Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہونگے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا (مسند احمد475

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] قیامت کا دن ہمارے موجودہ حساب سے پچاس ہزار سال کا دن ہے۔ اس دن کی بھی، دوپہر اور شام ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوپہر سے پہلے پہلے لوگوں کے حساب کتاب سے فارغ ہوجائیں گے۔ اہل جنت، جنت میں اور اہل دوزخ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت دوپہر کے بعد جنت میں ہی جاکر سوئیں گے۔ کیونکہ قیولہ دوپہر کے بعد سونے کو اور مقیلاً دوپہر کے بعد سونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ مومنوں یا اہل جنت کو یہ پچاس ہزار سال کا دن ایسا ہلکا محسوس ہوگا جیسے کسی فریضہ نماز کا وقت ہوتا ہے۔ ( بیہقی۔ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الفتن۔ باب الحساب ذالقصاص والمیزان فیصل الثالث)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا ۔۔ : جہنمیوں کے ذکر کے ساتھ اہل جنت کا ذکر فرمایا کہ وہ اس دن کفار سے ٹھکانے کے اعتبار سے نہایت بہتر اور آرام گاہ کے اعتبار سے کہیں اچھے ہوں گے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کفار کے لیے تو خیر کا وجود ہی نہیں ہوگا، پھر اہل جنت کا ٹھکانے اور آرام گاہ میں ان سے بہتر ہونے کا کیا مطلب ؟ جواب یہ ہے کہ دنیا میں کفار کو جو عیش و آرام میسر تھا اہل جنت اس دن اس سے کہیں اچھے ٹھکانے اور آرام گاہ میں ہوں گے، یا یہ بات جہنمیوں پر طنز کے طور پر کہی گئی ہے۔ - وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا : اصل میں ” مَقِيْلًا “ کے لفظی معنی ہیں ” قیلولہ کرنے کی جگہ “ اور قیلولہ گرمی میں دوپہر کے آرام کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( لَا یَنْتَصِفُ النَّھَارُ مِنْ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَقِیْلَ ھٰؤُلَاءِ وَ ھٰؤُلَاءِ ثُمَّ قَرَأَ : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٢، ح : ٣٥١٦، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبي ] ” قیامت کے دن ابھی دوپہر نہ ہوئی ہوگی کہ یہ لوگ اور وہ لوگ دوپہر کا آرام کر رہے ہوں گے، پھر (کفار کے متعلق) یہ آیت پڑھی : (اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) [ الصافات : ٦٨ ] ” بلاشبہ ان کی واپسی یقیناً اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوگی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا، مستقر، مستقل جائے قیام کو کہا جاتا ہے اور مقیل قیلولہ سے مشتق ہے دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ کو مقیل کہتے ہیں اور اس جگہ مقیل کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے بھی ہوا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز حق تعالیٰ نصف النہار کے وقت ساری مخلوقات کے حساب کتاب سے فارغ ہوجاویں گے اور دوپہر کے سونے کے وقت اہل جنت جنت میں پہنچ جائیں گے اور اہل جہنم جہنم میں (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا۝ ٢٤- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- اسْتَقَرَّ- فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ - قيل ( قيلوله)- قوله تعالی: أَصْحابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا[ الفرقان 24] مصدر :- قِلْتُ قَيْلُولَةً : نمت نصف النهار، أو موضع القیلولة، وقد يقال : قِلْتُهُ في البیع قِيلًا وأَقَلْتُهُ ، وتَقَايَلَا بعد ما تبایعا .- ( ق ی ل ) المقیل ۔ مقام استراحت چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا[ الفرقان 24] اس دن اہل جنت کا ٹھکانہ بھی بہتر ہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا ۔ میں مقیلا قلت قیلولتہ کا مصدر ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت استراحت کے لئے لیٹنے کے ہیں اور یاظرف مکان ہے یعنی قیلولہ کی جگہ : ۔ محاورہ قلتہ فی البیع واقلتہ وتقایلا بیع فسخ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) البتہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) قیامت کے دن ابو جہل وغیرہ سے قیام گاہ میں بھی اچھے ہوں گے اور آرام گاہ میں بھی بہت اچھے ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :38 یعنی میدان حشر میں جنت کے مستحق لوگوں کے ساتھ مجرمین سے مختلف معاملہ ہو گا ۔ وہ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے اور روز حشر کی سخت دوپہر گزارنے کے لیے ان کو آرام کی جگہ دی جائے گی ۔ اس دن کی ساری سختیاں مجرموں کے لیے ہوں گی نہ کہ نیکو کاروں کے لیے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والذی نفسی بیدہ اِنّہ لیخفف علی المؤمن حتی یکون اخف علیہ من صلوۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قیامت کا عظیم الشان اور خوفناک دن ایک مومن کے لیے بہت ہلکا کردیا جائے گا ، حتیٰ کہ اتنا ہلکا جتنا دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے ۔ ( مسند احمد بروایت ابی سعید خدری ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani