6 0 1ان سے مراد وہ بوڑھی اور راز کار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے کپڑے اتار دیں سے مراد جو شلوار قمیض کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے مستشنٰی ہوگی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہوگا۔ 6 0 2یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
[٩٠] قواعد کا لفظ قاعدہ اور قعیدہ دونوں کی جمع ہے۔۔ قاعدہ بمعنی بنیاد اور قواعد بمعنی بنیادیں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ (٢: ١٢٧) اور قعد کے معنی بیٹھنا بھی، بیٹھ رہنا اور کوئی کام نہ کرنا بھی اور کسی کام کے لئے تیار ہو بیٹھنا بھی ہے۔ اور قیدہ کا دوسرے معنی سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جو ازدواجی زندگی کے کام کاج سے فارغ ہوچکی ہوں۔ یعنی سن یاس کو پہنچ چکی ہوں اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ہوں اور جن کی جنسی خواہشات مرچکی ہوں اور اگر کوئی مرد انھیں دیکھے تو اس کے صنفی جذبات میں تحریک پیدا نہ ہو یعنی بوڑھی کھوسٹ عورتیں۔- [٩١] یہاں ثِیَابَھُنَّ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ اپنے بدن کے سب کپڑے اتار سکتی ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ان سے حجاب کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ لیکن ستر کی پابندیاں بدستور بحال رہتی ہیں۔ ستر اور حجاب میں فرق یہ ہے کہ ستر ان اعضاء کو ڈھانپ رکھنے کا نام ہے جن کا ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو۔ مرد کا مقام ستر ناف سے لے گھٹنے تک ہے۔ اور عورت کے مقام ستر اس کا سارا جسم ہے ماسوائے ہاتھوں اور چہرہ کے۔ مرد اپنے مقامات ستر اپنی بیوی کے سوا کسی کے سامنے کھول نہیں سکتا اور نہ ہی عورت اپنے ستر کے مقامات اپنے خاوند کے سوا کسی دوسرے کے سامنے کھول سکتی ہے۔ ان احکام میں اگر گنجائش ہے تو صرف یہ ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے کسی ضرورت کے تحت جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے جیسے فرش دھوتے وقت پائنچے اوپر چڑھا لینا یا آٹا گھوندتے وقت کف اوپر چڑھا لینا وغیرہ اور مقام ناف سے لے کر گھٹنے تک کے مقامات ستر توث ایسے ہیں جنہیں کوئی عورت کسی عورت کے بھی سامنے کھول نہیں سکتی۔ (مزید تفصیل کے لئے میری تصنیف احکام ستروحجاب)- اور یہاں جو بڑھی بوڑھیوں کو کپڑے اتارنے کی اجازت ہے تو اس سے مراد کپڑے ہیں جو ستر سے متعلق نہیں بلکہ حجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ دو ہیں ایک دوپٹہ جس سے عورتوں کے سر پر رکھنے اور اس سے اپنے گریبان ڈھانپے رکھنے کا حکم ہے اور اس کا تعلق گھر کے اندر کی دنیا سے ہے اور دوسرے بڑی چادریں جن سے انھیں اپنا سارا بدن اور زیب وزینت ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے۔ اب بڑی بوڑھوں کی رخصت صرف یہ ہے کہ ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ گھر میں ہر وقت دوپٹہ یا اوڑھنی اوڑھے رکھیں یا جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلیں تو بڑی چادروں میں اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کو نکلا کریں۔ اور یہ رخصت بھی صرف اس صورت میں ہے جب انہوں نے سنگھار اور میک اپ وغیرہ نہ کیا ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو اور انھیں بھی اپنی زیب وزینت کا اظہار مقصود ہو یا ان کا بھی بناؤ سنگھار کرنے یا اس کی نمود و نمائش کرنے کو جی چاہتا ہو تو انھیں یہ رخصت نہیں ملے گی۔- [٩٢] یعنی اگر بڑی بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسے دیکھنے والے سارے بوڑھے یا متقی لوگ تو نہیں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شہوت کا مارا اوباش اس سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دے اور اس پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے نہ چوکے۔ لہذا بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت کا استعمال موقع و محل کا لحاظ رکھ کر کریں۔ بصورت دیگر اس رخصت پر عمل نہ کریں۔ یہی چیز ان کے حق میں بھی بہتر ہے اور معاشرہ کے حق میں بھی۔
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا ۔۔ : بچوں کو بالغ ہونے کے بعد اجازت طلب کرنے کی پابندی کے ذکر کے بعد عورتوں کے سن یاس کو پہنچنے کے بعد ان کے لیے پردے کی پابندی میں تخفیف کا حکم بیان فرمایا۔ ” الْقَوَاعِدُ “ ” قَاعِدٌ“ کی جمع ہے، جو مذکر کا صیغہ ہونے کے باوجود عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ ” حَاءِضٌ“ اور ” حَامِلٌ“ ہے، یعنی وہ عورتیں جو بڑی عمر کو پہنچ جائیں، انھیں نکاح کی رغبت نہ رہے، نہ دوسروں کو ان سے نکاح کی دلچسپی رہے، ان کے لیے رعایت ہے کہ وہ غیر محرم مردوں سے پردہ نہ کریں تو ان پر گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ اپنی زینت کا اظہار کرنے والی نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ عورتیں جن کے حسن و جمال میں مردوں کے لیے کشش باقی ہو، انھیں پردہ اتارنا جائز نہیں۔ - طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کا قول نقل فرمایا ہے : ” آیت ” وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا “ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت پر گناہ نہیں کہ گھر میں قمیص اور دوپٹے کے ساتھ رہے اور بڑی چادر اتار دے، جب تک وہ زینت ظاہر نہ کرے، جسے ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ “ (طبری : ٢٦٤٠٩) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی بوڑھی عورتیں گھر میں تھوڑے کپڑوں میں رہیں تو درست ہے اور پورا پردہ رکھیں تو اور بہتر ہے۔ “ گھر سے باہر بھی اگر وہ برقع یا بڑی چادر نہ لیں تو حرج نہیں، بشرطیکہ وہ کسی قسم کی زینت کا اظہار نہ کر رہی ہوں۔ ” بِزِيْنَةٍ “ میں تنوین سے ظاہر ہے کہ بوڑھی عورت کے لیے غیر محرموں کے سامنے کسی بھی طرح کی زینت کا اظہار جائز نہیں۔- 3 مرد جس عمر کو بھی پہنچ جائے اور جتنا بوڑھا بھی ہوجائے اگر غیر محرم ہے تو عورت کو اس سے پردہ کرنا لازم ہے، بعض عورتوں کا بوڑھوں سے پردہ اتار دینا درست نہیں۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس سے پردہ نہ کرنے کی اجازت نہیں آئی۔- وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : یعنی اجازت طلب کرنے اور پردہ کرنے کے یہ احکام فتنے کی روک تھام کے ظاہری اسباب ہیں، باقی پردے کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اور جو فتنے اٹھائے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو سنتا اور جانتا ہے اور وہ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ فرمائے گا۔
عورتوں کے احکام پردہ کی تاکید اور اس میں سے ایک اور استثناء :- اس سے پہلے عورتوں کے حجاب اور پردہ کے احکام دو آیتوں میں مفصل آ چکے ہیں اور ان میں دو استثناء بھی ذکر کئے گئے۔ ایک استثناء، ناظر یعنی دیکھنے والے کے اعتبار سے، دوسرا استثناء منظور یعنی جس کو دیکھا جائے اس کے اعتبار سے۔ ناظر کے اعتبار سے تو محارم کو اور اپنی مملوکہ کنیزوں نابالغ بچوں کو مستثنی کیا گیا تھا اور منظور یعنی جس چیز کو نظروں سے چھپانا مقصود ہے اس کے اعتبار سے زینت ظاہرہ کو مستثنی کیا گیا جس میں اوپر کے کپڑے برقع یا بڑی چادر باتفاق مراد ہیں اور بعض کے نزدیک عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں بھی اس استثناء میں داخل ہیں۔- یہاں اگلی آیت میں ایک تیسرا استثناء عورت کے شخصی حال کے اعتبار سے یہ کیا گیا کہ جو عورت بڑی بوڑھی ایسی ہوجاوے کہ نہ اس کی طرف کسی کو رغبت ہو اور نہ وہ نکاح کے قابل ہو تو اس کے لئے پردہ کے احکام میں یہ سہولت دے دیگئی ہے کہ اجانب بھی اس کے حق میں مثل محارم کے ہوجاتے ہیں جن اعضاء کا چھپانا اپنے محرموں سے ضرروی نہیں ہے اس بوڑھی عورت کے لئے غیر مردوں غیر محرموں سے بھی ان کا چھپانا ضروری نہیں۔ اس لئے فرمایا والْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ الآیتہ، جس کی مختصر تفسیر اوپر گزر چکی ہے مگر ایسی بڑی بوڑھی عورت کے لئے بھی ایک قید تو یہ ہے کہ جو اعضاء محرم کے سامنے کھولے جائیں یہ عورت غیر محرم کے سامنے بھی کھول سکتی ہے بشرطیکہ بن سنور کر زینت کر کے نہ بیٹھے۔ دوسری بات آخر میں یہ فرمائی وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ، یعنی اگر وہ غیر محرموں کے سامنے آنے سے بالکل ہی بچیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ ٠ۭ وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٦٠- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معنی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - برج ( تبرج)- وثوب مُبَرَّج : صوّرت عليه بروج، واعتبر حسنه، فقیل : تَبَرَّجَتِ المرأة أي : تشبّهت به في إظهار المحاسن، وقیل : ظهرت من برجها، أي : قصرها، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولی [ الأحزاب 33] ، وقوله : غَيْرَ مُتَبَرِّجاتٍ بِزِينَةٍ [ النور 60] ، والبَرَجُ : سعة العین وحسنها تشبيها بالبرج في الأمرین .- ثوب مبرج اس کپڑے کو کہتے ہیں جس پر برجوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں پھر اس میں معنی حسن کا اعتبار کرکے تبرجت المرءۃ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں ۔ یعنی عورت نے مزین کپڑے کی طرح آرائش کا اظہار کیا ۔ بعض کہتے ہیں کہ تبرجب المرءۃ کے معنی ہیں عورت اپنے قصر ظاہر ہوئی جیسا کہ ان دونوں آیتوں ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولی [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح ( پہلے ) جاہلیت کے زمانہ میں اظہار تجمل کرکے اپنے محلات سے نکلا کرتی تھیں اسی طرح اب مت نکلو زینت نہ دکھاؤ ۔ ، وقوله : غَيْرَ مُتَبَرِّجاتٍ بِزِينَةٍ [ النور 60] بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں طاہر نہ کریں ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور پھر حسن وسعت میں تشبیہ دے کر وسعت چشم اور حسن نظر کے لئے البرج کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - عف - العِفَّةُ : حصول حالة للنّفس تمتنع بها عن غلبة الشّهوة، والمُتَعَفِّفُ : المتعاطي لذلک بضرب من الممارسة والقهر، وأصله : الاقتصار علی تناول الشیء القلیل الجاري مجری العُفَافَة، والعُفَّة، أي : البقيّة من الشیء، أو مجری العفعف، وهو ثمر الأراك، والاستعفاف : طلب العفّة . قال تعالی: وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ، وقال : وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور 33] .- ( ع ف ف ) العفۃ نفس میں ایسی حالت کا پیدا ہوجاناجسکے ذریعے وہ غلبہ شہوت سے محفوظ رہے المتعفف زبر دستی سے اپنے اندد ایسی حالت پیدا کرنے والا اصل میں اس کے معنی تھوڑی سی چیز پر قناعت کرنے کے ہیں ۔ جو بمنزلہ عفافۃ یا عفۃ یعنی بچی کھچی چیز کے ہو یا بمنزلہ عفعف یعنی پہلوں کے ہو الا ستعفاف عفت طلب کرنا کیس چیز سے پر ہز کرنا قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] اور جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ( ایسے مال سے قطعی طور پر ) پر پرہیز رکھنا چاہیئے ۔ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور 33] اور جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیئے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
جوانی بیت جانے پر پردے کی تخفیف - قول باری ہے : (والقواعد من النساء اللاتی لا یرجون نکاحا) اور جو عورتیں جوانی سے گزر بیٹھی ہوں نکاح کی امیدوار نہ ہوں۔ تاآخر آیت۔ حضرت ابن مسعود (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ جو عورتیں جوانی کی حد سے گزر چکی ہوں اور نکاح کی امیدوار نہ ہوں ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جنہیں نکاح کی خواہش اور اس کا ارادہ بھی ہ ہو۔ ان کے کپڑوں سے چادریں مراد ہیں جنہیں وہ اتار سکتی ہیں۔ ابراہیم اور ابن جبیر کا قول ہے کہ کپڑوں سے ردا، یعنی لمبی چادر مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ ان سے چادر اور کمر پٹہ مراد ہیں۔ جابرین زید سے مروی ہے کہ یہ عورتیں اپنا دوپٹہ اور چادر اتار سکتی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ بوڑھی عورت کے بال ستر میں داخل ہیں جوان عورتوں کے بالوں کی طرح اجنبی مرد کے لئے ان پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اگر بوڑھی عورت سر پر دوپٹے کے بغیر نماز پڑھے گی تو جو ان عورت کی طرح اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔ اس لئے یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ اجنبی مرد کے سامنے وہ سر سے دوپٹہ اتار سکتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورت کے لئے تنہائی میں دوپٹہ اتارنے کی اجازت دی ہے جہاں اسے کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پھر اس صورت میں قواعد یعنی جوانی سے گزر بیٹھنے والی عورتوں کی تخصیص کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جوان عورت بھی خلوت کے اندر اپنا دوپٹہ تارسکتی ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورت کے لئے غیر مردوں کے سامنے صرف چادر اتارنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ اس کا سرڈھکا ہوا ہو۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنے کی اباحت کردی ہے کیونکہ اس کے یہ اعضا شہوت کا باعث نہیں بنتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وان یستعففن خیر لھن۔ تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اس کے حق میں اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورت کے لئے چادر اتارنے کی اباحت کردی اور ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ اگر مردوں کے سامنے وہ اپنی چادر نہ اتارے تو یہ حیاداری اس کے حق میں بہتر ہے۔
(٦٠) جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( آیت) ” لیس علی الاعمی “۔ تو صحابہ کرام (رض) اس آیت کے نزول کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے میں تنگی محسوس کرنے لگے تھے کہ مبادا کسی کی حق تلفی ہوجائے اور اس سے ڈرنے لگے تھے بالخصوص محتاجوں کے ساتھ کھانے پینے میں اللہ تعالیٰ نے مشترک طریقہ پرکھانے پینے کی اجازت مرحمت فرما دی۔- چناچہ ارشاد فرمایا اندھے کے ساتھ بیٹھ کر کھانے والے پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں اور نہ لنگڑے آدمی کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج ہے اور بیمار کے ساتھ کھانے میں اور نہ خود تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج ہے کہ تم لوگ اپنی اولاد کے گھروں سے بغیر اجازت کے عدل و انصاف کے ساتھ کھانا کھالو یا اپنے باپ کے گھر سے اپنی ماؤں کے گھر سے یہ اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانے یا کسی کو کھلانے میں ہر ایک طریقہ سے کوئی مضائقہ نہیں یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن کے مالوں کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہیں یعنی غلام، لونڈیاں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے مالک بن زید اور حارث بن عمار دونوں دوست تھے ان کے بارے میں یہ آخری جملہ نازل ہوا اور پھر اس چیز میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ سب مل کر عدل و انصاف کے ساتھ کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ اس آیت میں اندھے، لنگڑے اور بیمارسب شامل ہوگئے۔- پھر جب تم اپنے گھروں یا مساجد میں جانے لگا کرو اور وہاں کوئی نہ ہو تو خود کو سلام کرلیا کرو یعنی السلام علینا من ربنا کہہ لیا کرو جو تمہارے لیے دعا کے طور پر اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور یہ ثواب ملنے کی وجہ سے برکت والی چیز اور مغفرت کے ساتھ عمدہ چیز ہے۔- جیسا کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں اسی طرح وہ امر و نواہی بیان فرماتا ہے تاکہ جس چیز کا تمہیں حکم دیا گیا ہے تم اس کو سمجھو۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ لیس علی الا عمی حرج “۔ (الخ)
آیت ٦٠ (وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا) ” - جن عورتوں کی نکاح کرنے کی عمر نہ رہی ہو اور وہ معمر ہوچکی ہوں۔- (فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ ) ” - یعنی ایسی عورتوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بڑی چادر ہی اوڑھ کر گھر سے باہر نکلیں۔ اسی طرح گھر کے اندر بیٹھے ہوئے ان پر جوان عورتوں کی طرح ہر وقت دوپٹے اوڑھے رکھنے کی پابندی نہیں ہے۔- (غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍط ) ” - اپنی چادریں اتار کر رکھ دینے سے ان کی نیت دوسروں پر اپنی زینت ظاہر کرنے کی نہ ہو اور نہ وہ بظاہر ایسا کریں۔- (وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ” - ان کے سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے انہیں جو رعایت دی جا رہی ہے اگر وہ اس رعایت سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنے کپڑوں کے بارے میں حتی الوسع احتیاط ہی کریں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے ‘ کیونکہ شیطان تو ہر وقت انسان کی تاک میں رہتا ہے۔ کیا خبر کس وقت وہ کوئی فتنہ کھڑا کر دے۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :94 اصل الفاظ ہیں غَیرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ ، زینت کے ساتھ تَبرُّج کرنے والی نہ ہوں ۔ تَبَرُّج کے معنی ہیں اظہار و نمائش کے ۔ بارج اس کھلی کشتی یا جہاز کو کہتے ہیں جس پر چھت نہ ہو ۔ اسی معنی میں عورت کے لیے یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ مردوں کے سامنے اپنے حسن اور اپنی آرائش کا اظہار کرے ۔ تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ چادر اتار دینے کی یہ اجازت ان بوڑھی عورتوں کو دی جا رہی ہے جن کے اندر بن ٹھن کر رہنے کا شوق باقی نہ رہا ہو اور جن کے صنفی جذبات سرد پڑ چکے ہوں ۔ لیکن اگر اس آگ میں کوئی چنگاری ابھی باقی ہو اور وہ نمائش زینت کی شکل اختیار کر رہی ہو تو پھر اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ۔
43: یہ ان بوڑھی عورتوں کا حکم ہے جن کی طرف نہ کسی کو رغبت ہوتی ہے، نہ وہ نکاح کے قابل ہوتی ہیں، ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ عام عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کے لئے جو چادر یا برقع وغیرہ استعمال کرتی ہیں، یہ بوڑھی عورتیں ان کے بغیر بھی نامحرم مردوں کے سامنے جاسکتی ہیں، بشرطیکہ بن سنور کر اور سنگھار کرکے نہ جائیں، اس سہولت کے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا گیا ہے کہ ان کے لئے بھی احتیاط اس میں ہے کہ وہ بھی دوسری عورتوں کی طرح پردہ کریں۔