1 4 1یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر آرزو کریں گے کہ کاش انھیں موت آجائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے
[١٨] یعنی آج ایک موت کے لئے کیا چیخ و پکار کرتے ہو۔ سینکڑوں موتیں مانگو، تب بھی تمہارا یہ پکارنا لاحاصل ہے۔ وہ آرزو تو کریں گے کہ ایک بار مریں تو چھٹکارا حاصل ہوجائے۔ دن میں ہزار بار مرنے سے جو بری حالت ہو رہی ہے ہے اسے نجات پاجائیں گے مگر یہ پکار بالکل بےسود ہوگی۔
لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا ۔۔ : یعنی انھیں یہ جواب دیا جائے گا۔ دیکھیے سورة زخرف (٧٧) اور مومن (٤٩، ٥٠) ۔
لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِيْرًا ١٤- ثبر - الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی:- دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل «1» . ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة .- ( ث ب ر ) الثبور ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام
(١٤) اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اپنی ان لامتناہی مصیبتوں کی وجہ سے ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت ہی موتوں کو پکارو۔
آیت ١٤ (لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا)- اب تم موت کو پکارتے رہو ‘ اس کے لیے مسلسل دعائیں مانگتے رہو ‘ مگر تمہاری ان دعاؤں سے تمہیں موت آئے گی نہیں۔ اب تو تمہیں مسلسل زندہ رہنا اور عذاب کی تکلیف کو جھیلنا ہوگا۔ اس عذاب کی شدت میں نہ تو کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی موت آکر تمہیں اس سے چھٹکارا دلائے گی۔
3: یہ ترجمہ مشہور مفسر ابو السعود (رض) کی تفسیر پر مبنی ہے جسے علامہ آلوسی نے بھی نقل فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کی جس شدت سے گھبرا کر تم موت کو پکار رہے ہو، وہ تو آنے والی نہیں ہے، بلکہ تمہیں بار بار نت نئے عذاب سے سابقہ پڑے گا، اور ہر مرتبہ تمہیں اس کی شدت سے گھبرا کر موت کو پکارنا پڑے گا۔