Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٦] کافر سے مراد یہاں سب غیر مسلم ہیں۔ یعنی کفار مکہ، عرب کے مشرک قبائل، مدینہ کے یہود و منافقین، یہ سب لوگ مل کر اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں تب بھی یہ لوگ اسلام کی راہ روک نہیں سکتے۔ اللہ کا دین تو یقیناً بلند ہو کے رہے گا۔ رہے یہ معاندین تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انھیں رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی انھیں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : مشرکین عام طور پر ہمیشہ تعداد اور قوت میں زیادہ رہے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی یہی حال تھا کہ مسلمان کمزور تھے، ان سے خوف زدہ رہتے تھے، تو ایسے حالات میں ان کے لیے خلافت کا وعدہ عجیب اور ناممکن سی بات نظر آتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کافروں کے متعلق یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ وہ اللہ کو مقابلے میں عاجز کردیں گے، یہ لوگ جتنی تعداد اور قوت میں ہوں، جتنی چال بازیاں اور فوجیں اکٹھی کرلیں، مقابلہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ کسی صورت مقابلے میں عاجز نہیں کرسکتے۔ کعب (رض) کا شعر ہے ؂- ھَمَّتْ سَخِیْنَۃُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّھَا - فَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ- ” سخینہ (قریش) نے ارادہ کیا کہ اپنے رب سے مقابلے میں غالب آئیں، مگر اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا تو ہر صورت مغلوب ہی ہوگا۔ “ [ مستدرک حاکم : ٣؍٤٨٨، ح : ٦٠٦٥، حاکم، ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے ] - یہ حال تو دنیا میں ہوگا اور آخری مقام ان کا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کے لیے بہت بری جگہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۚ وَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝ ٠ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ٥ ٧ۧ- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عجز - والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، - ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے متعلق یہ خیال مت کرنا کہ وہ عذاب الہی سے زمین میں بھی چھٹکارا پا جائیں گے اور آخرت میں تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے کہ شیاطین سمیت اس میں داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ج) ” - ان کے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ یہ زمین میں اللہ کے قابو سے باہر نکل جائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani