Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرائط کافر لوگ انکار نبوت کا ایک بہانہ یہ بھی بناتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا کو کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجا ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ وہ ایک بہانہ یہ بھی کرتے تھے آیت ( قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ١٢٤؁ ) 6- الانعام:124 ) یعنی جب تک خود ہمیں وہ نہ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ جسطرح نبیوں کے پاس اللہ کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ہمارے پاس بھی آئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا مطالبہ یہ ہو کہ فرشتوں کو دیکھ لیں ۔ خود فرشتے آکر ہمیں سمجھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کریں تو ہم آپ کو نبی مان لیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کفار نے کہا آیت ( اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا 92۝ۙ ) 17- الإسراء:92 ) یعنی تو اللہ کو لے آ فرشتوں کو بنفس نفیس ہمارے پاس لے آ ۔ اس کی پوری تفسیر سورۃ سبحان میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی ان کا یہی مطالبہ بیان ہوا ہے کہ یا تو ہمارے اوپر فرشتے اتریں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں ۔ یہ بات اس لئے ان کی منہ سے نکلی کہ یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے تھے اور ان کا غرور حد سے بڑھ گیا تھا ۔ ان کی ایمان لانے کی نیت نہ تھی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ١١١۝ ) 6- الانعام:111 ) ، یعنی اگر ہم ان فرشتوں کو بھی اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے ، اس قسم کی اور بھی تمام چیزیں ہم ان کے سامنے کردیتے جب بھی انہی ایمان لانا نصیب نہ ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتوں کو یہ دیکھیں گے لیکن اس وقت ان کے لئے ان کا دیکھنا کچھ سود مند نہ ہوگا اس سے مراد سکرات موت کا وقت ہے جب کہ فرشتے کافروں کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کی خبر انہیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث نفس تو خبیث اور ناپاک جسم میں تھا اب گرم ہواؤں ، گرم پانی اور نامبارک سایوں کی طرف چل ۔ وہ نکلنے سے کتراتی ہے اور بدن میں چھپتی پھرتی ہے اس پر فرشتے ان کے چہروں پر اور ان کی کمروں پر ضربیں مارتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ 93؀ ) 6- الانعام:93 ) یعنی کاش کہ تو ظالموں کو ان کی سکرات کے وقت دیکھتاجب کہ فرشتے انہیں مارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جانیں نکالو آج تمیں ذلت کے عذاب چکھنے پڑیں گے ۔ کیونکہ تم اللہ تعالیٰ سے متعلق ناحق الزامات ترا شتے تھے ۔ اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے ۔ مومنوں کا حال ان کے بالکل برعکس ہوگا وہ اپنی موت کے وقت خوشخبریاں سنائے جاتے ہیں اور ابدی مسرتوں کی بشارتیں دئیے جاتے ہیں جسیے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 13؀ۚ ) 46- الأحقاف:13 ) جنہوں نے اللہ کو اپنا رب کہا اور مانا پھر اس پر جمے رہے ان کے پاس ہمارے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو ، ان جنتوں میں جانے کی خوشی مناؤ جن کا تمہیں وعدہ دیا جا تارہا ۔ ہم تمہارے والی ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ، تم جو کچھ چاہوگے پاؤ گے اور جس چیز کی خواہش کروگے موجود ہوجائے گی بخشنے والے مہربان اللہ کی طرف سے یہ تمہاری میزبانی ہوگی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی تو اللہ تعالیٰ کے رحم اور رحمت کی طرف چل جو تجھ سے نارض نہیں ۔ سورۃ ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27؀ۧ ) 14- ابراھیم:27 ) کی تفسیر میں یہ سب حدیثیں مفصل بیان ہوچکی ہیں ۔ بعض نے کہا مراد اس سے قیامت کے دن فرشتوں کا دیکھنا ہو سکتا ہے کہ دونوں موقعوں پر فرشتوں کا دیکھنا مراد ہو اس میں ایک قول کی دوسرے قول سے نفی نہیں کیونکہ دونوں ہر نیک وبد فرشتوں کو دیکھیں گے مومنوں کو رحمت ورضوان کی خوشخبری کے ساتھ فرشتوں کا دیدار ہوگا اور کافروں کو لعنت وپھٹکار اور عذابوں کی خبروں کے ساتھ فرشتے اس وقت ان کافروں سے صاف کہہ دیں گے کہ اب فلاح وبہبود تم پر حرام ہے ۔ حجر کے لفظی معنی روک ہیں چنانچہ قاضی جب کسی کو اس کی مفلسی یا حماقت یا بچپن کی وجہ سے مال کی تصرف سے روک دے تو کہتے ہیں حجر القاضی علی فلان ۔ حطیم کو بھی حجر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ طواف کرنے والوں کو اپنے اندر طواف کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ اس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے ۔ عقل کو بھی عربی میں حجر کہتے ہیں اس لئے وہ بھی انسانوں کو برے کاموں سے روک دیتی ہے ۔ پس فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ جو خوش خبریاں مومنوں کو اس وقت ملتی ہیں اس سے تم محروم ہو ۔ یہ معنی تو اس بنا پر ہیں کہ اس جملے کو فرشتوں کا قول کہا جائے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مقولہ اس وقت کافروں کا ہوگا وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ کرے تم ہم سے آڑ میں رہو تمہیں ہمارے پاس آنا نہ ملے ۔ گو یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں لیکن دور کے معنی ہیں ۔ بالخصوص اس وقت کہ جب اس کے خلاف وہ تفسیر جو ہم نے اوپر بیان کی اور سلف سے مروی ہے ۔ البتہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول ایسا مروی ہے لیکن انہی سے صراحت کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ یہ قول فرشتوں کا ہوگا ، واللہ اعلم ۔ پھر قیامت کے دن اعمال کے حساب کے وقت ان کے اعمال غارت واکارت ہوجائیں گے ۔ یہ جنہیں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے وہ بیکار ہوجائیں گے کیونکہ یا تو وہ خلوص والے نہ تھے یا سنت کے مطابق نہ تھے ۔ اور جو عمل ان دونوں سے یا ان میں سے ایک چیز سے خالی ہو وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ۔ اس لیے کافروں کے نیک اعمال بھی مردود ہیں ۔ ہم نے ان کے اعمال کا ملاحظہ کیا اور ان کو مثل بکھرے ہوئے ذروں کے مثل کردیا کہ وہ سورج کی شعاعیں جو کسی سوراخ سے آرہی ہوں ان میں نظر تو آتے ہیں لیکن کوئی انہیں پکڑنا چاہئے تو ہاتھ نہیں آتے ۔ جس طرح پانی جو زمین پر بہا دیا جائے وہ پھر ہاتھ نہیں آسکتا ۔ یا غبار جو ہاتھ نہیں لگ سکتا ۔ یا درختوں کے پتوں کا چورا جو ہوا میں بکھر گیا ہو یاراکھ اور خاک جو اڑتی پھرتی ہو ۔ اسی طرح ان کے اعمال ہیں جو محض بیکار ہوگئے ان کا کوئی ثواب ان کے ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اس لئے کہ یا تو ان میں خلوص نہ تھا یا شریعت کے مطابقت نہ تھی یا دونوں وصف نہ تھے ۔ پس جب یہ عالم وعادل حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہوئے تو محض نکمے ثابت ہوئے اسی لئے اسے ردی اور نہ ہاتھ لگنے والی شے سے تشبیہ دی گئی جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ 18؀ ) 14- ابراھیم:18 ) کافروں کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے جسے تیز ہوا اڑادے ۔ انسان کی نیکیاں بعض بدیوں سے بھی ضائع ہوجاتی ہیں جیسے صدقہ خیرات کہ وہ احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہوجاتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ٢٦٤؁ ) 2- البقرة:264 ) پس ان کے اعمال میں سے آج یہ کسی عمل پر قادر نہیں ۔ اور آیت میں ان کے اعمال کی مثال اس ریت کے ٹیلے سے دی گئی جو دور سے مثل دریا کے لہریں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے دیکھ کر پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے لیکن پاس آتا ہے تو امید ٹوٹ جاتی ہے ۔ اس کی تفسیر بھی اللہ کے فضل سے گزر چکی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے مقابلے میں جنتیوں کی بھی سن لو کیونکہ یہ دونوں فریق برابر کے نہیں ۔ جنتی تو بلند درجوں میں اعلیٰ بالاخانوں میں امن وامان ، راحت وآرام کے ساتھ عیش وعشرت میں ہونگے ۔ مقام اچھا ، منظر دل پسند ، ہر راحت موجود ، ہر دل خوش کن چیز سامنے ، جگہ اچھی ، مکان طیب ، منزل مبارک سونے بیٹھنے رہنے سہنے کا آرام ، برخلاف اس کے جہنمی دوزخ کے نیچے کے طبقوں میں جکڑ بند ، اوپر نیچے ، دائیں بائیں آگ ، حسرت افسوس ، رنج غم ، پکھنا ، جلنا ، بےقرار ، جگر سوز ، مقام بد ، بری منزل خوفناک منظر ، عذاب سخت ۔ نیک لوگوں کے جن کے دل میں ایمان تھا اعمال مقبول ہوئے ، اچھی جزائیں دی گئیں بدلے ملے ۔ جہنم سے بچے ، جنت کے وارث ومالک بنے ۔ پس یہ جو تمام بھلائیوں کو سمیٹ بیٹھے اور وہ جو ہر نیکی سے محروم رہے کہیں برابر ہوسکتے ہیں؟ پس نیکوں کی سعادت بیان فرما کر بدوں کی شقاوت پر تنبیہ کردی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ ساعت ایسی بھی ہوگی کہ جنتی اپنی حوروں کے ساتھ دن دوپہر کو آرام فرمائیں اور جہنمی شیطانوں کے ساتھ جکڑے ہوئے دوپہر کو گھبرائیں ۔ سعد بن جبیر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ آدھے دن میں بندوں کے حساب سے فارغ ہوجائے گا پس جنتیوں کے لئے دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں ہوگا اور دوزخیوں کا جہنم میں ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب یہاں دنیا میں دوپہر کا وقت ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں ۔ جنتیوں کا یہ قیلولہ جنت میں ہوگا ۔ مچھلی کی کلیجی انہیں پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ دن آدھا ہو اس سے بھی پہلے جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں قیلولہ کریں گے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور آیت ( ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ 68؀ ) 37- الصافات:68 ) بھی پڑھی ۔ جنت میں جانے والے صرف ایک مرتبہ جناب باری کے سامنے پیش ہونگے یہی آسانی سے حساب لینا پے پھر یہ جنت میں جاکر دوپہر کا آرام کریں گے جیسے فرمان اللہ ہے آیت ( فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا Ċ۝ۙ ) 84- الانشقاق:7 ) یعنی جس شخص کو اپنا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اپنے والوں کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا ۔ اس کا قیام اور منزل بہتر ہے ۔ صفوان بن ام حرز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دو شخصوں کو لایا جائے گا ایک تو وہ جو ساری دنیا کا بادشاہ تھا اس سے حساب لیا جائے گا تو اس کی پوری عمر میں ایک نیکی بھی نہ نکلے گی پس اسے جہنم کے داخلے کا حکم ملے گا پھر دوسرا شخص آئے گا جس نے ایک کمبل میں دنیا گزاری تھی جب اس سے حساب لیا جائے گا تو یہ کہے گا کہ اے اللہ میرے پاس دنیا میں تھا ہی کیا جس کا حساب لیا جائے گا ؟ اللہ فرمائے گا ۔ یہ سبچا ہے اسے چھوڑ دو ۔ اسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں کو بلایا جائے گا تو جہنمی بادشاہ تو مثل سوختہ کوئلے کے ہو گیا ہوگا ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کس حال میں ہو یہ کہے گا نہایت برے حال میں اور نہایت خراب جگہ میں ہوں ۔ پھر جنتی کو بلایا جائے گا اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کیسی گزرتی ہے؟ یہ کہے گا الحمدللہ بہت اچھی اور نہایت بہتر جگہ میں ہوں ۔ اللہ فرمائے گا جاؤ اپنی اپنی جگہ پھر چلے جاؤ ۔ حضرت سعید صواف رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مومن پر تو قیامت کا دن ایسا چھوٹا ہوجائے گا جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ۔ یہ جنت کی کیاریوں میں پہنچا دئیے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اور مخلوق کے حساب ہوجائیں ۔ پس جنتی بہتر ٹھکانے والے اور عمدہ جگہ والے ہونگے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔ 212یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔ 213اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہوجائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیونکر کرسکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] کفار مکہ کے لغو قسم کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جیسے تم پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ایسے ہی ہم میں سے ہر ایک فرشتہ اترنا چاہئے۔ تاکہ ہمیں پورا یقین ہوجائے کہ جو کچھ تمہاری دعوت ہے وہ درست ہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو ہم کم از کم اپنے رب کو ہی دیکھ لیں۔ جو ہمیں ایک دفعہ یہ کہہ دے کہ میں فلاں شخص کو رسول بناکر بھیج رہا ہوں اور تمہیں اس پر ایما نلے آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے یہ مطالبات اس لئے نہیں ہیں کہ اگر ان کی یہ بات پوری ہوجائے تو یہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں بلکہ یہ لوگ ایسی بکواس اس لئے کر رہے ہیں کہ انھیں یہ یقین نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انھیں ہمارے حصور پیش ہونا ہے۔ اگر انھیں اس بات کا یقین ہوتا تو کبھی ایسی باتیں نہ بناتے۔- [ ٣٠] یعنی ہم نے جو ان کو مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی عطا کی ہے تو یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر فرشتہ اس شخص پر جو ان کے خیال کے مطابق ان سے کم درجہ کا آدمی ہے، نازل ہوسکتا ہے تو آخر ہم لوگوں پر کیوں نازل نہیں ہوسکتا، یا پھر ہمیں خود اللہ تعالیٰ ان باتوں کی یقین دہانی کرائے۔ اس شخص کی باتوں پر آخر ہم لوگ کیسے یقین کرلیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ۔۔ : یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکروں کا چوتھا اعتراض ہے، اللہ تعالیٰ نے ” وَقَالُوْا “ (اور انھوں نے کہا) یا ” وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ ( اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا) کہنے کے بجائے فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ) (اور ان لوگوں نے کہا جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے) یعنی انھیں اتنی گستاخی کی جرأت اس لیے ہوئی کہ وہ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ یقین تو دور، اگر انھیں قیامت کی اور ہمارے سامنے پیش ہونے کی امید بھی ہوتی تو اتنی بڑی بات ان کے منہ سے نہ نکلتی۔- 3 منکرین نے کہا کہ (اس نبی پر فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے تو) ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے، یا ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہم اپنے رب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے ؟ یہ ایسی بات ہے کہ کسی انسان کا حق نہیں کہ زبان پر لانے کی جرأت کرے، کیونکہ یہ اس ذات پاک پر اعتراض ہے جس کی عظمت کی کوئی حد ہے نہ کوئی اس کی حکمتیں معلوم کرسکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قسم کا مفہوم رکھنے والے الفاظ ” لَقَدْ “ کے ساتھ فرمایا کہ مجھے قسم ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں بہت بڑے بن گئے اور انھوں نے ایسی سرکشی اختیار کی جو بہت بڑی سرکشی ہے۔ حالانکہ نہ حقیقت میں انھیں کوئی بڑائی حاصل ہے نہ لوگوں کی نگاہ میں۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ اس نبی کے ساتھ فرشتے اترتے، یا خود رب تعالیٰ سامنے آ کر اس کی تصدیق کرتا۔ گویا ان کے لیے نبی کے واضح معجزات خصوصاً قرآن کی کوئی حیثیت نہیں، جس کی ایک سورت کی مثل وہ نہیں لاسکے۔ - 3 کفار کا یہ اعتراض اللہ تعالیٰ نے دوسرے کئی مقامات پر بھی ذکر فرمایا ہے۔ چناچہ سورة انعام میں فرمایا : (وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ ) [ الأنعام : ١٢٤ ] ” اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا، اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ عنقریب ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیے، اللہ کے ہاں بڑی ذلت پہنچے گی اور بہت سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ فریب کیا کرتے تھے۔ “ اور سورة بنی اسرائیل کی آیات (٩٠ تا ٩٣) میں ان مطالبات کا ذکر ہے جو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی شرط کے طور پر پیش کیے تھے، ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا : (اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا) [ بني إسرائیل : ٩٢ ] ” یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “- 3 اللہ تعالیٰ نے اسے بہت بڑا تکبر اور بہت بڑی سرکشی اس لیے قرار دیا کہ انھوں نے اپنے ہر شخص کے لیے نبی کا مرتبہ ملنے کا مطالبہ کیا جو فرشتے کے نزول کی وجہ سے اسے حاصل ہوتا ہے۔ (دیکھیے مدثر : ٥٢، ٥٣) پھر یہیں تک نہیں رہے، بلکہ کئی فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کیا جو ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آئیں۔ اس سے بھی بڑھے تو رب تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کردیا۔ گویا ان چیزوں کا مطالبہ کردیا جو نبیوں کو بھی عطا نہیں ہوئیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کیا تھا، اسے تکبر کیوں نہیں کہا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ ایمان کی شرط کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ شوق کے تقاضے سے کیا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے سے اندیشہ نہیں کرتے ( کیونکہ وہ قیامت اور اس کی پیشی اور حساب کے منکر ہیں) وہ (انکار رسالت کے لئے) یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ( کہ اگر فرشتے آکر ہم سے کہیں کہ یہ رسول ہیں) یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں (اور وہ خود ہم سے کہہ دے کہ یہ رسول ہیں جب ہم تصدیق کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں ( کہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ فرشتے آکر ان سے خطاب کریں یا خود حق تعالیٰ سے ہمکلام ہوں) اور (بالخصوص اللہ تعالیٰ کے دنیا میں دیکھنے اور اس سے ہمکلام ہونے کی فرمائش میں تو) یہ لوگ حد (انسانیت) سے بہت دور نکل گئے ہیں (کیونکہ ملائکہ اور انسان کی تو بعض چیزوں میں شرکت بھی ہے کہ دونوں اللہ کی مخلوق ہیں مگر اللہ تعالیٰ اور انسان میں تو کوئی مشارکت اور مشابہت نہیں۔ اور یہ لوگ خدا کو دیکھنے کے لائق تو کیا ہوتے مگر فرشتے ان کو ایک روز دکھلائی دیں گے مگر جس طرح یہ چاہتے ہیں اس طرح نہیں بلکہ ان کے عذاب و مصیبت اور پریشانی لے کر) چناچہ جس روز یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے (اور وہ دن قیامت کا ہے) اس روز مجرموں (یعنی کافروں) کے لئے کوئی خوشی کی بات (نصیب) نہ ہوگی اور (فرشتوں کو جب سامان عذاب کے ساتھ آتا دیکھیں گے تو گھبرا کر) کہیں گے پناہ ہے پناہ ہے۔- معارف ومسائل - وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لفظ رجا کے عام معنے کسی محبوب و مرغوب چیز کی امید کے آتے ہیں اور کبھی یہ لفظ بمعنے خوف بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں لکھا ہے اسی جگہ بھی یہی معنے خوف کے زیادہ واضح ہیں یعنی وہ لوگ جو ہمارے سامنے پیشی سے نہیں ڈرتے۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دور از کار اور جاہلانہ سوالات اور فرمائشوں کی جرأت اسی شخص کی ہوسکتی ہے جو آخرت کا بالکل منکر ہو۔ آخرت کے قائل پر آخرت کی فکر ایسی غالب ہوتی ہے کہ اس کو ایسے سوال و جواب کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ آج کل جو تعلیم جدید کے اثر سے اسلام اور اس کے احکام کے بارے میں بہت سے لوگ شبہات اور بحث و مباحثہ میں مشغول نظر آتے ہیں یہ بھی علامت اس کی ہوتی ہے کہ معاذ اللہ دل میں آخرت کا سچا یقین نہیں ہے۔ اور یہ ہوتا تو اس قسم کے فضول سوالات دل میں پیدا ہی نہ ہوتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا۝ ٠ۭ لَـقَدِ اسْـتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا۝ ٢١- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - عتو - العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً- [ الفرقان 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها - [ الطلاق 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا - [ مریم 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي .- ( ع ت و ) عتا - ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١) ابوجہل اور اس کے ساتھی جو بعث بعد الموت کا فکر نہیں کرتے وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں بھیجے جاتے جو ہم سے آکر کہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں اور اس سے خود آپ کے بارے میں دریافت کرلیں یہ لوگ ایمان سے تکبر کر رہے ہیں اور اپنے دلوں میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں کہ اللہ کو دیکھنے کی درخواست کرتے ہیں اور ایمان سے بہت زیاد تکبر کر رہے ہیں یا یہ کہ بہت ہی دلیری اور بدتمیزی پہ اتر رہے ہیں کہ فرشتوں کے نزول کی خواہش کیے بیٹھے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَوْ نَرٰی رَبَّنَاط ) ” - اللہ کے حضور حاضری پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی طبیعتوں میں سر کشی اور لاپرواہی پائی جاتی ہے۔ چناچہ ایمان کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے جواب میں وہ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر اللہ نے ہمیں کوئی پیغام بھیجنا ہی تھا تو اپنے فرشتوں کے ذریعے بھجواتا یا وہ خود ہمارے سامنے آجاتا اور ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیتے۔ یا یہ کہ اللہ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا معجزہ دکھایا جاتا جس سے ہم پر واضح ہوجاتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ان کے ایسے مطالبات کا ذکر مکیّ سورتوں میں بار بار کیا گیا ہے۔- (لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا ) ” - ان کے یہ مطالبات ان کے استکبار کا ثبوت اور ان کی سر کشی کی دلیل ہیں۔ گویا وہ خود کو اس لائق سمجھتے ہیں کہ ان پر فرشتوں کا نزول ہو اور اللہ خود ان کے روبرو ان سے ہم کلام ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :33 یعنی اگر واقعی خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپنا پیغام پہنچائے تو ایک نبی کو واسطہ بنا کر صرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دینا کافی نہیں ہے ، ہر شخص کے پاس ایک فرشتہ آنا چاہیے جو اسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتا ہے ۔ یا فرشتوں کا ایک وفد مجمع عام میں ہم سب کے سامنے آ جائے اور خدا کا پیغام پہنچا دے ۔ سورہ اَنعام میں بھی ان کے اس اعتراض کو نقل کیا گیا ہے : وَاِذَا جَآءَتْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اَوْتِیَ رُسُلُ اللہِ ؕ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ ۔ جب کوئی آیت ان کے سامنے پیش ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ ہمیں وہی کچھ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کا کیا انتظام کرے ( آیت 124 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :34 یعنی اللہ میاں خود تشریف لے آئیں اور فرمائیں کہ بندو ، میری تم سے یہ التماس ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :35 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : بڑی چیز سمجھ لیا اپنی دانست میں انہوں نے اپنے آپ کو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: یہ ان کا تکبر ہے جو ان سے ایسی باتیں کہلوا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ اپنی ہدایت کے لیے کسی پیغمبر کی بات ماننا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود آکر انہیں سمجھائیں، یا کم از کم کوئی فرشتہ بھیجیں۔