Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن حکیم مختلف اوقات میں کیوں اتارا کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے توریت ، انجیل ، زبور ، وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں پر نازل ہوتی رہیں ۔ یہ قرآن ایک ہی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیوں نہ ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں واقعی یہ متفرق طور پر اترا ہے ، بیس برس میں نازل ہوا ہے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی جو جو واقعات ہوتے رہے احکام نازل ہوتے گئے تاکہ مومنوں کا دل جما رہے ۔ ٹھہر ٹھہر کر احکام اتریں تاکہ ایک دم عمل مشکل نہ ہوپڑے ، وضاحت کے ساتھ بیان ہوجائے ۔ سمجھ میں آجائے ۔ تفسیر بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتی رہے ۔ ہم ان کے کل اعتراضات کا صحیح اور سچا جواب دیں گے جو ان کے بیان سے بھی زیادہ واضح ہوگا ۔ جو کمی یہ بیان کریں گے ہم ان کی تسلی کردیں گے ۔ صبح شام ، رات دن ۔ سفر حضر میں بار بار اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں کی ہدایت کے لئے ہمارا کلام ہمارے نبی کی پوری زندگی تک اترتا رہا ۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضلیت بھی ظاہر ہوتی رہی لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا مگر اس سے بہترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تبارک وتعالیٰ باربار خطاب کرتا کہ اس قرآن کی عظمت بھی آشکار ہوجائے اس لیے یہ اتنی لمبی مدت میں نازل ہوا ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں میں اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں میں بالا ۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ قرآن کو دونوں بزرگیاں ملیں یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملا اعلیٰ میں اترا ۔ لوح محفوظ سے پورے کا پورا دنیا کے آسمان تک پہنچا ۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سارا قرآن ایک دفعہ ہی لیلۃ القدر میں دنیا کے آسمان پر نازل ہوا پھر بیس سال تک زمین پر اترتا رہا ۔ پھر اس کے ثبوت میں آپ نے آیت ( وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا 33؀ۭ ) 25- الفرقان:33 ) اور آیت ( وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا ١٠٦؁ ) 17- الإسراء:106 ) تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کافروں کی جو درگت قیامت کے روز ہونے والی ہے اس کا بیان فرمایا کہ بدترین حالت اور قبیح تر ذلت میں ان کا حشر جہنم کی طرف ہوگا ۔ یہ اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے یہی برے ٹھکانے والے اور سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کافروں کا حشر منہ کے بل کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ جس نے انہیں پیر کے بل چلایا وہ سر کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔ 322اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو23سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا) 17 ۔ الاسراء :106) اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا ۔ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتا فوقتا نازل ہو نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] کفار کے اعتراض کے الفاظ تو یہی ہوتے تھے لیکن وہ ان الفاظ سے مطلب کچھ اور ہی لیتے تھے جو یہ تھا کہ یہ نبی جیسے جیسے حالات رخ اختیار کرتے ہیں ساتھ کے ساتھ یہ قرآن کو تصنیف کرتا جاتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو آنے والے حالات کا پہلے سے ہی علم ہے۔ اگر قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہوتا۔ تو اس میں ہر قسم کے حالات کے مطابق احکام یکبارگی بھی نازل ہوسکتے تھے۔ یہ اعتراض کرکے وہ گویا اللہ، اس کے رسول اور اس کے قرآن سب کی تکذیب اور ان پر افترا کرتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ۔۔ : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکروں کا پانچواں اعتراض ہے جو بالکل ہی بےکار ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ یہ تھوڑا تھوڑا کر کے جو آ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوچ سوچ کر اسے تصنیف کرلیتے ہیں اور یہ انسانی کلام ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ہاں، اسے ایسے ہی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ اعتراض بےکار اس لیے ہے کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے ساری کائنات مل کر بھی اس کی ایک سورت کی مثل نہیں بنا سکتی۔ اس سے پہلے قرآن کا جو حصہ نازل ہوا ہے اس کی مثل تو یہ لوگ لا نہیں سکے، اگر پورا قرآن اکٹھا نازل ہوجائے تو اس کی مثل کیسے پیش کریں گے۔ پھر ایسا مطالبہ کیوں ؟- 3 یہاں بھی اگر ” وَقَالُوْا “ (اور انھوں نے کہا) کہہ دیا جاتا تو کافی تھا، مگر ” وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ اس لیے فرمایا کہ ان لوگوں نے جو یہ بات کی ہے اس کی وجہ اس مطالبے کا معقول ہونا نہیں بلکہ اس کا باعث صرف اور صرف کفر ہے، جب کوئی شخص انکار پر تل ہی جائے تو وہ ایسی ہی بےتکی ہانکا کرتا ہے۔ - كَذٰلِكَ ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ : یعنی اس طرح تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں بہت سے عظیم فائدے ہیں : 1 ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح ہم آپ کے دل کو مضبوط اور قائم رکھتے ہیں، اس طرح کہ جب مشکلات کا ہجوم ہوتا ہے، کفار کوئی اعتراض کرتے ہیں، یا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہم وحی کے ذریعے سے اس کا حل بتا دیتے ہیں، اس طرح بار بار وحی کا نزول ہوتا ہے، جبریل (علیہ السلام) بار بار آپ کے پاس آتے ہیں، تو اس احساس سے آپ کی ڈھارس بندھ جاتی ہے، حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور دل مضبوط ہوجاتا ہے کہ مالک ہمارے حال سے غافل نہیں، مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ساتھ رہنمائی فرما رہا ہے اور اپنے سب سے مقرب فرشتے کو ہمارے پاس بھیج رہا ہے۔ اگر جبریل (علیہ السلام) ایک ہی دفعہ پورا قرآن لا کر فارغ ہوجاتے تو بار بار پیش آنے والی مشکلات میں دل کو حوصلہ کیسے ملتا اور اسے وہ لذت و قوت کیسے حاصل ہوتی جو اس احساس سے حاصل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قاصد اس کی طرف سے اس کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ؂- وداع و وصل جدا گانہ لذتے دارد - ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا - ” وداع و وصل الگ الگ لذت رکھتے ہیں، تو ہزار بار جا اور سو ہزار بار آ۔ “- 2 ایک وقت میں چند آیات اترنے سے ان کا سمجھنا آسان ہوتا تھا، موقع کی مناسبت سے ان کا مفہوم زیادہ متعین اور واضح ہوجاتا تھا، یہ امکان ختم ہوجاتا تھا کہ ہر شخص محض لفظوں کو لے کر ان کا جو مفہوم چاہے نکالتا پھرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے عمل میں آ کر ان آیات کی عملی تصویر بھی سامنے آجاتی تھی۔ ساری کتاب اکٹھی اترنے میں یہ بات نہ تھی۔ 3 اس طرح قرآن مجید اترنے میں احکام تدریج کے ساتھ اترے، جس سے امت کے لیے تخفیف ہوئی، اگر ایک ہی وقت میں چوری، ڈاکے، قتل، شراب، بہتان، زنا، غرض ہر گناہ کی حد بیان کردی جاتی تو اس پر عمل نہایت مشکل ہوتا۔ 4 مصلحت وقت کے لحاظ سے کئی احکام کچھ مدت تک کے لیے تھے، اس کے بعد انھیں منسوخ ہونا تھا، لہٰذا پوری کتاب نازل ہونے کی صورت میں یہ ممکن نہ تھا۔ 5 لوگوں کے سوالات کے حل اور کفار کے اعتراضات کے جواب کے لیے بار بار آیات کے نزول سے جو تسلی و تشفی ہوتی تھی وہ بیک وقت قرآن نازل ہونے سے کبھی نہ ہوسکتی تھی۔ 6 اہل عرب اُمّی لوگ تھے، جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، ان کے لیے چند آیات کو حفظ کرنا آسان تھا، جو ہر موقع پر اترتیں۔ پورا قرآن اترنے میں یہ بات نہ تھی۔ اس طرح قرآن سینوں میں محفوظ ہوگیا، کاغذ کا محتاج نہ رہا۔ لکھی ہوئی پوری کتاب مسلسل یاد کرنے میں سستی ہوسکتی تھی، جس سے صرف لکھی ہوئی کتاب پر انحصار ہوجاتا، نتیجتاً قرآن بھی پہلی کتابوں کی طرح غیر محفوظ ہوجاتا۔ 7 چند آیات اترنے سے قرآن کا معجز اور بےمثال کتاب ثابت ہونا زیادہ واضح ہوتا تھا، جب بھی چند آیات اترتیں تو کفار کا ان کے جواب سے قاصر رہنا نمایاں ہوتا۔ اگر پورا قرآن ایک وقت میں اترتا تو اس کا اعجاز اتنا نمایاں نہ ہوتا۔ 8 دوسرے مقام پر فرمایا : (وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا) [ بني إسرائیل : ١٠٦ ] ” اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کر کے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔ “ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے، بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ تبھی ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش ہوجائے۔ ایک مثال اس کی یہ ہے کہ کوئی استاد اپنے شاگرد کو ایک ہی دن میں ساری کتاب پڑھ کر سنا دے۔- وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا :” تَرْتِيْلًا “ کا اصل ” تَرْتِیْلُ الْأَسْنَانِ “ سے ہے، ” دانتوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہونا “ جیسے بابونہ کے پھول کی پتیاں ہوں، ایسے دانتوں کو ” ثَغْرٌ مُرتَّلٌ“ کہتے ہیں۔ یعنی اسی طرح قرآن ٹھہر ٹھہر کر تیئیس (٢٣) برس میں نازل ہوا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ (پیغمبر) پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا ( مقصود اس اعتراض سے یہ ہے کہ اگر خدا کا کلام ہوتا تو بتدریج نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس بتدریج نازل کرنے سے تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی سوچ سوچ کر تھوڑا تھوڑا بنالیتے ہیں آگے اس اعتراض کا جواب ہے کہ) اس طرح (تدریجاً ) اس لئے ( ہم نے نازل کیا) ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے آپ کے دل کو قوی رکھیں اور (اسی لئے) ہم نے اس کو بہت ٹھہرا ٹھہرا کر اتارا ہے (چنانچہ تیئس سال کے عرصہ میں آہستہ آہستہ پورا ہوا)- معارف و مسائل - یہ وہی سلسلہ کفار و مشرکین کے اعتراضات و جوابات کا ہے جو شروع سورة سے چلا آرہا ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی حکمت یہاں یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کے ذریعہ آپ کے دل کو قوی رکھنا مقصود ہے۔ نزول تدریجی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقویت قلب کی چند وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ یاد رکھنا آسان ہوگیا، ایک ضخیم کتاب بیک وقت نازل ہوجاتی تو یہ آسانی نہ رہتی اور آسانی کے ساتھ یاد ہوتے رہنے سے دل میں کوئی پریشانی نہیں رہتی۔ دوسرے جب کفار آپ پر کوئی اعتراض یا آپ کے ساتھ کوئی ناگوار معاملہ کرتے تو اسی وقت آپ کی تسلی کے لئے قرآن میں آیت نازل ہوجاتی اور اگر پورا قرآن ایک دفعہ آگیا ہوتا اور اس خاص واقعہ پر تسلی کا ذکر بھی نازل ہوگیا ہوتا تو بہر حال اس کو قرآن میں تلاش کرنے کی ضرورت پڑتی اور ذہن کا اس طرف متوجہ ہوجانا بھی عادة ضروری نہیں تھا۔ تیسرے پیغام خداوندی آنا تازہ شہادت ہے معیت خداوندی کی جو مدار اعظم ہے قوت قلب کا۔ اور اس جگہ جو حکمت تقویت قلب کی بتلائی گئی ہے نزول تدریجی کی حکمت اس میں منحصر نہیں دوسری حکمتیں بھی ہیں جن میں سے بعض سورة بنی اسرائیل کی آیت وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ میں پہلے آچکی ہے۔ (بیان القران)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً۝ ٠ كَذٰلِكَ ۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِيْلًا۝ ٣٢- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- جملة- أجمل، واعتبر منه معنی الکثرة، فقیل لكلّ جماعة غير منفصلة : جُمْلَة، ومنه قيل للحساب الذي لم يفصّل والکلام الذي لم يبيّن : مُجْمَل، وقد أجملت الحساب، وأجملت في الکلام . قال تعالی: وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً واحِدَةً [ الفرقان 32] ، أي : مجتمعا لا کما أنزل نجوما مفترقة . وقول الفقهاء : المُجْمَل : ما يحتاج إلى بيان، فلیس بحدّ له ولا تفسیر، وإنما هو ذکر بعض أحوال الناس معه، والشیء يجب أن تبيّن صفته في نفسه التي بها يتمیز، وحقیقة المجمل : هو المشتمل علی جملة أشياء کثيرة غير ملخّصة .- ۔ اجملت فے کذا کسی کام کو عمدگی سے سر انجام دینا اعتدال اختیار کرنا جمالک یعی اعتدال سے کام لو ۔ پھر اس سے کثرت کے معنی کا اعتبار کرکے ہر مجموعہ اشیاء کو جملہ کہتے ہیں اسی سے مجموعی حساب کو بھی جس کی تفصیل نہ کی گئی ہو جملۃ کہا جاتا ہے اور جس کلام کی تفصیل بیان نہ کی گئی ہو اسے مجمل کہا جاتا ہے اور اجملت الحساب واجملت فی الکلام کے معنی حساب یا کلام کو اجمال سے بیان کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً واحِدَةً [ الفرقان 32] اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا ۔ اور فقہاء نے مجمل کی تعریف میں جو یہ کہا ہے کہ المجمل ما یحتاج الی بیان کہ مجمل وہ ہوتا ہے جو بیان کا محتاج ہو تو یہ مجمل کی تحدید یا تفسیر نہیں ہے بلکہ صرف اس کی ایک حالت کا ذکر ہے جو بعض لوگوں کو پیش آتی ہے اور شے کی تحدید میں اس کے کسی ایسے ذاتی وصف کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے وہ ممتاز ہوجائے اور مجمل در حقیقت وہ ہے جو بہت سی اشیاء کے ایسے مجموعہ پر مشتمل ہو جن کی تلخیص نہ کی گئی ہو - ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔- رتل - الرَّتَلُ : اتّساق الشیء وانتظامه علی استقامة، يقال : رجل رَتَلُ الأسنان، والتَّرْتِيلُ : إرسال الکلمة من الفم بسهولة واستقامة . قال تعالی: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا[ المزمل 4] ، وَرَتَّلْناهُ تَرْتِيلًا[ الفرقان 32] .- ( ر ت ل ) الرتل کسی چیز کا حسن تناسب کے ساتھ منتظم اور مرتب ہونا رجل رَتَلُ الأسنان ۔ آدمی جس کے دانت آبدار اور حسن ترتیب کے ساتھ ہوں اور ترتیل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا[ المزمل 4] اور تم قرآن کو خوب حسن ترتیب سے پڑھا کرو ۔ وَرَتَّلْناهُ تَرْتِيلًا[ الفرقان 32] اور ہم نے اسے نہایت عمدہ ترتیب اور تناسب کے ساتھ اتارا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢) اور ابوجہل اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ جیسا کہ توریت موسیٰ (علیہ السلام) اور زبور داؤد (علیہ السلام) پر اور انجیل عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایک ہی دفعہ نازل کی گئی ہے اسی طرح یہ قرآن کریم ایک ہی بار کیوں نازل نہیں کیا گیا اسی طرح بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) تدریجا اس لیے نازل کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے ہم آپ کے دل کو قوی رکھیں اور آپ کے دل میں اس کو محفوظ کردیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وقال الذین کفروا لوانزل “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور حاکم (رح) نے تصحیح کے ساتھ اور ضیاء نے مختارہ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مشرکین کہنے لگے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعوے کے مطابق نبی ہیں تو ان کا پروردگار ان کو عذاب نہیں دے گا باقی قرآن کریم ان پر ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہوتا، ایک ایک اور دو دو آیتیں کر کے کیوں نازل ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پر یہ قرآن دفعتا کیوں نازل نہیں کیا گیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً ج) ” - قریش مکہّ کا قرآن پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر واقعی یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر اکٹھا ایک ساتھ ہی نازل کیوں نہیں ہوجاتا ؟ جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پوری کی پوری تورات تختیوں پر لکھی ہوئی ایک ہی دفعہ دے دی گئی تھی۔ قرآن کو تھوڑا تھوڑا پیش کرنے سے مشرکین کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک شاعر کا گمان ہوتا تھا ‘ کیونکہ شاعر لوگ بھی ایک دم سے اپنا پورا کلام پیش نہیں کرسکتے۔ وہ ایک ایک دو دو غزلیں یا نظمیں لکھتے رہتے ہیں اور مدت کے بعد جا کر کہیں ان کے دیوان مکمل ہوتے ہیں۔- (کَذٰلِکَج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ ) ” - اس کو ہم اچھی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن نشین کرتے رہیں اور اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل پوری طرح ٹھک جائے۔- (وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ) ” - قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو ہر موقع محل کے مطابق بر وقت راہنمائی ملتی رہے۔ اس کے علاوہ اس میں اہل ایمان کے لیے تسلی اور تسکین کا پہلو بھی تھا کہ اللہ ہمارے حالات کو دیکھ رہا ہے۔ مشکل حالات میں سابقہ قوموں کے حالات پڑھ کر ان کے دلوں کو سہارا ملتا تھا کہ جس طرح اللہ نے حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح ( ) کے ساتھیوں کی مدد کی تھی اور ان کے دشمنوں کو ملیا میٹ کردیا تھا اسی طرح وہ ہمیں بھی کامیاب کرے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :44 یہ کفار مکہ کا بڑا دل پسند اعتراض تھا جسے وہ اپنے نزدیک نہایت زور دار اعتراض سمجھ کر بار بار دہراتے تھے ، اور قرآن میں بھی اس کو متعدد مقامات پر نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ( تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل حواشی 101 تا 106 بنی اسرائیل ، حاشیہ 119 ) ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ شخص خود سوچ سوچ کر ، یا کسی سے پوچھ پوچھ کر اور کتابوں میں سے نقل کر کر کے یہ مضامین نہیں لا رہا ہے ، بلکہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے تو پوری کتاب اکٹھی ایک وقت میں کیوں نہیں آ جاتی ۔ خدا تو جانتا ہے کہ پوری بات کیا ہے جو وہ فرمانا چاہتا ہے ۔ وہ نازل کرنے والا ہوتا تو سب کچھ بیک وقت فرما دیتا ۔ یہ جو سوچ سوچ کر کبھی کچھ مضمون لایا جاتا ہے اور کبھی کچھ ، یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ وحی اوپر سے نہیں آتی ، یہیں کہیں سے حاصل کی جاتی ہے ، یا خود گھڑ گھڑ کر لائی جاتی ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :45 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارا دل مضبوط کرتے رہیں یا تمہاری ہمت بندھاتے رہیں ۔ الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں اور دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ اس طرح ایک ہی فقرے میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی بہت سی حکمتیں بیان کر دی گئی ہیں : 1: وہ لفظ بلفظ حافظہ میں محفوظ ہو سکے ، کیونکہ اس کی تبلیغ و اشاعت تحریری صورت میں نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ نبی کے ذریعہ سے ان پڑھ قوم میں زبانی تقریر کی شکل میں ہو رہی ہے ۔ 2 : اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکیں ۔ اس کے لیے ٹھہر ٹھہر کر تھوڑی تھوڑی بات کہنا اور ایک ہی بات کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے بیان کرنا زیادہ مفید ہے ۔ 3: اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پر دل جمتا جائے ۔ اس کے لیے احکام و ہدایات کا بتدریج نازل کرنا زیادہ مبنی بر حکمت ہے ، ورنہ اگر سارا قانون اور پورا نظام حیات بیک وقت بیان کر کے اس قائم کرنے کا حکم دے دیا جائے تو ہوش پراگندہ ہو جائیں ۔ علاوہ بریں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حکم اگر مناسب موقع پر دیا جائے تو اس کی حکمت اور روح زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ تمام احکام دفعہ وار مرتب کر کے بیک وقت دے دیے گئے ہوں ۔ 4: تحریک اسلامی کے دوران میں جبکہ حق اور باطل کی مسلسل کشمکش چل رہی ہو ، نبی اور اس کے پیروؤں کی ہمت بندھائی جاتی رہے اس کے لیے خدا کی طرف سے بار بار ، وقتاً فوقتاً ، موقع بموقع پیغام آنا زیادہ کار گر ہے بہ نسبت اس کے کہ بس ایک دفعہ ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ دے کر عمر بھر کے لیے دنیا بھر کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کو یونہی چھوڑ دیا جائے ۔ پہلی صورت میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ جس خدا نے اس کام پر مامور کیا ہے ، وہ اس کی طرف متوجہ ہے ، اس کے کام سے دلچسپی لے رہا ہے ، اس کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے ، اس کی مشکلات میں رہنمائی کر رہا ہے ، اور ہر ضرورت کے موقع پر اسے شرف باریابی و مخاطبت عطا فرما کر اس کے ساتھ اپنے تعلق کا تازہ کرتا رہتا ہے ۔ یہ چیز حوصلہ بڑھانے والی اور عزم کو مضبوط رکھنے والی ہے دوسری صورت میں آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وہ ہے اور طوفان کی موجیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: یعنی قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کی طرف سے جو نت نئی تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں، ہم کوئی نئی آیت نازل کر کے آپ کو تسلی دے دیتے ہیں۔