Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انبیاء سے دشمنی کا خمیازہ اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور آپ کے مخالفین کو اپنے عذابوں سے ڈرا رہا ہے کہ تم سے پہلے کے جن لوگوں نے میرے نبیوں کی نہ مانی ، ان سے دشمنی کی ان کی مخالفت کی میں نے انہیں تہس نہس کردیا ۔ فرعونیوں کا حال تم سن چکے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا لیکن انہوں نے نہ مانا جس کے باعث اللہ کا عذاب آ گیا اور سب ہلاک کر دیئے گئے ۔ قوم نوح کو دیکھو انہوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور چونکہ ایک رسول کا جھٹلانا تمام نبیوں کو جھٹلانا ہے اس واسطے یہاں رسل جمع کر کے کہا گیا ۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر بالفرض ان کی طرف تمام رسول بھی بھیجے جاتے تو بھی یہ سب کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو نوح علیہ السلام نبی کے ساتھ کیا ۔ یہ مطلب نہیں کہ انکی طرف بہت سے رسول بھیجے گئے تھے بلکہ ان کے پاس تو صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی آئے تھے جو ساڑھے نو سو سال تک ان میں رہے ہر طرح انہیں سمجھایا بجھایا لیکن سوائے معدودے چند کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ اس لئے اللہ نے سب کو غرق کر دیا ۔ سوائے ان کے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے ایک بنی آدم روئے زمین پر نہ بچا ۔ لوگوں کے لئے انکی ہلاکت باعث عبرت بنادی گئی ۔ جیسے فرمان ہے کہ پانی کی ظغیانی کے وقت ہم نے تمہیں کشی میں سوار کرلیا تاکہ تم اسے اپنے لئے باعث عبرت بناؤ اور کشتی کو ہم نے تمہارے لیے اس طوفان سے نجات پانے اور لمبے لمبے سفر طے کرنے کا ذریعہ بنادیا تاکہ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے عالمگیر طوفان سے تمہیں بچالیا اور ایماندار اور ایمان داروں کی اولاد میں رکھا ۔ عادیوں اور ثمودیوں کا قصہ تو بارہا بیان ہوچکا ہے جیسے کہ سورۃ اعراف وغیرہ میں اصحاب الرس کی بابت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ یہ ثمودیوں کی ایک بستی والے تھے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ خلیج والے تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آذر بائی جان کے ایک کنویں کے پاس ان کی بستی تھی ۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ان کو کنویں والے اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔ ابن اسحاق رحمۃاللہ علیہ محمد بن کعب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سیاہ فام غلام سب سے اول جنت میں جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں کی طرف اپنا نبی بھیجا تھا لیکن ان بستی والوں میں سے بجز اس کے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ انہوں نے اللہ کے نبی کو ایک غیر آباد کنویں میں ویران میدان میں ڈالدیا اور اس کے منہ پر ایک بڑی بھاری چٹان رکھ دی کہ یہ وہیں مرجائیں ۔ یہ غلام جنگل میں جاتا لکڑیاں کاٹ کر لاتا انہیں بازار میں فروخت کرتا اور روٹی وغیرہ خرید کر کنویں پر آتا اس پتھر کو سرکا دیتا ۔ یہ ایک رسی میں لٹکا کر روٹی اور پانی اس پیغمبر علیہ السلام کے پاس پہنچا دیتا جسے وہ کھاپی لیتے ۔ مدتوں تک یونہی ہوتا رہا ۔ ایک مرتبہ یہ گیا لکڑیاں کاٹیں ، چنیں ، جمع کیں ، گھٹری باندھی ، اتنے میں نیند کا غلبہ ہوا ، سوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نیند ڈال دی ۔ سات سال تک وہ سوتا رہا ۔ سات سال کے بعد آنکھ کھلی ، انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر پھر سورہا ۔ سات سال کے بعد پھر آنکھ کھلی تو اس نے لکڑیوں کی گھٹڑی اٹھائی اور شہر کی طرف چلا ۔ اسے یہی خیال تھا کہ ذرا سی دیر کے لئے سوگیا تھا ۔ شہر میں آکر لکڑیاں فروخت کیں ۔ حسب عادت کھانا خریدا اور وہیں پہنچا ۔ دیکھتا ہے کہ کنواں تو وہاں ہے ہی نہیں بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملا ۔ درحقیقت اس عرصہ میں یہ ہوا تھا کہ قوم کے دل ایمان کی طرف راغب ہوئے ، انہوں نے جاکر اپنے نبی کو کنویں سے نکالا ۔ سب کے سب ایمان لائے پھر نبی فوت ہوگئے ۔ نبی علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں اس غلام کو تلاش کرتے رہے لیکن اس کا پتہ نہ چلا ۔ پھر اس شخص کو نبی کے انتقال کے بعد اس کی نیند سے جگایا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس یہ حبشی غلام ہے جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا ۔ یہ روایت مرسل ہے اور اس میں غرابت ونکارت ہے اور شاید ادراج بھی ہے واللہ اعلم ۔ اس روایت کو ان اصحاب رس پر چسپاں بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہاں مذکور ہے کہ انہین ہلاک کیا گیا ۔ ہاں یہ ایک توجیہہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ تو ہلاک کردئیے گئے پھر ان کی نسلیں ٹھیک ہوگئیں اور انہیں ایمان کی توفیق ملی ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ اصحاب رس وہی ہے جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہے جنہوں نے خندقیں کھدائی تھیں ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اور بھی ان کے درمیان بہت سی امتیں آئیں جو ہلاک کردی گئیں ۔ ہم نے ان سب کے سامنے اپنا کلام بیان کردیا تھا ۔ دلیلیں پیش کردی تھیں ۔ معجزے دکھائے تھے ، عذر ختم کردئے تھے پھر سب کو غارت اور برباد کردیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد کی بھی بہت سی بستیاں ہم نے غارت کردیں ۔ قرن کہتے ہیں امت کو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ان کے بعد ہم نے بہت سی قرن یعنی امتیں پیدا کیں ۔ قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے کوئی کہتا ہے سو سال کوئی کہتا ہے اسی سال کوئی کہتا ہے چالیس سال اور بھی بہت سے قول ہیں ۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مرجائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے ۔ جیسے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں ۔ یہیں لوطی آباد تھے ۔ جن پر زمیں الٹ دی گئی اور آسمان سے پھتر برسائے گئے اور برا مینہ ان پر برسا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا ۔ یہ دن رات وہاں سے آمدو رفت رکھتے پھر بھی عقلمندی کا کام نہیں لیتے ۔ یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہیں ہیں ان کے واقعات مشہور ہیں کیا تم انہیں نہیں دیکھتے ؟ یقینا دیکتھے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں کہ سمجھ سکو اور غور کرو کہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کے شکار ہوگئے ۔ بس انہیں اڑادیا گیا بےنشان کردئے گئے ۔ بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو ۔ لیکن انہیں کیا عبرت حاصل ہوگی جو قیامت ہی کے منکر ہیں ۔ دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یہاں کتاب سے مراد تورات نہیں کیونکہ تورات تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلا کر اس وقت دی گئی تھی۔ جب بنی اسرائیل میدان تبہ میں قیام پذیر تھے۔ بلکہ اس سے مراد وہ منزل من اللہ ہدایات و احکام ہیں۔ جو آپ کو مصر سے خروج سے پہلے دیئے جاتے رہے۔ ایسی ہی منزل من اللہ کو اصطلاحی زبان وحی خفی یا سنت بھی کہتے ہیں اور ایسے احکام پر کتاب اللہ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ایسی وحی یا سنت پر عمل کرنا ایسے ہی واجب ہے جیسے وحی جلی یا وحی متلو یا اللہ کی کتاب پر۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ رسولوں اور ان کی اقوام کے قصّے اور قوم لوط کی بستیوں کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ فرمایا ہے، مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والوں کو گزشتہ اقوام جیسے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجنے سے پہلے جو کتاب عطا فرمائی گئی اس کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ وہ تورات ہی تھی اور فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب الواح کی شکل میں ” طُور “ پر عطا کی گئی وہ پوری تورات نہ تھی، بلکہ اس کا ایک حصہ تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو ” طور “ پر ملی، اس سے پہلے فرعون کی طرف روانہ ہوتے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب عطا ہوئی اس سے مراد وحی الٰہی پر مشتمل وہ احکام ہیں جو تورات کے علاوہ تھے، انھیں بھی ” کتاب اللہ “ کہا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مزدور کے فیصلے کے متعلق فرمایا تھا جس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا تھا جس کی وہ مزدوری کر رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَاب اللّٰہِ ) ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنوارے مزدور کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کا اور عورت کو اعتراف کی صورت میں رجم کا حکم دیا۔ [ بخاري، الشروط، باب الشروط التي لا تحل في الحدود : ٢٧٢٤، ٢٧٢٥ ] اس قول کے مطابق فرعون اس کتاب اللہ کی تکذیب کی وجہ سے غرق ہوا جو تورات کے علاوہ تھی اور جو موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف حدیث کی صورت میں بھیجی گئی تھی۔ - وَجَعَلْنَا مَعَهٗٓ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِيْرًا : دیکھیے سورة طٰہٰ (٢٩ تا ٣٥) اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کسی رسول کو اگر واقعی ضرورت ہو تو اس کا بوجھ بٹانے کے لیے فرشتہ نہیں بھیجا جاتا، جیسا کہ کفار کا مطالبہ ہے، بلکہ آدمی ہی بھیجا جاتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ وَزِيْرًا۝ ٣٥ ۚ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- وَزِيرُ- : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] .- الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی تھی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو معین و مددگار بنایا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ وَزِیْرًا ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد اور معاونت کے لیے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کے مددگار کے طور پر رسالت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ وزیر ” وِزر “ (بوجھ) سے ہے ‘ یعنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں معین و مددگار۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :48 یہاں کتاب سے مراد غالباً وہ کتاب نہیں جو توراۃ کے نام سے معروف ہے اور مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی ، بلکہ اس سے مراد وہ ہدایات ہیں جو نبوت کے منصب پر مامور ہونے کے وقت سے لے کر خروج تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی جاتی رہیں ۔ ان میں وہ خطبے بھی شامل ہیں جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے دربار میں دیے ، اور وہ ہدایات بھی شامل ہیں جو فرعون کے خلاف جدوجہد کے دوران میں آپ کو دی جاتی رہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان چیزوں کا ذکر ہے ، مگر اغلب یہ ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں شامل نہیں کی گئیں ۔ توراۃ کا آغاز ان احکام عشر سے ہوتا ہے جو خروج کے بعد طور سینا پر سنگین کتبوں کی شکل میں آپ کو دیے گئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani