Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] یعنی آج تم یہ کہتے ہو کہ اگر قیامت ہوئی بھی تو تمہارے یہ معبود وہاں بھی تمہارے کام آئیں گے اور اگر عذاب کی کوئی بات ہوئی تو یہ چھڑا لیں گے۔ مگر اس دن تمہارے یہی معبود جن کی اعانت پر تمہیں بھروسا تھا۔ تم سے علانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے۔ اور یہ کہہ کر تمہیں جھٹلا دیں گے کہ ہم نے کب ان سے کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کیا کرنا۔ اس طرح معبود تو بری الذمہ ہوجائیں گے اور سارا بوجھ ان کے عبادت کرنے والوں پر پڑجائے گا۔ جن کی عذاب سے رہائی کی کوئی صورت نہ ہوگی۔- [ ٢٤] ظلم کا لفظ عدل کی ضد ہے۔ اور اس کا اطلاق پر بےانصافی کی بات اور غیر معقول بات پر ہوسکتا ہے۔ نبی کی دعوت کو جھٹلانا، اسلام کی راہ سے روکنا، ایمان لانے والوں کو ایذائیں پہنچانا، انھیں پریشان کرنا یا ان کا تمسخر اڑانا، بتوں یا دوسرے معبودوں کی عبادت کرنا یا انھیں حاجت کے لئے پکارنا، آخرت کے عذاب وثواب سے انکار کرنا سب ظلم کی ہی قسمیں ہیں اور ان کاموں کا ارتکاب کرنے والے سب ظالم ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ : یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو وہ مشرکین سے مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ تم نے جنھیں معبود بنا رکھا تھا انھوں نے تو تمہیں تمہاری بات میں جھٹلا دیا اور تم سے بری ہوگئے۔ قیامت کے دن تمام خود ساختہ معبودوں کا اپنے پوجنے والوں سے بری ہونا اور ان کا دشمن بن جانا قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے، دیکھیے سورة یونس (٢٨) ، نحل (٨٦) ، مریم (٨٢) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٦) ۔ ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا ۚ : یعنی جن سے تم مدد کی توقع رکھتے تھے وہ تمہارے دشمن بن گئے، تو اب تم عذاب سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، نہ اسے اپنے آپ سے کسی سفارش یا فدیے سے ہٹا سکتے ہو اور نہ ہی خود یا کوئی اور تمہاری مدد کو آسکتا ہے۔- وَمَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا : ظلم سے مراد شرک ہے، دیکھیے سورة انعام کی آیت (٨٢) : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) کی تفسیر اور عذاب کبیر سے مراد جہنم ہے۔ مطلب یہ کہ تم سب نے ظلم کا ارتکاب کیا، اس لیے ہم تمہیں جہنم کا عذاب چکھائیں گے، یعنی جہنم میں پھینکنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ۝ ٠ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا۝ ٠ۚ وَمَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا كَبِيْرًا۝ ١٩- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) اس وقت اللہ تعالیٰ ان غیر اللہ کے پجاریوں سے فرمائے گا سو تمہارے ان معبودوں نے تو تمہیں تمہاری سب باتوں میں جھوٹا ٹھہرا دیا سو تم اب ان فرشتوں یا بتوں کی گواہی کو اپنے سے نہ تو خود ٹال سکتے ہو یا یہ کہ اس دوزخ کے عذاب کو اپنے سے نہ تو خود ٹال سکتے ہو اور نہ کوئی تمہاری مدد کرسکتا ہے۔- اور اے گروہ مسلمین جو جو تم میں سے کفر کرے گا یا یہ کہ اے گروہ کفار جو جو تم میں سے کفر پر قائم رہے گا تو ہم اس کا دوزخ میں بڑ عذاب دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (فَقَدْ کَذَّبُوْکُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَلا) ” - کہ جن ہستیوں کو تم لوگ اپنے معبود اور ولی مانتے تھے انہوں نے تو تمہارے دعو وں کو رد کردیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :27 یعنی تمہارا یہ مذہب ، جس کو تم حق سمجھے بیٹھے ہو ، بالکل بے اصل ثابت ہو گا ، اور تمہارے وہ معبود جن پر تمہیں بھروسہ ہے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ، الٹے تم کو خطا کار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جائیں گے ۔ تم نے جو کچھ بھی اپنے معبودوں کو قرار دے رکھا ہے ، بطور خود ہی قرار دے رکھا ہے ۔ ان میں سے کسی نے بھی تم سے یہ نہ کہا تھا کہ ہمیں یہ کچھ مانو ، اور اس طرح ہماری نذر و نیاز کیا کرو ، اور ہم خدا کے ہاں تمہاری سفارش کرنے کا ذمہ لیتے ہیں ۔ ایسا کوئی قول کسی فرشتے یا کسی بزرگ کی طرف سے نہ یہاں تمہارے پاس موجود ہے ، نہ قیامت میں تم اسے ثابت کر سکو گے ، بلکہ وہ سب کے سب خود تمہاری آنکھوں کے سامنے ان باتوں کی تردید کریں گے اور تم اپنے کانوں سے ان کی تردید سن لو گے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :28 یہاں ظلم سے مراد حقیقت اور صداقت پر ظلم ہے ، یعنی کفر و شرک ۔ سیاق و سباق خود ظاہر کر رہا ہے کہ نبی کو نہ ماننے والے اور خدا کے بجائے دوسروں کو معبود بنا بیٹھنے والے اور آخرت کا انکار کرنے والے ظلم کے مرتکب قرار دیے جارہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani