3 8 1رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَاب الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورة البروج میں ہے (ابن کثیر) 3 8 2قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہوجائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر) ، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہوسکتی ہے۔
[٥٠] قوم عاد وثمود کا ذکر تو قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے مگر اصحاب الرس یا کنویں والوں کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اسی جگہ اور دوسری سورة ق کی آیت نمبر ١٢ میں۔ ان مقامات پر ان کا ذکر اس قدر مختصر ہے جس سے ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ان کی طرف کون سا نبی مبعوث ہوا تھا۔ لغوی لحاظ سے رس بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں۔ جس میں پانی وافر مقدار میں موجود ہو ( ف ل ص ٢٦٣) اسی وجہ سے اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین میں کئی قسم کے اختلافات ہیں۔ زیادہ مشہور یہی بات ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں۔ ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انہوں نے انھیں جھٹلایا لیکن آپ بدستور انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بالاخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین دھنسا دیا۔ واللہ اعلم بالصواب
وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی ہیں جن کی امت انھیں جھٹلانے کی وجہ سے غرق ہوئی اور موسیٰ (علیہ السلام) آخری نبی ہیں جن پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے فرعون اور اس کی آل غرق ہوئی۔ اس آیت میں ان کے درمیان کے لوگوں کا ذکر ہے جو پانی کے سوا ہلاک کیے گئے۔ ” الرَّسِّ “ کا معنی کنواں اور جمع ” رِسَاسٌ“ ہے۔ ابن جریر نے فرمایا : ” کلام عرب میں ” الرَّسِّ “ ہر کھودی ہوئی جگہ کو کہتے ہیں، مثلاً کنواں اور قبر وغیرہ۔ “ اس لیے بعض نے اس سے مراد ” اصحاب الاخدود “ بھی لیے ہیں۔ شنقیطی نے فرمایا : ” عاد وثمود کا قصہ قرآن کی متعدد آیات میں آیا ہے، رہے ” اَصْحٰبَ الرَّسِّ “ تو قرآن میں نہ ان کے قصے کی تفصیل آئی ہے نہ ان کے نبی کا نام آیا ہے۔ “ ان کے متعلق مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں جو سب بےدلیل ہیں، اس لیے ہم نے انھیں ذکر نہیں کیا۔ ” الرس “ ایک وادی کا نام بھی ہے، جس کا زہیر نے اپنے مُعَلَّقہ میں ذکر کیا ہے - بَکَرْنَ بُکُوْرًا وَاسْتَحَرْنَ بِسُحْرَۃٍ- فَھُنَّ لِوَادِی الرَّسِّ کَالْیَدِ لِلْفَمِ - وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا :” قَرْنٌ“ ایک زمانے کے لوگ جو ایک دوسرے سے ملتے رہے ہوں، ” فَھُوَ مِنَ الْاِقْتِرَانِ ۔ “ ” بَيْنَ ذٰلِكَ “ (اس کے درمیان) سے مراد نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان کا یا عاد وثمود اور اصحاب الرس کے درمیان کا زمانہ ہے۔ دوسری جگہ ان کی کثرت کے متعلق فرمایا : (اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ ټ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ړ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ ۭ ) [ إبراہیم : ٩ ] ” کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اور عاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ اور فرمایا : (وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ ) [ بني إسرائیل : ١٧ ] ” اور ہم نے نوح کے بعد کتنے ہی زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ بائبل وغیرہ کے حوالے سے نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان آباء کی گنتی اور سالوں کی گنتی کا کچھ اعتبار نہیں، نہ دنیا کی مدت کا کوئی یقینی علم ہے۔ سائنسدانوں کی باتیں بھی محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔
وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًۢـــا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا ٣٨- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - رس - أَصْحابَ الرَّسِ قيل : هو واد، قال الشاعر : وهنّ لوادي الرَّسِّ کالید للفم وأصل الرَّسِّ : الأثر القلیل الموجود في الشیء، يقال : سمعت رَسّاً من خبر ورَسُّ الحدیث في نفسي، ووجد رَسّاً من حمّى ورُسَّ الميّتُ : دفن وجعل أثرا بعد عين .- ( ر س س ) وأَصْحابَ الرَّسِ اور رس کے رہنے والوں نے ۔ بعض نے کہا ہے کہ رس ایک وادی کا نام ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (181) وھن لوادی الرس کالید للفم ۔ اور وہ وادی رس کے لئے جیسے ہاتھ منہ کیطرف ۔ اصل میں رس کسی چیز کے تھوڑے سے نشان کو کہا جاتا ہے ۔ عام محاورہ ہے :۔ سمعت رسا من خبر : میں نے کچھ یوں ہی سی خبر سنی ۔ رس الحدیث فی نفسی میرے دل میں تمہاری بات کا تھوڑا سا اثر ہوا ۔ وجد رسا من حمی ۔ اس نے بخار کا تھوڑا سا اثر محسوس کیا ۔ رس المیت ۔ میت دفن ہوگئی اور اس کی شخصیت کے بعد اب اس کے آثار باقی رہے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(٣٨) اور ہم نے ان مشرکین بالخصوص مشرکین مکہ کے لیے دوزخ میں دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔
آیت ٣٨ ( وَّعَادًا وَّثَمُوْدَا وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا ) ” - ” اصحاب الرس “ کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ یہ کون سی قوم تھی اور ان کا زمانہ اور علاقہ کون سا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کسی کنویں میں بند کردیا تھا۔ اس لیے انہیں کنویں والے کہا گیا ہے۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :52 اصحاب الرس کے متعلق تحقیق نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے ۔ مفسرین نے مختلف روایات بیان کی ہیں مگر ان میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے پیغمبر کو کنوئیں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا ۔ رَس عربی زبان میں پرانے کنوئیں یا اندھے کو کہتے ہیں ۔
13: عاد و ثمود کا تعارف سورۃ اعراف : 65 تا 84 میں گذر چکا ہے اور ’’ اصحاب الرس‘‘ کے لفطی معنی ہیں ’’ کنویں والے‘‘۔ بظاہر یہ لوگ کسی کنویں کے پاس آباد تھے۔ قرآن کریم نے بس اتنا ذکر فرمایا ہے کہ انہیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا، ان کے بارے میں مختلف تاریخی روایتیں ملتی ہیں، لیکن ان کے واقعے کی کوئی تفصیل نہ قرآن کریم نے بتائی ہے، نہ کسی مستند حدیث میں آئی ہے۔ اتنی بات ظاہر ہے کہ ان کے پاس کوئی پیغمبر بھیجے گئے تھے جن کی انہوں نے نافرمانی کی، اور اس کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں لٹکا کر پھانسی دی تھی۔ واللہ اعلم۔