جہاد میں شمولیت کی شرائط اس آیت میں جس حرج کے نہ ہونے کا ذکر ہے اس کی بابت حضرت عطاء وغیرہ تو فرماتے ہیں مراد اس سے اندھے لولے لنگڑے کا جہاد میں نہ آنا ہے ۔ جیسے کہ سورہ فتح میں ہے تو یہ لوگ اگر جہاد میں شامل نہ ہوں تو ان پر بوجہ ان کے معقول شرعی عذر کے کوئی حرج نہیں ۔ سورہ براۃ میں ہے آیت ( لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭمَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 91ۙ ) 9- التوبہ:91 ) بوڑھے بڑوں پر اور بیماروں پر اور مفلسوں پر جب کہ وہ تہ دل سے دین حق کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ ہوں کوئی حرج نہیں ، بھلے لوگوں پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ بھلے لوگوں پر کوئی سرزنش نہیں ، اللہ غفور ورحیم ہے ۔ ان پر بھی اسی طرح کوئی حرج نہیں جو سواری نہیں پاتے اور تیرے پاس آتے ہیں تو تیرے پاس سے بھی انہیں سواری نہیں مل سکتی حضرت سعید رحمۃاللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں لوگ اندھوں ، لولوں ، لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج جانتے تھے کہ ایسا نہ ہو وہ کھا نہ سکیں اور ہم زیادہ کھالیں یا اچھا اچھا کھالیں تو اس آیت میں انہیں اجازت ملی کہ اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کراہت کر کے بھی ان کے ساتھ کھانے کو نہیں بیٹھتے تھے ، یہ جاہلانہ عادتیں شریعت نے اٹھا دیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ ایسے لوگوں کو اپنے باپ بھائی بہن وغیرہ قریب رشتہ داروں کے ہاں پہنچا آتے تھے کہ وہ وہاں کھالیں یہ لوگ اس عار سے کرتے کہ ہمیں اوروں کے گھر لے جاتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ سدی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ انسان جب اپنے بہن بھائی وغیرہ کے گھر جاتا ہے وہ نہ ہوتے اور عورتیں کوئی کھانا انہیں پیش کرتیں تو یہ اسے نہیں کھاتے تھے کہ مرد تو ہیں نہیں نہ ان کی اجازت ہے ۔ تو جناب باری تعالیٰ نے اس کے کھالینے کی رخصت عطا فرمائی ۔ یہ جو فرمایا کہ خود تم پر بھی حرج نہیں یہ تو ظاہر ہی تھا ۔ اس کا بیان اس لئے کیا گیا کہ اور چیز کا اس پر عطف ہو اور اس کے بعد کا بیان اس حکم میں برابر ہو ۔ بیٹوں کے گھروں کا بھی یہی حکم ہے گو لفظوں میں بیان نہیں آیا لیکن ضمنا ہے ۔ بلکہ اسی آیت کے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ بیٹے کا مال بمنزلہ باپ کے مال کے ہے ۔ مسند اور سنن میں کئی سندوں سے حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ۔ اور جن لوگوں کے نام آئے ان سے استدلال کر کے بعض نے کہا ہے کہ قرابت داروں کا نان ونفقہ بعض کا بعض پر واجب ہے جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا اور امام احمد رحمۃاللہ علیہ کے مذہب کا مشہور مقولہ ہے جس کی کنجیاں تمہاری ملکیت میں ہیں اس سے مراد غلام اور داروغے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے مال سے حسب ضرورت و دستور کھاپی سکتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں جاتے تو ہر ایک کی چاہت یہی ہوتی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں ۔ جاتے ہوئے اپنے خاص دوستوں کو اپنی کنجیاں دے جاتے اور ان سے کہہ دیتے کہ جس چیز کے کھانے کی تمہیں ضرورت ہو ہم تمہیں رخصت دیتے ہیں لیکن تاہم یہ لوگ اپنے آپ کو امین سمجھ کر اور اس خیال سے کہ مبادا ان لوگوں نے بادل ناخواستہ اجازت دی ہو ، کسی کھانے پینے کی چیز کو نہ چھوتے اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ پھر فرمایا کہ تمہارے دوستوں کے گھروں سے بھی کھالینے میں تم پر کوئی پکڑ نہیں جب کہ تمہیں علم ہو کہ وہ اس سے برا نہ مانے گے اور ان پر یہ شاق نہ گزرے گا ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تو جب اپنے دوست کے ہاں جائے تو بلا اجازت اس کے کھانے کو کھالینے کی رخصت ہے ۔ پھر فرمایا تم پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں اور جدا جدا ہو کر کھانے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ 29 ) 4- النسآء:29 ) اتری یعنی ایمان والو ایک دوسرے کے ساتھ کھائیں چنانچہ وہ اس سے بھی رک گئے اس پر یہ آیت اتری اسی طرح سے تنہاخوری سے بھی کراہت کرتے تھے جب تک کوئی ساتھی نہ ہو کھاتے نہیں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں دونوں باتوں کی اجازت دی یعنی دوسروں کے ساتھ کھانے کی اور تنہا کھانے کی ۔ قبیلہ بنو کنانہ کے لوگ خصوصیت سے اس مرض میں مبتلا تھے بھوکے ہوتے تھے لیکن جب تک ساتھ کھانے والا کوئی نہ ہو کھاتے نہ تھے سواری پر سوار ہو کر ساتھ کھانے والے کی تلاش میں نکلتے تھے پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تنہا کھانے کر رخصت نازل فرما کر جاہلیت کی اس سخت رسم کو مٹا دیا ۔ اس آیت میں گو تنہا کھانے کی رخصت ہے لیکن یہ یاد رہے کہ لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا افضل ہے اور زیادہ برکت بھی اسی میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تو ہیں لیکن آسودگی حاصل نہیں ہوتی آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہوگے ؟ جمع ہو کر ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا نام لے کر کھاؤ تو تمہیں برکت دی جائے گی ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مل کر کھاؤ ، تنہا نہ کھاؤ ، برکت مل بیٹھنے میں ہے ۔ پھر تعلیم ہوئی کہ گھروں میں سلام کرکے جایا کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جب تم گھر میں جاؤ تو اللہ کا سکھایا ہوا بابرکت بھلا سلام کہا کرو ۔ میں نے تو آزمایا ہے کہ یہ سراسر برکت ہے ۔ ابن طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تم میں سے جو گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کہے ۔ حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ فرمایا مجھے تو یاد نہیں کہ اس کے وجوب کا قائل کوئی ہو لیکن ہاں مجھے تو یہ بہت ہی پسند ہے کہ جب بھی گھر میں جاؤ سلام کرکے جاؤ ۔ میں تو اسے کبھی نہیں چھوڑتا ہاں یہ اور بات ہے کہ میں بھول جاؤ ۔ مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب مسجد میں جاؤ تو کہو السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہ بھی مروی ہے کہ یوں کہو بسم اللہ والحمد للہ السلام علینا من ربنا السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یہی حکم دیا جا رہا ہے ایسے وقتوں میں تمہارے سلام کا جواب اللہ کے فرشتے دیتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کی وصیت کی ہے فرمایا ہے اے انس کامل وضو کرو تمہاری عمر بڑھے گی ۔ جو میرا امتی ملے سلام کرو نیکیاں بڑھیں گی ، گھر میں سلام کر کے جایا کرو گھر کی خیریت بڑھے گی ۔ ضحی کی نماز پڑھتے رہو تم سے اگلے لوگ جو اللہ والے بن گئے تھے ان کا یہی طریقہ تھا ۔ اے انس چھوٹوں پر رحم کر بڑوں کی عزت وتوقیر کر تو قیامت کے دن میرا ساتھی ہوگا ۔ پھر فرماتا ہے یہ دعائے خیر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں تعلیم کی گئی ہے برکت والی اور عمدہ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو التحیات قرآن سے ہی سیکھی ہے نماز کی التحیات یوں ہے التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للہ اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمدا عبدہ و رسولہ السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اسے پڑھ کر نمازی کو اپنے لئے دعا کرنی چاہئے پھر سلام پھیر دے ۔ انہی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا صحیح مسلم شریف میں اس کے سوا بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اس سورت کے احکام کا ذکر کر کے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے اپنے واضح احکام مفید فرمان کھول کھول کر اسی طرح بیان فرمایا کرتا ہے تاکہ وہ غور وفکر کریں ، سوچیں سمجھیں اور عقل مندی حاصل کریں ۔
[٩٣] اس آیت میں معاشرہ کے مختلف قسم کے لوگوں کے ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے کے آداب اور احکام بیان ہوئے ہیں۔ آیات کا ابتدائی حصہ معذور لوگوں سے تعلق رکھتا ہے یعنی۔۔ لنگڑے اور مریض قسم کے لوگ۔ ان کے متعلق ارشاد ہوا کہ وہ چونکہ خود کما نہیں سکتے اس لئے وہ ہر گھر سے کھانا کھا سکتے ہیں۔ انھیں اس میں عار محسوس نہ کرنا چاہئے اور معاشرہ کے لوگوں پر چونکہ ان کا حق ہے۔ لہذا انھیں بھی چاہئے کہ انھیں کھانا کھلانے کے سلسلہ میں فراخدلی سے کام لیں۔- اس کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ دور جاہلیت میں اس قسم کے معذور لوگ خود آسودہ حال اور تندرست لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے میں جھجک محسوس کرتے تھے انھیں یہ خیال آتا تھا کہ شاید دوسروں کو ہمارے ساتھ کھانا کھانے سے نفرت ہو اور وہ اسے ناگوار محسوس کریں۔ اور فی الواقع بعض لوگوں کو ایسی نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی۔ لہذا عام لوگوں کو ہدایت دی گئی کہ ایسے لوگ تو تمہاری ہمدردی کے محتاج ہیں۔ چہ جائے کہ ان سے نفرت کی جائے۔- تیسری توجیہہ یہ ہے کہ بعض متقی قسم کے لوگوں کو یہ خیال آتا تھا کہ شاید ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کھانے سے کھیں ان معذور لوگوں کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔ مثلاً اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے۔ لنگڑے ممکن ہے دیر سے پہنچیں اور مریض تو کھانا کھاتے وقت اپنی تکلیف اور پرہیز ہی کو ملحوظ رکھتے ہیں لہذا یہ لوگ علیحدہ ہی کھانا کھائیں تو بہتر ہے۔ اس جملہ سے ان سب لوگوں کے نظریات کا ازالہ کردیا گیا۔- [٩٤] جب یہ آیت نازل ہوئی ( وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ١٨٨ۧ) 2 ۔ البقرة :188) تو بعض مسلمان اس سلسلہ میں ضرورت سے زیادہ محتاط ہوگئے تھے اور وہ صاحب۔۔ کی دعوت یا اس کی اجازت کے بغیر اپنے کسی قریبی دار کے ہاں سے بھی کھانا کھانا تقویٰ کے خلاف سمجھنے لگے تھے۔ اس فقرہ کی رو ان کی ضرورت سے زیادہ احتیاط کے نظریہ کا ازالہ کیا گیا اور سب سے پہلے اپنے ہی گھروں سے کھ انا کھانے سے ابتدا کی گئی۔ حالانکہ اپنے گھر سے کھانا کھانے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس آغاز سے ذہن نشین یہ کرایا گیا ہے کہ جس طرح تمہیں اپنے گھر سے کھانا کھانے کے لئے کسی اجازت اور تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح تم اپنے باپ، اپنی ماں، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموں اور اپنی خالاؤں کے ہاں سے کھاسکتے ہو۔ اس مقام پر آٹھ بڑے قریبی رشتہ داروں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان گھروں سے تم بلا اجازت اور بےتکلف کھانا کھا سکتے ہو۔ خواہ صاحب خانہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اس آیت میں اپنے بیٹوں، بیٹیوں کے گھروں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا۔ یہ گھر بھی دراصل ہر شخص کے اپنے ہی گھر ہوتے ہیں۔- [٩٥] (اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ 61 ) 24 ۔ النور :61) کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے کارندے اس چیز سے کہہ سکتے ہیں جس پر تم نے انھیں نگران یا کارندہ بنایا ہے۔ اس لحاظ سے تمہارے باغ کا مالی باغ کے پھل تمہاری اجازت کے بغیر کھا سکتا ہے۔ تمہارا گڈریا تمہاری اجازت کے بغیر بکریوں کا دودھ پی سکتا ہے۔ تمہارا نان بائی تمہارے ہوٹل سے تمہاری اجازت کے بغیر کھانا کھا سکتا ہے اور اس کے بیشمار مثالیں ہوسکتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر تم ایسے لوگوں کے ہاں سے کچھ کھالو تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ ان کے کفیل تو تم خود ہو۔ - [٩٦] یہاں دوست سے مراد ایسا ولی اور ہمدرد دوست مراد ہے جو اگر تمہارے پاس آئے تو تمہیں حقیقی مسرت حاصل ہو اور اگر وہ تمہاری غیر حاضری میں تمہارے گھر سے کچھ کھالے تو تمہیں یہ بات ناگوار گذرنے کے بجائے خوشی ہو۔ - [٩٧] اہل عرب کے بعض قبیلوں کی یہ تہذیب تھی کہ وہ اکیلا اکیلا کھانا کھانے کو بہتر سمجھتے تھے اور اکٹھے مل کر کھانے کو معیوب سمجھتے تھے۔ ہندوؤں میں آج کل بھی یہی تہذیب ہے۔ اور مسلمانوں میں سے بھی کچھ لوگ اسی بات کو بہتر سمجھتے ہیں بالخصوص وہ لوگ جو جراثیم کے نظریہ کے ضرورت سے زیادہ قائل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ تھے جو اکیلے یا اکیلے اکیلے کھانے کو معیوب سمجھتے تھے۔ بعض تو اس حد تک متشدد تھے کہ اس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے بلکہ فاقہ سے رہتے تھے جب تک کوئی دوسرا آدمی یا مہمان ان کے ساتھ کھانے میں شامل نہ ہو اور بعض کی تہذیب ہی یہ تھی کہ اکیلے اکیلے کھانا بری بات ہے اور مل کر کھانا ہی بہتر ہے۔ یہ آیت اس طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے نازل کی گئی اس آیت کی رو سے اگرچہ عام اجازت دی گوی کہ جس طرح کوئی چاہے کھا سکتا ہے۔ تاہم اسلام نے اکٹھے مل کر کھانے کو ہی ترجیح دی ہے اور اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں :- ١۔ عمرو بن ابی سلمہ، جو ام المومنین ام سلمہ کے (ابوسلمہ) سے بیٹے تھے، کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھایا۔ میں رکابی کے سب اطراف میں ہاتھ بڑھانے لگا تو آپ نے مجھے فرمایا : اپنے سامنے سے کھاؤ (بخاری۔ کتاب الاطعمہ۔ باب الاکل ممایلیہ)- ٢۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اشعری لوگ جب لڑائی میں محتاج ہوجاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کا کھانا کم ہوجاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اس کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں۔ پھر آپس میں برابر برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل الاشعریین)- [٩٨] اس جملہ کا تعین صرف کھانے کی دعوت سے نہیں بلکہ عام ہے۔ یعنی جب بھی تم اپنے یا کسی دوسرے کے گھر میں یا مسجد وغیرہ میں داخل ہوا کرو تو وہاں موجود لوگوں پر سلام (سلامتی کی دعا السلام علیکم) ضرور کہا کرو۔ بلکہ اگر گھر میں بھی کوئی شخص نظر نہ آئے، تب بھی السلام علیکم ضرور کہنا چاہئے اور فرشتوں کی موجودگی کا خیال کرلینا چاہئے۔ اور یہ کلمہ پاکیزہ اور مبارک اس لحاظ سے ہے کہ جواب میں تمہیں بھی سلامتی کی دعا حاصل ہوگی۔ اس طرح پورے معاشرہ میں ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور سلامتی چاہنے کی فضا بن جائے گی۔
لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ ۔۔ : بعض مفسرین نے فرمایا، اس آیت کے دو حصے ہیں، ایک شروع سے ” وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ“ تک اور دوسرا ” وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ “ سے آخر تک۔ پہلے حصے کا تعلق جہاد سے ہے کہ اندھے، لنگڑے اور بیمار اگر جہاد میں نہ جاسکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ وہ معذور ہیں۔ سورة فتح کی آیت (١٧) میں بعینہٖ یہی الفاظ : (لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ) اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں اور سورة توبہ کی آیت (٩١) : (لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ عرب لوگ اندھے، لنگڑے اور مریض کے ساتھ کھانے سے کراہت محسوس کرتے تھے، اس پر فرمایا کہ ان کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی حرج نہیں کہ اندھے، لنگڑے یا مریض کے ساتھ مل کر کھاؤ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے۔- تیسری تفسیر جو اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، یہ ہے کہ یہاں ” لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ“ سے آیت کے آخر تک ایک ہی مسئلہ بیان ہوا ہے۔ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ ) [ النساء : ٢٩ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ “ تو مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں اپنے اموال باطل طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے اور کھانا ہمارے ان اموال میں سے ہے جو سب سے بہتر ہیں، اس لیے ہم میں سے کسی کو حلال نہیں کہ کسی کے ہاں کھانا کھائے، تو لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاں کھانا چھوڑ دیا، اس پر یہ آیت اتری : (لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ ۔۔ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ ) (طبری : ٢٦٤٢٦) اس تفسیر کے مطابق اندھے، لنگڑے اور بیمار کو اجازت دی گئی ہے کہ معذور ہونے کی وجہ سے ان کا لوگوں پر حق ہے کہ وہ بھوک مٹانے کے لیے ہر جگہ اور ہر گھر سے کھا سکتے ہیں، انھیں خواہ مخواہ کی عزت نفس کے یا حرام سے اجتناب کے خیال میں مبتلا ہو کر کسی دوسرے کے کھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ مجاہد نے آیت زیر تفسیر کے متعلق فرمایا : ” آدمی کسی اندھے یا لنگڑے یا بیمار کو لے کر اپنے باپ یا بھائی یا بہن یا پھوپھی یا خالہ کے گھر (کچھ کھلانے کے لیے) لے جاتا تو وہ معذور لوگ اس میں گناہ محسوس کرتے کہ یہ لوگ ہمیں دوسروں کے گھروں میں لے جاتے ہیں۔ اس پر یہ آیت ان کے لیے رخصت بیان کرنے کے لیے اتری۔ “ [ مسند عبد الرزاق و سندہ صحیح ]- اس کے بعد عام لوگوں کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے گھروں سے اور ان لوگوں کے گھروں سے کھا سکتے ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں، ورنہ خیانت ہوگی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے گھر جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بلاتکلف کھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کھانا سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو مزید اجازت کی درخواست محض تکلف ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اپنے گھروں سے تو ہر شخص ہی کھاتا ہے، یہ کہنے میں کیا حکمت ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے گھروں سے کھاؤ ؟ جواب یہ ہے کہ اس میں دو حکمتیں معلوم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اپنے گھروں سے کھانے اور مذکورہ رشتہ داروں کے گھروں سے کھانے میں کوئی فرق نہیں، جس طرح اپنے گھروں سے کھا سکتے ہو ایسے ہی ان لوگوں کے گھروں سے بھی کھا سکتے ہو۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ ” اپنے گھروں “ کے لفظ میں اپنے گھر کے علاوہ اپنی اولاد کا گھر بھی شامل ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ آیت میں کھانے کی اجازت کے سلسلے میں اولاد کا الگ ذکر نہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ( أَنْتَ وَ مَالُکَ لِأَبِیْکَ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍٦٣، ح : ٢٥٦٤۔ أبو داوٗد : ٣٥٣٠ ] ” تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے۔ “ - 3 آباء میں باپ دادا اور نانا اوپر تک شامل ہیں، اسی طرح امہات میں دادی اور نانی اوپر تک اور اخوان، اخوات، اعمام، عمات، اخوال اور خالات میں حقیقی، عینی اور علاتی بھائی بہنیں، چچا، ماموں اوپر تک اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں، سب کے گھروں سے کھانے کی اجازت ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت سے بعض اہل علم نے استدلال فرمایا ہے کہ اقارب میں سے ہر ایک کا نفقہ دوسرے پر واجب ہے، اگر وہ ضرورت مند ہوں۔ - اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗٓ : طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کو اپنی جائداد (گھر یا باغ وغیرہ) کا نگران مقرر کر دے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے رخصت عطا فرمائی کہ اپنی زیر حفاظت و نگرانی گھر یا باغ سے کھانا یا پھل وغیرہ کھالے یا دودھ پی لے۔ - اَوْ صَدِيْقِكُمْ : یہ ” صَدِیْقٌ“ (دوست) دال کی تشدید کے بغیر ہے اور ” صَدَاقَۃٌ“ (دوستی) سے مشتق ہے۔ یہ وزن (فَعِیْلٌ) واحد، جمع، مذکر اور مؤنث سب کے لیے ایک ہی ہوتا ہے۔ ” صِدِّیْقٌ“ دال کی تشدید کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے بہت سچا یا بہت تصدیق کرنے والا۔ ” صَدِيْقِكُمْ “ سے مراد وہ بےتکلف دوست ہیں جن کی عدم موجودگی میں اگر ان کے گھر سے کوئی چیز کھائی جائے تو وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں۔ - 3 بعض اہل علم نے فرمایا کہ اس آیت میں جن لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت دی گئی ہے ان کی طرف سے بھی اجازت ہونی چاہیے، وہ اجازت خواہ عام ہو یا خاص، اگر وہ ناگواری محسوس کریں تو ان کے گھروں سے کھانا درست نہیں، حتیٰ کہ کسی بھائی کی لاٹھی اٹھانا بھی اس کی دلی خوشی کے بغیر جائز نہیں۔ سائب بن یزید (رض) بیان فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : ( لَا یَأْخُذَنَّ أَحَدُکُمْ مَتَاعَ أَخِیْہِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا وَ مَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِیْہِ فَلْیَرُدَّھَا ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب من یأخذ الشيء من مزاح : ٥٠٠٣، قال الألباني حسن ] ” تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا سامان نہ لے، نہ ہنسی مذاق کرتے ہوئے اور نہ سنجیدگی سے اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی لی ہو وہ اسے واپس کرے۔ “ اور بعض اہل علم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی تو کھانے کے لیے گھر والوں سے اجازت لینا ضروری نہیں، اس میں نہ کھانے والوں کو حجاب کرنا چاہیے، نہ اہل خانہ کو دریغ کرنا چاہیے۔- لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا : کھانے کے متعلق جاہلیت میں دو طرح کا غلو پایا جاتا تھا، کچھ لوگ تو وہ تھے جو اکیلے اکیلے کھانا کھاتے تھے اور کسی دوسرے کے ساتھ مل کر کھانے سے نفرت کرتے تھے، جیسا کہ ہندوؤں کا طریقہ ہے، یا جس طرح اب بھی کفار سے متاثر بعض لوگ جراثیم کے ذریعے سے بیماری لگ جانے کے خوف سے کسی دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھاتے اور کچھ لوگ وہ تھے جو اکیلا کھانے کو بخل اور کمینگی سمجھتے تھے اور جب تک کوئی دوسرا ساتھی نہ ملتا کھانا نہیں کھاتے تھے، حتیٰ کہ بعض اوقات فاقہ کر جاتے، تو اللہ تعالیٰ نے دونوں پابندیاں ختم کرکے عام اجازت دے دی کہ الگ الگ کھاؤ یا اکٹھے مل کر کھاؤ، دونوں صورتوں میں تم پر گناہ نہیں۔ - اگرچہ الگ الگ کھانے کی اجازت ہے مگر مل کر کھانا افضل ہے اور اس میں برکت ہوتی ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( طَعَامُ الْاِثْنَیْنِ کَافِي الثَّلَاثَۃِ وَ طَعَام الثَّلَاثَۃِ کَافِي الْأَرْبَعَۃِ ) [ بخاري، الأطعمۃ، باب طعام الواحد یکفي الاثنین : ٥٣٩٢ ] ” دو آدمیوں کا کھانا تین کو کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار کو کافی ہوتا ہے۔ “ جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( طَعَامُ الْوَاحِدِ یَکْفِي الْاِثْنَیْنِ وَطَعَامُ الْاِثْنَیْنِ یَکْفِي الْأَرْبَعَۃَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَۃِ یَکْفِي الثَّمَانِیَۃَ ) [ مسلم، الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام القلیل۔۔ : ٢٠٥٩ ] ” ایک آدمی کا کھانا دو کو کافی ہوجاتا ہے اور دو کا کھانا چار کو اور چار کا آٹھ کو کافی ہوجاتا ہے۔ “- ابوموسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ الْأَشْعَرِیِّیْنَ ، إِذَا أَرْمَلُوْا فِي الْغَزْوِ ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِیَالِھِمْ بالْمَدِیْنَۃِ ، جَمَعُوْا مَا کَانَ عِنْدَھُمْ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ ، ثُمَّ اقْتَسَمُوْہُ بَیْنَھُمْ فِيْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ ، بِالسَّوِیَّۃِ ، فَھُمْ مِنِّيْ وَ أَنَا مِنْھُمْ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الأشعریین رضي اللہ عنھم : ٢٥٠٠ ] ” اشعری لوگ جب لڑائی میں (کھانے کے حوالے سے) محتاج ہوجاتے ہیں، یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کا کھانا کم ہوجاتا ہے، تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ اسے ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں، پھر آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ “- فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ۔۔ : اس میں گھروں میں داخلے کا ادب بیان فرمایا کہ داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کہے۔ ” عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ “ سے مراد اپنے لوگوں کو سلام کہنا ہے، کیونکہ وہ سب ایک جان کی مانند ہیں۔ اگر گھر میں کوئی بھی نہ ہو تو پھر بھی سلام کہے۔ تشہد کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو اس وقت سلام اس طرح کہنا چاہیے ” اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ “ امام بخاری (رض) نے ” الأدب المفرد “ (١٠٥٥) میں حسن سند کے ساتھ ابن عمر (رض) کا قول نقل فرمایا ہے : ” جب تو کسی گھر میں جائے، جس میں کوئی نہ ہو تو یوں کہہ ” اَلسََّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ۔ “ شاہ عبد القادر (رض) نے اس آیت کا نہایت عمدہ خلاصہ بیان فرمایا ہے، لکھتے ہیں : ” یعنی اپنایت کے علاقوں میں کھانے کی چیز کو ہر وقت پوچھنا ضروری نہیں، نہ کھانے والا حجاب کرے، نہ گھر والا دریغ کرے، مگر عورت کا گھر اس کے خاوند کا ہو تو اس کی مرضی چاہیے، اور مل کر کھاؤ یا جدا، یعنی اس کا تکرار دل میں نہ رکھیے کہ کس نے کم کھایا کس نے زیادہ، سب نے مل کر پکایا، سب نے مل کر کھایا، اور اگر ایک شخص کی مرضی نہ ہو پھر کسی کی چیز کھانی ہرگز درست نہیں۔ اور سلام کی تاکید فرمائی آپس کی ملاقات میں، اس سے بہتر دعا نہیں، جو لوگ اس کو چھوڑ کر اور لفظ ٹھہراتے ہیں اللہ کی تجویز سے ان کی تجویز بہتر نہیں۔ “- كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : یہاں آیات کو کھول کر بیان کرنے کی بات تیسری دفعہ آرہی ہے، یعنی آیات کو اس طرح کھول کر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم غور و فکر کرو اور ان آیات میں ذکر کردہ احکام کو سمجھو۔
خلاصہ تفسیر - (اگر تم کسی اندھے لنگڑے بیمار غریب کو اپنے کسی عزیز یا ملاقاتی کے گھر لے جا کر کچھ کھلا پلا دو ، یا خود کھا پی لو تو جب یہ یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ عزیز ملاقاتی ہمارے کھانے اور کھلانے پر راضی ہوگا اس کو کوئی تکلیف نہ ہوگی تو ان صورتوں میں) نہ تو اندھے آدمی کے لئے کوئی مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے آدمی کے لئے اور نہ بیمار آدمی کے لئے کچھ مضائقہ ہے اور نہ خود تمہارے لئے اس بات میں (کچھ مضائقہ ہے) کہ تم (خواہ خود یا تم مع ان معذورین کے سب) اپنے گھروں سے (جن میں بی بی، اولاد کے گھر بھی آگئے) کھانا کھلاؤ یا ( ان گھروں میں جن کا ذکر آگے آتا ہے کھالو، یعنی نہ تم کو خود کھانے میں گناہ ہے اور نہ ان معذورین کو کھلانے میں۔ اسی طرح تمہارے کھلا دینے سے ان معذورین کو بھی کھا لینے میں کوئی گناہ نہیں اور وہ گھر یہ ہیں۔ مثلاً ) اپنے باپ کے گھر سے (کھالو کھلا دو ) یا اپنی ماؤں کے گھر سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (پھر اس میں بھی) کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ پھر (یہ بھی معلوم کر رکھو کہ) جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے لوگوں کو (یعنی وہاں جو مسلمان ہوں ان کو) سلام کرلیا کرو (جو کہ) دعا کے طور پر (ہے اور) جو خدا کی طرف سے مقرر ہے اور (بوجہ اس پر ثواب ملنے کے) برکت والی (اور بوجہ مخاطب کا دل خوش کرنے کے) عمدہ چیز ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تم سے (اپنے) احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (اور عمل کرو) ۔- معارف ومسائل - گھروں میں داخل ہونے کے بعد کے بعض احکام اور آداب معاشرت :- پچھلی آیتوں میں کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے استیذان کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس آیت میں وہ احکام و آداب مذکور ہیں۔ جو اجازت ملنے پر گھر میں جانے کے بعد مستحب یا واجب ہیں۔ اس آیت کا مفہوم اور اس میں مذکورہ احکام کو سمجھنے کے لئے پہلے ان حالات کو معلوم کرلینا مناسب ہے جن میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔- قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عام تعلیمات میں حقوق العباد کی حفاظت و رعایت کے لئے جتنی تاکیدات آئی ہیں ان سے کوئی مسلمان بیخبر نہیں۔ کسی دوسرے کے مال میں بغیر اس کی اجازت کے کوئی تصرف کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لئے ایسے خوش نصیب لوگوں کو چن لیا تھا کہ وہ اللہ و رسول کے فرمان پر ہر وقت گوش برآواز رہتے اور ہر حکم کی تعمیل میں اپنی پوری توانائی صرف کرتے تھے۔ قرآنی تعلیمات پر عمل اور اس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کیمیا اثر سے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی جماعت تیار کردی تھی کہ فرشتے بھی ان پر فخر کرتے ہیں۔ دوسروں کے مال میں ان کی مرضی و اجازت کے بغیر ادنی قسم کا تصرف گوارا نہ ہونا کسی کو ادنی سی تکلیف پہنچانے سے پرہیز کرنا اور اس میں تقوی کے اعلی معیار پر قائم ہونا سبھی صحابہ کا وصف تھا۔ اسی سلسلے کے چند واقعات عہد رسالت میں پیش آئے جن کی وجہ سے آیت مذکورہ کے احکام نازل ہوئے۔ حضرات مفسرین نے یہ سب واقعات لکھے ہیں کسی نے ان میں سے کسی کو شان نزول قرار دیا کسی نے کسی دوسرے واقعہ کو مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں، یہ مجموعہ واقعات ہی اس آیت کا شان نزول ہے۔ واقعات یہ ہیں۔ - (١) امام بغوی نے حضرت سعید بن جبیر اور ضحاک ائمہ تفسیر سے نقل کیا ہے کہ دنیا کی عرف عام اور اکثر لوگوں کی طبائع کا حال یہ ہے کہ لنگڑے لولے اندھے اور بیمار آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے گھن کرتے ہیں اور ناپسند کرتے ہیں۔ حضرات صحابہ میں سے جو ایسے معذور تھے ان کو یہ خیال ہوا کہ ہم کسی کے ساتھ کھانے میں شریک ہوں گے تو شاید اس کو تکلیف ہو اس لئے یہ لوگ تندرست آدمیوں کے ساتھ کھانے میں شرکت سے گریز کرنے لگے۔ نیز نابینا آدمی کو یہ بھی فکر ہوئی کہ جب چند آدمی کھانے میں شریک ہوں تو تقاضائے عدل و مروت یہ ہے کہ کوئی شریک دوسرے سے زیادہ نہ کھائے سب کو برابر حصہ ملے اور میں نابینا ہونے کی وجہ سے اس کا اندازہ نہیں کرسکتا ممکن ہے کہ میں دو رسوں سے زیادہ کھا لوں اس میں دوسروں کی حق تلفی ہوگی۔ لنگڑے آدمی نے خیال کیا کہ عام تندرست لوگوں کی طرح بیٹھ نہیں سکتا دو آدمی کی جگہ لیتا ہوں، کھانے پر دوسروں کے ساتھ بیٹھوں گا تو ممکن ہے ان کو تنگی اور تکلیف پیش آئے، ان کی اس غایت احتیاط میں ظاہر ہے کہ خود ان کو تنگی اور تکلیف پیش آتی تھی اس لئے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ان کو دوسروں کے ساتھ مل کر کھانے کی اجازت اور ایسی دقیق احتیاط کو چھوڑنے کی تلقین فرمائی جس سے تنگی میں پڑجائیں اور بغوی نے بروایت ابن جریر حضرت ابن عباس سے ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے جو واقعہ مذکورہ کا دوسرا رخ ہے وہ یہ کہ قرآن کریم کی جب یہ آیت نازل ہوئی لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ یعنی نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر۔ تو لوگوں کو اندھے، لنگڑے بیمار لوگوں کے ساتھ مل کر کھانے میں یہ تردد پیش آنے لگا کہ بیمار تو عادة کم کھاتا ہے، نابینا کو کھانے کی چیزوں میں یہ امتیاز نہیں ہوتا کہ کون سی چیز عمدہ ہے لنگڑے کو اپنی نشست ہموار نہ ہونے کے سبب کھانے میں تکلف ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ لوگ کم کھائیں ہمارے پاس زیادہ آجائے تو ان کی حق تلفی ہوئی کیونکہ مشترک کھانے میں سب کا حصہ مساوی ہونا چاہئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس تعمق اور تکلف میں پڑنے سے ان کو آزاد کردیا گیا کہ سب مل کر کھاؤ معمولی کمی بیشی کی فکر نہ کرو اور سعید بن مسیب نے فرمایا کہ مسلمان جب کسی جہاد و غزوہ کے لئے جاتے تو اپنے گھروں کی کنجیاں ان معذوروں کے سپرد کردیتے تھے اور یہ کہہ دیتے تھے کہ گھر میں جو کچھ ہے وہ تم لوگ کھا پی سکتے ہو۔ مگر یہ لوگ اس احتیاط کی بنا پر ان کے گھروں میں سے کچھ نہ کھاتے کہ شاید ان کی منشاء کے خلاف ہوجائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مستند بزار میں بسند صحیح حضرت عائشہ سے بھی یہی مضمون نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو عام صحابی کی دلی خواہش یہ ہوتی تھی کہ سب آپ کی رفاقت میں شریک جہاد ہوں اور اپنے مکانوں کی کنجیاں ان غریب معذورین کے سپرد کردیتے تھے اور ان کو اجازت دیتے تھے کہ ہمارے پیچھے آپ ہمارے گھروں میں جو کچھ ہے کھا پی سکتے ہو مگر یہ لوگ غایت تقوی سے اس اندیشہ پر کہ شاید ان کی یہ اجازت بطیب خاطر نہ ہو اس سے پرہیز کرتے تھے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ آیت مذکورہ میں جو لفظ صَدِيْقِكُمْ کا آیا ہے یعنی اپنے دوست کے گھر سے بھی کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ حارث بن عمرو کے واقعہ میں نازل ہوا کہ وہ کسی جہاد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے گئے اور اپنے دوست مالک بن زید کو اپنے گھر اور گھر والوں کی نگرانی سپرد کردی۔ جب حارث واپس آئے تو دیکھا کہ مالک بن زید بہت ضعیف کمزور ہو رہے ہیں وجہ دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کے گھر سے کچھ کھانا آپ کے پیچھے مناسب نہیں سمجھا (یہ سب روایات تفسیر مظہری میں ہیں) اور صاف بات یہی ہے کہ اس قسم کے تمام واقعات اس آیت کے نزول کا سبب ہوئے ہیں۔- مسئلہ :- جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جن گھروں میں سے بغیر اجازت خاص کے کھانے پینے کی اجازت اس آیت میں دی گئی ہے اس کی بناء اس پر ہے کہ عرب کی عام عادت کے مطابق ایسے قریبی رشتہ داروں میں کوئی تکلف بالکل نہ تھا ایک دوسرے کے گھر سے کچھ کھاتے پیتے تو گھر والے کو کسی قسم کی تکلیف یا ناگواری نہ ہوتی تھی بلکہ وہ اس سے خوش ہوتا تھا۔ اسی طرح اس سے بھی کہ وہ اپنے ساتھ کسی معذور بیماری مسکین کو بھی کھلا دے۔ ان سب چیزوں کی گو صراحۃً اجازت نہ دی ہو مگر عادةً اجازت تھی اس علت جواز سے ثابت ہوا کہ جس زمانے یا جس مقام میں ایسا رواج نہ ہو اور مالک کی اجازت مشکوک ہو وہاں بغیر صریح اجازت مالک کے کھانا پینا حرام ہے۔ جیسا کہ آج کل عام طور پر نہ یہ عادت رہی نہ کوئی اس کو گوارہ کرتا ہے کہ کوئی عزیز قریب ان کے گھر میں جو چاہے کھائے پئے یا دوسروں کو کھلائے پلائے اس لئے آج کل عام طور پر اس اجازت پر عمل کرنا جائز نہیں بجز اس کے کہ کسی دوست عزیز کے متعلق کسی کو یقینی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اس کے کھانے پینے یا دو رسوں کو کھلانے پلانے سے کوئی تکلیف یا ناگواری محسوس نہ کرے گا بلکہ خوش ہوگا تو خاص اس کے گھر سے کھانے پینے میں اس آیت کے مقتضی پر عمل جائز ہے۔- مسئلہ :- مذکورہ بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا بلکہ حکم اول سے آج تک جاری ہے البتہ شرط اس کی مالک کی اجازت کا یقین ہے جب یہ نہ ہو تو وہ مقتضائے آیت میں داخل نہیں ہیں۔ (مظہری)- مسئلہ :- اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ حکم صرف ان مخصوص رشتہ داروں ہی میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے شخص کے بارے میں اگر یہ یقین ہو کہ اس کی طرف سے ہمارے کھانے پینے اور کھلانے پلانے کی اجازت ہے وہ اس سے خوش ہوگا اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی تو اس کا بھی یہی حکم ہے (مظہری) احکام مذکورہ کا تعلق ان کاموں سے ہے جو کسی کے گھر میں باجازت داخل ہونے کے بعد جائز یا مستحب ہیں ان کاموں میں بڑا مسئلہ کھانے پینے کا تھا اس کو پہلے ذکر فرمایا۔- دوسرا مسئلہ گھر میں داخل ہونے کے آداب کا یہ ہے کہ جب گھر میں باجازت داخل ہو تو گھر میں جو مسلمان ہوں ان کو سلام کرو۔ آیت عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ سے یہی مراد ہے کیونکہ مسلمان سب ایک جماعت متحدہ ہیں۔ احادیث کثیرہ صحیحہ میں مسلمان کے باہم ایک دوسرے کو سلام کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔
لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّہٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ٠ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا ٠ۭ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُبٰرَكَۃً طَيِّبَۃً ٠ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ٦١ۧ- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- عم - العَمُّ : أخو الأب، والعَمَّةُ أخته . قال تعالی: أَوْ بُيُوتِ أَعْمامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ- [ النور 61] ، ورجل مُعِمٌّ مُخْوِلٌ «1» ، واسْتَعَمَّ عَمّاً ، وتَعَمَّمَهُ ، أي : اتّخذه عَمّاً ، وأصل ذلک من العُمُومِ ، وهو الشّمول وذلک باعتبار الکثرة . ويقال : عَمَّهُمْ كذا، وعَمَّهُمْ بکذا . عَمّاً وعُمُوماً ، والعَامَّةُ سمّوا بذلک لکثرتهم وعُمُومِهِمْ في البلد، وباعتبار الشّمول سُمِّيَ المِشْوَذُ «2» العِمَامَةَ ، فقیل : تَعَمَّمَ نحو : تقنّع، وتقمّص، وعَمَّمْتُهُ ، وكنّي بذلک عن السّيادة . وشاة مُعَمَّمَةٌ: مُبْيَضَّةُ الرّأس، كأنّ عليها عِمَامَةً نحو : مقنّعة ومخمّرة . قال الشاعر : يا عامر بن مالک يا عمّا ... أفنیت عمّا وجبرت عمّا أي : يا عمّاه سلبت قوما، وأعطیت قوما . وقوله : عَمَّ يَتَساءَلُونَ [ عمّ 1] ، أي : عن ما، ولیس من هذا الباب .- ( ع م م ) العم ( چچا ) باپ کا بھائی ( جمع اعمام ) العمۃ ( پھو پھی ) باپ کی بہن ( جمیع عمات ) قرآن میں ہے : أَوْ بُيُوتِ أَعْمامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ [ النور یا اپنے چچا ئیوں کے گھر سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے ۔ رجل معم محول وہ شخص جس کے چچا اور ماموں ہوں یعنی نہیاں اور دوھیال کی طرف قوی ہو۔ استعم عما وتعممہ کسی کو چچا بناتا دراصل یہ عممو م سے ہے جس کے معنی شامل ہونے کے ہیں اور یہ شامل باعتبار کثرت ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ یعنی وہ چیز عام ہوگئی اور پبلک کو العامۃ کہا جاتا ہے کیونکہ شہروں میں وعامی لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے اور معنی شمول یعنی لپیٹنے کے اعتبار سے پگڑی کو العامۃ کہا جاتا ہے اور تعمہ کے معنی سر پر پگڑی لپیٹنے کے ہیں جس طرح کہ تفعم وتقمص کے معنی چہرہ پر پر دہ ڈالنا یا قمیص پہننا کے آتے ہیں عممتہ میں نے اسے عمامہ پہنایا ۔ اور کنایہ اس کے معنی کسی کو سردار بنانا بھی آتے ہیں شاۃ معمۃ سفید سر والی بکری گویا اس کے سر پر عمامہ بند ھا ہوا ہے ۔ اور یہ مقتعۃ ومخمرۃ کی طرح استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 321 ) یا عامر بن مالک یا عما اننیت عما وجبرت عما اے میرے چچا عامر بن مالک تو نے بہت سے لوگوں کو فنا اور بہت سے لوگوں پر بخشش کی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ عَمَّ يَتَساءَلُونَ [ عمّ 1]( یہ لوگ کیس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ۔ میں عم اصل میں عن ماتھا ۔ اور یہ اس باب ( ع م م ) سے نہیں ہے ۔- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65]- ( ف ت ح )- الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- شتت - الشَّتُّ : تفریق الشّعب، يقال : شَتَّ جمعهم شَتّاً وشَتَاتاً ، وجاؤوا أَشْتَاتاً ، أي : متفرّقي النّظام، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، وقال : مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ، أي : مختلفة الأنواع، وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14] ، أي : هم بخلاف من وصفهم بقوله : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] . و ( شَتَّانَ ) : اسم فعل، نحو : وشکان، يقال : شتّان ما هما، وشتّان ما بينهما : إذا أخبرت عن ارتفاع الالتئام بينهما .- ( ش ت ت ) الشت - کے معنی قبیلہ کو متفرق کرنے کے ہیں محاورہ ہے ۔ شت جمعھم شتا وشتاتا ان کی جمیعت متفرق ہوگئی ۔ جاؤا اشتاتا وہ پر اگندہ حالت میں آئے قرآن میں ہے : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر آئیں گے ۔ مِنْ نَباتٍ شَتَّى[ طه 53] ( یعنی انواع ( وہ اقسام ) کی مختلف روئیدگی پید اکیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [ الحشر 14]( مگر) ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ یعنی ان کی حالت مسلمانوں کی حالت کے برعکس ہے جن کے متعلق فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [ الأنفال 63] مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی ۔ شتان یہ اسم فعل وزن وشگان ہے ۔ محاورہ ہے ؛۔ شتان ما ھما وشتان ما بینھما ان دونوں میں کس قدر بعد اور تفاوت ہے ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - تحیۃ - وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها - [ النساء 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه - اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
نابینائوں سے پردے کی کیفیت - قول باری ہے : (لیس علی الاعمی حرج) ندھے کے لئے کوئی حرج نہیں۔ تاآخر آیت ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کے سبب نزول اور اس کی تاویل میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبیدہ نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ) اندھے کے لئے کوئی حرج نہیں ہے، لنگڑے کے لئے کوئی حرج نہیں اور مریض کے لئے کوئی حرج نہیں کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ جب آیت (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل) اور تم آپس میں ایک دسوورے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائونازل ہوئی تو مسلمانوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کردیا ہے۔- کسی کے پاس جاکر کچھ کھانا حلال نہیں ہے۔ چناچہ لوگ ایک دوسرے کے پاس جاکر کچھ کھانے سے باز آگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث نازل فرمائی۔ یہ اس آیت کی ایک تاویل ہوئی۔ ہمیں جعفر بن ۔۔ سے روایت بیان کی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر کی کچھ اپاہج ، نابینا، لنگڑے اور حاجتمند قسم کے لوگ تھے جنہیں کچھ دوسرے لوگ اپنے ساتھ گھروں کو لے آتے تھے۔ اگر ان کے گھروں میں کچھ موجود نہ ہوتا تو وہ انہیں اپنے ساتھ اپنے باپ دادا کے گھروں میں لے جاتے۔ اس بات کو ان معذور لوگوں نے پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جہاں سے بھی طعام مل جائے کھانا حلال کردیا۔ آیت کی یہ دوسری تاویل ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں ابن مہدی نے ابن المبارک سے اور انہوں نے معمر سے، وہ کتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ اندھے لنگڑے اور مریض کا بیان کیوں ذکر ہوا ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ہے کہ لوگ جب کسی غزوہ پر جاتے تو اپنے گھروں میں معذور لوگوں کو چھوڑ جاتے اور گھروں کی چابیاں ان کے حوالے کردیتے اور یہ کہہ دیتے کہ ہم نے تمہیں ان گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی۔- لیکن یہ معذور افراد ان گھروں سے کچھ کھانا گناہ سمجھتے اور کہتے کہ مالکوں کی غیر حاضری میں ان گھروں میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں انہیں اس بات کی رخصت دے دی گئی آیت کی یہ تیسری تاویل ہے۔ ایک چوتھی تاویل بھی مروی ہے جسے سفیان نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے مقسم سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ اندھے ، لنگڑے اور مریض کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے پرہیز کرتے تھے کیونکہ اس صورت میں یہ لوگ اتنا نہیں کھا سکتے تھے جتنا ایک تندرست آدمی کھا لیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض اہل علم نے اس تاویل پر تنقید کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اندھے کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں تمہارے لئے کو حرج نہیں ہے۔ “ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اندھے سے نیز اس کے ساتھ مذکورہ لوگوں سے کھانے کے معاملے میں حرج کا ازالہ فرمایا ہے۔ یہ تو رہی اللہ کے متعلق بات جب وہ دوسرے کے مال میں سے کچھ کھالے، آیت کے متعلق سلف سے منقول توجیہات میں سے یہ بھی ایک توجیہ ہے۔ تاہم مقسم کی توجیہ احتمال بعید کی حامل ہے جبکہ حضرت ابن عباس (رض) کی توجیہ بالکل واضح ہے کیونکہ قول باری ہے : (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم۔ ) اور مل بیٹھ کر کھانا تجارت کی صورت نہیں تھی اس لئے لوگ اس سے باز آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث نازل کرکے اس کی اباحنت کردی۔ مجاہدنے آیت کی جو توجیہ کی ہے وہ بھی دو وجوہ سے درست ہے۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور ساتھ آنے والوں کو طعام میں شریک کرلیتے تھے۔ اس عادت اور رسم کی حیثیت یہ تھی کہ گریا زبان سے اس کا ذکر کردیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اندھے، لنگڑے اور مریض کے لئے اس صورت میں کھانے کی اباحت کردی جب دوسرے لوگ انہیں اپنے ساتھ گھروں کو لے جائیں۔ اس صورت میں یہ معذور لوگ ان لوگوں کے گھروں میں یا ان کے باپ دادا کے گھروں میں جاکر کھانا کھا سکتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں طعام کی ضرورت ہوتی تھی اس زمانے میں ایسے لوگوں کی مہمان نوازی واجب تھی اور لوگوں میں یہ ضرورت مند لوگ بقدر طعام حق رکھتے تھے۔ - اس لئے اللہ تعالیٰ نے معذوروں کے لئے اس بات کی اباحت کردی کہ وہ اجازت کے بغیر بھی لوگوں کے اموال میں بقدر ضرور ت کھاپی سکتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ اگر تم اپنے دوست کے گھر جاکر کھانا کھالو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے (او صدیقکم یا اپنے دوست کے گھر) روایت میں ہے کہ ایک بدوی حسن بصری کے پاس آیا وہاں اس نے کھانے کا دستر خوان لٹکا ہوا دیکھا۔ دستر خوان اتار کر اس نے کھانا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر حسن رونے لگے۔ جب ان سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس بدوی نے یہ کام کرکے مجھے اپنے بھائیوں کی یاد دلادی جواب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ لوگ کھانے کے معاملے میں بےتکلفی سے کا م لیتے تھے اور اجازت وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ان کی عادت اور رسم پر مبنی بات تھی جو ان لوگوں کے درمیان جاری وساری تھی۔- کن گھروں سے معذور لوگ کھانا کھا سکتے ہیں - قول باری ہے : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یعنی……واللہ اعلم……ان گھروں سے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں جن میں یہ رہتے ہوں اور دوسروں کے عیال میں شمار ہوتے ہوں۔ مثلاً ایک شخص کی بیوی، اس کی اولاد نے اس کے نوکر چاکر اور دیگر افراد، ایسے لوگ اس شخص کے گھر سے کھاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گھروں کی نسبت ان لوگوں کی طرف کردی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھر میں رہنے والے ہیں اگرچہ وہ کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہیں جو گھر کا مالک ہوتا ہے کیونکہ یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ انسان کو اپنے مال میں سے کھانے کی اباحت کردی جائے اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ظاہری طور پر اس بات پر مشتمل ہے کہ ایک شخص کے لئے دوسرے کے مال میں سے کھانے کی اباحت ہے۔ ارشاد باری ہے : (او بیوت ابائکم اوب بیوت امھاتکم او بیوت اخانکم او بیوت اخواتکم) یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے۔ اللہ تعالیٰ نے ان محرم اقرباء کے گھروں سے کھانے کی اباحت کردی کیونکہ عادت اور رسم یہ تھی کہ اس جیسے رشتہ داروں کو کھانے میں شریک کرلیا جاتا تھا اور ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں تھی۔ اولاد کے گھروں سے کھانے کا ذکر نہیں ہوا اس لئے قول باری : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) سے یہ بات از خود معلوم ہوگئی تھی اس لئے کہ ایک شخص کا مال اس کے باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہ : انت ومالک لا بیک تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (ان اطیب مااکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ فکلوا من کسب اولادکم) انسان کے لئے پاکیزہ ترین کھانا وہ ہے جس اس کی اپنی کمائی سے حاصل ہوا ہو، انسان کی اولاد اس کی اپنی کمائی ہے اس لئے تم اپنی اولاد کی کمائی کھائو۔ اس بنا پر آیت میں (من بیوتکم) کے ذکر پر اکتفا کرلیا گیا اور اولاد کے گھروں کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کیونکہ اولاد کے گھر بھی ان کے آباء کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔- گھروں کی کنجیاں کن کے سپرد کی جائیں ؟- قول باری ہے : (اوما ملکتم مغاتحہ او صدیقکم) یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ علی ابن ابی طلحہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قول باری (او ما صلکتم مفاتعہ) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کھانا وغیرہ تیار کرنے یا جانوروں سے دودھ نکالنے یا پھل وغیرہ اتارنے کا کام سپرد کردے اور پھر اسے اس طعان یا دودھ یا پھل میں سے کھانے کی اجازت دے دے۔ عکرمہ سے اس قول باری کی تفسیر میں مروی ہے کہ جب گھر کی کنجی کسی کے سپرد کردی جائے تو ایسا کرنا درست ہوتا ہے اور اس شخص کے لئے اس گھر سے تھوڑا بہت کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ سعید نے قتادہ سے قول باری : (لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ) کی تفسیر میں یہ روایت کی ہے کہ کوئی شخص کسی کو مہمان نہیں بناتا تھا اور نہ ہی خود کسی دوسرے کے گھر سے کچھ کھاتا تھا۔ ا ایسا کرکے وہ گناہ سے بچنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اندھے ، لنگڑے اور مریض کو اجازت دی اور پھر تمام لوگوں کو اس کی اجازت دے دی اور فرمایا : (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم) تا قول باری (او ما صلکتم مفاتحہ) یعنی ” اے ابن آدم جو کچھ تیرے پاس ہے اس میں سے اگر کچھ کھالے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پھر ارشاد ہوا (اوصدیقکم) یعنی اگر تو اپنے دوست کے گھر چلا جائے اور اس کی اجازت کے بغیر وہاں سے کچھ کھالے تو یہ تیرے لئے حلال ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات بھی عادت اور رواج پر مبنی تھی جس کے تحت کھانے کی اجازت ہوتی تھی اس لئے معتاد طریقے کو زبان سے کہی ہوئی بات کی طرح سمجھا جاتا تھا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیوی شوہر سے پیشگی اجازت لئے بغیر اس کے گھر میں بچا ہوا روٹی کا کوئی ٹکڑا یا اس جیسی کوئی چیز صدقہ کردے تو اس کی اجازت تھی کیونکہ یہ ان کے درمیان ایک متعارف بات تھی اور وہ اس سے اپنی بیویوں کو روکتے نہیں تھے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ عبدماذون یعنی ایسا غلام جسے آقا کی طرف سے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت ہو، اسی طرح مکاتب کسی کو اپنے کھانے میں شریک کرلیں یا ان کے پاس جو ملا ہو اس میں سے تھوڑا بہت صدقہ کردیں تو ان کے لئے آقا کی اجازت کے بغیر ایسا کرنا جائز ہوتا ہے قول باری (اوصدیقکم) کی تفسیر میں اعمش نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے :” میں تو یہ سمجھے لگا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے درہم ودینار کا اپنے مسلمان بھائی سے بڑھ کر حق دار نہیں ہوتا۔ “ عبداللہ الرصافی نے محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کا یہ تصور تھا کہ ان میں سے کوئی بات اپنے آپ کو اپنے بھائی سے بڑھ کر درہم ودینار کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔- اسحاق بن کثیر نے روایت کی ہے کہ انہیں الرصافی نے بتایا کہ وہ ایک دن ابوجعفر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے یہ سوال کیا کہ آیا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آستین یا جیب میں ہاتھ ڈال کر وہاں موجود رقم لے سکتا ہے ؟ حاضرین نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا ، پھر تم آپس میں بھائی بھائی نہیں ہو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنے محرم رشتہ دار کے گھر چوری کا ارتکاب کرلے تو اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ محرم رشتہ داروں کے لئے گھروں کے بغیر اجازت داخل ہونے اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کی اباحت کردی ہے اس بنا پر ان رشتہ داروں سے گھر کے مالکوں کا مال محفوظ جگہ میں رکھا ہوا نہیں سمجھا جائے گا۔ جبکہ قطع ید کے لئے محفوظ کیے ہوئے مال کا چرانا شرط ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اس بنیاد پر دوست کے گھر سے مال چرانے پر بھی قطع ید کی سزا نہیں ملنی چاہیے کیونکہ آیت میں دوست کے گھر سے بھی کھانے کی اباحت ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو شخص اپنے دوست کے گھر سے مال چرانے کی نیت رکھتا ہو وہ اس کا دوست نہیں ہوتا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت قول باری : (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تسانسوا) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی اس آیت کے نسخ پر دلالت کرتا ہے کہ (لا بجل مال امری مسلم الا بطیبۃ من نفسہ ) کسی مسلمان کا مال اس وقت تک حلال نہیں ہوتا جب تک وہ خوش دل کے ساتھ اسے کسی کو نہ دے دے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیت وخبر میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو آیت زیر بحث کے نسخ کو واجب کررہی ہو اس لئے کہ آیت زیر بحث صرف ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کا اس میں ذکر ہوا ہے جبکہ دوسری آیت باقی ماندہ تمام لوگوں کے لئے ہے جو ان پہلے لوگوں سے الگ ہیں۔ یہی کیفیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایت کی ہے۔- قول باری ہے :(لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا) اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ ۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بنو خزیمہ کے قبیلہ کنانہ کا ہر فرد یہ سمجھتا تھا کہ تنہا بیٹھ کر کھانا کھانا حرام ہے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ اونٹوں کا گلہ ہانکتے ہانکتے ایک شخص بھوک سے تڑپ اٹھتا لیکن جب تک اسے کھانے میں شرکت کرنے والا کوئی نہ مل جاتا اس وقت تک وہ کچھ نہ کھاتا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر درج بالا آیت نازل فرمائی۔ ولید بن مسلم نے روایت کی ہے، انہیں وحشی بن حرب نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد وحشی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے ایک دفعہ آپ سے عرض کیا کہ ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو۔ “ انہوں نے اثبات میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا : ایک ساتھ بیٹھ کر کھائو اور کھانے پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس کھانے میں برکت ڈال دے گا۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ (جمیعا او اشتاتا) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص اپنے گھر میں فقیر کو بھی کھانے میں شریک کرلے۔ ابو صالح کا قول ہے کہ جب کسی کے گھر کوئی مہمان آتا تو وہ ان کے ساتھ مل کر کھانے کے سوا تنہا بیٹھ کر کھانے کو گناہ سمجھتے تھے۔ ایک قول کے مطابق ہر انسان کو اس بات کا خطرہ رہتا کہ اگر وہ دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ خودوسرے آدمی سے زیادہ نہ کھالے اس بنا پر ہر شخص دوسرے کے ساتھ مل کر کھانے سے پرہیز کرتا۔- ابوبکر حبصاص اس تاویل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تاویل کا بھی احتمال موجود ہے۔ اس مفہوم پر قول باری : (ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر وان تخالطوھم فاخوانکم) اور پوچھتے ہیں یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے کہو، جس طرز عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کے لئے اپنے طعام کے ساتھ یتیم کے طعام کو ملا کر اکٹھے بیٹھ کر کھانے کی اباحت کردی۔ اس طرح یہ قول باری بھی ہے : (فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاما فلیاتکم برزق منہ) چلو اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے۔ چاندی کا سکہ ان سب کا تھا اور طعان ان سب کے درمیان مشترک تھا اور انہوں نے اس کھانے کو اکٹھے بیٹھ کر تناول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ اسی طرح یہ قول باری بھی ہے : (لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا) ممکن ہے کہ ا س سے مراد یہ ہو کہ تمام لوگ کھانا درمیان میں رکھ کر اکٹھے مل کر کھالیں جس طرح سفر پر جانے والے لوگ کرتے ہیں کہ گروہ کا ہر شخص مساوی رقم ادا کرتا ہے اور سب مل کر اس رقم سے تیار شدہ کھانا کھالیتے ہیں۔ اس میں یہ خیال نہیں رکھا جاتا کہ کس نے زیادہ کھالیا اور کس نے کم، اسے مناہدہ کہتے ہیں۔- گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کہیں - قول باری ہے : (فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عندالل مبارکۃ طیبۃ) البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر ، اللہ کی طرف سے مقرر قرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ ، معمر نے حسن سے روایت کی ہے کہ مفہوم یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرو جس طرح یہ قول ہے : (ولا تقتلوا انفسکم) اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ مفہوم یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ معمر نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بیوت سے مراد مسجدیں ہیں، جب تم مسجد میں داخل ہو تو یہ کہو ” السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ “ (ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو) نافع نے حضرت عمر (رض) کے متعلق روایت کی ہے کہ وہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہتے ” (بسم اللہ السلام علی رسول اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے رسول پر سلام) جس کسی گھر میں داخل ہوتے اور وہاں کوئی موجود ہوتا تو کہتے ” السلام علیکم “ اور اگر گھر خالی ہوتا تو فرماتے ” السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین “ زہری کا قول ہے کہ (فسلموا علی انفسکم) کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم اپنے ھگر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو السلام علیکم کہو کیونکہ تم جن لوگوں کو سلام کہتے ہو ان میں سب سے بڑھ کر اس سلام کے حق دار تمہارے اہل خانہ ہیں، اور جب تم خالی گھر میں داخل ہو تو السلام علینا وعلی ٰ عباد اللہ الصالحین “ کہو ہر شخص کو اس کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں یہ روایت ملی ہے کہ فرشتے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب آیت کے الفاظ میں ان تمام توجیہات کا احتمال موجود ہے جو سلف سے منقول ہیں تو اس سے ضروری ہے کہ عموم لفظ کے دائرے میں یہ تمام مراد لی جائیں۔ قول باری (تحیۃ من عنداللہ مبارکۃ طیبۃ) کا مفہوم یہ کہ لفظ السلام، اللہ کی طرف سے تحیت ہے کیونکہ اللہ ہی نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ تحیت بہت برکت والی اور پاکیزہ ہے کیونکہ یہ سلامتی کی دعا پر مشتمل ہے اس لئے اس دعا کا اثر اور اس کی منفعت ختم نہیں ہوگی۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ قول باری : (فاذا حییتم بتحیۃ فجبوا باحسن منھا اور دوھا) اور جب احترام کے ساتھ تمہیں کوئی سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ، میں سلام مراد ہے۔
(٦١) عبدالرزاق (رح) نے بواسطہ معمر ابن ابی نجیح (رح) مجاہد سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی لنگڑے، اندھے، اور بیمار کو اپنے باپ یا بھائی یا بہن یا پھوپھی یا خالہ کے گھر لے جایا کرتا تھا تو یہ محتاج اس چیز میں تنگی محسوس کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں دوسروں کے گھر لے جایا جاتا ہے تو یہ آیت کریمہ ان کے حق میں اجازت کے طور پر نازل ہوگئی کہ نہ تو اندھے آدمی کے لیے کچھ مضائقہ ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ ( آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ‘۔ (الخ) نازل فرمائی، اس آیت کو سن کر صحابہ کرام (رض) ڈر گئے اور کہنے لگے کہ کھانا تو اور اموال سے افضل ہے تو لہذا ہم میں سے کسی کو کسی کے یہاں کھانا حلال نہیں ہے تو سب نے اس سے احتیاط کرنا شروع کردی، اس پر اللہ تعالیٰ نے ( آیت) ” لیس علی الاعمی “۔ مفاتحۃ “۔ تک یہ آیتیں نازل فرمائیں۔- نیز ضحاک سے روایت کیا ہے کہ مدینہ والے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اپنے ساتھ اندھے بیمار اور لنگڑے کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے کیوں کہ اندھا آدمی تو عمدہ کھانوں کو نہیں دیکھ سکتا اور بیمار تندرست کی طرح خوب سیر ہو کر کھانا نہیں کھا سکتا اور لنگڑا کھانے میں مزاحمت نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ساتھ کھلانے میں اجازت دے دی۔- نیز مقیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ اندھے اور لنگڑے کے ساتھ کھانے سے ڈرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت حارث (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد پر روانہ ہوئے اور اپنے گھر والوں کی نگرانی کے لیے خالد بن زید کو چھوڑ دیا، چناچہ خالد بن زید (رض) کو ان کے گھر سے کھانا کھاتے ہوئے ایک حجاب سا ہوا اور خالد مفلس آدمی تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ لیس علیکم جناح “۔ (الخ)- بزار (رح) نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کرام (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں جانے کو پسند کرتے تھے چناچہ وہ اپنے اموال کی کنجیاں اپنے محتاجوں کو دید یا کرتے تھے اور ان سے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم نے تمہیں اجازت دے دی ہے جو تمہاری طبیعت چاہے سو کھاؤ مگر وہ پسماندہ حضرات کہتے تھے کہ ہمارے لیے ان کی چیزوں کا کھانا حلال نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے ہمیں خوشی سے اجازت نہیں دی اس پر اللہ تعالیٰ نے ( آیت) ” لیس علیکم “۔ ”۔ او ما ملکت مفاتحہ “۔ (الخ) تک آیت نازل فرمائی، یعنی ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، کھانے میں کوئی حرج نہیں۔- اور ابن جریر (رح) نے زہری سے روایت کیا ہے کہ ان سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آیت کریمہ ”۔ لیس علی الاعمی “۔ (الخ) میں اندھے لنگڑے اور بیمار کا ذکر کیا گیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس چیز کے بارے میں مجھے عبداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مسلمان جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو اپنے محتاجوں کو گھروں پر چھوڑ جاتے اور انھیں اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے اور ان سے کہہ جاتے کہ ہم نے تمہیں مکمل اختیار دید یا ہے جو ہمارے گھروں میں ہے سو کھاؤ پیو مگر وہ لوگ اس چیز میں تنگی محسوس کرتے اور کہتے کہ ان کی عدم موجودگی میں ہم ان کے گھروں میں نہیں جائیں گے تو یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اجازت دینے کے لیے نازل فرمائی ہے، نیز قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ عرب کے ایک قبیلہ کے بارے میں نازل ہوئی، اس قبیلہ کا کوئی بھی فرد تنہا کھانا نہیں کھاتا تھا اور اپنا دن کا کھانا اٹھا کر رکھ لیتا تھا جب تک کہ اس کو ساتھ کھانے کے لیے کوئی نہ ملے جب کوئی ساتھی مل جاتا تب کھاتا اور نیز عکرمہ (رض) اور ابو صالح (رض) سے روایت کیا ہے کہ انصار کے یہاں جب کوئی مہمان آجاتا تھا تو جب تک مہمان ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتا اس وقت تک یہ بھی کھانا نہ کھاتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس چیز کی اجازت مرحمت فرمانے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔
آیت ٦١ (لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ) ” - یہاں پر اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ اگر کسی خاندان ‘ گھر یا برادری میں کوئی معذور شخص ہو جو معذوری کے سبب اپنی آزاد معاش کا اہل نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے شریعت کی ان پابندیوں کے بارے میں کیا حکم ہوگا ؟ چناچہ ایسے لوگوں کے بارے میں یہاں واضح طور پر بتادیا گیا کہ اگر وہ تمہارے گھروں میں رہیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔- (اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیْقِکُمْ ط) ” - جیسے کوئی کارخانہ ہو اور اس کے مالک کے پاس اس کی چابیاں ہوں ‘ وہ جب چاہے وہاں جائے اور بیٹھ کر کھائے پئے۔ - (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ط) ” - بعض لوگوں نے ان الفاظ سے خواہ مخواہ یہ مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو اکٹھے کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ دراصل یہ مجلسی احکام ہیں اور خصوصی طور پر اس حکم میں ایسی صورت حال مراد ہے جس میں کچھ لوگ کھانے کی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے لوگ ابھی نہیں پہنچتے اور پہلے آنے والوں کو اس سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ جیسے سہولت ہو ویسے کھا پی لیا جائے ‘ سب کا اکٹھے کھانا ہی ضروری نہیں ہے۔ الگ الگ گروہوں میں بھی کھانا کھایا جاسکتا ہے اور الگ الگ افراد بھی کھا سکتے ہیں۔ اس میں خواہ مخواہ تکلف یا تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ ان مجلسی احکام سے ایسا مفہوم نکالنے کی کوشش کرنا سراسر زیادتی ہے کہ یہاں ستر و حجاب کے احکام بھی نعوذ باللہ معطل کردیے گئے ہیں اور کھانے پینے کی مخلوط پارٹیوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔ معاذ اللہ - (فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلآی اَنْفُسِکُمْ ) ” - یعنی جس گھر میں تم بطور مہمان جا رہے ہو اس میں موجود لوگ تمہارے اپنے ہی لوگ ہیں ‘ وہ تمہارے عزیز اور رشتہ دار ہیں۔ چناچہ تم اپنے ان لوگوں کو ضرور ” السلام علیکم “ کہا کرو۔ خود اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو ” السلام علیکم “ کہا کرو۔- (تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ط) ” - ” السلام علیکم “ ایک ایسی بابرکت اور پاکیزہ دعا ہے جو ایسے مواقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو خصوصی طور پر سکھائی ہے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :95 اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے ۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ بیمار ، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں ۔ دوم یہ کہ قرآن کی اخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا اس کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی ۔ ابن عباس کے بقول ، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ( ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے ۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا ، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی ۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے ۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے ۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں ۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی ۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھایا جا سکتا ہے ۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گئے ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے ۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :96 قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھائے ۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو ۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے ۔
44: ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بعض افراد جو نابینا یا پاوں سے معذور یا بیمار ہوتے تھے، وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے سے اس لئے شرماتے تھے کہ شاید دوسروں کو ان کے ساتھ کھاتے ہوئے کراہیت محسوس ہو، اور بعض معذور افراد یہ بھی سوچتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ جگہ گھیر لیں، یا نابینا ہونے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ کھالیں، دوسری طرف صحت مند لوگ بھی بعض اوقات یہ خیال کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں کا ساتھ نہ دے سکیں، کم کھائیں اور مشترک کھانے میں سے اپنا مناسب حصہ نہ لے سکیں، یہ احساس ان حضرات کے دل میں اسلام کے ان احکام نے پیدا کیا جن کی رو سے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ادنیٰ سی تکلیف پہنچانا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ نیز مشترک چیزوں کے استعمال میں احتیاط کی تاکید کی گئی ہے۔ ان آیات نے یہ واضح فرمایا کہ بے تکلف مقامات پر اتنی باریک بینی کی ضرورت نہیں ہے۔ 45: عرب کے لوگوں میں یہ عام رواج تھا کہ اُن کے گھروں میں آنے والے یہ رشتہ دار جن کا اس آیت میں ذکر ہے، اگر ان کی اجازت کے بغیر بھی اُن کے گھر سے کچھ کھالیتے تو وہ نہ صرف یہ کہ برا نہیں مناتے تھے، بلکہ خوش ہوتے تھے۔ جب یہ اَحکام آئے کہ کسی کی چیز اس کی خوش دِلی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں تو بعض صحابہؓ یہاں تک پرہیز کرنے لگے کہ اگر کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جاتے، اور اُس کی بیوی بچے ان کی کچھ خاطر تواضع کرتے تو ان کو کھانے میں تردّد ہوتا تھا کہ گھر کا اصل مالک تو موجود نہیں ہے، اِس لئے ہمیں اس کی اجازت کے بغیر کھانا نہیں چاہئے، اِس آیت نے واضح فرمادیا کہ جہاں یہ بات یقینی ہو کہ اصل مالک ہمارے کھانے سے خوش ہوگا، وہاں کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے، البتہ جہاں یہ بات مشکوک ہو، وہاں یہ حکم نہیں ہے، چاہے وہ کتنے قریبی رشتہ دار کا گھرہو۔(روح المعانی، معارف القرآن) 46: بعض حضرات جب جہاد کے لئے جاتے تو اپنے گھر کی چابیاں ایسے معذور افراد کے حوالے کرجاتے جو جہاد میں جانے کے لائق نہیں تھے، اور اُن کو یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ ہمارے گھر کی کوئی چیز اگر آپ کھانا چاہیں تو کھالیا کریں، اس کے باوجود یہ معذور حضرات احتیاط کی وجہ سے کھانے سے پرہیز کرتے تھے، اِس آیت نے ان کو بھی یہ ہدایت فرمادی کے اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہے، جب مالک کی طرف سے چابیاں تک آپ کے حوالے کردی گئی ہیں اور اجازت بھی دے دی گئی ہے تو اب کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔