Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عیسیٰ علیہ السلام سے سوالات بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی ۔ سب اسی مجمع میں موجود ہوں گے ۔ اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہوگا ۔ جس کا وہ جواب دیں گے کہ میں نے انہیں ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے ۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سواکسی اور کی عبادت کریں ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی ۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کر دی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں ۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں ۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آجاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا ، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔ چنانچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے ۔ نتخذ کی دوسری قرأت نتخذ بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا ، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں ۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں ۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے ۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں ، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا ۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے ۔ یہ لوگ تھے یہ بےخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گر پڑے ۔ تباہ وبرباد ہوگئے بورا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں ۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنا دیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے ، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کررہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) ، یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہوجائیں گے ۔ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے ۔ تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح (علیہما السلام) اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہونگے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو اور ان سب کو اکٹھا کرے گا جن کی وہ پرستش کرتے رہے تھے۔ ان میں فرشتے بھی ہوں گے، انبیاء بھی، جیسے عیسیٰ اور عزیر (علیہ السلام) اور اللہ کے کئی دوسرے نیک بندے بھی، حیوانات بھی ہوں گے، جیسے گائے، سانپ اور بندر وغیرہ، نباتات بھی ہوں گے، جیسے بیل وغیرہ اور جمادات بھی ہوں گے، جیسے بت وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ بےشعور اور بےجان چیزوں کو بھی شعور اور بولنے کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا یہ خود ہی سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے ؟- 3 اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پہلے ہی علم ہے، اس سوال سے مقصود ایک تو غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو لاجواب اور ذلیل و رسوا کرنا ہوگا، دوسرا ان کی پاک باز ہستیوں کی زبانی شرک سے بےزاری کا اعلان ہوگا۔ - ” وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ میں لفظ ” مَا “ استعمال ہوا ہے، جو عموماً غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے، حالانکہ وہ انبیاء و اولیاء کی بھی پرستش کرتے تھے۔ شاید ایسا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا ہے، یا اس لیے کہ ” مَا “ عاقل اور غیر عاقل دونوں کے لیے آتا ہے، اگرچہ اکثر غیر عاقل چیزوں کے لیے آتا ہے۔ - 3 یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے، فرشتوں سے سوال کے لیے دیکھیے سورة سبا (٤٠، ٤١) اور مسیح (علیہ السلام) سے سوال کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (١١٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ ہٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ۝ ١٧ۭ- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) اور قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان کافروں کو اور ان کے بتوں کو جمع کرے گا تو ان کے معبودوں سے فرمائے گا کیا تم نے ان کو میری اطاعت سے گمراہ کیا تھا اور اپنی اطاعت کا حکم دیا تھا یا خود ہی انہوں نے راہ حق کو چھوڑ دیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے تمہاری پرستش شروع کردی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) ” - جن جن ہستیوں کے ناموں پر مشرکین نے ُ بت بنا رکھے تھے یا جن کو وہ براہ راست اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ‘ چاہے وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :24 آگے کا مضمون خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں ہیں بلکہ فرشتے ، انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں مختلف قوموں کے مشرکین معبود بنا بیٹھے ہیں ۔ بظاہر ایک شخص وَمَا یَعْبُدُوْنَ کے الفاظ پڑھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے مراد بت ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عموماً مَا غیر ذوی العقول کے لیے بولا جاتا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کیا ہے غیر ذوی العقول اور کون ہے ذوی العقول اور مَنْ ذوی العقول کے لیے بولتے ہیں ۔ مگر اردو کی طرح عربی میں بھی یہ الفاظ بالکل ان معنوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں ۔ بسا اوقات ہم اردو میں کسی انسان کے متعلق تحقیر کے طور پر کہتے ہیں وہ کیا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ کوئی بڑی ہستی نہیں ہے ۔ ایسا ہی حال عربی زبان کا بھی ہے ۔ چونکہ معاملہ اللہ کے مقابلے میں اس کی مخلوق کو معبود بنانے کا ہے ، اس لیے خواہ فرشتوں اور بزرگ انسانوں کی حیثیت بجائے خود بہت بلند ہو مگر اللہ کے مقابلے میں تو گویا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی لیے موقع و محل کی مناسبت سے ان کے لیے من کے بجائے مَا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :25 یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مثلاً سورہ سبا میں ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُلَآءِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ہ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ۚ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّۚ اَکْثَرُھُمْ بِہِمْ مُؤمِنُوْنَ جس روز وہ ان سب کو جمع کرے گا ، پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی بندگی کر رہے تھے ؟ وہ کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات ، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان سے ۔ یہ لوگ تو جِنوں ( یعنی شیاطین ) کی بندگی کر رہے تھے ۔ ان میں سے اکثر انہی کے مومن تھے ( آیات 40 ۔ 41 ) اسی طرح سورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں ہے : وَاِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ ؕ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ؕ ....... مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ۚ اور جب اللہ پوچھے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ، کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ وہ عرض کرے گا پاک ہے آپ کی ذات ، میرے لیے یہ کب زیبا تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ ..... میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا ، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani