے کفر اور ناشکری ہر وقت ہر حال میں گناہ عظیم ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کی قوت و شوکت اور حکومت قائم ہونے کے بعد یہ چیزیں دوہرے جرم ہوجاتی ہیں اس لئے بَعْدَ ذٰلِكَ سے موکد فرمایا گیا۔ امام بغوی نے فرمایا کہ علماء تفسیر نے کہا ہے کہ قرآن کے اس جملے کے سب سے پہلے مصداق وہ لوگ ہوئے جنہوں نے خلیفہ وقت حضرت عثمان غنی کو قتل کیا اور جب وہ اس جرم عظیم کے مرتکب ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے مذکورہ انعامات میں بھی کمی آگئی آپس کے قتل و قتال سے خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے اور بعد اس کے کہ سب آپس میں بھائی بھائی تھے ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ بغوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن سلام کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت عمثان کے خلاف ہنگامہ کے وقت دیا تھا۔ خطبہ کے الفاظ یہ ہیں۔- " اللہ کے فرشتے تمہارے شہر کے گرد احاطہ کئے ہوئے حفاظت میں اس وقت سے مشغول تھے جب سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف فرما ہوئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ خدا کی قسم اگر تم نے عثمان کو قتل کردیا تو یہ فرشتے واپس چلے جاویں گے اور پھر کبھی نہ لوٹیں گے۔ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص ان کو قتل کر دے گا وہ اللہ کے سامنے دست بریدہ حاضر ہوگا اس کے ہاتھ نہ ہوں اور سمجھ لو کہ اللہ کی تلوار اب تک میان میں تھی، خدا کی قسم اگر وہ تلوار میان سے نکل آئی تو پھر کبھی میان میں نہ جاوے گی۔ کیونکہ جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں ستر ہزار آدمی مارے جاتے ہیں اور جب کسی خلیفہ کو قتل کیا جاتا ہے تو پینتیس ہزار آدمی مارے جاتے ہیں۔ “ (مظہری)- چنانچہ قتل عثمان غنی سے جو باہمی خونریزی کا سلسلہ شروع ہوا تھا امت میں چلتا ہی رہا ہے اور جیسے اللہ تعالیٰ کی نعمت استخلاف اور استحکام دین کی مخالفت اور ناشکری قاتلان عثمان نے کی تھی ان کے بعد روافض اور خوارج کی جماعتوں نے خلفاء راشدین کی مخالفت میں گروہ بنا لئے۔ اسی سلسلے میں حضرت حسین بن علی کی شہادت کا عظیم حادثہ پیش آیا۔ نسال اللہ الھدایۃ و شکر نعمتہ
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ٠۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ٠ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ٠ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ٥٥- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
خدا کی زمین میں اصل خلیفہ کون ہے ؟- قول باری ہے : (وعداللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت موجود ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو ایک متعین گروہ کے ساتھ : الذین امنوا منکم وعملوالصالحات لیستخلننھم فی الارض۔ فرما کر خاص کردیا پھر اس نے اس گروہ یعنی صحابہ کرام کے ساتھ کیے گئے جس وعدے کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے خبر دی تھی واقعاتی طور پر وہ حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ اس میں خلفاء اربعہ کی خلافت کی صحت پر بھی دلالت موجود ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائی تھی اور غلبہ دیا تھا۔ ان میں حضرت معاویہ (رض) شامل نہیں ہیں کیونکہ آیت کے نزول کے وقت یہ ایمان نہیں لائے تھے۔
(٥٥) اے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو یکے بعد دیگرے زمین پر حکومت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو یعنی بنی اسرائیل میں سے یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کو حکومت دی تھی یا یہ کہ ان کو سرزمین مکہ میں اتارے گا جیسا کہ ان سے پہلے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن کے ہلاک کرنے کے بعد اتارا اور جس دین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے اس کو غلبہ دے گا اور مکہ مکرمہ میں جو ان کو اپنے دشمن کا خوف ہے تو ان کے دشمن کے ہلاک کرنے کے بعد اس کو مبدل باامن کر دے گا بشرطیکہ مکہ مکرمہ میں میری عبادت کریں اور میرے ساتھ ان بتوں وغیرہ میں سے کسی قسم کا شرک نہ کریں اور جو شخص بعد ظہور اس غصہ اور امن کے ناشکری کرے گا تو یہ لوگ بےحکم ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وعد اللہ الذین امنوا منکم “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) نے ابی بن کعب (رض) سے روایت نقل کی ہے اور طبرانیرحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصحیح کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جس وقت مدینہ منورہ تشریف لائے اور انصار نے ان کو پناہ دی تو تمام عرب ان کی مخالفت پر متفق ہوگئے چناچہ رات کو بھی ہتھیار پاس رکھ کر سوتے تھے اور بغیر ہتھیار کے کہیں نہیں جاتے تھے چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ تم دیکھ رہے ہو ہم اس طرح زندگی گزار رہے ہیں اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم ایسے اطمینان کے ساتھ رات گزاریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہوگا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی یعنی تم میں جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین میں حکومت عطا فرمائے گا اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت براء (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور ہم اس وقت سخت پریشانی کی حالت میں تھے۔
آیت ٥٥ (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) ” - یہ وعدہ محض موروثی اور نام کے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ‘ جو اللہ کے احکام کی کلی تعمیل کو اپنا شعار بنانے اور اس کے راستے میں جان و مال کی قربانی دینے کے لیے سنجیدہ نہ ہوں ‘ بلکہ یہ وعدہ تو ان مؤمنین صادقین کے لیے ہے جو ایمان اور عمل صالح کی شرائط پوری کریں۔ یعنی جو ایمان حقیقی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہوں۔- (لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْص) ” - یعنی اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم لوگ ایمان حقیقی اور اعمال صالحہ کی دو شرائط پوری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں اسی طرح غلبہ اور اقتدار عطا کرے گا جس طرح اس سے پہلے اس نے حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو خلافت عطا کی تھی یا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کو مکابیّ سلطنت کی صورت میں اقتدار عطا کیا تھا۔ اس آیت میں خلافت کے وعدے کو تین مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اوّل تو یہ تاکیدی وعدہ ہے کہ اللہ لازماً مسلمانوں کو بھی خلافت عطا فرمائے گا جیسے اس نے سابقہ امت کے اہل ایمان کو خلافت عطا کی تھی۔ پھر فرمایا :- (وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ ) ” - اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کو لازماً غالب کرے گا۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کی خلافت ہوگی وہاں لازماً اللہ کے دین کا غلبہ ہوگا اور اگر کسی حکومت میں اللہ کا دین غالب ہوگا تو وہ لازماً مسلمانوں ہی کی خلافت ہوگی۔ گویا بنیادی طور پر تو یہ ایک ہی بات ہے ‘ لیکن صرف خلافت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پہلی بات کو یہاں دوسرے انداز میں دہرایا گیا ہے۔ البتہ یہاں اس دین کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت ٣ میں باقاعدہ نام لے کر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط) ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے ‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا ہے ‘ اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے “۔ بہر حال دوسری بات یہاں یہ بتائی گئی کہ خلافت ملے گی تو اس کے نتیجے کے طور پر اللہ کا دین لازماً غالب ہوگا۔ اور تیسری بات :- (وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ط) ” - یہ اس کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت کے فوراً بعد کے زمانے میں مسلمانوں پر طاری تھی۔ اس زمانے میں مدینہ کے اندر مسلسل ایمرجنسی کی سی حالت تھی۔ فلاں قبیلے کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے کل قریش مکہ کی طرف سے ایک خوفناک سازش کی خبر پہنچی تھی آج ابو عامر راہب کے ایک شیطانی منصوبے کی اطلاع آن پہنچی ہے غرض ہجرت کے بعد پانچ سال تک مسلمان مسلسل ایک خوف کی کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے۔ اس صورت حال میں انہیں خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اب خوف کی وہ کیفیت امن سے بدلنے والی ہے۔ - تینوں وعدوں کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں بار بار حروف تاکید استعمال ہوئے ہیں۔ تینوں افعال میں مضارع سے پہلے لام مفتوح اور بعد میں ” ن “ مشدد آیا ہے ‘ گویا تینوں وعدے نہایت تاکیدی وعدے ہیں۔- (یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا ط) ” - میرے نزدیک یہ حکم مستقبل سے متعلق ہے۔ یعنی جب میرا دین غالب آجائے گا تو پھر مسلمان خالص میری بندگی کریں گے اور کسی قسم کا شرک گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ کی حکومت قائم نہیں ہوگی تو معاشرہ شرک سے ُ کلیّ طور پر پاک نہیں ہو سکے گا۔ جیسے ہم پاکستان کے مسلمان شہری آج قومی اور اجتماعی اعتبار سے کفر و شرک کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج اگر ہم سب انفرادی طور پر اپنے ذاتی عقائد بالکل درست بھی کرلیں اور اپنے آپ کو تمام مشرکانہ اوہام سے پاک کر کے عقیدۂ توحید کو راسخ بھی کرلیں تو بھی ہم خود کو شرک سے کلی طور پر پاک کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ یعنی جب تک ملک میں اللہ کا قانون نافذ اور اللہ کا دین عملی طور پر غالب نہیں ہوجاتا اور جب تک ملک میں دوسرے قوانین کے بجائے اللہ کے قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس ملک کے شہری ہونے کے اعتبار سے ہم کفر اور شرک کی اجتماعیت میں برابر کے شریک رہیں گے۔ چناچہ کسی ملک یا علاقے میں عملاً توحید کی تکمیل اس وقت ہوگی جب اللہ کے فرمان کے مطابق دین کل کا کل اللہ کے لیے ہوجائے گا : (وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ط) ( الانفال : ٣٩) ۔- (وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ” - اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دین کے غلبے کے ماحول میں بھی جو شخص کفر کرے گا تو اس کے اندر گویا خیر کا مادہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ باطل کے غلبے میں کسی شخص کا ایمان لانا ‘ اس پر قائم رہنا اور اس کے مطابق عمل کرنا انتہائی مشکل ہے ‘ لیکن جب دین غالب ہوجائے اور ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں تو اس کے بعد صرف وہی شخص دین سے دور رہے گا جس کی فطرت ہی بنیادی طور پر مسخ ہوچکی ہے۔- ان دو مفاہیم کے علاوہ میرے نزدیک اس فقرے کا ایک تیسرا مفہوم بھی ہے اور اس مفہوم کے مطابق ” بَعْدَ ذٰلِکَ “ کے الفاظ کا تعلق مذکورہ تین وعدوں سے ہے ‘ کہ جب اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ لازماً تمہیں خلافت سے نوازے گا ‘ وہ لازماً تمہارے دین کو غالب کرے گا اور وہ لازماً تمہارے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا تو اس کے بعد بھی جو شخص کمر ہمتّ نہ باندھے اور اقامت دین کیّ جدوجہدُ کے لیے اٹھ کھڑا نہ ہو تو اسے گویا ہمارے وعدوں پر یقین نہیں اور وہ عملی طور پر ہمارے ان احکام سے کفر کا مرتکب ہو رہا ہے - یہ آیت ٦ ہجری میں نازل ہوئی اور اس کے نزول کے فوراً بعد ہی اس کے مصداق کا ظہور شروع ہوگیا۔ ٧ ہجری میں صلح حدیبیہ طے پاگئی جسے خود اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ” فتح مبین “ قرار دیا : (اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ) (الفتح) ۔ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد ٧ ہجری میں ہی خیبر فتح ہوا ‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے مال غنیمت عطا کیا۔ ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا۔ ٩ ہجری کو حج کے موقع پر کا اعلان کردیا گیا۔ اس اعلان کے مطابق آئندہ کے لیے مسجد حرام کے اندر مشرکین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جزیرہ نمائے عرب کے تمام مشرکین کو میعادی معاہدوں کی صورت میں اختتام معاہدہ تک اور عمومی طور پر چارہ ماہ کی مہلت دے دی گئی ‘ اور اس کے ساتھ ہی واضح حکم دے دیا گیا کہ اسّ مدت مہلت میں اگر وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو سب کے سب قتل کردیے جائیں گے۔ یوں ١٠ ہجری تک جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین غالب ہوگیا ‘ اللہ کی حکومت قائم ہوگئی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کے خلیفہ بن گئے۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ حالات میں بگاڑ آنا شروع ہوگیا جو مسلسل جاری ہے۔ سورة الانبیاء کے آخری رکوع کے مطالعہ کے دوران میں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے مروی ایک حدیث بیان کی تھی جس میں امت مسلمہ کے قیامت تک کے حالات کی واضح تفصیل ملتی ہے۔ زیرمطالعہ آیت کے مضمون کے سیاق وسباق میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بہت اہم ہے ‘ لہٰذا ہم اس کا ایک بار پھر مطالعہ کرلیتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ) ” تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے “۔ یعنی جب تک اللہ چاہے گا میں بنفس نفیس تمہارے درمیان موجود رہوں گا۔ (ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا) ” پھر اللہ اس کو اٹھا لے گا جب اسے اٹھانا چاہے گا “۔ یعنی جب اللہ چاہے گا میرا انتقال ہوجائے گا اور یوں یہ دور ختم ہوجائے گا۔ (ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاج النُّبُوَّۃِ ) ” پھر خلافت ہوگی نبوت کے نقش قدم پر “۔ یعنی میرے قائم کردہ نظام کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے ذریعے یہ نظام ایک بال کے فرق کے بغیر جوں کا توں قائم رہے گا۔ (فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ) ” پھر یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے “۔ (ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا ) ” پھر اس دور کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ (ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا ) ” پھر کاٹ کھانے والی ظالم ملوکیت ہوگی “۔ (فَیَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ) ” پس یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا “ (ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ) ” پھر اس کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ (ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً ) ” پھر غلامی کی ملوکیت کا دور آئے گا “۔ یہ چوتھا دور ہمارا دور ہے۔ تیسرے دور کی ملوکیت میں سب کے سب حکمران (بنو امیہ ‘ بنو عباس اور ترک بادشاہ ) مسلمان تھے۔ ان میں اچھے بھی تھے اور برے بھی مگر سب کلمہ گو تھے ‘ جبکہ چوتھے دور کی ملوکیت میں مختلف مسلمان ممالک غیر مسلموں کے غلام ہوگئے۔ کہیں مسلمان تاج برطانیہ کی رعایا بن گئے ‘ کہیں ولندیزیوں کے تسلط میں آگئے اور کہیں فرانسیسیوں کے غلام بن گئے۔ اس طرح پورا عالم اسلام غیر مسلموں کے زیر تسلط آگیا۔ - اکیسویں صدی کا موجودہ دور عالم اسلام کے لیے ” مُلْکاً جَبْرِیًّا “ کا ہی تسلسل ہے۔ اگرچہ مسلم ممالک پر سے غیر ملکی قبضہ بظاہر ختم ہوچکا ہے اور ان ممالک پر قابض اقوام کی براہ راست حکومتوں کی بساط لپیٹ دی گئی ہے لیکن عملی طور پر یہ تمام ممالک اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ استعماری قوتیں آج بھی ریموٹ کنٹرول اقتدار کے ذریعے ان ممالک کے معاملات سنبھالے ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف ‘ اور دوسرے بہت سے ادارے ان کے مہروں کے طور پر کام کر رہے ہیں اور یوں وہ اپنے مالیاتی استعمار کو اب بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔- اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ چوتھا دور بھی ختم ہوجائے گا : (ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ) ” پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ اور پھر امت کو ایک بہت بڑی خوشخبری دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاج النُّبُوَّۃِ ) ” اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور آئے گا “۔ یہ خوشخبری سنانے کے بعد راوی کہتے ہیں : ثُمَّ سَکَتَ ” پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید اس لیے خاموش ہوگئے کہ اس کے بعد دنیا کے خاتمے کا معاملہ تھا۔- اس کے علاوہ ہم حضرت ثوبان (رض) سے مروی یہ حدیث بھی پڑھ آئے ہیں جس میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام تمام روئے ارضی کے لیے ہوگا۔ حضرت ثوبان (رض) (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ ) ” اللہ نے میرے لیے تمام زمین کو لپیٹ دیا۔ “ (فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا ) ” تو میں نے اس کے سارے مشرق اور مغرب دیکھ لیے۔ “ (وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا ) ” اور میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہوگی جو مجھے دکھائے گئے۔ “ - اسی طرح ہم نے حضرت مقدادبن اسود (رض) سے مروی اس حدیث کا مطالعہ بھی کیا تھا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” روئے ارضی پر کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر اور کوئی کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ ایسا نہیں رہے گا جس میں دین اسلام داخل نہ ہوجائے ‘ خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں “۔ یعنی یا تو اس گھر والا اسلام قبول کر کے اعزاز حاصل کرلے گا یا پھر اسے ذلت کے ساتھ اسلام کی بالا دستی قبول کرنا پڑے گی۔ دین کے غلبے کی صورت میں غیر مسلم رعایا کے لیے یہ وہ اصول ہے جو سورة التوبہ میں اس طرح بیان ہوا : (حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ ) یعنی وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔- آنے والے اس دور کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان فرمودات کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو منطقی طور پر یوں بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں تین مقامات (التوبہ : ٣٣ ‘ الفتح : ٢٨ اور الصف : ٩) پر واضح الفاظ میں اعلان فرما دیا گیا ہے : (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ) ” وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کردے اسے ُ کل کے کل دین (نظام زندگی) پر “۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں پانچ مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بارے میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری نوع انسانی کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس مضمون میں سورة سبا کی یہ آیت بہت واضح اور نمایاں ہے : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے ‘ لیکن اکثر لوگوں کا اس کا ادراک نہیں ہے “۔ سورة الانبیاء میں یہی مضمون ایک نئی شان سے اس طرح آیا ہے : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ” ہم نے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے “۔ ان دونوں آیات کا مشترک مفہوم یہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب پورے عالم انسانیت پر اللہ کا دین غالب ہوگا۔ چناچہ قیامت سے پہلے تمام روئے ارضی پر دین حق کا غلبہ ایک طے شدہ امر ہے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :83 جیسا کہ اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ہم اشارہ کر چکے ہیں ، اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں ۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے ۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں ۔ بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میں لے لیتے ہیں ، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح ، دین حق ، عبادت الٰہی اور شرک ، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو ۔ یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے ۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے ۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں ، خواہ وہ خدا ، وحی ، رسالت ، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے ، جیسے سود ، زنا ، شراب اور جوا ۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے ، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو ، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو ، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ، اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے ۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں ۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے ، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا ۔ قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے : اس کے ایک معنی ہیں خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے ۔ دوسرے معنی ہیں خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امر تکوینی ) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا ۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے ، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے ۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے ، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے ۔ تیسرے معنی ہیں ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا ۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی نیابت سے ماخوذ ہیں ، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی جانشینی سے ماخوذ ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں ۔ اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق ) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو ۔ اسی لیے کفار تو درکنار ، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین ، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا ۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے ۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چوراہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الانبیاء ، حاشیہ 99 ) ۔ اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے ۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے ۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے ۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی ۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ زمین میں جم گئیں ۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا ۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے ۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی ، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا ۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا ۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے ۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں ۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے ۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں ۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی ۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے ۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ۔ دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :84 کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکار حق بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں ۔
41: مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام نے کفار کے ظلم و ستم کا سامنا کیا تھا، اور جب وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تو اس کے بعد بھی کافروں کی طرف ہر وقت حملوں کا خوف لاحق رہتا تھا۔ اس موقع پر ایک صاحب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم ہتھیار کھول کر چین سکون کے ساتھ رہ سکیں۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے۔ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی، اور اس میں پیشین گوئی فرمائی گئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو زمین پر اقتدار حاصل ہونے والا ہے، چنانچہ اس وعدے کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے زمانے میں پورا جزیرہ عرب اسلام کے جھنڈے تلے آچکا تھا اور خلافت راشدہ کے دور میں اسلام حکومت کا دائرہ تقریباً آدھی دنیا تک وسیع ہوگیا تھا۔