[٤٥] یعنی کافروں کے اس قسم کے اعتراضات کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں اوندھی ہوچکی ہیں۔ جو سیدھی سادی باتوں پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتیں لہذا ہم قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم کی طرف چلا کرلے جائیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : یانبی اللہ قیامت کے دن کافر اپنے منہ کے بل حشر کئے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : جس پروردگار نے انسان کو دو پاؤں پر چلایا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل نہیں چلا سکتا ( بخاری۔ کتاب التفسیر (
اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ ۔۔ : اس آیت کو پچھلی آیات کے ساتھ ملائیں تو ان الفاظ کا تقاضا ہے کہ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے، جو یہ ہے کہ ” نبی اور قرآن پر اعتراض کرنے والے یہ لوگ اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے “ اور وہ لوگ جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے وہی ٹھکانے میں نہایت برے اور راستے کے اعتبار سے بہت زیادہ گمراہ ہیں۔- اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِيْلًا : ” شَرٌّ“ اصل میں ” أَشَرُّ “ ہے، جیسے ” خَیْرٌ“ اصل میں ” أَخْیَرُ “ ہے، دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، ” اَضَلُّ “ بھی اسم تفضیل ہے، مگر یہاں تفضیل مراد نہیں، نہ یہ معنی ہے کہ یہ لوگ اہل جنت سے زیادہ برے ہیں۔ یہاں ” شر “ اور ” اضل “ کا لفظ کسی کے مقابلے میں زیادہ برے یا زیادہ گمراہ کے معنی میں نہیں بلکہ صرف مبالغے کے لیے ہے، یعنی نہایت برے اور بہت زیادہ گمراہ ہیں، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” وہی ٹھکانے میں نہایت برے اور راستے کے اعتبار سے بہت زیادہ گمراہ ہیں۔ “ ٹھکانے سے مراد جہنم ہے اور راستے سے مراد کفر و شرک کا راستہ ہے، جو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ چند آیات پہلے اہل جنت کا وصف بیان ہوا ہے : (اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا ) [ الفرقان : ٢٤ ] اس کے مقابلے میں یہاں اہل جہنم کا وصف ” شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِيْلًا “ بیان ہوا ہے۔- اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ۔۔ : دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٧) اور طٰہٰ (١٢٥) چہروں کے بل اکٹھے کیے جانے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ انھیں چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے میدان محشر کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ جہنم میں بھی ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا، فرمایا : (يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ) [ القمر : ٤٨ ] ” جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں پر گھسیٹے جائیں گے، چکھو آگ کا چھونا۔ “ اور فرمایا : (وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ) [ النمل : ٩٠ ] ” اور جو برائی لے کر آئے گا تو ان کے چہرے آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔ “ دوسری تفسیر وہ ہے جو انس (رض) نے روایت فرمائی ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ کافر کو قیامت کے دن چہرے کے بل اکٹھا کیا جائے گا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلَیْسَ الَّذِيْ أَمْشَاہُ عَلَی الرِّجْلَیْنِ فِي الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ یُّمْشِیَہُ عَلٰی وَجْھِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ؟ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( الذین یحشرون علی۔۔ ) : ٤٧٦٠ ] ” کیا جس نے اسے ٹانگوں پر چلایا ہے وہ اس پر قادر نہیں کہ اسے قیامت کے دن اس کے چہرے پر چلائے ؟ “ اکثر مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے۔
اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ اِلٰى جَہَنَّمَ ٠ۙ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِيْلًا ٣٤ۧ- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] - ( ش ر ر ) الشر - وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں - «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
(٣٤) یہ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اپنے مونہوں کے بل دوزخ میں ڈالے جائیں گے یہ لوگ آخرت میں جگہ کے اعتبار سے اور دنیا میں عمل کے اعتبار سے بھی بدتر اور حق وہدایت کے راستہ سے گمراہ ہیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :47 یعنی جو لوگ سیدھی بات کو الٹی طرح سوچتے ہیں اور الٹے نتائج نکالتے ہیں ان کی عقل اوندھی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ قرآن کی حقانیت پر دلالت کرنے والی حقیقتوں کو اس کے بطلان پر دلیل قرار دے رہے ہیں ، اور اسی وجہ سے وہ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے ۔