Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ١٣٦؁ ) 4- النسآء:136 ) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام ۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ Ǻ۝ ) 17- الإسراء:1 ) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19؀ۉ ) 72- الجن:19 ) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور ونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے ۔ جیسے کہ خود حضور علیہ السلام کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ خود قرآن میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان وزمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔ 12اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً ) 7 ۔ الاعراف :158) (صحیح مسلم) پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] تبارک کا وہ مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں تمہیدی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔- [ ٢] اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنے پیارے رسول کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں نے بھی اپنے رسول کی شان میں عقیدت مندی کی بنا پر غلو کیا تھا اور انھیں ان کے حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ جا ملایا تھا۔ یہود نے کہا کہ عزیر کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہے اور وہ اللہ کے اوتار تھے، ہندوؤں میں بھی اوتار یا حلول کا عقیدہ بکثرت پایا جاتا ہے اور نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بھی کہا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ ہی بنادیا۔ اسی لئے آپ نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو تنبیہ فرمائی کہ مجھے میری حد سے ایسے نہ بڑھانا چڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو چڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا تم یوں کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (بخاری، کتاب بدوالخلق۔ باب واذکر فی الکتاب مریم) - لیکن افسوس ہے کہ آپ کی اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلی امتیں کرتی رہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ نے آپ کو نور من نور اژ قرار دیا۔ اور کچھ لوگوں نے یوں کہا :- وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر - اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفٰے ہو کر - یہود و نصاریٰ نے تو اس حلول کے عقیدہ کو انبیاء تک محدود رکھا تھا مگر مسلمانوں نے یہ کمال دکھایا کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عیقدہ اپنا لیا۔ اسی طرح کا ایک دوسرا شعر :- اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام - رکھ لیا خواجہ غریب نواز - بھی اسی عقیدہ حلول کی وضاحت کر رہا ہے۔- اسلام میں اس عقیدہ کو داخل کرنے والا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ یمن کے شہر شنعاء کا رہنے والا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہودیوں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تو اس نے فریب کاری کے طور پر اسلام قبول کیا اور درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہدوتقویٰ کے روپ میں سامنے آتا۔ یہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور حالات کے دھارے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی یہ سازشی تحریک انتہائی خفیہ طور پر مکہ اور مدینہ سے اور دوسرے علاقوں مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بالاخر اسی یہود کے حامیوں نے حضرت عثمان (رض) پر مختلف الزامات عائد کئے اور موقعہ پاکر غنڈہ گردی کرکے ٣٥ ھ میں انھیں شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون - اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازش کی کامیابی کے لئے حضرت علی (رض) کو بطور ہیرو منتخب کیا۔ اس کا پہلا وار یہ تھا کہ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اکرم سے قرابتداری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار حضرت علی (رض) تھے اور پہلے تین خلیفوں نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ نئے مسلمان ابھی اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، دنیا کے عام دستور وراثت و نیابت کے مطابق اس کی چال میں آگئے۔ اور دوسرا وار دین طریقت کو اسلام میں داخل کرنا تھا۔ وہ خود درویشی کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ لہذا ظاہر اور باطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کردیئے اور بتلایا کہ حضرت علی (رض) اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ گویا اسلام میں حضرت علی (رض) وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق حلول کا عقیدہ اپنایا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق حلول کا عقیدہ تو بہت زمانہ بعد کی پیداوار ہے۔- عبداللہ بن سبا نے خود ایک دفعہ کوفہ میں حضرت علی (رض) کو مخاطب کرکے رمز و کتایہ کی سبان میں کہا انت ھو یعنی تو وہی ہے تو حضرت علی (رض) اس کے نظریہ کو بھانپ گئے اور اسے سخت سرزنش کی اور بعد میں اسے سزا دینے کے لئے بلابھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کوفہ سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ بہرحال اس نے اپنے معتقدین کی ایک جماعت تیار کرلی تھی۔ ایک دفعہ یہ لوگ علی الاعلان بازار میں کھڑے ہو کر اپنے اسی عقیدہ کا پرچار کر رہے تھے کہ حضرت علی (رض) کے غلام قنبر نے یہ باتیں سنیں تو حضرت علی (رض) کو جاکر اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو اللہ کہہ رہے ہیں۔ اور آپ میں خدائی صفات مانتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور قوم زط کے ستر اشخاص تھے آپ نے ان سے پوچھا تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں آپ نے فرمایا : تم پر افسوس میں تو تم ہی جیسا ایک بندہ ہوں اور تمہاری طرح کھانے پینے کا محتاج ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر دے گا اور نافرمانی کروں گا تو سزا دے گا۔ لہذا تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اس عقیدہ کو چھوڑ دو - دوسرے دن قنبر نے پھر حضرت علی (رض) کو بتلایا کہ وہ لوگ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ انھیں بلایا اور تنبیہ کی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے۔ تیسرے دن آپ نے انھیں بلا کر یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پھر یہی بات کہی تو میں تم کو نہایت بڑی سزا دوں گا۔ مگر اس جماعت کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تو ایک خاص مشن کے تحت یہ تحریک چلارہا تھا۔ لہذا یہلوگ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آپ نے ایک گڑھا کھدوایا جس میں آگ جلائی گئی اور ان سے کہا۔ دیکھو آب بھی باز آجاؤ۔ ورنہ اس گڑھے میں پھینک دوں گا مگر وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو حضرت علی (رض) کے حکم سے آگ میں پھینک دیئے گئے (فتح الباری۔ ج ١٢، ص ٢٤٨)- امام بخاری نے یہ حدیث مختصراً کتاب استثبابہ نالمرتدین میں درج فرمائی ہے اور ان حلولیوں کے لئے زنادقژ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کہتے تھے کہ اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو جلانے کے بجائے ان کے قتل پر اکتفا کرتا۔- حلول کا عقیدہ رکھنے والے وہ لوگ جو بچ رہے تھے اپنے عقیدہ میں اور بھی سخت ہوگئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آگ اور پانی سے عذاب دینا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور حضرت علی (رض) نے بھی چونکہ آگ سے جلایا ہے لہذا وہ عین اللہ ہیں۔ وہ زبان سے یہ کہتے تھے کہ لا لعذب بالنار الا رب النار یعنی آگ کا رب بھی آگ سے سزا دیتا ہے - عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکار نصیریہ، کیسانیہ، قرمطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج) م ٣٠٩ ھ ( اس عقیدہ کا علمبردار اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسلام میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی کچھ صوفیاء اس عقیدہ کے حامی اور اسے اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے، مگر عقیدہ کو شہرت دوم حلاج ہی کی ذات سے ہوئی۔ وہخود اناالحق کا دعویٰ کرا تھا سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنے عقیدہ پر مصر رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد ٢٤ ذی قعدہ ٣٠٩ ھ (٩١٤ ئ ( کو بغداد میں قتل کردیا اور اس خدا کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا اور اس کی خدائی اپنے آپ کو بھی موت اور لاش سے جلنے کے عذاب سے بچا نہ سکی۔ مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ حسین بن منصور کے اتنے شدید جرم کے صوفیاء کی اکثرت نے اس کے حق پر ہونے کی حمایت کی لہذا حلول کا عقیدہ آج تک مسلمانوں میں مثوارت چلا آرہا ہے۔ چناچہ امام اہل سنت رضا خان بریلوی فرماتے ہیں :- سوال : حضرت منصور، تبریز اور سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے) یعنی یہ تینوں حضرات خدائی کے دعویدار تھے ( لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں۔ جبکہ فرعون، شداد، ہامان، اور نمرود نے یہی دعویٰ کیا تھا تو وہ دائمی جہنمی ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟- جواب : ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے) یعنی منصور، تبریز اور سرمد نے (خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے۔ اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا۔ انی انا اژ میں ہو رب اللہ سارے جہان کا، درخت نے کہا تھا۔۔۔ بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں ( احکام شریعت ص ٩٣) - اس جواب میں نشان زدہ الفاظ پر اور اس کی دلیل پر غور فرمائے اور دیکھئے کہ امام اہل سنت عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں۔ فرعون، شداد، نمرود اور ہامان وغیرہ کو اللہ نے جہنمی قرار دیا اور اس کی اطلاع قرآن میں دی ہے۔ حلاج و سرمد وعیرہ کو ولی تو آپ لوگ کہتے ہیں۔ عامہ نالمسلمین اور علماء نے تو منصور کو زندیق اور کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا اور باقی دو کا انجام اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔- ایک دوسرے مقام پر یہی امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضور پرنور سیدنا غوث اعظم حضور اقدس و انور سید عالم کے وارث کامل و نائب تام آئینہ ذات ہیں کہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔ جس طرح ذات عزت احدیت مع جملہ صفات و نعوت و جلالت آئینہ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تجلی فرما ہے ) فتاویٰ افریقہ ص ١٠١) - گویا امام صاحب کے اس ارشاد نے واضح طور پر بتلا دیا کہ اللہ کی ذات رسول اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح غوث اعظم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات جلوہ گر ہے یہ ہے حلول کا وہ نظریہ جسے صوفیاء کے ہی ایک طبقہ نے گمراہ کن نظریہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ شرک فی الصفات کے علاوہ شرک فی الذات کی بھی واضح دلیل ہے۔ اسی باطل نظریہ کے رو میں اللہ نے سورة نساء میں فرمایا :- (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ 77؀ ) 5 ۔ المآئدہ :77) اے اہل کتاب اپنے دین میں علو نہ کرو اور وہی بات کہو جو حق ہو - اور سورة مائدہ میں فرمایا :- (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ( اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو - ٣۔- فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھلانے والا۔ اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتلا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ اور بعض علماء نے فرقان سے مراد حلت و حرمت کے احکام کو جدا جدا کرکے واضح طور پر بتلانے والا لیا ہے۔ اور یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے جو حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی۔- ٤۔- لیکون کی ضمیر عبدہ کی طرف بھی راجع قرار دی جاسکتی ہے اور فرقان یعنی قرآن کی طرف بھی اور صاحب قرآن کی طرف بھی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن سب لوگوں کے لئے تاقیامت کتاب ہدایت ہے اور صاحب قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ آپ تاقیامت تمام تر لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ہیں۔ اور قرآن ہو یا صاحب قرآن دونوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں سب سے پہلے توحید پر کلام فرمایا، کیونکہ وہ سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے، پھر نبوت پر، کیونکہ وہ رب اور بندے کے درمیان واسطہ ہے، پھر قیامت پر، کیونکہ وہ خاتمہ ہے۔ (شوکانی)- ” تَبٰرَكَ “ ” بَرَکَۃٌ“ سے باب تفاعل ہے، ” بَرَکَۃٌ“ کا اشتقاق ” بِرْکَۃٌ“ (حوض) سے ہے کہ اس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، یا ” بَرَکَ الإِْبِلُ “ سے ہے، جس کا معنی اونٹ کا بیٹھنا ہے۔ باب تفاعل میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ” بہت برکت والا ہے “ کیا گیا ہے۔ برکت سے مراد خیر میں زیادہ ہونا، بڑھا ہوا ہونا، دائمی خیر والا ہونا ہے۔ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بےانتہا بڑھا ہوا ہے۔ بلندی، بڑائی، احسان، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بیحد و حساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ یاد رہے ” تَبٰرَكَ “ کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آتا ہے، کسی اور میں یہ خوبی نہیں۔- نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : ” نَزَّلَ “ میں تکرار کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا۔ اس کی حکمت آگے آیت (٣٢) میں آرہی ہے۔ قرآن کو ” الْفُرْقَانَ “ کہا ہے، یعنی یہ اپنے احکام کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اور اسی لفظ کی بنا پر اس سورت کا نام ” الفرقان “ رکھا گیا ہے۔- عَلٰي عَبْدِهٖ : دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر۔- لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا : اس میں آپ پر قرآن نازل کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ سارے جہانوں سے مراد قیامت تک تمام جن و انس ہیں، اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ان سب کے لیے ہے، کوئی دوسرا رسول دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٨) ، انعام (١٩) ، سبا (٢٨) اور احزاب (٤٠) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے لیے دیکھیے آل عمران (٢٠) جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ قَبْلِیْ ۔۔ وَ کَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ) [ بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جعلت لي الأرض ۔۔ : ٤٣٨ ] ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔۔ (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ “- 3 یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف ” نذیر “ ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ آگے کفار کے اقوال و احوال اور ان کے انجام کا ذکر ہے، اس کے مناسب ڈرانا ہی ہے۔ نذارت و بشارت دونوں کا اکٹھا ذکر آگے آ رہا ہے، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا) [ الفرقان : ٥٦ ] ” اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بڑی عالی شان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب (یعنی قرآن) اپنے خاص بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تاکہ وہ تمام دنیا جہاں والوں کے لئے (ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب الٰہی سے) ڈرانے والا ہو، ایسی ذات جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو (اپنی) اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے حکومت میں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا (کہ کسی چیز کے آثار و خواص کچھ ہیں کسی کے کچھ ہیں) اور ان مشرکین نے خدا کو چھوڑ کر اور ایسے معبود قرار دے لئے ہیں جو (کسی طرح معبود ہونے کے قابل نہیں کیونکہ وہ) کسی چیز کے خالق نہیں اور بلکہ وہ مخلوق ہیں اور خود اپنے لئے نہ کسی نقصان ( کے رفع کرنے) کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع (کے حاصل کرنے) کا اور نہ کسی کے مرنے کا اختیار رکھتے ہیں (کہ کسی جاندار کی جان نکال سکیں) اور نہ کسی کے جینے کا ( اختیار رکھتے ہیں کہ کسی بےجان میں جان ڈال دیں) اور نہ کسی کو (قیامت میں) دوبارہ زندہ کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں۔ اور جو شخص ان چیزوں پر قدرت نہیں رکھتا وہ معبود نہیں ہوسکتا)- معارف وسائل - خصوصیات سورت - یہ پوری سورت جمہور مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ حضرت ابن عباس و قتادہ نے تین آیتوں کے متعلق بیان فرمایا کہ یہ مکی نہیں مدنی ہیں۔ باقی سورت مکی ہے اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں کچھ آیات مکی ہیں (قرطبی) اور خلاصہ اس سورت کے مضامین کا قرآن کریم کی عظمت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی حقانیت کا بیان اور دشمنوں کی طرف سے اس پر جو اعتراضات تھے ان کا جواب ہے۔- تَبٰرَكَ ، برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنے خیر کی کثرت کے ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہر خیر و برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فُرْقَانَ ، قرآن کریم کا لقب ہے لغوی معنی اس کے تمیز اور فرق کرنے کے ہیں۔ قرآن چونکہ اپنے واضح ارشادات کے ذریعہ حق و باطل میں تمیز اور فرق بتلاتا ہے اور معجزہ کے ذریعہ اہل حق و اہل باطل میں امتیاز کردیتا ہے اس لئے اس کو فرقان کہا جاتا ہے۔- لِلْعٰلَمِيْنَ ، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت سارے عالم کے لئے ہے بخلاف پچھلے انبیاء کے ان کی نبوت و رسالت کسی مخصوص جماعت یا مخصوص مقام کے لئے ہوتی تھی۔ صحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنے چھ خصوصی فضائل کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کی بعثت سارے جہان کے لئے عام ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا۝ - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - فُرْقَانُ- والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) بڑی برکتوں والی یا یہ کہ بڑی عالی شان شریک اور اولاد سے پاک ذات ہے جس نے قرآن کریم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ آپ بذریعہ قرآن کریم تمام جن وانس کو عذاب الہی سے ڈرانے والے رسول ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ ) ” - یہ تیسری سورت ہے جس کے مطلع (پہلی آیت ) میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ” عبد “ کی نسبت سے آیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی دو سورتیں سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ۔۔ ) ۔ اس کے بعد سورة الکہف کا آغاز اس طرح ہوا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ ۔۔ ) ۔- ” الفرقان “ سے مراد حق و باطل میں امتیاز کردینے والی کتاب یعنی قرآن حکیم ہے۔- (لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا ) ” - یعنی اس قرآن کے ذریعے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تا قیام قیامت جاری وساری رہے گی۔ جس تک یہ قرآن پہنچ گیا ‘ اس تک گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انذار پہنچ گیا۔ سورة الانعام کی آیت ١٩ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) ” اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کر دوں تمہیں اس کے ذریعے سے اور اس کو بھی جس تک یہ پہنچ جائے “۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قرآن کے پیغام کو پھیلانا اور اس کے ذریعے سے انذار کے سلسلے کو تاقیام قیامت جاری وساری رکھنا امت کی ذمہ داری ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے ۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُوک نکلے ہیں ۔ بَرَکۃ میں افزونی ، فراوانی ، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات ، بقاء اور لزوم کا تصور ۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت ، مبالغہ اور اظہار کمال ، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی ، بڑھتی اور چڑھتی افزونی ، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے ۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے ، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہو گیا ۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ میں تم سے اونچا ہو گیا ہوں ۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے ۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے ۔ موقع و محل اور سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں ، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے : 1: بڑا محسن اور نہایت با خیر ، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ۔ 2 : نہایت بزرگ و با عظمت ، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔ 3 : نہایت مقدس و منزَّہ ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے ۔ نہ اس کا کوئی ہم جنس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو ، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو ۔ 4 : نہایت بلند و برتر ، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے ۔ 5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر ، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 14 ۔ الفرقان ، حاشیہ 19 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :2 یعنی قرآن مجید ۔ فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے ، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا ، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا ۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے ، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے ، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے ۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی ، اور فیصلہ کن چیز ، اور معیار فیصلہ ( ) کے ہوں گے ۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل ، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر ، مشتمل ، چیز کے ہوں گے ، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے الفرقان کہا گیا ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :3 اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج ، تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا ۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 ( رکوع3 ) کے مطالعہ سے معلوم ہوگی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :4 یعنی خبردار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا ، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ بندہ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا ۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو ، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ، اے انسانو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ( الاعراف ، آیت 158 ) ۔ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ ، میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ( الانعام آیت 19 ) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ( سبا آیت 28 ) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ ِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ( الانبیاء ، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر و الاسود ، میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ( بخاری و مسلم ) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُتِم بی النبیون ، میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گئے میری آمد پر انبیاء ( مسلم ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani