Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کردیں گے اور یوں انھیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] کفار نے یہ اعتراض متعدد بار کیا اور مختلف مقامات پر قرآن نے اس اعراض کا جواب دیا ہے۔ اس مقام پر قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے تین فوائد بتلائے گئے ہیں۔- ١۔ نبی کی دعوت پر جو معرکہ حق و باطل بپا ہوتا ہے اور جس طرح باطل ہجوم کرکے حق پر ایک دم ٹوٹ پڑتا ہے تو یہ معرکہ کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں ہوتا بلکہ نبی کی پوری زندگی کو محیط ہوتا ہے۔ اور جب بھی حالات مسلمانوں کے لئے حوصلہ شکن ہوتے ہیں تو انھیں تسلی دینے اور ان کی ڈھارس بندھانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور ایک ہی دفعہ حوصلہ افزائی خواہ کتنی ہی کی جائے۔ وہ فائدہ نہیں دے سکتی۔ جو فائدہ ساتھ کے ساتھ اور بارہا حوصلہ افزائی کا ہوتا ہے۔- ٢۔ قرآن کو حفظ کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی پوری طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرنا اسی صورت میں ممکن تھا کہ قرآن کریم بتدریج نازل ہوتا۔ قرآن کو بتدریج نازل کرنے سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ہر ایمان لانے والے کو یہ معلوم ہے کہ فلاں آیت یا فلاں سورت کا شان نزول کیا تھا اور کس طرح کے پس منظر میں یہ نازل ہوئی تھی۔ نیز اگر کوئی شخص قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی مفہوم کو غلط معنی پہناتا تو قرآن ساتھ کے ساتھ نازل ہو کر اس مفہوم کی تردید کرکے صحیح تعبیر پیش کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں معاشرہ سے برائیوں مثلاً شراب نوشی، لوٹ مار، قتل و غارت، بےحیائی، زنا اور سود کے استیصال کے لئے سب احکام ایک دفعہ نازل کئے جاتے تو ان پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل ہوجاتا اور لوگ سرے سے نبی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے سے دستبردار ہوجاتے۔- ٣۔ اور تیسرا فائدہ جو اگلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ کافر جس قسم کے آپ پر اعتراضات کرتے ہیں یا آپ سے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ ہم ساتھ کے ساتھ ان اعتراضات کے واضح اور مدلل جوابات دیتے جاتے ہیں۔ اب یہ کیا تک ہے کہ اعتراضات تو بعد میں ہوں اور ان کے جوابات پہلے ہی یکبارگی نازل کردیئے جائیں۔ اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ لوگ ان جوابات پر کئی طرح کے اعتراضا کرنا شروع کردیتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ ۔۔ : ” مَثَلٌ“ کا معنی کسی چیز کے مشابہ چیز بھی ہے، ضرب المثل یا کہاوت بھی اور کسی چیز کی صفت بھی، جیسے فرمایا : (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ) [ الرعد : ٣٥ ] ” اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ “ (راغب) سورت کے شروع سے اللہ تعالیٰ نے کفار کے پانچ اعتراض ذکر فرمائے ہیں اور سب کا دندان شکن جواب دیا ہے، آخر میں خلاصے کے طور پر فرمایا کہ ان لوگوں نے جو شکوک و شبہات اور طعن و اعتراض پیش کیے ہیں، یا قیامت تک پیش کریں گے ہم نے سب کا ایسا جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے جو سراسر حق ہے اور نہایت واضح ہے، ان کے اقوال کی طرح باطل یا غیر واضح نہیں ہے۔ ” مَثَلٌ“ سے مراد ان کے وہ سوالات، مطالبات اور اعتراضات ہیں جو انھوں نے آپ پر پیش کیے تھے اور ” اَلْحَقُّ “ سے مراد شبہ کا ازالہ اور سوال کا جواب ہے۔ (شوکانی) دیکھیے ان کا پہلا اعتراض تھا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ) [ الفرقان : ٤ ] اسی کے ضمن میں تھا : (ڔوَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) [ الفرقان : ٥ ] دوسرا اعتراض تھا : (وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا ۝ اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ) [ الفرقان : ٧، ٨ ] تیسرا اعتراض تھا : (وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا ۝ اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ) [ الفرقان : ٨ ] چوتھا اعتراض تھا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ) [ الفرقان : ٢١ ] اور پانچواں اعتراض تھا : وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ) [ الفرقان : ٣٢ ] ان اعتراضات کو امثال کہنے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تیسرا اعتراض ” وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا “ بیان کرنے کے بعد فرمایا : (اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا) [ الفرقان : ٩ ] ” دیکھ انھوں نے تیرے لیے کیسی مثالیں بیان کیں، سو گمراہ ہوگئے، پس وہ کوئی راستہ نہیں پاسکتے۔ “ (ابن عاشور)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور یہ لوگ کیسا ہی عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کریں مگر ہم (اس کا) ٹھیک جواب اور وضاحت میں بڑھا ہوا آپ کو عنایت کردیتے ہیں (تاکہ آپ مخالفین کو جواب دے سکیں۔ یہ بظاہر بیان اس تقویت قلب کا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا ہے کہ بتدریج نازل کرنے میں ایک حکمت آپ کی دلجمی اور تقویت قلب ہے کہ جب کفار کی طرف سے کوئی اعتراض آئے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب نازل کردیا جائے) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جاویں گے ( یعنی گھسیٹ کر) یہ لوگ جگہ میں بھی بدتر ہیں اور طریقہ میں بھی بہت گمراہ ہیں۔ (یہاں تک انکار رسالت پر وعید اور قرآن پر اعتراضات کے جواب تھے، آگے اس کی تائید میں زمانہ ماضی کے بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں جن میں منکرین رسالت کا انجام اور عبرت انگیز حالات مذکور ہیں اور اس میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی اور تقویت قلب کا سامان ہے کہ پچھلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ نے جس طرح مدد فرمائی اور دشمنوں پر غالب فرمایا وہ آپ کے لئے بھی ہونے والا ہے اس میں پہلا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا کہ) اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب (یعنی تورات) دی تھی اور (اس کتاب ملنے سے پہلے) ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو (ان کا) معین (و مددگار) بنایا تھا پھر ہم نے (دونوں کو) حکم دیا کہ دونوں آدمی ان لوگوں کے پاس (ہدایت کرنے کے لئے) جاؤ جنہوں نے ہماری (توحید کی) دلیلوں کو جھٹلایا ہے (مراد اس سے فرعون اور اس کی قوم ہے چناچہ یہ دونوں حضرات وہاں پہنچے اور سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا) سو ہم نے ان کو (اپنے قہر سے) بالکل ہی غارت کردیا ( یعنی دریا میں غرق کئے گئے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا۝ ٣٣ۭ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - فسر - [ الفَسْرُ : إظهار المعنی المعقول، ومنه قيل لما ينبئ عنه البول : تَفْسِرَةٌ ، وسمّي بها قارورة الماء ] «2» والتَّفْسِيرُ في المبالغة کالفسر، والتَّفْسِيرُ قد يقال فيما يختصّ بمفردات الألفاظ وغریبها، وفیما يختصّ بالتأويل، ولهذا يقال : تَفْسِيرُ الرّؤيا وتأويلها . قال تعالی: وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً [ الفرقان 33] .- الفسر ( ض ن ) کے معنی کسی چیز کی معنوی صفت کو ظاہر کرنے کے ہیں اسی سے تفسرۃ ہے جس کے معنی قارون کی تشخیص کے ہیں اور مجازا قارون ( پیشاب کی بوتل ) کو تفسرہ کہدیتے ہیں ۔ التفسیر بھی الفسر کے ہم معنی ہے مگر اس میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں اور ( عرف میں ) تفسیر کا لفظ کبھی تو مفرد اور گریب الفاظ کی تشریح اور وضاحت پر بولا جاتا ہے اور کبھی خاص کر تادیل کے معنی میں استعملا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تادیل الر د یا ( خواب کی تعبیر ) کی بجائے تفسیر الرویا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً [ الفرقان 33] اور خوب مشرح میں بھی تفسیر بمعنی تادیل استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) اور اسی لیے ہم نے اس کو بہت ٹھہر اٹھہرا کر ایک ایک آیت کرکے نازل کیا ہے اور اوامرو نواہی اس میں صاف طور پر بیان کیے ہیں اور یہ لوگ آپ کے سامنے کیسا بھی عجیب سوال پیش کریں مگر ہم اس کا ٹھیک اور ٹھوس اور وضاحت کے ساتھ جواب آپ کو عنایت کردیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ) ” - قرآن حکیم کو جزءً ا جزءً ا نازل کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ جب کبھی بھی مخالفین اور معترضین کی طرف سے کوئی اعتراض یا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وحی کے ذریعے اس کا مبنی برحق اور مفصل جواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادیا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :46 یہ نزول قرآن میں تدریج کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک اور حکمت ہے ۔ قرآن مجید کی شان نزول یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کرنا چاہتا ہے اور اس کی اشاعت کے لیے اس نے نبی کو ایجنٹ بنایا ہے ۔ بات اگر یہی ہوتی تو یہ مطالبہ بجا ہوتا کہ پوری کتاب تصنیف کر کے بیک وقت ایجنٹ کے حوالے کر دی جائے ۔ لیکن دراصل اس کی شان نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر اور جاہلیت اور فسق کے مقابلہ میں ایمان و اسلام اور اطاعت و تقویٰ کی ایک تحریک برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے ایک نبی کو داعی و قائد بنا کر اٹھایا ہے ۔ اس تحریک کے دوران میں اگر ایک طرف قائد اور اس کے پیروؤں کو حسب ضرورت تعلیم اور ہدایت دینا اس نے اپنے ذمہ لیا ہے تو دوسری طرف یہ کام بھی اپنے ہی ذمہ رکھا ہے کہ مخالفین جب کبھی کوئی اعتراض یا شبہہ یا الجھن پیش کریں اسے وہ صاف کر دے ۔ اور جب بھی وہ کسی بات کو غلط معنی پہنائیں وہ اس کی صحیح تشریح و تفسیر کر دے ۔ ان مختلف ضروریات کے لیے جو تقریریں اللہ کی طرف سے نازل ہو رہی ہیں ان کے مجموعے کا نام قرآن ہے ، اور یہ ایک کتاب آئین یا کتاب اخلاق و فلسفہ نہیں بلکہ کتاب تحریک ہے جس کے معرض وجود میں آنے کی صحیح فطری صورت یہی ہے کہ تحریک کے اول لمحہ آغاز کے ساتھ شروع ہو اور آخری لمحات تک جیسے جیسے تحریک چلتی رہے یہ بھی ساتھ ساتھ حسب موقع و ضرورت نازل ہوتی رہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، صفحہ 13 تا 25 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: یہ قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنے کا دوسرا فائدہ ہے کہ جب کوئی نیا اعتراض کافروں کی طرف سے آتا ہے تو قرآن کریم کی کسی نئی آیت کے ذریعے اس کا واضح جواب فراہم کردیا جاتا ہے۔