خود فریب مشرک مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئی ۔ جو ذات الہٰی کی نسبت تھی ۔ یہاں دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہم وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں بھی علم ہے ۔ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں ۔ کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے اس نے لکھوالئے ہیں وہی صبح شام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں ۔ یہ جھوٹ بھی وہ ہے جس میں کسی کو شک نہ ہوسکے اس لئے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ کی انہی لوگوں میں گزر رہی تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی کا یا اک لمحہ بھی ایسا نہ تھاجس پر انگلی اٹھا سکے ایک ایک وصف آپ کا وہ تھاجس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت بلند اخلاقی اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں آپ کے لئے جگہ تھی ۔ عام زبانیں آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم امین کے پیارے خطاب سے پکارتی تھیں دنیا آپ کے قدموں تلے آنکھیں بچھاتی تھی ۔ کو نسا دل تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر نہ ہو کون سی آنکھ تھی جس میں احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہ ہو؟ کون سا مجمع تھا جس کا ذکر خیر نہ ہو؟ کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی صداقت امانت نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟ پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بےوقوف بےپیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہوگئے ، لگے باتیں بنانے ، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟ کبھی آپ کو شاعر کہتے ، کبھی ساحر ، کبھی مجنوں اور کبھی کذاب ، حیران تھے کہ کیا کہیں اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نورالہٰی سے نہ جگمگانے دیں ؟ اب انہیں جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں اللہ کی دی ہوئی ہیں جو عالم الغیب ہے ، جس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ۔ اس میں ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں ۔ جو آئندہ کی خبر اس میں ہے وہ بھی سچ ہے اللہ کے سامنے ہو چکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں ہے ۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو ۔ اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم وکرم کو بیان فرمایا تاکہ بد لوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں کچھ بھی کیا ہو ۔ اب بھی اس کی طرف جھک جائیں ۔ توبہ کریں ۔ اپنے کئے پر پچھتائیں ۔ نادم ہوں ۔ اور رب کی رضا چاہیں ۔ رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش ودشمن ، اللہ و رسول پر بہتان باز ، اس قدر ایذائیں دینے والے لوگوں کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں بلاتا ہے ۔ وہ اللہ کو برا کہیں ، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو براکہیں ، وہ کلام اللہ پر باتیں بنائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے اپنے فضل وکرم کی طرف دعوت دے ۔ اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے اپنی بھلی باتیں ان کو سجھائے اور سمجھائے ۔ چنانچہ اور آیت میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت ( اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 74 ) 5- المآئدہ:74 ) یہ لوگ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے ؟ اور کیوں اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے ۔ مومنوں کو ستانے اور انہیں فتنے میں ڈالنے والوں کا ذکر کر کے سورۃ بروج میں فرمایا کہ اگر ایسے لوگ بھی توبہ کرلیں اپنے برے کاموں سے ہٹ جائیں ، باز آئیں تو میں بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹالوں گا اور رحمتوں سے نواز دونگا ۔ امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کے رحم وکرم کو دیکھو یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں کو ستائیں ماریں قتل کریں اور وہ انہیں توبہ کی طرف اور اپنے رحم وکرم کی طرف بلائے فسبحانہ مااعظم شانہ ۔
4 1مشرکین کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست (مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبرو غیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورة النحل آیت 10 3میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔
[٨] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر قرآن کو تصنیف کرنے کا الزام اس دور کے مشرکین مکہ کو ہی نہ تھا، آج کے مستشرقین بھی اپنی تحقیق و تنقید کی آڑ میں کچھ ایسا ہی الزام لگا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کے ان محققین کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پیشتر کئی تجارتی سفر کئے یہود و نصاریٰ کے کئی علماء سے آپ کی ملاقات ہوئیں اور اس سلسلسہ میں بالخصوص بحیرا راہب کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ تو انھیں ملاقاتوں کے دوران آپ نے ان علماء سے کسب فیض کیا۔ پھر اسے اپنے انداز میں اور اپنی زبان میں عربوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہی وہ ق انبیاء یا سابقہ اقوام کی تاریخ تھی۔ جسے آپ نے نبوت کے نام سے پیش کیا۔- مستشرقین کے اس اعتراض کے باطل ہونے کی بیشمار وجوہ ہیں جو درج ذیل ہیں :- ١۔ آپ نے جب بھی کوئی تجارتی سفر کیا تو اکیلے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی قوم کے لوگوں کے ہمراہ کیا تھا۔ اگر آپ نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ ملاقاتیں کی تھیں یا ان سے کسب علم کیا تھا تو اس بات کا سب سے زیادہ علم آپ کے ہمراہیوں کو ہونا چاہئے تھا۔ حالانکہ نبوت سے پیشتر ان لوگوں نے آپ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا تھا۔ پھر جس بات کا علم آپ کے ہمراہیوں کو نہ ہوسکا تھا۔ ان لوگوں کو کیسے ہوگیا ؟- ٢۔ نبوت سے پہلے اگر آپ نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ کسب علم کیا تھا تو ضروری تھا کہ اس کا اظہار دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر نبوت سے پہلے بھی ہوجاتا۔ خواہ آپ اسے چھپانے کی کتنی ہی کوشش کرتے۔ نبوت سے پیشتر کوئی ایسی بات آپ کی زبان سے نہ نکلنا ہی اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ اعتراض سراسر باطل اور لغو ہے۔- ٣۔ قرآن میں کئی ایسی پیشین گوئیاں مذکور ہیں جو آپ کی زندگی میں حرف بحرف پوری ہوگئیں اور ان کا علمائے یہود و نصاریٰ کو کسی طرح بھی علم نہ ہوسکتا تھا۔ جیسے روم کا شکست کھانے کے بعد ایران پر دوبارہ غلبہ یا کافروں کی مخالفانہ بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام کا غلبہ اور کفار و مشرکین کی ذلت امیز شکست وغیرہ وغیرہ۔- ٤۔ قرآن میں بیشمار ایسی آیات نازل ہوئیں جن کا ان کے پس منظر سے گہرا تعلق ہے۔ مثلاً جنگ بدر کے بعد اموال غنیمت میں تنازعہ کے موقع پر سورة انفال کا نزول لعان اور ظہار کے احکام کا نزول، واقعہ افک کے بعد قذف اور زنا کی حدود کے احکام کا نزول۔ ایسی آیات کا بھلا علمائے یہود و نصاریٰ کا پہلے سے کیونکر علم ہوسکتا تھا اور وہ ایسے حکیمانہ احکام کیسے بتلا سکتے تھے۔- ٥۔ قرآن میں بیشمار مقامات پر یہود و نصاریٰ کے عقائد اور ان کے اخلاق و کردار پر تنقید کی گئی ہے کیا یہ باتیں بھی علمائے یہود و نصاریٰ آپ کو بتلا سکتے تھے ؟ غرضیکہ اس اعتراض پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کو باطل قرار دینے کی اور بھی کئی وجوہ سامنے آتی جائیں گی۔- اور مشرکین مکہ کا آپ پر جو اعتراض تھا وہ نبوت کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ چند یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان ہوگئے تھے۔ مشرکوں کو اعتراض یہ تھا کہ آپ نے یہ باتیں ان سے سیکھی ہیں۔ ابتداًء صرف دو نمازیں فرض تھیں ایک صبح کی اور ایک شام کی۔ ان نمازوں کے اوقات میں مسلمان دار ارقم میں اکٹھے ہوتے۔ تو اگر کچھ وحی اس دوران نازل ہوتی تو آپ نماز کے لئے آنے والے مسلمانوں کو سنا دیتے۔ اس بات سے بتنگڑ یہ بنایا گیا کہ صبح و شام جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں تو یہی یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان اقوام سابقہ اور انبیائے سابقہ کے حالات بیان کرتے ہیں جو ساتھ ساتھ لکھ بھی لئے جاتے ہیں اور پڑھے اور سنے سنائے بھی جاتے ہیں۔ پھر انہی باتوں کو اللہ کی طرف سے منسوب کرکے قرآن کے نام سے دوسروں کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ یہ اعتراض درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے :- ١۔ اگر یہ یہودی غلام جو مسلمان ہوگئے تھے آپ کے استاد یا معلوم ہوتے تو وہ آپ کے فرمانبردار بن کر نہیں رہ سکتے تھے۔ پھر فرمانبرداری بھی ایسی جو جانثاری کی حد تک پہنچ چکی ہو۔ - ٢۔ اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ دنیوی مفادات کی خاطر ایسا سمجھوتہ کرلیا گیا تھا تو آپ کے نزدیک آپ کے مقرب وہ یہودی غلام ہونے چاہئیں تھے نہ کہ حضت ابوبکر صدیق (رض) ، یا حضرت عمر (رض) یا حضرت عثمان (رض) ، حضرت ابو عبیدہ (رض) اور حضرت علی (رض) و غیرہم - ٣۔ علاوہ ازیں ان پر بھی وہ سب اغراض وارد ہوتے ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ مثلاً قرآن کی پیشین گوئیاں، موقع اور ضرورت کے مطابق احکام الٰہی کا نزول اور یہود کے اخلاق و عقائد پر کڑی تنقید وغیرہ۔- لہذا یہ اعتراض قرآن کریم کی داخلی، خارجی شہادت اور عقلی دلائل کے لحاظ سے محض ایک افتراء اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ۔۔ : توحید کے بیان اور شرک اور مشرکین کے ردّ کے بعد منکرین نبوت کے شبہات و اعتراضات ذکر فرمائے، چناچہ پہلا اعتراض ان کا یہ بیان فرمایا کہ یہ قرآن آپ نے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگوں نے اس معاملہ میں آپ کی مدد کی ہے۔ اس کی کچھ تفصیل سورة نحل (١٠٣) میں گزر چکی ہے۔- فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا : ظلم کا معنی کسی چیز کو اس کی جگہ کے سوا رکھ دینا ہے، کیونکہ ظلم کا اصل معنی اندھیرا ہے اور اندھیرے میں آدمی چیز کو اس کی جگہ نہیں رکھ سکتا۔ ” اِفْکٌ“ ایسے سخت جھوٹ کو کہتے ہیں جو بنا سنوار کر خوش نما بنادیا گیا ہو، اس لیے اس کا معنی فریب بھی ہوسکتا ہے۔ تنوین تہویل کے لیے ہے، یعنی انھوں نے یہ جو بات کہی ہے وہ بھاری ظلم (بےانصافی) اور سخت جھوٹ ہے، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب، جس کی فصاحت و بلاغت اور مضامین کے مقابلے سے کل کائنات عاجز ہے، اسے اپنے پاس سے تصنیف کرکے پیش کردینا کسی انسان کے بس میں نہیں، چاہے اس کی پشت پر چند نہیں ہزاروں بلکہ اللہ کے سوا سب جمع ہوجائیں۔ افسوس اور تعجب اس پر ہے کہ یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ بات کہہ رہے ہیں جن کی پوری زندگی ان کے سامنے گزری (دیکھیے یونس : ١٦) اور جن کے بارے میں انھیں خوب معلوم ہے کہ آپ نے نہ کبھی پڑھنا لکھنا سیکھا اور نہ کسی عالم کی شاگردی کی (دیکھیے عنکبوت : ٤٨) پھر یہ قرآن آپ کی تصنیف کیسے ہوسکتا ہے ؟
خلاصہ تفسیر - اور کافر لوگ (قرآن کے بارے میں) یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) تو کچھ بھی نہیں نرا جھوٹ (ہی جھوٹ) ہے جس کو اس شخص (یعنی پیغمبر) نے گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس (گھڑت) میں اس کی مدد کی ہے (مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے یا آپ کی خدمت میں ویسے ہی حاضر ہوا کرتے تھے) سو (ایسی بات کہنے سے) یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے (اس کا ظلم اور جھوٹ ہونا آگے بیان میں آئے گا) اور یہ (کافر) لوگ (اپنے اسی اعتراض کی تائید میں) یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) بےسند باتیں ہیں جو اگلے لوگوں سے منقول ہوتی چلی آئی ہیں جن کو اس شخص (پیغمبر) نے (عمدہ عبارت میں سوچ سوچ کر اپنے صحابہ کے ہاتھ سے) لکھوا لیا ہے (تاکہ محفوظ رہے) پھر وہی (مضامین) اس کو صبح شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ یاد رہیں، پھر وہی یاد کئے ہوئے مضامین مجمع میں بیان کرکے خدا کی طرف منسوب کردیئے جاتے ہیں) آپ (اس کے جواب میں) کہہ دیجئے کہ اس (قرآن) کو تو اس ذات (پاک) نے اتارا ہے جس کو سب چھپی باتوں کی خواہ وہ آسمانوں میں ہوں یا زمین میں ہوں خبر ہے (خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ اس کلام کا اعجاز اس کی کھلی دلیل ہے کہ کفار کا یہ اعتراض غلط اور جھوٹ اور ظلم ہے کیونکہ اگر قرآن اساطیر الاولین، یعنی پرانے لوگوں کی کہانیاں ہوتا یا کسی دوسرے کی مدد سے تصنیف کیا گیا ہوتا تو ساری دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز کیوں ہوتی) واقعی اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (اس لئے ایسے ایسے جھوٹ اور ظلم پر فوری سزا نہیں دیتا) ۔- اور یہ کافر لوگ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ (ہماری طرح) کھانا (بھی) کھاتا ہے اور (انتظام معاش کے لئے ہماری ہی طرح) بازاروں میں چلتا پھرتا ہے (مطلب یہ ہے کہ رسول و پیغمبر انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہئے جو کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات سے مستغنی ہو اور کم از کم اتنا تو ضرور ہی ہونا چاہیئے کہ رسول اگر خود فرشتہ نہیں ہے تو اس کا مصاحب و مشیر کوئی فرشتہ ہونا چاہئے اس لئے کہا کہ) اس (رسول) کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر (لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈراتا (اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم رسول کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات سے تو بےفکری ہوتی اس طرح) کہ اس کے پاس (غیب سے) کوئی خزانہ آپڑتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھایا (پیا) کرتا۔ اور (مسلمانوں سے) یہ ظالم یوں ( بھی) کہتے ہیں کہ (جب ان کے پاس نہ کوئی فرشتہ ہے نہ خزانہ نہ باغ اور پھر بھی یہ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عقل میں فتور ہے اس لئے) تم لوگ ایک مسلوب العقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے تو یہ لوگ آپ کے لئے کیسی عجیب عجیب باتیں بیان کر رہے ہیں سو (ان خرافات سے) وہ (بالکل) گمراہ ہوگئے پھر وہ راہ نہیں پاسکتے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىہُ وَاَعَانَہٗ عَلَيْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ٠ۚۛ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَزُوْرًا ٤ۚۛ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - عون - الْعَوْنُ : المُعَاوَنَةُ والمظاهرة، يقال : فلان عَوْنِي، أي : مُعِينِي، وقد أَعَنْتُهُ. قال تعالی:- فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ [ الكهف 95] ، وَأَعانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ [ الفرقان 4] . والتَّعَاوُنُ :- التّظاهر . قال تعالی: وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 2] . والْاستِعَانَةُ : طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] ، والعَوَانُ : المتوسّط بين السّنين، وجعل کناية عن المسنّة من النّساء اعتبارا بنحو قول الشاعر : فإن أتوک فقالوا : إنها نصف ... فإنّ أمثل نصفيها الذي ذهباقال : عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة 68] ، واستعیر للحرب التي قد تكرّرت وقدّمت . وقیل العَوَانَةُ للنّخلة القدیمة، والعَانَةُ : قطیع من حمر الوحش، وجمع علی عَانَاتٍ وعُونٍ ، وعَانَةُ الرّجل : شعره النابت علی فرجه، وتصغیره : عُوَيْنَةٌ.- ( ع و ن ) العون کے معنی کسی کی مدد اور پشت پناہی کرنا کے ہیں ( نیز عون مدد گار ) کہا جاتا ہے ۔ فلان عونی یعنی فلاں میرا مدد گار ہے قد اعنتہ ( افعال ) میں نے اس کی مدد کی قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ [ الكهف 95] تم مجھے توت ( بازو) سے مدد دو ۔ وَأَعانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ [ الفرقان 4] اور دوسرے لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ۔ التعاون ایک دو سے کی مدد کرنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو ۔ الا ستعانہ مدد طلب کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔ العوان ادھیڑ عمر کو کہتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة 68] بلکہ ان کے بین بین یعنی ادھیڑ عمر کی ۔ اور کبھی بطور کنایہ کے عمر رسیدہ عورت کو بھی عوان کہہ دیا جا تا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( فان اتوک فقالوا انھا نصف فان امثل نصفیھا الذی ذھبا اگر تمہارے پاس آکر کہیں کہ ادھیڑ عمرے ہے تو تم کہو اس کی عمر کا بہترین حصہ تو گزرچکا ہے ۔ اور استعارہ جو جنگ کئی سال تک جاری رہے اور پرانی ہوجائے اسے بھی عوان کہا جاتا ہے نیز پرانی کھجور کو بھی عوارتۃ کہہ دیتے ہیں ۔ العانۃ گور خر اس کی جمع عانات وعون ہے العانۃ موئے زہار اس کی تصغیر عوینۃ ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - زور - الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو :- ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ- [ الكهف 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر :- جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ.- ( ز و ر ) الزور ۔- سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔
(٤) اور کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کچھ بھی نہیں محض جھوٹ ہے جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے اور جبر ویسار اور ابو فکیہ راوی نے اس چیز میں ان کی مدد کی ہے تو یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے۔
آیت ٤ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اِفْکُ نِ افْتَرٰٹہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ج) ” - قرآن مجید میں فراہم کردہ معلومات اور تفصیلات کو دیکھتے ہوئے مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بھی اکیلا آدمی ایسا کلام مرتب نہیں کرسکتا۔ چناچہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خفیہ طور پر اس کتاب کی تصنیف میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کر رہے ہیں۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کام کے لیے ایک ادارۂ تحریر تشکیل دے رکھا ہے۔- (فَقَدْ جَآءُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ) ” - یعنی ایسی باتیں کر کے یہ لوگ یقینی طور پر افترا اور ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :11 دوسرا ترجمہ بڑی بے انصافی کی بات بھی ہو سکتا ہے ۔
1: مکہ مکرَّمہ کے بعض کافروں نے یہ الزام لگایا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے انبیائے کرام کے واقعات کچھ یہودیوں سے سیکھ لئے ہیں، اور وہی واقعات لکھوا کر (معاذ اللہ) یہ قرآن بنا لیا ہے، حالانکہ جن یہودیوں کا وہ ذکر کرتے تھے، وہ سب اسلام لا چکے تھے۔ اگر آپ (معاذ اللہ) اُنہی سے سیکھ کر اِس کلام کلامِ الہٰی ہونے کا غلط دعویٰ کر رہے تھے تو یہ حقیقت سب سے پہلے ان یہودیوں پر طاہر ہوتی، پھر وہ آپ کو اﷲ تعالیٰ کا سچا پیغمبر مان کر آپ پر ایمان ہی کیوں لاتے؟