Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بلاتے تو آپ کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یارسول اللہ کہہ کر پکارو ۔ تاکہ آپ کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے ۔ اسی کے مثل آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ١٠٤؁ ) 2- البقرة:104 ) ہے اور اسی جیسی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝ ) 49- الحجرات:2 ) ہے یعنی ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو ۔ آپ کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بےتکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہوجائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے ۔ یہاں تک کہ فرمایا جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ سے خطاب کس طرح کریں ، آپ سے بات چیت کس طرح کریں ، آپ کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ سے سرگوشیاں کرنے کے لئے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا ۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو ، آپ کی دعا مقبول ومستجاب ہے ۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہوجاؤ ۔ اس سے اگلے جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن خطبے میں بیٹھا رہنا منافقوں پر بہت بھاری پڑتا تھا جب کسی کو کوئی ایسی ضرورت ہوتی تو اشارے سے آپ سے اجازت چاہتا اور آپ اجازت دے دیتے اس لئے کہ خطبے کی حالت میں بولنے سے جمعہ باطل ہو جاتا ہے تو یہ منافق آڑ ہی آڑ میں نظریں بچا کر سرک جاتے تھے سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے جماعت میں جب منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ لے کر بھاگ جاتے ۔ اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے ، صف سے نکل جاتے ، مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ۔ جو لوگ امر رسول ، سنت رسول ، فرمان رسول ، طریقہ رسول اور شرع رسول کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہونگے ۔ انسان کو اپنے اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہئیں جو موافق ہوں اچھے ہیں جو موافق نہ ہوں مردود ہے ۔ ظاہر یا باطن میں جو بھی ہے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے اس کے دل میں کفر ونفاق ، بدعت وبرائی کا بیج بودیا جاتا ہے یا اسے سخت عذاب ہوتا ہے ۔ یا تو دنیا میں ہی قتل قید حد وغیر جیسی سزائیں ملتی ہیں یا آخرت میں عذاب اخروی ملے گا ۔ مسند احمد میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب وہ روشن ہوئی تو پتنگوں اور پروانوں کا اجتماع ہوگیا اور وہ دھڑا دھڑ اس میں گرنے لگے ۔ اب یہ انہیں ہر چند روک رہا ہے لیکن وہ ہیں شوق سے اس میں گرے جاتے ہیں اور اس شخص کے روکنے سے نہیں روکتے ۔ یہی حالت میری اور تمہاری ہے کہ تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں اپنی باہوں میں لپیٹ لپیٹ کر اس سے روک رہا ہوں کہ آگ میں نہ گھسو ، آگ سے بچو لیکن تم میری مانتے اور اس آگ میں گھسے چلے جا رہے ہو ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] اس جملہ کی تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی دوست ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کو ایسے نہ بلایا کرو جیسے تم ایک دوسرے کو بےتکلفی سے بلاتے رہتے ہو۔ بلکہ اسے بلانا ہو تو اس کا پورا ادب و احترام ملحوظ رکھا کرو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تمہیں بلائے تو ایسا نہ سمجھو جیسے کوئی عام آدمی بلا رہا ہے کہ جی چاہے تو جواب دے دو یا نہ دو یا اگر جی چاہے تو اس کے پاس حاضر ہوجاؤ اور چاہے تو نہ آؤ۔ بلکہ اس کے بلانے پر تم پر واجب ہوجاتا ہے کہ تم اس کے پاس حاضر ہوجاؤ اور اس کی بات سنو پھر اسے بجا لاؤ۔ اور یہ مطلب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24؀) 8 ۔ الانفال :24) (٨: ٢٤) سے ماخود ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- حضرت سعید بن معلی کہتے ہیں کہ : میں نماز پڑھ رہا تھا آپ میرے سامنے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر کیوں نہ آئے ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24؀) 8 ۔ الانفال :24) (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ)- اس حدیث سے علماء نے یہ مسئلہ استباط کیا ہے کہ اگر کوئی شخص فریضہ نماز بھی ادا کر رہا ہو تو رسول کے بلانے پر اسے نماز تک چھوڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہئے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعا کو یوں نہ سمجھو جیسے کسی عام آدمی کی دعا ہے۔ بلکہ تمہارے حق میں رسول کی دعا تمہاری دنیا اور تمہاری آخرت سنوارنے کا موجب بن سکتی ہے اسی طرح اس کی بددعا تمہیں تباہ و برباد بھی کرسکتی ہے۔ لہذا اس کی اطاعت کرکے اسے خوش رکھنے اور اس کی دعا لینے کی کوشش کیا کرو۔ - [١٠١] دن کے پچھلے حد (اصیل ( میں تو تین نمازیں آجاتی ہیں۔ مگر پہلے حصے میں ایک بھی فریضہ نماز نہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ ان کے پہلے حصہ میں کوئی ایسی وحی آجاتی جس سے مسلمانوں کو فوری طور پر آگاہ کرنا ضروری ہوتا تھا۔ اس غرض سے مسجد نبوی میں اذان کہہ کر ملسمانوں کو بلا لیا جاتا۔ آپ وحی سناتے۔ خطبہ ارشاد فرماتے اور حالات حاضرہ سے متعلق بعض دفعہ مشورے بھی مقصود ہوتے تھے اور بعض دفعہ اللہ کے احکام کی فوری نشرواشاعت اسی سلسلہ میں منافق بھی ایک دفعہ آپ کے پاس حاضر ضرور ہوجاتے اور یہ بات نفاق کا شبہ دور کرنے کی خاطر ان کے لئے ضروری بھی ہوتی تھی۔ حاضری لگوالینے کے بعد وہ اس انتظار میں رہتے تھے کہ موقع ملے تو چپکے سے کھسک جائیں اور بمصداق جوئندہ یابندہ وہ کھسک بھی جایا کرتے تھے۔ اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔- [١٠٢] ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر منافقوں کا آپ کی دعوت کو ناگوار محسوس کرنا، کھسک جانے کی کوشش کرنا۔ آپ کے نصائح پر توجہ نہ دینا یا آپ کی دعوت کو کچھ اہمیت نہ دینا۔ سب رسول کی مخالفت میں آتی ہیں۔ تاہم رسول کی مخالفت کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے اور منافقوں کے لئے یہ فتنہ کیا کم ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق جڑ پکڑ جائے اور انھیں اپنی ایسی کرتوتیں بھی اچھی نظر آنے لگیں۔ تاہم آیت کے اس حصہ کا حکم عام ہے جو منافقوں اور مسلمانوں سب کو شامل ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے۔ رہا فتنہ کا مفہوم تو اس کی بیشمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ سب سے واضح صورت مسلمانوں کا داخلی انتشار اور ان کا اجتماعی قوت کا کمزور ہونا اور ان پر ظالم اور جابر حکمران کا مسلط ہوجانا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب احکام شرعیہ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ ۔۔ : مفسرین نے اس آیت کے تین مطلب بیان فرمائے ہیں، پہلا یہ کہ ” دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ “ کا معنی ہے رسول کا بلانا۔ اس صورت میں لفظ ” دُعَاء “ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بلائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح معمولی نہ سمجھو، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بلائیں تو حاضر ہونا واجب ہوتا ہے، جب کہ آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کا یہ حکم نہیں ہے۔ یہ مفہوم یہاں زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس سے پہلے اجازت طلب کرنے اور امر جامع میں موجود رہنے کا بیان ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے، تمہارا رسول کو بلانا۔ اس صورت میں ” دُعَاء “ اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نام لے کر مت بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر بلاتے ہو، بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ، یا ایسے القاب سے بلاؤ جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم ہو اور ایسے لہجے میں مت بلاؤ جس میں تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، بلکہ آواز نیچی رکھ کر ادب کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاؤ۔ اس معنی کی تائید سورة حجرات کی ابتدائی آیات سے ہوتی ہے، فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) [ الحجرات : ٢ ] ” اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمہارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔ “ یہ معنی بھی بہت عمدہ ہے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ تم رسول کی دعا کو عام لوگوں کی دعا کی طرح مت سمجھو۔ کیونکہ آپ کی دعا قبول شدہ ہے، اگر تمہارے حق میں ہوگئی تو اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اگر تمہارے خلاف ہوگئی تو کوئی جائے پناہ نہیں۔ یہ معنی اگرچہ اپنی جگہ درست ہے، مگر آیت کے الفاظ سے بعید ہے۔- قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا :” يَتَسَلَّـلُوْنَ “ آہستہ آہستہ خفیہ طریقے سے نکلتے ہیں، کھسکتے ہیں، جیسے ” تَدَخَّلَ “ اور ” تَدَرَّجَ “ میں آہستہ آہستہ کا مفہوم شامل ہے۔ ” لِوَاذًا “ لَاذَ یَلُوْذُ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، ایک دوسرے کی پناہ لینا۔ یہ منافقین کا شیوہ تھا کہ کوئی مسلمان اجازت لے کر نکلتا تو اس کی آڑ لے کر وہ بھی نکل جاتے۔ کھسکنے والوں کو اللہ کی گرفت سے ڈرانا مقصود ہے۔ - فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ : ” خَالَفَ یُخَالِفُ خِلَافًا وَ مُخَالَفَۃً “ کا معنی پیچھے رہنا بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٨١ ] ” وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ اللہ کے رسول کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہوگئے۔ “ ” يُخَالِفُوْنَ “ کے بعد ” عَنْ “ کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے ” سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں۔ “ اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انفال (٢٤، ٢٥) شوکانی نے فرمایا : ” يُخَالِفُوْنَ “ کے بعد ” عَن “ لانے کا مطلب یہ ہے کہ ” يُخَالِفُوْنَ “ کے ضمن میں اعراض کا مفہوم شامل ہے، یعنی جو لوگ اس کے حکم سے اعراض کرتے ہیں۔ “ زمخشری نے فرمایا : ” يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ“ کا معنی ” یَصُدُّوْنَ عَنْ أَمْرِہِ “ ہے، یعنی جو لوگ اس کے حکم سے دوسروں کو روکتے ہیں۔ “ مختصر یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے پیچھے رہنے کا نتیجہ فتنے میں مبتلا ہونا ہے۔ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طالب سے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ آیت ” وَقٰتِلُوْھُم حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃً “ میں فتنہ سے مراد شرک ہے، یعنی جو شخص جان بوجھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل نہیں کرتا یا عمل کرنے میں تاخیر کرتا ہے، خطرہ ہے کہ وہ خالص ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور کفر و شرک یا بدعت میں مبتلا ہوجائے گا۔ - اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دنیا میں اس عذاب کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، دیکھیے سورة انعام کی آیت (٦٥) کی تفسیر۔- 3 اس آیت میں لفظ ” اَوْ “ مانعۃ الخلو ہے، یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ فتنے اور عذاب الیم میں سے کوئی چیز بھی ان پر نہ آئے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں چیزیں ان پر اتریں۔- 3 جب صرف ایک معاملہ میں رسول کی اطاعت نہ کرنے پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملے پر ضرور غور کرنا چاہیے جنھوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا، بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بےنیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسرا حکم آخری آیت میں یہ دیا گیا ہے۔ لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ الآیتہ اس کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں بیان کی گئی ہے کہ دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لوگوں کو بلانا ہے (جو نحوی قاعدہ سے اضافت الی الفاعل ہے) اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لوگوں کو بلائیں تو اس کو عام لوگوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو کہ اس میں آنے نہ آنے کا اختیار رہتا ہے بلکہ اس وقت آنا فرض ہوجاتا ہے اور بغیر اجازت جانا حرام ہوجاتا ہے۔ آیت کے سیاق وسباق سے یہ تفسیر زیادہ مناسب رکھتی ہے اسی لئے مظہری اور بیان القرآن میں اس کو اختیار کیا ہے اور اس کی ایک دوسری تفسیر حضرت عبداللہ ابن عباس سے ابن کثیر اور قرطبی وغیرہ نے یہ نقل کی ہے کہ دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ سے مراد لوگوں کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی کام کے لئے پکارنا اور بلانا ہے (جو نحوی ترکیب میں اضافت الی المفعول ہوگی۔ )- اس تفسیر کی بناء پر معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی ضرورت سے بلاؤ یا مخاطب کرو تو عام لوگوں کی طرح آپ کا نام لے کر یا محمد نہ کہو کہ بےادبی ہے بلکہ تعظیمی القاب کے ساتھ یا رسول اللہ یا نبی اللہ وغیرہ کہا کرو۔ اس کا حاصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کا مسلمانوں پر واجب ہونا اور ہر ایسی چیز سے بچنا ہے جو ادب کے خلاف ہو یا جس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچے۔ یہ حکم ایسا ہوگا جیسے سورة حجرات میں اسی طرح کے کئی حکم دیئے گئے ہیں مثلاً وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ یعنی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرو تو ادب کی رعایت رکھو، ضرورت سے زیادہ اونچی آواز سے باتیں نہ کرو جیسے لوگ آپس میں کیا کرتے ہیں اور مثلاً یہ کہ جب آپ گھر میں تشریف رکھتے ہوں تو باہر سے آواز دے کر نہ بلاؤ بلکہ آپ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرو اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ میں اسی کا بیان ہے۔- تنبیہ :- اس دوسری تفسیر میں ایک عام ادب بزرگوں اور بڑوں کا بھی معلوم ہوا کہ اپنے بزرگوں بڑوں کو ان کا نام لے کر پکارنا اور بلانا بےادبی ہے تعظیمی لقب سے مخاطب کرنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۝ ٠ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللہُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا۝ ٠ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٦٣- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - سل - سَلُّ الشیء من الشیء : نزعه، كسلّ السّيف من الغمد، وسَلُّ الشیء من البیت علی سبیل السّرقة، وسَلُّ الولد من الأب، ومنه قيل للولد : سَلِيلٌ. قال تعالی: يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، وقوله تعالی: مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] ، أي : من الصّفو الذي يُسَلُّ من الأرض، وقیل : السُّلَالَةُ كناية عن النطفة تصوّر دونه صفو ما يحصل منه . والسُّلُّ «1» : مرض ينزع به اللّحم والقوّة، وقد أَسَلَّهُ الله، وقوله عليه السلام : «لا إِسْلَالَ ولا إغلال» «2» . وتَسَلْسَلَ الشیء اضطرب، كأنه تصوّر منه تَسَلُّلٌ متردّد، فردّد لفظه تنبيها علی تردّد معناه، ومنه السِّلْسِلَةُ ، قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ، وقال تعالی: سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] ، وقال : وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] ، وروي : «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» «3» . وماء سَلْسَلٌ:- متردّد في مقرّه حتی صفا، قال الشاعر :۔ أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ- «4» وقوله تعالی: سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، أي : سهلا لذیذا سلسا حدید الجرية، وقیل : هو اسم عين في الجنّة، وذکر بعضهم أنّ ذلک مركّب من قولهم : سل سبیلا «5» ، نحو : الحوقلةوالبسملة ونحوهما من الألفاظ المرکّبة، وقیل : بل هو اسم لكلّ عين سریع الجرية، وأسلة اللّسان : الطّرف الرّقيق .- ( س ل ل ) سل ( ن ) الشی من الشی کے معنی ایک چیز کے دوسری سے کھینچ لینے کے ہیں جیسے تلوار کا نیام سے سونتنا ۔ یا گھر سے کوئی چیز چوری کھسکا لینا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ۔ اسی مناسبت سے باپ کے نطفہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے : ۔ جیسے فرمایا :۔ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون 12] خلاصے سے ( یعنی ) حقیر پانی سے پیدا کی ۔ یعنی وہ ہر جوہر جو غذا کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں بطور کنایہ نطفہ مراد ہے ۔ اور نطفہ پر اس کا اطلاق اس جوہر کے لحاظ سے ہے جس سے نطفہ بنتا ہے ۔ السل : سل کی بیماری کیونکہ یہ انسان سے گوشت اور قوت کو کھینچ لیتی ہے اور اسلہ اللہ کے معنی ہیں " اللہ تعالیٰ نے اسے سل کی بیماری میں مبتلا کردیا " ۔ حدیث میں ہے لا اسلال ولا اغلال کہ چوری اور خیانت نہیں ہے ۔ تسلسل الشئی کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں گویا اس میں بار بار کھسک جانے کا تصور کر کے لفظ کو مکرر کردیا ہے تاکہ تکرار لفظ تکرار معنی پر دلالت کرے اسی سے سلسلۃ ہے جس کے معنی زنجیر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32]( پھر ) زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے ( جکڑ دو ) ۔ سلسلہ کی جمع سلاسل آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان 4] زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ ( تیار کر رکھی ہے ) وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر 71] اور زنجیر میں ہوں گی اور گھسیٹے جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچنے جا رہے ہیں ۔ اور ماء سلسل اس پانی کو کہتے ہیں جو اپنی قرار گاہ میں مضطرب ہو کر صاف ہوجائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 232 ) أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ اور آیت سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] میں سلسبیل کے معنی تیزی سے بہتے ہوئے صاف لذیذ اور خوشگوار پانی کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سل اور سبیل سے بنا ہے اور حوقلۃ و بسملۃ وغیرہ کی طرح الفاظ مرکبہ کے قبیل سے ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ ہر تیز رو چشمے کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ اور زبان کے باریک سرے کو اسلۃ اللسان کہتے ہیں ۔- لوذ - قال تعالی: قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] هو من قولهم : لَاوَذَ بکذا يُلَاوِذُ لِوَاذاً ومُلَاوَذَةً : إذا استتر به . أي : يستترون فيلتجئون بغیرهم فيمضون واحدا بعد واحد، ولو کان من : لَاذَ يَلُوذُ لقیل : لِيَاذاً إلّا أنّ اللِّوَاذَ هو فعال من : لاوذ . واللِّيَاذُ من فعل، واللَّوْذُ : ما يطيف بالجبل منه .- ( ل و ذ) لاوذ ( مفاعلہ ) بکذا لواذا وملاوزۃ کے معنی کس چیز کی آڑلینا اور اس کے پیچھے چھپ جانا ہیں ۔ پس آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو وہ لوگ خوب معلوم ہیں جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ اور پناہ کے کری کے بعد ودیگرتے کھسک کر نکل جاتے ہیں اور یہاں لواذا لاوذ ( مفاعلہ ) کا مصدر ہے کیونکہ اگر یہ لاذ ( ن ) مصدر ہوتا تو لیاذا ( بالباء ) آنا چاہیے تھا ۔ اس لئے کہ لاذلیاذا کہاجاتا ہے ۔ اللوذ ۔ پہاڑ کا کنارہ ۔- حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - صوب - الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، - وذلک علی أضرب :- الأوّل :- أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان .- والثاني :- أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ - فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» .- والثالث :- أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور .- والرّابع :- أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ- ( ص و ب ) الصواب - ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں - (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ - (2) مستحسن چیز کا قصد کرے - لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ - (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ - ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلانے میں تعظیم وادب ملحوظ رہے - قول باری ہے :(لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا) مسلمانو، اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ” تم رسول کو ناراض نہ کرکے ان کی بددعا سے بچتے رہو ، کیونکہ ان کی بددعا قبول ہوجاتی ہے، ان کی مانگی ہوئی دعا دوسروں کی دعائوں کی طرح نہیں ہوتی۔ “ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ ” رسول کو بڑی نیاز مندی اور تعظیم سے بلا یا کرو مثلاً ” یارسول اللہ “ ، ” یانبی اللہ “ کہہ کر پکارا کرو۔ نام لے کر نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو اس کا نام لے کر پکارتے ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دونوں معنوں پر محمول ہے کیونکہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے۔- قول باری ہے : (قد یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا) اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ ان سے منافقین مراد ہیں ان کی عادت تھی کہ جب کسی اجتماعی معاملہ میں مشاورت کے لئے صحابہ کرام جمع ہوتے تو یہ لوگ اجازت لیے بغیر وہاں سے کھسک آتے اور ایک دوسرے کی آڑ لے کر نکل آتے تاکہ جاتے ہوئے ان پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر نہ پڑجائے۔- حکم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلاف ورزی باعث عذاب ہے - قول باری ہے : (فلیحذ رالذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ و یصیبھم عذاب الیم) رسول کے حکم کی خلاف ورزف کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے۔ اس کے معنی ہیں۔ ”(فلیحہ زرالذین بخالفون عن امرہ) اس حرف جر اس لئے داخل ہوا کہ لغت کے لحاظ سے اس کا جواز ہے جس طرح یہ قول باری : (فبما نقضھم میثاقھم، عہد کو توڑنے کی بنا پر اس کے معنی ہیں فبنقضھم میثاقھم قول باری امرہ) میں ضیمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے اور اللہ کی طرف بھی۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ یہ الہل کی طرف راجع ہے کیونکہ اللہ کا اسم اس کے متصل ہے اور کنایہ یعنی ضمائر کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے متصل اسماء کی طرف رجع ہوتی ہیں۔ ان سے پہلے گزرے ہوئے اسماء کی طرف راجع نہیں ہوتیں۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اللہ کے اوامروجوب پر محمول ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر سزا اور پھٹکار لازم کردی جنہوں نے ا کے امر کی مخالفت کی تھی۔- اللہ کے امر کی مخالفت کی دو صورتیں ہوتی ہیں : اول یہ کہ کوئی شخص اس کیا مر کو تسلیم ہی نہ کرے اور اسے ٹھکرادے اور اس طرح اس کی مخالفت کا مرتکب قرار پائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ الہل کے امر کے وجوب کا اقرار کرنے اور وجوب کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے۔ یہاں مخالفت کی دونوں صورتیں مراد ہیں۔ جو شخص آیت کی مخالفت کی صرف ایک صورت تک محدود رکھتا ہے وہ دلالت کے بغیر اس کی تخصیص کا مرتکب ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال وجوب پر محمول ہیں اس لئے کہ قول باری (امرہ) میں ضمیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے اور آپ کے فعل کو آپ کے امر کا نام دیا گیا ہے جس طرح قول باری ہے (وما امر فرعون برشید اور فرعون کا کام درست نہیں تھا) یعنی فرعون کے افعال و اقوال درست نہیں تھے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے بعد اللہ کا نام ہے اور اللہ کا نام اس ضمیہ کے متصل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ ضمیر اللہ کے اسم کی طرف راجع ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسم کی طرف راجع نہ ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) اور تم لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپ کا نام لے کر ایک دوسرے کی طرح مت پکارو بلکہ تعظیم و توقیر اور عظمت کے ساتھ آپ کو پکارو کہ یا نبی اللہ اور یا رسول اللہ کہہ کر آواز دو ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کی آڑ میں ہو کر تم میں سے مجلس نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کھسک جاتے تھے، منافقین مسجد نبوی میں سے جس وقت نکلتے تو بغیر اجازت کے اس طرح سے کھسکتے تھے کہ کوئی ان کو دیکھنے نہ پائے۔- سو جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا حکم خداوندی کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس چیز سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آٖت نہ آن پڑے یا کوئی درد ناک عذاب نازل نہ ہوجائے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم “۔ (الخ)- ابونعیم (رح) نے دلائل میں ضحاک (رح) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) آپ کو یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ابو القاسم کہا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر ایک دوسرے کی طرح مت پکارو، چناچہ اس کے بعد صحابہ کرام (رض) نے یا نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنا شروع کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (لَا تَجْعَلُوْا دُعَآء الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ط) ” - یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بلاوا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کے بلانے پر تم نہ جاؤ تو کوئی بڑی بات نہیں ‘ لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر تم لبیک نہ کہو تو اپنے ایمان کی خیر مناؤ۔ اب ایک بلانا یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اس کے کسی دوست نے اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کسی کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ ایسی صورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کجا اور ایک عام آدمی کی دعوت کجا ۔۔ لیکن ایک بلانا اللہ کے رستے میں جہاد کے لیے بلانا ہے کہ ایک طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اللہ کی راہ میں میرے ساتھ چلو اور دوسری طرف کوئی عام شخص کسی دوسرے شخص کو اپنی مدد کے لیے بلا رہا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے اور ایک عام آدمی کے بلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔- ” دُعَآء الرَّسُوْلِ “ کا ایک مفہوم ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارنا “ بھی ہے۔ یعنی جیسے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہو ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم ایسے مخاطب نہیں کرسکتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور احترام کے بارے میں سورة الحجرات میں بہت واضح ہدایات دی گئی ہیں : (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) ” اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے تم ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو ‘ کہیں تمہارے سارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے “۔ سورة الحجرات کے مطالعہ کے دوران اس بارے میں مزید تفصیل سے بات ہوگی۔- (قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا ج) ” - یہ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کی نیت میں پہلے سے ہی فتور ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ جب لوگ کسی مہم کے لیے نکلے تو یہ بھی نکل پڑے۔ پھر جب دیکھا کہ ان کا نام جانے والوں میں شامل ہوچکا ہے تو اس کے بعد آنکھ بچا کر چپکے سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک گئے۔ یا اس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی اجتماع میں شریک ہوئے ‘ وہاں اچانک کسی مہم کے لیے کچھ رضا کاروں کی ضرورت پڑگئی تو اب اس سے پہلے کہ رضا کاروں کے نام پوچھنے کا مرحلہ آتا ‘ یہ آنکھ بچا کر وہاں سے کھسک گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :102 اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی ۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلانا یا دعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی ۔ ان مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں : اول یہ کہ رسول کے بلانے کو عام آدمیوں میں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو یعنی رسول کا بلاوا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے ، لیکن رسول بلائے اور تم نہ جاؤ ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے ۔ دوم یہ کہ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دیں تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں ۔ سوم یہ کہ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا کرو ۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی ۔ یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں ، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :103 یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں ، کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :104 امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ظالموں کا تسلط لیا ہے ۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے ۔ بہرحال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں ۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں ، اخلاقی زوال ، نظام جماعت کی پراگندگی ، داخلی انتشار ، سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا ، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

48: برابر کے آدمی جب ایک دوسرے کو بُلاتے ہیں تو اِس کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی، اگر کوئی اُس کے جواب میں نہ جائے تو اتنا بُرا نہیں سمجھا جاتا، اور اگر چلا بھی جائے تو بغیر اجازت کے واپس آجانے کو بھی گوارا کرلیا جاتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں تو اسے آپس کا بلانا نہ سمجھو، چاہے گئے چاہے نہ گئے، بلکہ اہتمام کرکے جانا ہی ضروری ہے، دوسرے یہ بات بھی معمولی نہ سمجھو کہ جب چاہو بلا اجازت اٹھ کر چلے آو، بلکہ جب کہیں جانا ہو تو آپ سے اجازت لے کر جاؤ۔ اسی آیت کی ایک اور تفسیر یہ بھی ممکن ہے کہ جب تم حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرو تو اِس طرح نہ کرو جیسے ایک دوسرے کو نام لے کر مخاطب کرتے ہو، لہٰذا ’’یا محمد‘‘ کہہ کر نہ بلاو، بلکہ آپ کو تعظیم کے ساتھ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرو۔