[٤٧] یہاں آیات سے مراد غالباً وہ وحی تھی جو حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف (علیہم السلام) پر نازل ہوئی تھی کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے تو ان فرعونیوں کو ابھی اپنی طرف نازل شدہ کوئی وحی سنائی ہی نہ تھی۔ یا پھر آیت اللہ سے مراد کائنات میں ہر سو اللہ کی بکھری ہوئی نشانیاں ہیں جن سے غور و فکر کرنے والے اللہ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ اور فرعون ایسی نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے خود ہی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا تھا۔
فَقُلْنَا اذْهَبَآ اِلَى الْقَوْمِ ۔۔ : اس سے پہلی آیت اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے قصے کی ابتدا کا ذکر فرمایا، پھر سارا طویل قصہ حذف کرکے ان دونوں کے قصے کی انتہا کا ذکر فرما دیا، کیونکہ یہاں مقصود اتنی بات ہی تھی، یہ اختصار کا کمال ہے۔- اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا : ان آیات سے مراد یا تو وہ معجزے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے، یا ایک اللہ کی عبادت، موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت تسلیم کرنے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کے احکام ہیں، جو اللہ کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) لے کر فرعون کے پاس گئے تھے۔ رسول بھیجنے سے پہلے ہی انھیں آیات جھٹلانے والے اس لیے قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ انھوں نے آیات کو جھٹلا دینا ہے، یا اس لیے کہ قرآن کے مخاطب لوگوں کو معلوم تھا کہ فرعون نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ ان کے علم کے اعتبار سے ” كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا “ فرما دیا۔ - فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِيْرًا :”ۭتَدْمِيْرًا “ کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ پھر درست نہ ہو سکے۔ (المراغی) مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٦) ۔
معارف و مسائل - الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا، اس میں قوم فرعون کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے۔ حالانکہ اس وقت تک تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل بھی نہیں ہوئی تھی اس لئے اس تکذیب سے آیات تورات کی تکذیب تو مراد نہیں ہوسکتی، بلکہ مراد آیات سے یا تو توحید کے دلائل عقلیہ ہیں۔ جو ہر انسان کو اپنی عقل کے مطابق سمجھ میں آسکتے ہیں ان میں غور نہ کرنے کو تکذیب آیات فرمایا اور یا یہ کہ انبیاء سابقین کی روایات جو کچھ نہ کچھ ہر قوم میں نقل ہوتی آئی ہیں ان کا انکار مراد ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بالْبَيِّنٰتِ ، اس میں انبیاء سابقین کی تعلیم کا ان لوگوں تک منقول چلا آنا بتلایا گیا ہے۔ (بیان القران)
فَقُلْنَا اذْہَبَآ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ٠ۭ فَدَمَّرْنٰہُمْ تَدْمِيْرًا ٣٦ۭ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- دمر - قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف .- ( د م ر ) التدمیر - ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔
(٣٦) پھر ہم نے ان دونوں کو حکم دیا کہ فرعون اور اس کی قبطی قوم کے پاس جاؤ جنہوں نے ہماری نو نشانیوں کو جھٹلایا ہے مگر ان کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ لوگ ایمان نہیں لائے نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان سب کو غرق کرکے بالکل ہی نیست ونابود کردیا۔
آیت ٣٦ (فَقُلْنَا اذْہَبَآ اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاط فَدَمَّرْنٰہُمْ تَدْمِیْرًا ) ” - یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا اور ان لوگوں کے مسلسل انکار کے باعث بالآخر انہیں سمندر میں غرق کر کے نیست و نابود کردیا گیا۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :49 یعنی ان آیات کو جو حضرت یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے ذریعے سے ان کو پہنچی تھیں ، اور جن کی تبلیغ بعد میں ایک مدت تک بنی اسرائیل کے صلحاء کرتے رہے ۔