2 3 1ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انھیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بےحیثیت ہونگے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہونگے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بےحیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر چکی ہیں ملاحظہ ہو (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :264) (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ ) 14 ۔ ابراہیم :18)
[٣٣] کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ گر تم کچھ اچھے کام کرتے ہو تو ہم بھی بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔ ہم حاجیوں کی خبرگیری کرتے ہیں۔ انھیں پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کی امداد کرتے ہیں۔ غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں وظیفے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔- یہاں کافروں کے ایسے ہی اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ان کے ایسے اعمال کی طرف بڑھیں گے تو انھیں اڑتا غبار بنادیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعمال اس غرض سے تو کئے ہی نہیں تھے کہ ان کو آخرت میں ان کا بدلہ ملے۔ کیونکہ وہ آخرت پر تو یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اعمال کی کچھ بنیاد ہی نہ تھی۔ جس پر وہ قائم رہ سکتے۔ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے اعمال کئے تھے۔ تو صرف اس غرض سے کہ لوگ انھیں اچھا سمجھیں اور اچھا کہیں اور یہ کام دنیا میں ہوچکا۔ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا میں مل چکا۔ آخرت میں ان کو اب کیا ملے گا ؟ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورة کہف میں یوں بیان فرمایا : (فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥۔ ) 18 ۔ الكهف :105) یعنی ہم ایسے لوگوں کے لئے میزان الاعمال رکھیں گے ہی نہیں وجہ یہ ہے کہ ان کے اچھے عمل تو اڑتا ہوا غبار بن گئے۔ اب نیکیوں کے پلڑے میں رکھنے کے لئے کیا چیز باقی رہ گئی کہ ان کے لئے میزان رکھی جائے۔
وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ ۔۔ : ” هَبَاۗءً “ غبار کے ان ذرّات کو کہتے ہیں جو روشن دان کے ذریعے سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کوئی شخص جسے کسی چیز سے شدید کراہت و نفرت ہو وہ اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں تباہ و برباد کرنے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ وہ خود اسے تباہ و برباد کرتا ہے، اس لیے فرمایا کہ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے، دنیا میں دیکھیں یا آخرت میں، تو انھوں نے اپنے خیال میں جو بھی اچھا عمل کیا ہوگا، خواہ سخاوت ہو یا صلہ رحمی یا مظلوم کی مدد یا بیت اللہ کی آباد کاری اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، ہم خود اس کی طرف آئیں گے اور اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے ایمان، اخلاص اور اس کا شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے، جب کہ ان کے اعمال اس سے خالی تھے۔ روشن دان سے آنے والی روشنی میں سکون کی حالت میں غبار کے ذرات پھر بھی کچھ مرتب اور موجود نظر آتے ہیں، لیکن جب انھیں ہوا یا کوئی اور چیز حرکت دیتی ہے تو کچھ ہاتھ نہیں آتا اور وہ سب بکھر کر کالعدم ہوجاتے ہیں، اس لیے انھیں بکھرا ہوا غبار فرمایا۔ (بقاعی) کفار کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کہیں ” رَمَادٌ“ (راکھ) کے ساتھ تشبیہ دی ہے (دیکھیے ابراہیم : ١٨) ، کہیں سراب کے ساتھ (دیکھیے نور : ٣٩) اور کہیں فرمایا کہ ہم ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (دیکھیے کہف : ١٠٥) ۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم (اس روز) ان کے (یعنی کفار کے) ان (نیک) کاموں کی طرف جو کہ وہ (دنیا میں) کرچکے تھے متوجہ ہوں گے سو ان کو (علانیہ طور پر) ایسا (بیکار) کردیں گے جیسے پریشان غبار (کہ کسی کام نہیں آتا، اسی طرح ان کفار کے اعمال پر کچھ ثواب نہ ہوگا البتہ) اہل جنت اس روز قیام گاہ میں بھی اچھے رہیں گے اور آرامگاہ میں بھی خوب اچھے ہوں گے (مراد مستقر اور مقیل سے جنت ہے یعنی جنت ان کے لئے جائے قیام اور جائے آرام ہوگی اور اچھا ہونا اس کا ظاہر ہے) اور جس روز آسمان ایک بدلی پر سے پھٹ جائے گا اور (اس بدلی کے ساتھ آسمان سے) فرشتے (زمین پر) بکثرت اتارے جائیں گے (اور اسی وقت حق تعالیٰ حساب و کتاب کے لئے تجلی فرما دیں گے اور) روز حقیقی حکومت (حضرت) رحمان ( ہی) کی ہوگی (یعنی حساب و کتاب و جزا و سزا میں کسی کو دخل نہ ہوگا جیسا دنیا میں ظاہری تصرف تھوڑا بہت دوسروں کے لئے بھی حاصل ہے) اور جس روز ظالم (یعنی کافر آدمی غایت حسرت سے) اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھاوے گا (اور) کہے گا کیا اچھا ہوتا میں رسول کے ساتھ (دین کی) راہ پر لگ لیتا ہائے میری شامت (کہ ایسا نہ کیا اور) کیا اچھا ہوتا کہ میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا اس (کم بخت) نے مجھ کو نصیحت آئے پیچھے اس سے بہکا دیا ( اور ہٹا دیا) اور شیطان تو انسان کو (عین وقت پر) امداد کرنے سے جواب دیدیتا ہے (چنانچہ اس کافر کی اس حسرت کے وقت اس نے کوئی ہمدردی نہ کی، گو کرنے سے بھی کچھ نہ ہوتا صرف دنیا ہی میں بہکانے کو تھا) اور (اس دن) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق تعالیٰ سے کافروں کی شکایت کے طور پر) کہیں گے اے میرے پروردگار میری (اس قوم) نے اس قرآن کو ( جو کہ واجب العمل تھا) بالکل نظر انداز کر رکھا تھا (اور التفات ہی نہ کرتے تھے عمل تو درکنار مطلب یہ کہ خود کفار بھی اپنی ضلالت کا اقرار کریں گے اور رسول بھی شہادت دیں گے۔ کقولہ تعالیٰ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤ ُ لَاۗءِ شَهِيْدًا اور ثبوت جرم کی یہی دو صورتیں معتاد ہیں، اقرار اور شہادت اور دونوں کے اجتماع سے یہ ثبوت اور بھی موکد ہوجاوے گا اور سزا یاب ہوں گے) اور ہم اسی طرح مجرم لوگوں میں سے ہر نبی کے دشمن بناتے رہتے ہیں (یعنی یہ لوگ جو انکار قرآن کرکے آپ کی مخالفت کر رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں جس کا غم کیا جاوے) اور (جس کو ہدایت دینا منظور ہو اس کی) ہدایت کرنے کو اور ( جو ہدایت سے محروم ہے اس کے مقابلہ میں آپ) کی مدد کرنے کو آپ کا رب کافی ہے۔
وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ٢٣- قدم - وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13]- ( ق د م ) القدم - عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13]- کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - هبا - هَبَا الغبار يَهْبُو : ثار وسطع، والهَبْوَة کا لغبرة، والهَبَاء : دقاق التّراب وما نبت في الهواء فلا يبدو إلّا في أثنا ضوء الشمس في الكوّة . قال تعالی: فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] ، فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة 6] .- ( ھ ب و ) ھبا ( ن ) الغبار کے معنی غبار کے اڑنے اور فضا میں پھیل جانے کے ہیں اور ھبرۃ ( بر وزن غبرۃ اور ھباء کے معنی غبار یا ان باریک ذرات کے ہیں جو کمرے کے اندر رو شندان سے دھوپ کی کر نیں اندرپڑتے سے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور ان کو ( اس طرح رائگاں کردیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة 6] تو ( پہاڑ ایسے ) ہوجائیں گے ( جیسے ذرے پڑے ہوئے اڑ رہے ہیں ۔- نثر - نَثْرُ الشیء : نشره وتفریقه . يقال : نَثَرْتُهُ فَانْتَثَرَ. قال تعالی: وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويسمَّى الدِّرْع إذا لُبِسَ نَثْرَةً ، ونَثَرَتِ الشاةُ : طَرَحَتْ من أنفها الأَذَى، والنَّثْرَة : ما يَسِيلُ من الأنف، وقد تسمَّى الأنفُ نَثْرَةً ، ومنه : النَّثْرَة لنجم يقال له أنْفُ الأسد، وطَعَنَهُ فَأَنْثَرَهُ : أَلْقَاه علی أنفه، والاسْتِنْثَارُ : جعل الماء في النَّثْرة .- ( ن ث ر ) نثر الشئیء کے معنی کسی چیز کو بکھیر نے اور پرا گندہ کردینے کے ہیں ۔ یہ نثر تہ ( ض ) کا مصدر ہے اور انتثر ( انفعال ) کے معنی بکھر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب تارے جھڑ پڑیں ۔ اور پہنی ہوئی زرہ کو نثرۃ کہا جاتا ہے ۔ نثرت الشاۃ بکری کا چھینک کر فضلہ باہر پھینکنا اور چھینک سے جو فضلہ ناک سے بہہ نکلتا ہے اسے بھی نثرۃ کہا جاتا ہے کبھی نثرۃ کا لفظ ناک پر بھی بولا جاتا ہے اسی سے نثرۃ ایک ستارہ کا نام ہے جسے انف الاسد کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ طعنہ فانتثر اسے نیزہ مارا تو وہ ناک کے بل گر پڑا ۔ الا ستنتا ر ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا ۔
(٢٣) اور ہم اس روز ان کے ان نیک کاموں کی طرف جو کہ وہ دنیا میں کرچکے تھے متوجہ ہوں گے تو آخرت میں ان کو ایسا بےکار کردیں گے جیسا کہ جانوروں کے قدموں سے دھول اڑتی ہے یا یہ کہ ایسا کردیں گے جیسا کہ کسی کمرہ میں سوراخ میں سے دھوپ کی روشنی جاتی ہے اور اس روشنی میں غبار کی سی ایک لکیر نظر آتی ہے پر اس کو کوئی ہاتھ میں نہیں لے سکتا اسی طرح ان کے اعمال کو ختم کردیں گے۔
آیت ٢٣ (وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا ) ” - یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمان حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہوگی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں ‘ یتیم خانے کھولے تھے ‘ ہسپتال بنائے تھے ‘ مسجدیں تعمیر کرائی تھیں ‘ مدارس کی سرپرستی کی تھی ‘ حج و عمرے کیے تھے ‘ مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر وثواب کو کہیں بھیّ مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیزگاری کا سکہّ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دنیوی مفاد کارفرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذات الصدورّ ہے ‘ اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چناچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمال صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کردیا جائے گا۔ - یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورة ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بےبضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍط لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ط ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ) ” مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ (ایسی ہے) کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند ‘ جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہوگی ان (اعمال) میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی “۔ پھر سورة ّ النور میں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءًط حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰٹہُ حِسَابَہٗط وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ” اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں ‘ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا ‘ البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا ‘ تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ “
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :37 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ ابراہیم ، حواشی 25 ۔ 26 ۔
8: جن اعمال کو انہوں نے نیکی سمجھ رکھا تھا، وہ آخرت میں گرد و غبار کی طرح بے حقیقت نظر آئیں گے۔ اور ان کے جو کام واقعی اچھے تھے، ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں دے دیا ہوگا، لیکن آخرت میں تمام نیکیوں کے قبول ہونے کے لیے ایمان لازمی شرط ہے، اس لیے وہاں یہ نیکیاں بھی کام نہیں آئیں گی۔