Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا ۔ بیوپار ، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے ۔ اسی آیت جیسی اور آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43؀ۙ ) 16- النحل:43 ) ، ہے ۔ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے ۔ اور آیت میں ہے ۔ ( وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ Ď۝ ) 21- الأنبياء:8 ) ، ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنارہے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں ۔ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہوجائیں ۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہوجائیں ۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت ( اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ ١٢٤؁ ) 6- الانعام:124 ) منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ۔ اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں کو عموما معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے اور صحیح حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی بننے میں اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا ۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔ 202یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب و تجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ 203یعنی ہم نے انبیاء کو اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھ، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے؛ اسی لئے آگے فرمایا، کیا تم صبر کرو گے ؟ ،

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] 12[ [ یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے۔ جس کا ذکر اسی سورة کی آیات میں ہوا ہے۔ کفار مکہ کا یہ اعتراض محض کٹ جحتی کے طور پر تھا۔ ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ سب کے سب انسان ہی تھے۔ حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔ اور وہ اپنی زندگی کی بقاء کے لئے کھاتے پیتے بھی تھے۔ اور کسب معاش یا خریدو فروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے رھے۔ ان سب باتوں کے باوجود لوگ انھیں رسول تسلیم کرتے تھے۔ کھاناکھانا یا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی تھیں، ہے پھر آخر اس رسول پر ان کا یہ اعتراض کس لحاظ سے درست ہے۔- [ ٢٦] یعنی اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیج کر سب لوگوں کو آزمائش میں ڈال کر ہر ایک کو خوب جانچتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو بھی اور کافروں کو بھی۔ ایمان والوں میں سے سب سے زیادہ سخت آزمائش تو خود رسولوں کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اشد البلاء علی الانبیا ثم الامثل فالا مثل یعنی سب سے سخت آزمائش نبیوں کی ہوئی ہے پھر اس کے قریبی مومنوں کی پھر اس اگلے درجہ کے مومنوں کی۔ نبی کی دعوت پر مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھرا ہوتا ہے اور ابتداًء نبی کی دعوت پر ایمان لانے والے عموماً معاشرہ کے ظلم و ستم سے عاجز آئے ہوئے اور ستائے ہوئے کمزور قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اس معرکہ حق و باطل میں خوب آزمائش ہوتی ہے تاآنکہ ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں ایماندار اپنے دعویٰ میں کس قدر پختہ ہے۔ اور منافقوں کی بھی چھانٹی ہوتی رہتی ہے اور کافروں کا امتحان اس طرح ہوتا ہے کہ انہی میں سے دنیوی مال و دولت اور جاو و حشم کے لحاظ سے ایک کمتر درجہ کا شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اپنی دعوت پر عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتا ہے۔ تو کیا وہ اپنی نخوت اور اپنا انا کو چھوڑ کر حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی رسول کی دعوت کا انکار کرتا ہے تو کسی قدر سرکشی اور بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ گویا ایک نبی کی دعوت پر حق و باطل کا معرکہ ایک ایسی بھٹی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عین مشیت کے مطابق ہے اور اس میں کئی حکمتیں مضمر ہیں اور اس بھٹی سے قوم کے ایک ایک فرد کی آزمائش ہوجاتی ہے۔- [ ٢٧] یہ خطاب صرف مسلمانوں کو ہے یعنی تمہاری آزمائش یہ ہے کہ آیا تم لوگ ان کافروں کے ناجائس اعتراضات پر ان کے استزادیہ اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرتے ہو۔ جبکہ اس میں تمہارے لئے کئی قسم کی مصلحتیں اور حکمتیں موجود ہیں ؟- [ ٢٨] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے پروردگار نے سب کو جو آزمائش میں ڈالا ہے تو اس کی مصلحتوں کو دیکھ کر ہی ڈالا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ معرکہ حق و باطل میں جو لوگ حق کا ساتھ دے رہے ہیں انھیں بھی دیکھ رہا ہے اور جو اس کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہوگئے ہیں انھیں بھی اور ان کی کارستانیوں کو بھی اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ فرمایا، پہلے تمام رسول بھی کھاتے پیتے تھے اور روزی کمانے کے لیے اور ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے بازاروں میں جاتے تھے، بشر تھے فرشتے نہ تھے۔ (دیکھیے یوسف : ١٠٩۔ انبیاء : ٧، ٨) اگر کھانے پینے اور بازاروں میں چلنے پھرنے کے باوجود تم انھیں رسول مانتے ہو، جیسا کہ تم ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے اور ان کی ملت ہونے پر فخر کرتے ہو، نوح، موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو پیغمبر مانتے ہو، تو اس رسول پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟- وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ پیغمبر کو سونے چاندی کے خزانے اور باغات و محلات کیوں عطا نہیں کیے گئے ؟ فرمایا : ” ہم نے تمہارے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنایا ہے “ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عموماً انبیاء کو دنیاوی لحاظ سے معمولی حالت میں رکھتا ہے، ورنہ اگر وہ انھیں دنیا کثرت کے ساتھ دیتا تو بہت سے لوگ مال کے لالچ میں ان کے ساتھ ہوجاتے، سچے جھوٹے مل جل جاتے اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ عیاض بن حمار (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( إِنَّمَا بَعَثْتُکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَ أَبْتَلِيَ بِکَ وَ أَنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَابًا لَا یَغْسِلُہُ الْمَاءُ تَقْرَأُہُ نَاءِمًا وَ یَقْظَانَ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا و أھلھا، باب الصفات التي یعرف بہا ۔۔ : ٢٨٦٥ ] ” میں نے تجھے صرف اس لیے بھیجا ہے کہ تیری آزمائش کروں اور تیرے ساتھ (لوگوں کی) آزمائش کروں اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں دھو سکتا، تو اسے سوتے جاگتے پڑھے گا۔ “ - الغرض اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کے مختلف حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے، چناچہ رسول اور اہل ایمان منکرین کے لیے آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان آزمائش ہیں۔ غنی فقیر کے لیے آزمائش ہیں، تندرست بیمار کے لیے آزمائش ہیں کہ وہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر اپنی حالت پر صبر کرتے ہیں یا نہیں۔ فقیر اور بیمار غنی اور تندرست کے لیے آزمائش ہیں کہ وہ اپنے سے کم تر کو دیکھ کر شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ حقیقت ہے کہ شکر کی بنیاد بھی صبر ہے، جو اپنی حالت پر صابر نہیں وہ کبھی شاکر نہیں ہوسکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : (اَتَصْبِرُوْن) ” کیا تم صبر کرتے ہو۔ “ مطلب یہ ہے کہ صبر کرو۔- وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا : اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مناسبت رکھتے ہیں، ایک یہ کہ تمہارا رب جو کچھ کر رہا ہے دیکھ کر ہی کر رہا ہے، اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ دوسرا یہ کہ تم جس صدق اور خلوص کے ساتھ کفار کی مخالفت برداشت کرو گے وہ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ کبھی تمہاری محنت کی بےقدری نہیں کرے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کی طرف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر جو شبہات پیش کئے گئے تھے اور وہاں ان کا اجمالی جواب دیا گیا تھا ان آیات میں اس کی کچھ تفصیل مذکور ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ تم نے اپنی جہالت اور حقیقت شناسی سے دوری کی وجہ سے ایک بات یہ کی ہے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہوتے تو ان کے پاس بہت دولت کے خزانے ہوتے بہت بڑی جائیداد اور باغات ہوتے تاکہ یہ کسب معاش سے مستغنی رہتے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ایسا کردینا ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں کہ اپنے رسول کو دولت کے خزانے دیدیں، بلکہ بڑی سے بڑی حکومت و سلطنت کا مالک بنادیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو ایسی دولت اور پوری دنیا پر بےمثال حکومت عطا فرما کر اپنی اس قدرت کاملہ کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے۔ مگر عامہ خلق کی مصلحت اور بیشمار حکمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ گروہ انبیاء کو مادی اور دنیوی مال و دولت سے الگ ہی رکھا جائے۔ خصوصاً سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حق تعالیٰ کو یہی پسند ہوا کہ وہ عام غریب مسلمانوں کی صفوف میں اور انہی جیسے حالات میں رہیں اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لئے اسی حالت کو پسند فرمایا۔ جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی میں حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے فرمایا کہ میں آپ کے لئے پورے بطحا مکہ اور اس کے پہاڑوں کو سونا بنا دیتا ہوں، تو میں نے عرض کیا نہیں، اے میرے پروردگار مجھے تو یہ پسند ہے کہ مجھے ایک روز پیٹ بھرائی کھانا ملے ( جس پر اللہ کا شکر ادا کروں) اور ایک روز بھوکا رہوں ( اس پر صبر کروں) اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ پھرا کرتے (مظہری)- خلاصہ اس کا یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا عام طور پر فقر و فاقہ میں رہنا اللہ تعالیٰ کی ہزاروں حکمتوں اور عام انسانوں کی مصالح کی بنا پر ہے اور اس میں بھی وہ اس حالت پر مجبور نہیں ہوتے اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بڑا مالدار صاحب جائیداد بنا سکتے ہیں مگر ان کی ذات کو حق تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ مال و دولت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، فقر و فاقہ ہی کو پسند کرتے ہیں۔- دوسری بات کفار نے یہ کہی تھی کہ یہ پیغمبر ہوتے تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے نہیں، اور کسب معاش کے لئے بازاروں میں نہ پھرتے اس اعتراض کی بنیاد بہت سے کفار کا یہ خیال ہے کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا، فرشتہ ہی رسول ہوسکتا ہے۔ جس کا جواب قرآن کریم میں جابجا آیا ہے۔ اور یہاں اس کا یہ جواب دیا گیا کہ جن انبیاء کو تم بھی نبی اور رسول مانتے ہو وہ بھی تو انسان ہی تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے بازاروں میں پھرتے تھے جس سے تمہیں یہ نتیجہ نکال لینا چاہئے تھا کہ کھانا پینا اور بازار میں پھرنا منصب نبوت و رسالت کے خلاف نہیں۔ آیات مذکورہ میں وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَام الآیة میں اسی مضمون کا بیان ہے۔- مخلوق میں معاشی مساوات کا نہ ہونا بڑی حکمت پر مبنی ہے :- وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ حق تعالیٰ کو قدرت تو سب کچھ تھی وہ سارے انسانوں کو یکساں مالدار بنا دیتے، سب کو تندرست رکھتے، کوئی بیمار نہ ہوتا۔ سب کو عزت و جاہ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کردیتے کوئی ادنی یا کم رتبہ نہ رہ جاتا مگر نظام عالم میں اس کی وجہ سے بڑے رخنے پیدا ہوتے اس لئے حق تعالیٰ نے کسی کو مالدار بنایا، کسی کو غریب مفلس، کسی کو قوی، کسی کو ضعیف، کسی کو تندرست، کسی کو بیمار، کسی کو صاحب عزت و جاہ، کسی کو گمنام۔ اس اختلاف انواع و اصناف اور اختلاف احوال میں ہر طبقے کا امتحان اور آزمائش ہے۔ غنی کے شکر کا غریب کے صبر کا امتحان ہے اسی طرح بیمار و تندرست کا حال ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم یہ ہے کہ جب تمہاری نظر کسی ایسے شخص پر پڑے جو مال و دولت میں تم سے زیاد ہے یا صحت وقوت اور عزت و جاہ میں تم سے بڑا ہے تو تم فوراً ایسے لوگوں پر نظر کرو جو ان چیزوں میں تم سے کم حیثیت رکھتے ہیں (تاکہ تم حسد کے گناہ سے بھی بچ جاؤ اور اپنی موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی توفیق ہو۔ ) (رواہ البخاری و مسلم) مظہری

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ۝ ٠ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً۝ ٠ۭ اَتَصْبِرُوْنَ۝ ٠ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا۝ ٢٠ۧ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- سُّوقُ- : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ .- اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) اب اللہ تعالیٰ کفار کی اس بات کا جواب دیتا ہے کہ اس رسول کو کیا ہوا کھاتا پیتا ہے الخ چناچہ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے ایک کو دوسرے کے لے آزمائش بنایا ہے یعنی عربی کو غیر عربی اور غنی کو فقیر اور شریف کو رذیل کے ذریعے آزماتے ہیں جب یہ بات معلوم ہوگئی تو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے کہا کیا تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ صبر کرو گے تاکہ تم دین الہی اور حکم خداوندی کی اطاعت میں اس جماعت میں شامل ہوجاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگو باقی آپ کا پروردگار خوب دیکھ رہا ہے کہ یہ اس چیز پر صبر نہیں کریں گے یا آیت مبارکہ کا یہ مطلب ہے کہ اے صحابہ کرام (رض) کیا تم ان کفار کی تکالیف پر صبر کرو گے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ پورا پورا بدلہ دے جو صبر کرنے والوں کو ملتا ہے اور آپ کا پروردگار خوب دیکھ رہا ہے کہ ان کفار میں سے کون ایمان لاتا ہے اور کون ایمان نہیں لاتا۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وماارسلنا قبلک من المرسلین “۔ (الخ)- اور واحدی (رح) نے جبیر (رح) کے طریق سے بذریعہ ضحاک (رح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت مشرکین نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روزی کی تلاش پر طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ ہماری طرح کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے تو یہ بات سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افسوس ہوا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے، سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور ابن جریر (رح) نے بواسطہ سعید (رض) ، یا عکرمہ (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَتَصْبِرُوْنَج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا ) ” (- اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد اب تمہارے لیے صبر و استقامت کی روش ناگزیر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :29 یہ جواب ہے کفار مکہ کی اس بات کا جو وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات ذہن میں رہے کہ کفار مکہ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ علیہم السلام اور بہت سے دوسرے انبیاء سے نہ صرف واقف تھے ، بلکہ ان کی رسالت بھی تسلیم کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نرالا اعتراض کیوں اٹھا رہے ہو ؟ پہلے کونسا نبی ایسا آیا ہے جو کھانا نہ کھاتا ہو اور بازاروں میں نہ چلتا پھرتا ہو؟ اور تو اور ، خود عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، جن کو عیسائیوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے ( اور جن کا مجسمہ کفار مکہ نے بھی کعبہ میں رکھ چھوڑا تھا ) انجیلوں کے اپنے بیان کے مطابق کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :30 یعنی رسول اور اہل ایمان کے لیے منکرین آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان ۔ منکرین نے ظلم و ستم اور جاہلانہ عداوت کی جو بھٹی گرم کر رکھی ہے وہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ثابت ہو گا کہ رسول اور اس کے صادق الایمان پیرو کھرا سونا ہیں ۔ کھوٹ جس میں بھی ہو گی وہ اس بھٹی سے بخیریت نہ گزر سکے گا ، اور اس طرح خالص اہل ایمان کا ایک چیدہ گروہ چھٹ کر نکل آئے گا جس کے مقابلے میں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھہر سکے گی ۔ یہ بھٹی گرم نہ ہو تو ہر طرح کے کھوٹے اور کھرے آدمی نبی کے گرد جمع ہو جائیں گے ، اور دین کی ابتدا ہی ایک خام جماعت سے ہو گی ۔ دوسری طرف منکرین کے لیے بھی رسول اور اصحاب رسول ایک سخت آزمائش ہیں ۔ ایک عام انسان کا اپنی ہی برادری کے درمیان سے یکایک نبی بنا کر اٹھا دیا جانا ، اس کے پاس کوئی فوج فرّا اور مال و دولت نہ ہونا ، اس کے ساتھ کلام الہٰی اور پاکیزہ سیرت کے سوا کوئی عجوبہ چیز نہ ہونا ، اس کے ابتدائی پیروؤں میں زیادہ تر غریبوں ، غلاموں اور نو عمر لوگوں کا شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان چند مٹھی بھر انسانوں کو گویا بھیڑیوں کے درمیان بے سہارا چھوڑ دینا ، یہی وہ چھلنی ہے جو غلط قسم کے آدمیوں کو دین کی طرف آنے سے روکتی ہے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو چھان چھان کر آگے گزارتی ہے جو حق کو پہچاننے والے اور راستی کو ماننے والے ہوں ۔ یہ چھلنی اگر نہ لگائی جاتی اور رسول بڑی شان و شوکت کے ساتھ آ کر تختِ فرماں روائی پر جلوہ گر ہوتا ، خزانوں کے منہ اس کے ماننے والوں کے لیے کھول دیے جاتے ، اور سب سے پہلے بڑے بڑے رئیس آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ، تو آخر کونسا دنیا پرست اور بندہ غرض انسان اتنا احمق ہو سکتا تھا کہ اس پر ایمان لانے والوں میں شامل نہ ہو جاتا ۔ اس صورت میں تو راستی پسند لوگ سب سے پیچھے رہ جاتے اور دنیا کے طالب بازی لے جاتے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :31 یعنی اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد کیا اب تم کو صبر آگیا کہ آزمائش کی یہ حالت اس مقصد خیر کے لیے نہایت ضروری ہے جس کے لیے تم کام کر رہے ہو؟ کیا اب تم وہ چوٹیں کھانے پر راضی ہو جو اس آزمائش کے دور میں لگنی ناگزیر ہیں ؟ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :32 اس کے دو معنی ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارا رب جو کچھ کر رہا ہے کچھ دیکھ کر ہی کر رہا ہے ، اس کی نگری اندھیر نگری نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس خلوص اور راست بازی کے ساتھ اس کٹھن خدمت کو تم انجام دے رہے ہو وہ بھی تمہارے رب کی نگاہ میں ہے ۔ اور تمہاری مساعی خیر کا مقابلہ جن زیادتیوں اور بے ایمانیوں سے کیا جا رہا ہے وہ بھی اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے ۔ لہٰذا پورا اطمینان رکھو کہ نہ تم اپنی خدمات کی قدر سے محروم رہو گے اور نہ وہ اپنی زیادتیوں کے وبال سے بچے رہ جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد درمیان میں اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے خطاب فرما رہے ہیں کہ تمہارے مخالفین تم پر طرح طرح کے اعتراضات کر کے تمہیں جو تکلیفیں دے رہے ہیں، وہ اس لیے کہ ہم نے تمہیں ان کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے کہ یہ حق واضح ہوجانے کے باوجود اسے مانتے ہیں یا نہیں، اور انہیں تمہاری آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے کہ تم ان کی پہنچائی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتے ہو یا نہیں کیونکہ تمہارے صبر ہی سے یہ ظاہر ہوگا کہ تم نے حق کو سچے دل سے قبول کیا ہے۔