رخصت پر بھی اجازت مانگو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ادب اور بھی سکھاتا ہے کہ جیسے آتے ہوئے اجازت مانگ کر آتے ہو ایسے جانے کے وقت بھی میرے نبی سے اجازت مانگ کر جاؤ ۔ خصوصا ایسے وقت جب کہ مجمع ہو اور کسی ضروری امر پر مجلس ہوئی ہو مثلا نماز جمعہ ہے یا نماز عید ہے یا جماعت ہے یا کوئی مجلس شوری ہم تو ایسے موقعوں پر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لو ہرگز ادھر ادھر نہ جاؤ مومن کامل کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب یہ اپنے کسی ضروری کام کے لئے آپ سے اجازت چاہیں تو آپ ان میں سے جسم چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لئے طلب بخشش کی دعائیں بھی کرتے رہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں جائے تو اہل مجلس کو سلام کر لیا کرے اور جب وہاں سے آنا چاہے تو بھی سلام کر لیاکرے آخری دفعہ کا سلام پہلی مرتبہ کے سلام سے کچھ کم نہیں ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام صاحب نے اسے حسن فرمایا ہے ۔
6 2 1یعنی جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔
[٩٩] یعنی ایسے امور جن کا تعلق سب مسلمانوں سے مشترک ہو۔ جیسے جہاد یا مجلس مشاورت، یا کوئی مشترکہ مفادات کے لئے اجتماع ہو۔ خواہ ایسی میٹنگ جنگ یا حالات جنگ سے تعلق رکھتی ہو یا حالت امن سے، مومنوں کا یہ کام نہیں کہ آپ سے اجازت لئے بغیر وہاں سے چل دیں۔ ہاں اگر انھیں کسی ضروری کام کی بنا پر اس مجلس و اجتماع کے اختتام سے پہلے واپس آنا ضروری ہو تو وہ اس سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اجازت لئے بغیر وہاں سے چلے نہیں آتے۔ اگر وہ اپنی کوئی ضرورت آپ سے بیان کریں۔ تو انھیں اجازت دینا آپ کی صوابدیدی پر منحصر ہے اور اگر یہ سمجھیں کہ اس کا ذاتی کام اس اجتماعی مفاد کے مقابلہ میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ تو بیشک آپ انھیں اجازت نہ دیں۔ اور اگر آپ انھیں اجازت دے دیں تو ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کیجئے۔ کیونکہ اپنی کسی ذاتی غرض کی خاطر اجتماعی معاملات اور آپ کی صحبت سے محروم رہنما حقیقتاً دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے مترادف ہے۔ لہذا اگر کسی مخلص مومن کو اس کی التجا کی بنا پر آپ اجازت دے بھی دیں تو اس کے حق میں آپ کے استغفار کی برکت سے اس تقصیر کا تدارک ہوسکے گا۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر ایسے اجتماعی مفاد کی مجلس سے اجازت طلب کرنا قطعاً ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ حکم آپ کی ذات یا آپ کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین یا کسی بھی اسلامی حکومت کے ایسے مشترکہ مفاد کی مجلس سے بلا اجازت چلے آنا آداب مجلس کے ہی خلاف ہے اور شرعاً ناجائز بھی ہے مجلس کو چھوڑ کرجانے کا جواز صرف اس صورت میں ہے کہ فی الحقیقت کوئی ضرورت لاحق ہو۔ جس کی بنا پر میر مجلس سے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کی جائے۔ اور اگر میر مجلس اس کو اجازت دینے یا اس کے ذاتی کام کے مقابلہ میں اس کے شریک مجلس رہنے کو زیادہ اہم سمجھتا ہو اور وہ اجازت نہ دے تو کسی مومن کو اس سے کچھ شکایت نہیں ہونا چاہئے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۔۔ : اس سے پہلے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا تھا، اب نکلتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا، خصوصاً جب کسی اہم کام کے لیے اکٹھا کیا گیا ہو، مثلاً کسی کام کے بارے میں مشورہ ہو، یا جہاد کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا نصیحت کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا جیسا کہ خندق کھودنے کے لیے مسلمان اکٹھے ہوئے تھے، ایسے موقعوں پر منافقین جان بچانے کے لیے بلا اجازت نکل جاتے تھے، جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا : (قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ) [ النور : ٦٣ ] ” بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٧ ] ” اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان کا بعض بعض کی طرف دیکھتا ہے کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے ؟ پھر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں، اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے۔ “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہاں منافقین کی صریح الفاظ میں مذمت کے بجائے اجازت لے کر جانے والے مسلمانوں کی تعریف کرکے فرمایا کہ مومن صرف یہ ہیں اور یہ بات اسی آیت میں دو دفعہ بیان فرمائی، ایک ” اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔۔ “ اور دوسری ”ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ “ اس سے ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر اجازت کے بغیر کھسک جانے والوں میں کامل ایمان نہیں، یا وہ ایمان سے بالکل ہی فارغ ہیں۔ مگر یہ بات صراحت کے بجائے کنائے سے بیان فرمائی، گویا منافقین اس قابل نہیں کہ ان کا نام مذمت کے لیے بھی لیا جائے۔- فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ اجازت بلاوجہ نہیں بلکہ اپنے کسی اہم کام کے لیے مانگنی چاہیے اور یہ بھی کہ امیر کو اختیار ہے کہ جسے چاہے اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے، کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ مجلس کی اہمیت کے پیش نظر کسے اجازت دینے کی گنجائش ہے۔ - وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ دنیا کے کام کو دین پر مقدم رکھنا ہے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (وحیدی)- 3 یہ آیت امت کی مصلحت کے لیے جماعتی نظم کی بنیاد ہے، کیونکہ سنت یہ ہے کہ ہر اجتماع کے لیے (چھوٹا ہو یا بڑا) ایک امیر ہو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا کَانَ ثَلَاثَۃٌ فِيْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا أَحَدَھُمْ ) [ أبوداوٗد، الجہاد، باب في القوم یسافرون۔۔ : ٢٦٠٩، قال الألباني حسن صحیح ] ” جب سفر میں تین (٣) آدمی ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں۔ “ یہ امیر ان مسلمانوں کے لیے ولی الامر کا قائم مقام ہوگا اور اس کی حیثیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین کی ہوگی، اس لیے اس کے اجتماع سے اس کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں، کیونکہ اگر ہر شخص کو اپنی مرضی سے کھسک جانے کی اجازت ہے تو کوئی اجتماع بکھرنے سے نہیں بچے گا۔ اسی طرح جب امیر کسی دینی، سیاسی یا جہادی ضرورت کے لیے مجلس بلائے تو طے شدہ مقام اور وقت سے اجازت یا صحیح عذر کے بغیر پیچھے رہنا جائز نہیں۔ (ابن عاشور)
خلاصہ تفسیر - بس مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام پر جمع ہوتے ہیں جس کے لئے مجمع کیا گیا ہے (اور اتفاقاً وہاں سے کہیں جانے کی ضرورت پڑتی ہے) تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں ( اور آپ اس پر اجازت نہ دیدیں مجلس سے اٹھ کر) نہیں جاتے (اے پیغمبر) جو لوگ آپ سے (ایسے مواقع پر) اجازت لیتے ہیں بس وہی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں (آگے ایسے لوگوں کو اجازت دینے کا بیان ہے) تو جب یہ اہل ایمان لوگ (ایسے مواقع پر) اپنے کسی کام کے لئے آپ سے (جانے کی) اجازت طلب کریں تو ان میں آپ جس کے لئے (مناسب سمجھیں اور اجازت دینا) چاہیں اجازت دے دیاکریں ( اور جس کو مناسب نہ سمجھیں اجازت نہ دیں کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اجازت طلب کرنے والے اس کام کو ضروری سمجھتے ہوں جس کے لئے اجازت طلب کر رہے ہیں اور وہ واقع میں ضروری نہ ہو یا ضروری بھی ہو مگر اس کے جانے سے اس سے بڑا کوئی ضرر پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس لئے اجازت و عدم اجازت کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا) اور (اجازت دے کر بھی) آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کیا کیجئے ( کیونکہ ان کا یہ رخصت چاہنا اگرچہ قومی عذر ہی کی وجہ سے ہو مگر اس میں دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کی صورت تو لازم آتی ہے جس میں ایک کوتاہی کا شائبہ ہے اس کے لئے آپ کی دعا مغفرت درکار ہے۔ دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت چاہنے والے نے جس عذر و ضرورت کو قومی سمجھ کر اجازت لی ہے اس میں اس سے خطاء اجتہادی ہوگئی ہو کہ غیر ضروری کو ضروری سمجھ لیا اور یہ خطاء اجتہادی ایسی ہو کہ ذرا غور و تامل سے رفع ہو سکتی ہو تو ایسی صورت میں غور و فکر کی کمی بھی ایک کوتاہی ہے اس سے استغفار کی ضرورت ہوئی) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (چونکہ ان کی نیت اچھی تھی اس لئے ایسے وقائق پر مواخذہ نہیں فرماتا۔ ) تم لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو (جب وہ کسی اسلامی ضرورت کے لئے تم کو جمع کریں) ایسا (معمولی بلانا) مت سمجھو جیسا تم میں ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے کہ چاہے آیا یا نہ آیا پھر آ کر بھی جب تک چاہا بیٹھا جب چاہا اٹھ کر بےاجازت چل دیا۔ رسول کا بلانا ایسا نہیں بلکہ ان کے اس حکم کی تعمیل واجب ہے اور بےاجازت واپس جانا حرام اور اگر کوئی بلا اجازت چلا گیا تو یہ ممکن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا جانا مخفی رہ جاوے لیکن یہ یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو (دوسرے کی) آڑ میں ہو کر تم میں سے (مجلس نبوی سے) کھسک جاتے ہیں تو جو لوگ اللہ کے حکم کی (جو بواسطہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچا ہے) مخالفت کرتے ہیں ان کو اس سے ڈرنا چاہئے کہ ان پر (دنیا میں) کوئی آفت آن پڑے یا ان پر (آخرت میں) کوئی درد ناک عذاب نازل ہوجاوے (اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا آخرت دونوں میں عذاب ہو اور یہ بھی) یاد رکھو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اللہ تعالیٰ اس حالت کو بھی جانتا ہے جس پر تم (اب) ہو اور اس دن کو بھی جس میں سب اس کے پاس (دوبارہ زندہ کر کے) لائے جاویں گے تو وہ ان کو سب جتلا دے گا جو کچھ انہوں نے کیا تھا (اور تمہاری موجودہ حالت اور روز قیامت ہی کی کچھ تخصیص نہیں) اللہ تعالیٰ (تو) سب کچھ جانتا ہے۔- معارف ومسائل - نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے خصوصاً اور عام معاشرت کے بعض آداب و احکام :- آیات مذکور میں دو حکم دیئے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو کسی دینی جہاد وغیرہ کے لئے جمع کریں تو مقتضائے ایمان یہ ہے کہ سب جمع ہوجاویں اور پھر آپ کی مجلس سے بغیر آپ کی اجازت کے نہ جائیں۔ کوئی ضرورت پیش آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت حاصل کرلیں اور اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت ہے کہ کوئی خاص حرج اور ضرورت نہ ہو تو اجازت دے دیاکریں۔ اسی ضمن میں ان منافقین کی مذمت ہے جو اس تقاضائے ایمان کے خلاف بدنامی سے بچنے کے لئے حاضر تو ہوجاتے ہیں مگر پھر کسی کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔- یہ آیت غزوہ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی ہے جبکہ مشرکین عرب اور دوسری جماعتوں کے متحدہ محاذ نے یکبارگی مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بمشورہ صحابہ ان کے حملے سے بچاؤ کے لئے خندق کھودی تھی اسی لئے اس جہاد کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے یہ غزوہ شوال ٠٥ ہجری میں ہوا ہے (قرطبی) - بیہقی اور ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود اور تمام صحابہ خندق کھودنے میں مصروف کار تھے مگر منافقین اول تو آنے میں سستی کرتے اور پھر آ کر بھی معمولی سا کام دکھانے کو کرلیتے اور پھر چپکے سے غائب ہوجاتے تھے اس کے خلاف مومنین سب کے سب محنت کے ساتھ لگے رہتے اور کوئی مجبوری اور ضرورت پیش آتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مظہری)- ایک سوال و جواب :- اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے بغیر آپ کی اجازت کے چلا جانا حرام ہے حالانکہ صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں وہ آپ کی مجلس میں ہوتے اور پھر جب چاہتے چلے جاتے تھے اجازت لینا ضروری نہ سمجھتے تھے۔ جواب یہ ہے کہ یہ عام مجلسوں کا حکم نہیں بلکہ اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کسی ضرورت سے جمع کیا ہو جیسا کہ واقعہ خندق میں ہوا تھا اس تخصیص کی طرف خود آیت کے لفظ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ میں اشارہ موجود ہے۔- امر جامع سے کیا مراد ہے :- اس میں اقوال مختلف ہیں مگر واضح بات یہ ہے کہ امر جامع سے مراد وہ کام ہے جس کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو جمع کرنا ضروری سمجھیں اور کسی خاص کام کے لئے جمع فرما دیں جیسے غزوہ احزاب میں خندق کھودنے کا کام تھا (قرطبی۔ مظہری)- یہ حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے ساتھ مخصوص ہے یا عام :- باتفاق فقہاء چونکہ یہ حکم ایک دینی اور اسلامی ضرورت کے لئے جاری کیا گیا ہے اور ایسی ضرورتیں ہر زمانے میں ہو سکتی ہیں اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہر امام و امیر جس کے قبضہ میں زمام حکومت ہو اس کا اور اس کی ایسی مجلس کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ سب کو جمع ہونے کا حکم دیں تو اس کی تعمیل واجب اور واپس جانا بغیر اجازت ناجائز ہے (قرطبی، مظہری، بیان القرآن) اور یہ ظاہر ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے لئے یہ حکم زیادہ موکد اور اس کی مخالفت کھلی شقاوت ہے جیسے منفاقین سے صادر ہوئی اور اسلامی آداب معاشرت کے لحاظ سے یہ حکم باہمی اجتماعات اور عام مجلسوں کے لئے بھی کم از کم مستحب اور مستحسن ضرور ہے کہ جب مسلمان کسی مجلس میں کسی اجتماعی معاملہ میں غور کرنے یا عمل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہوں تو جب جانا ہو میر مجلس سے اجازت لے کر جائیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا كَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْہَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْہُ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللہَ ٠ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٦٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - استئذان - : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور 62] .- الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - شأن - الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان .- ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔- شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
اجتماچ سے بغیر اجازت جانا درست نہیں - قول باری ہے (واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ ) اور جب کسی اجتماع کام کے موقعہ پر رسول کے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ حسن اور سعید بن جبیر نے کہا ہے کہ امر جامع سے مراد جہاد ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ اس سے ہر اجتماعی کام مراد ہے مکحول کا قول ہے کہ اس سے جمعہ اور قتال مراد ہیں۔ زہری کا قول ہے کہ جمعہ مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ ہر ایسا کام جو اللہ کی طاعت کے سلسلے میں کیا جارہا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عموم لفظ کی بنا پر تمام توجیہات مراد ہوسکتی ہیں۔ سعید نے پتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اللہ نے پہلے سورة براء ۃ میں یہ آیت نازل فرمائی تھی (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے تم نے انہیں اجازت کیوں دی، پھر الہل تعالیٰ نے اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی رخصت دے دی اور فرمایا (فاذنہ لمن شئت منھم) ان میں سے آپ جسے چاہیں جانے کی اجازت دے دیں، اس طرح اس آیت نے سورة براء ۃ کی آیت کو منسوخ کردیا۔ ایک قول کے مطابق جمعہ کے دوران اگر کسی کو حدث لاحق ہوجائے تو اسے وضو کے لئے جانے کی خاطراجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اجازت طلب کرنے کی بات ایک بےمعنی سی بات ہے ، جب امام کے لئے اسے وضو کرنے سے روکنا جائز نہیں ہے تو اس سے وضو کے لئے اجازت طلب کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اجازت تو وہاں لی جاتی ہے جہاں امام کو اس کی معنویت اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت دو صورتوں میں پیش آتی ہے، قتال کی صورت میں یا باہمی مشاورت کی صورت میں۔
(٦٢) سچے ایماندار تو وہی ہیں جو ظاہر و باطن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے ہوتے ہیں یا آپ کے ساتھ کسی جہاد پر ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیں تو جمعہ یا جہاد سے واپس نہیں جاتے، اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ آپ سے ایسے موقع پر اجازت لیتے ہیں بس وہی اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں۔- حضرت عمر فاروق (رض) کو غزوہ تبوک میں ایک ضروری کام کے لیے آپ سے جانے کی اجازت طلب کریں تو ان میں سے آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اجازت دینے کے بعد بھی آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے بیشک اللہ تعالیٰ تائب کو بخشنے والا اور اس پر بڑا مہربان ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ انما المؤمنون الذین امنوا “۔ (الخ)- ابن اسحاق (رح) نے اور بیہقی (رح) نے دلائل میں عروہ اور محمد بن کعب قرضی سے روایت کیا ہے کہ احزاب کے سال جس وقت قریش مقابلہ کے لیے آئے تو انہوں نے مدینہ منورہ کے قریب مجمع الاسیال میں پڑاؤ ڈالا اور ان کا سپہ سالار ابوسفیان تھا، ادھر سے قبیلہ غطفان آیا اور اس نے احد پہاڑ کے کنارے پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مدینہ منورہ کے باہر خندق کھودنے کا حکم دیا چناچہ آپ نے اور صحابہ کرام (رض) نے خندق کھودنی شروع کی چناچہ منافقین نے ٹال مٹول شروع کردی آتے اور معمولی ساکام کرکے بغیر آپ کی اجازت کے اس طریقہ پر کہ آپ کو معلوم نہ ہو سکے اپنے گھروں کی طرف چلے جاتے تھے اور مسلمانوں میں سے جب کسی آدمی کو بہت ضروری کام پیش آجاتا تو اپنے اس کام کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کرتا اور اپنے کام کے پورا کرنے کی آپ سے اجازت طلب کرتا، چناچہ اس کو اجازت دے دی جاتی جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوجاتا تو پھر فورا واپس آجا تا تھا تو ایسے مومنین کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہے کہ سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔
آخری رکوع جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے ‘ اس میں خالص جماعتی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ - (وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ ط) ” - نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہی حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشینوں اور اسلامی نظم جماعت کے امراء کے لیے ہے۔ اس حکم کے تحت کسی جماعت کے تمام ارکان کو ایک نظم ( ) کا پابند کردیا گیا ہے۔ اگر ایسا نظم و ضبط اس جماعت کے اندر نہیں ہوگا تو کسی کام یا مہم پر جاتے ہوئے کوئی شخص ادھر کھسک جائے گا ‘ کوئی اْدھر چلا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی اجتماعی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ چناچہ اس حکم کے تحت لازمی قرار دے دیا گیا کہ کسی مجبوری یا عذر وغیرہ کی صورت میں اگر کوئی رخصت چاہتا ہو تو موقع پر موجود امیر سے باقاعدہ اجازت لے کر جائے۔- (فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِءْتَ مِنْہُمْ ) ” - رخصت دینے کا اختیار تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے پاس ہے۔ یعنی اسلامی نظم جماعت کے لیے یہ اصول دے دیا گیا کہ اجتماعی معاملات میں رخصت دینے کا اختیار امیر کے پاس ہے۔ چناچہ امیر یا کمانڈر اپنے مشن کی ضرورت اور درپیش صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر مناسب سمجھے تو رخصت مانگنے والے کو اجازت دے دے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو اجازت نہ دے۔ چناچہ کوئی بھی ماتحت یا مامور شخص اجازت مانگنے کے بعد رخصت کو اپنا لازمی استحقاق نہ سمجھے۔- (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللّٰہَ ط) ” - اس لیے کہ وہ اجتماعی کام جس کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کی جماعت کو ساتھ لے کر نکلے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذاتی کام نہیں بلکہ دین کا کام ہے۔ اب اگر اس دین کے کام سے کوئی شخص رخصت طلب کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے ذاتی کام کو دین کے کام پر ترجیح دی ہے اور ذاتی کام کے مقابلے میں دین کے کام کو کم اہم سمجھا ہے۔ بظاہر یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ اور نازک صورت حال ہے ‘ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں۔- (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ” - یہاں یہ نکتہ نوٹ کیجیے کہ یہی مضمون سورة التوبہ میں بھی آیا ہے ‘ لیکن وہاں اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اس فرق کو یوں سمجھئے کہ سورة النور ٦ ہجری میں نازل ہوئی تھی ‘ جبکہ سورة التوبہ ٩ ہجری میں۔ اسلامی تحریک لمحہ بہ لمحہ اپنے ہدف کی طرف آگے بڑھ رہی تھی۔ حالات بتدریج تبدیل ہو رہے تھے اور حالات کے بدلنے سے تقاضے بھی بدلتے رہتے تھے۔ چناچہ یہاں (٦ ہجری) فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہیں وہ واقعی ایمان والے ہیں ‘ جبکہ تین سال بعد سورة التوبہ میں غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا کہ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اجازت لیتے ہی نہیں۔ دراصل وہ ایمرجنسی کا موقع تھا اور اس موقع پر غزوۂ تبوک کے لیے نکلنا ہر مسلمان کے لیے لازم کردیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر کسی شخص کا رخصت طلب کرنا ہی اس بات کی علامت تھی کہ وہ شخص منافق ہے۔ چناچہ وہاں (سورۃ التوبہ میں) رخصت دینے سے منع فرمایا گیا : (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ) (آیت ٤٣) ” اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاف فرمائے (یا اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاف فرما دیا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کو کیوں اجازت دے دی ؟ “ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ بھی دیتے تو یہ لوگ پھر بھی نہ جاتے لیکن اس سے ان کے نفاق کا پردہ تو چاک ہوجاتا اس کے برعکس یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں رخصت دے دیں۔- اس مضمون کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایسے مواقع پر کسی اسلامی جماعت کے افراد کے درمیان ہمیں تین سطحوں پر درجہ بندی ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلا درجہ ان ارکان کا ہے جو اپنے آپ کو دین کے کام کے لیے ہمہ تن وقف کرچکے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کا کوئی کام اس کام سے زیادہ اہم اور ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے رخصت لینے کا کوئی موقع ومحل ہے ہی نہیں۔ اس سے نچلا درجہ ان ارکان کا ہے جو ایسے مواقع پر کسی ذاتی مجبوری اور ضرورت کے تحت باقاعدہ اجازت لے کر رخصت لیتے ہیں ‘ جبکہ اس سے نچلے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اجازت کے بغیر ہی کھسک جاتے ہیں۔ گویا ان کا دین کے اس کام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس درجہ بندی میں اوپر والے زینے کے اعتبار سے اگرچہ درمیان والا زینہ کم تر درجے میں ہے لیکن نچلے زینے کے مقابلے میں بہر حال وہ بھی بہتر ہے ۔- یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اسلامی جماعتوں کے اجتماعات کے موقع پر بعض رفقاء نہ تو اجتماع میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظم سے رخصت لیتے ہیں۔ نہ وہ پہلے بتاتے ہیں نہ ہی بعد میں معذرت کرتے ہیں۔ گویا انہیں کوئی احساس ہی نہیں ‘ نہ نظم کی پابندی کا اور نہ اپنی ذمہ داری کا۔ ان سے وہ رفقاء یقیناً بہتر ہیں جو اپنا عذر پیش کر کے اپنے امیر سے باقاعدہ رخصت لیتے ہیں۔ لیکن ان سب درجات میں سب سے اونچا درجہ بہرحال یہی ہے کہ دین کے کام کے مقابلے میں دنیا کے کسی کام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس درجے پر فائز لوگوں کے ذاتی کام اللہ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر اللہ کے کام کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے کاموں کو اللہ خود سنوارتا ہے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :97 یہ آخری ہدایات ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کانظم و ضبط پہلے سے زیادہ کَس دینے کے لیے دی جا رہی ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :98 یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے ۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جائے ، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا ، بہرحال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :99 اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سرے سے ہی نا جائز ہے ۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :100 یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی ، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے کہ اجازت نہ دے ، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :101 اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو ، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے ۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے ، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے ۔
47: یہ آیت غزوہ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی تھی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منوَّرہ پر چڑھائی کی تھی، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منوَّرہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا۔ سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا تھا۔ لیکن منافق لوگ اوّل تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے۔ اِس آیت میں ان کی مذمت اور اُن مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔