Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] اس سے معلوم ہوا ہے کہ قوم نوح کی طرف حضرت نوح سے پہلے بھی کچھ رسول آچکے تھے۔ جن کے قرآن میں نام مذکور نہیں ہیں یا اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا ہے کہ چونکہ اصول دین میں تمام انبیاء کی تعلیم ایک ہی رہی ہے تو اس لحاظ سے اسے ایک رسول کو جھٹلانے سے از خود باقی سب رسولوں کی تکذیب ہوجاتی ہے۔- [ ٤٩] نشانی اس لحاظ سے کہ ان ظالموں کی روئے زمین پر نسل ہی ختم ہوگئی۔ طوفان نوح کے بعد حضرت آدم کی نسل صرف ان لوگوں سے چلی جو حضرت نوح کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے اور بعض کے نزدیک آئندہ نسل حضرت نوح کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث سے چلی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ ۔۔ : اس قوم کی طرف صرف نوح (علیہ السلام) آئے تھے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا، وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا سب کو جھٹلانا ہے، کیونکہ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہے۔ ان کی تکذیب اور غرق کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ہود (٢٥ تا ٤٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور قوم نوح کو بھی (ان کے زمانہ میں) ہم ہلاک کرچکے ہیں (جن کی ہلاکت اور سبب ہلاکت کا بیان یہ ہے کہ) جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو (طوفان سے) غرق کردیا اور ہم نے ان (کے واقعہ) کو لوگوں (کی عبرت) کے لئے نشان بنادیا ( یہ تو دنیا میں سزا ہوئی) اور (آخرت میں) ہم نے (ان) ظالموں کے لئے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔ اور ہم نے عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے بیچ بیچ میں بہت سی امتوں کو ہلاک کیا اور ہم نے (امم مذکورہ میں سے) ہر ایک ( کی ہدایت) کے واسطے عجیب عجیب (یعنی موثر اور بلیغ) مضامین بیان کئے اور (جب نہ مانا تو) ہم نے سب کو بالکل ہی برباد کردیا۔ اور یہ (کفار ملک شام کے سفر میں) اس بستی پر ہو کر گزرتے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے تھے (مراد قریہ قوم لوط کا ہے) سو کیا یہ لوگ اس کو دیکھتے نہیں رہتے ( پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے کہ کفر و تکذیب کو چھوڑ دیں جس کی بدولت قوم لوط کو سزا ہوئی سو بات یہ ہے کہ عبرت نہ پکڑنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس قریہ کو دیکھتے نہ ہوں) بلکہ (اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ) یہ لوگ مر کر جی اٹھنے کا احتمال ہی نہیں رکھتے (یعنی آخرت کے منکر ہیں اس لئے کفر کو موجب سزا ہی قرار نہیں دیتے اور اس لئے ان کی ہلاکت کو کفر کا وبال نہیں سمجھتے بلکہ امور اتفاقیہ میں سے سمجھتے ہیں یہ وجہ عبرت نہ پکڑنے کی ہے) اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے تمسخر کرنے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ کیا یہی (بزرگ) ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (یعنی ایسا غریب آدمی رسول نہ ہونا چاہئے، اگر رسالت کوئی چیز ہے تو کوئی رئیس مالدار ہونا چاہئے تھا، پس یہ رسول نہیں البتہ) اس شخص ( کی جادو بیانی اس غضب کی ہے کہ اس) نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر (مضبوطی سے) قائم نہ رہتے ( یعنی ہم تو ہدایت پر ہیں اور یہ ہم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا تھا اللہ تعالیٰ ان کی تردید کے لئے فرماتے ہیں کہ یہ ظالم اب تو اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور ہمارے پیغمبر کو گمراہ بتلا رہے ہیں) اور (مرنے کے بعد) جلدی ہی ان کو معلوم ہوجاوے گا جب عذاب کا معائنہ کریں گے کہ کون شخص گمراہ تھا (آیا وہ خود یا نعوذ باللہ پیغمبر، اس میں ان کے بیہودہ اعتراض کے جواب کی طرف بھی اشارہ ہے کہ نبوت اور مالداری میں کوئی جوڑ نہیں مالدار نہ ہونے کے سبب نبوت سے انکار جہالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر دنیا میں جو چاہیں خیال پکا لیں مگر قیامت میں سب حقیقت کھل جاوے گی) اے پیغمبر آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے سو کیا آپ اس کی نگرانی کرسکتے ہیں یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ( مطلب یہ کہ آپ ان کی ہدایت نہ ہونے سے مغموم نہ ہوجئے کیونکہ آپ ان پر مسلط نہیں کہ خواہی نخواہی ان کو راہ پر لاویں اور نہ ہدایت کی ان سے توقع کیجئے کیونکہ نہ یہ حق بات کو سنتے ہیں نہ عقل ہے کہ غور کریں) یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں (کہ وہ بات کو نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں) بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں ( کیونکہ وہ احکام دین کے مکلف نہیں تو ان کا نہ سمجھنا مذموم نہیں اور یہ مکلف ہیں پھر بھی نہیں سمجھتے، پھر یہ کہ وہ اگر معتقدان ضروریات دین کے نہیں ہیں منکر بھی تو نہیں اور نہ تو منکر ہیں اور رویت میں ان کی گمراہی کا منشاء بھی بیان کردیا کہ کسی شبہ و دلیل سے ان کو اشتباہ نہیں ہوا بلکہ اتباع ہویٰ اس کا سبب ہے۔- معارف و مسائل - قوم نوح (علیہ السلام) کے متعلق یہ ارشاد کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ پہلے رسول نہ ان کے زمانے میں تھے نہ انہوں نے جھٹلایا، تو منشاء اس کا یہ ہے کہ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور چونکہ اصول دین سب انبیاء کے مشترک ہیں اس لئے ایک کو جھٹلانا سبھی کے جھٹلانے کے حکم میں ہے۔- اَصْحٰبَ الرَّسِّ ، رس لغت میں کچے کنویں کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم اور کسی صحیح حدیث میں ان لوگوں کے تفصیلی حالات مذکور نہیں۔ اسرائیلی روایات مختلف ہیں۔ راجح یہ ہے کہ قوم ثمود کے کچھ باقی ماندہ لوگ تھے جو کسی کنویں پر آباد تھے ( کذا فی القاموس والدر عن ابن عباس) ان کے عذاب کی کیفیت بھی قرآن میں منصوص اور کسی صحیح حدیث میں بھی مذکور نہیں (بیان القران)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰہُمْ وَجَعَلْنٰہُمْ لِلنَّاسِ اٰيَۃً ۭ وَاَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ٣ ٧ ۖ- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اور قوم نوح (علیہ السلام) کو بھی ہم ہلاک کرچکے ہیں جب انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو طوفان سے غرق کردیا اور ہم نے ان کے واقعہ کو لوگوں کی عبرت کے لیے ایک نشان بنادیا تاکہ بعد میں آنے والے ان کی پیروی نہ کریں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاَعْتَدْنَا للظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا ) ” - یعنی پیغمبروں کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو عذاب استیصال کی صورت میں نقد سزا تو دنیا ہی میں مل گئی تھی مگر اصل عذاب ابھی ان کا منتظر ہے۔ یہ عذاب انہیں آخرت میں ملے گا اور وہ بیحد تکلیف دہ ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :50 چونکہ انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ بشر کبھی رسول بن کر آ سکتا ہے ، اس لیے ان کی تکذیب تنہا حضرت نوح کی تکذیب ہی نہ تھی بلکہ بجائے خود منصب نبوت کی تکذیب تھی ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :51 یعنی آخرت کا عذاب ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani