ابدی لذتیں اور مسرتیں اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت وخواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھیسٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے ۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ وتاریک جگہ ہوں گے ، نہ چھوٹ سکیں نہ حرکت کر سکیں ، نہ بھاگ سکیں نہ نکل سکیں ۔ پھر فرماتا ہے بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بجتے رہے اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں ابدی لذتیں دائمی مسرتیں ان کے لئے موجود ہیں عمدہ کھانے ، اچھے بچھونے ، بہترین سواریاں ، پر تکلف لباس بہتر بہتر مکانات ، بنی سنوری پاکیزہ حوریں ، راحت افزا منظر ، ان کے لئے مہیا ہیں جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے ۔ پھر ان کے کم ہوجانے ، خراب ہوجانے ، ٹوٹ جانے ، ختم ہوجانے ، کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں کم ہوں ۔ لازوال ، بہترین زندگی ، ابدی رحمت ، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہوگئی ۔ یہ رب کا احسان وانعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے ۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے ، جس کا غلط ہونا محال ہے ۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو ، اس سے جنت طلب کرو ، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا ۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے آج تو اپناوعدہ پورا کر ۔ یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا ۔ سورہ صافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ جسے ہم نے ظالموں کے لئے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ ملا جلا پینے کو دیا جائے گا پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا ۔
1 5 1یہ، اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جو کفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ و اطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ و اطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔
[١٩] اس آیت میں ایک ایماندار اور ایک کافر کے انجام کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ یعنی روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا کے متعلق ایک یہ امکان ہے کہ فی الواقعہ ایک حقیت ہے اور وہ واقع ہو کے رہے گی اور دوسرا امکان یہ ہے کہ شاید یہ سب کچھ۔۔ ہی ہو۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آسکتیں۔ اب وہ شخص جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اس دنیا میں نہایت محتاط اور اللہ سے ڈر کر زندگی گزار رہا ہے۔ اگر بالفرض روز آخرت نہ ہو تو اس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ اور اگر قیامت قائم ہوئی تو اس کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ سب احوال قیامت اس کی توقع کے مطابق اس کے لئے خوشی کا باعث ہوں گے کیونکہ اس نے روز آخرت کے احوال کو ملحوظ رکھ کر ہی زندگی گزاری تھی۔ اب اس کے مقابل کافر کا انجام یہ ہے کہ اس کی توقع کے خلاف قیامت قائم ہوگئی۔ تو اسے ایسے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کے کبھی وہم وخیال میں نہ آیا ہوگا۔ دنیا تو ان دونوں کی ایک جیسی گزری۔ دونوں کو اس دنیا میں راحت بھی نصیب ہوئی اور غم بھی۔ برے دن بھی آئے اور بھلے بھی۔ دنیا میں نہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے والا بہرحال آسودہ اور خوشحال رہے گا اور نہ ہی ضرورت ہے کہ ایماندار ساری زندگی مشکلات میں ہی گزارے۔ لیکن انجام بہرحال آخرت پر ایمان رکھنے والے کا بہتر ہوگا۔ روز آخرت پر ایمان رکھنے کی افادیت پر یہ ایک ایسی عقلی دلیل ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ ۔۔ : یعنی آپ ان مشرکوں سے کہیں کہ اس طرح جکڑے ہوئے جہنم کی تنگ جگہ میں ہر وقت موت کی آرزو کرتے رہنا بہتر ہے، یا جنت خلد (ہمیشگی کی جنت) ؟ یہ سوال پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ڈانٹنے کے لیے ہے، کیونکہ جنت اور جہنم کے درمیان بہتر ہونے کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔- الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ : متقی سے مراد وہ شخص ہے جو کم از کم شرک سے بچے، اس کے بعد گناہ سے بچنے کے لحاظ سے متقین کے بیشمار درجے ہیں اور حسب مراتب سب کے ساتھ جنت کا وعدہ ہے۔ البتہ مشرک کبھی جنت میں نہیں جائے گا، فرمایا : ( ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ۭوَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) [ المائدۃ : ٧٢ ] ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے، سو یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔ “
قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ٠ۭ كَانَتْ لَہُمْ جَزَاۗءً وَّمَصِيْرًا ١٥- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔
(١٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مکہ والوں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں سے فرمائیے کیا یہ مصیبت وموت اور یہ دوزخ کی حالت اچھی ہے یا وہ ہمیشہ رہنے کی جنت اچھی ہے جس کا کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والوں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی جنت ان کے لیے صلہ ہے اور ان کا آخرت میں ٹھکانا ہے۔
(کَانَتْ لَہُمْ جَزَآءً وَّمَصِیْرًا ۔ ) ” - وہ ان کے اعمال کا بدلہ اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی۔