Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے ۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کرسکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لاسکتا ۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا ۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے ۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے ۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے ، اسی نے نیند کو سبب راحت وسکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہوجاتی ہے ۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اترجاتی ہے ۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہوجاتی ہے ۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو ۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کردیا ہے کہ تم سکون وآرام بھی حاصل کرلو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔ 452یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔ 453یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] سایوں کا سورج سے گہرا تعلق ہے۔ طبعی اصول یہ ہے کہ روشنی کی شعاعیں یا کرنیں ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں بھی روشنی ہوگی چیزوں کا سایہ ہوگا۔ اب اگر کسی چیز کا سایہ روشن چیز روشن چیز سے کم درجہ پر واقع ہوگا تو سایہ لمبا ہوگا اور زاویہ بڑھتا جائے گا تو سایہ چھوٹا ہوتا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر یہ سایہ ٩٠ درجہ پر پہنچ جائے تو ہر چیز کا سایہ اس کے قدموں پر پڑے گا اور بہت چھوٹا رہ جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ غائب بھی ہوسکتا ہے۔ اب چونکہ روشنی کا مستقل منبع اور بااعتماد اور منظم منبع یہی سورج ہی ہے۔ لہذا سایوں کے مستقبل منبع کا ذکر کیا اور یہ ذکر اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہر قسم کی نباتات اور تمام جاندار اشیاء کی تربیت اور نشوونما پر اثر انداز ہونے کی چیز سورج کی روشنی یا دھوپ اور سایہ ہی ہوتا ہے اب اگر کسی چیز پر ہمیشہ دھوپ پڑتی رہے یا کوئی چیز ہمیشہ سایہ میں رہے تو اس کی تربیت اور نشوونما کبھی درست طور پر نہ ہوسکے گی۔ دھوپ اور سایہ دونوں ہی اللہ کی نعمتیں ہیں اور دونوں سے ہر چیز کی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ اگر ہمیشہ سایہ ہی رہتا تو زندگی کی یہ بہاریں کبھی قائم نہ رہ سکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۔۔ : سورت کی ابتدا توحید کے اثبات اور شرک کے رد کے دلائل سے ہوئی ہے، کفار کی گمراہی کے بیان کے بعد ایک بار پھر توحید کے دلائل کا بیان ہے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ سائے کے پھیلنے اور سکڑنے کو کائنات میں تدریج کے اصول کی مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، توجہ اس بات کی طرف دلائی جا رہی ہے کہ یہی اصول قرآن کے آہستہ آہستہ نازل ہونے میں کار فرما ہے۔- 3 آیت کے شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ) ” کیا تو نے اپنے رب کو نہیں دیکھا، اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا۔ “ کیونکہ اصل مقصود سائے کی کیفیت کی طرف توجہ دلانا ہے اور آخر میں اپنا ذکر اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، فرمایا : (جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ) ” پھر ہم نے سورج کو اس پر دلالت کرنے والا بنایا۔ “- 3 سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو سورج نکلنے سے پہلے ہوتی ہے اور دن بھر مکانوں میں، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے۔ بعض مفسرین نے سائے سے مراد رات کی ظلمت لی ہے، جسے اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے کے ساتھ بتدریج پھیلاتا ہے اور طلوع آفتاب تک بتدریج ختم کرتا ہے۔- 3 یعنی تم نے اپنے رب کی عجیب کاری گری نہیں دیکھی کہ اس نے سائے کو اس طرح بنایا کہ طلوع آفتاب تک ہر جگہ پھیلا ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ سورج کو طلوع نہ ہونے دیتا تو وہی سایہ قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سورج نکالا، جس سے دھوپ پھیلنا شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف کو سمٹنے لگا۔ اگر دھوپ نہ آتی تو سائے کو ہم سمجھ بھی نہ سکتے۔ پھر سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہر چیز کا سایہ مغرب کی طرف بہت لمبا اور پھیلا ہوا ہوتا ہے، پھر جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے سایہ آہستہ آہستہ سکڑتا جاتا ہے، حتیٰ کہ دھوپ پھیلنے سے بالکل ختم ہوجاتا ہے یا تھوڑا سا رہ جاتا ہے، پھر سایہ مشرق کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے جو آخر کار رات کی تاریکی کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ سائے کے اس پھیلنے اور سکڑنے میں انسان، حیوان حتیٰ کہ زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کے لیے بیشمار فائدے ہیں، بلکہ ان کی زندگی ہی سائے کے اس گھٹنے بڑھنے پر موقوف ہے۔ ہمیشہ سایہ رہے تو زمین پر کوئی جان دار مخلوق بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے، کیونکہ ان سب کی زندگی سورج کی حرارت پر موقوف ہے۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ ملنے کی صورت میں نہ جان دار زندہ رہ سکتے ہیں نہ نباتات، بلکہ پانی تک کا وجود باقی رہنا مشکل ہے، پھر اللہ کا فضل یہ ہے کہ دھوپ چھاؤں کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بدلتا ہے، اگر یہ تبدیلی یک لخت ہو تب بھی زمین کی مخلوقات کی خیر نہیں۔ دن رات، دھوپ چھاؤں اور موسموں کے تغیر و تبدل کا سارا سلسلہ تدریج کے اصول پر قائم ہے، جس سے مقصود انسان کی ضروریات بہم پہنچانا ہے۔ دن بھر کے اوقات، نمازوں کے ہوں یا کسی اور کام کے، سائے کے بڑھنے گھٹنے سے وجود میں آتے ہیں۔- وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١، ٧٢) ۔- ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا : یعنی اگر دھوپ نہ ہوتی تو کچھ پتا نہ چلتا کہ سایہ کیا ہوتا ہے، کیونکہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ (قرطبی) اس کے علاوہ سورج کا سائے پر دلالت کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ سایہ دھوپ کے تابع رہتا ہے، دھوپ ہی کے اعتبار سے وہ بڑھتا گھٹتا اور پھیلتا سمٹتا ہے، گویا دھوپ اس کے لیے بمنزلہ دلیل و راہنما ہے۔ (شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے مخاطب کیا تو نے اپنے پروردگار (کی اس قدرت) پر نظر نہیں کی کہ اس نے (جب آفتاب افق سے طلوع کرتا ہے اس وقت کھڑی ہوئی چیزوں کے) سایہ کو کیونکر (دور تک) پھیلایا ہے (کیونکہ طلوع کے وقت ہر چیز کا سایہ لمبا ہوتا ہے) اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک حالت پر ٹھہرایا ہوا رکھتا (یعنی آفتاب کے بلند ہونے سے بھی نہ گھٹتا اس طرح پر کہ اتنی دور تک آفتاب کی شعاعوں کو نہ آنے دیتا کیونکہ آفتاب کی شعاعوں کا زمین کے حصوں پر پہنچنا بارادہ حق ہے نہ کہ بالاضطرار مگر ہم نے اپنی حکمت سے اس کو ایک حالت پر نہیں رکھا بلکہ اس کو پھیلا ہوا بنا کر) پھر ہم نے آفتاب کو (یعنی اس کے افق کے قریب ہونے اور پھر افق سے بلند ہونے کو) اس (سایہ کی درازی و کو تاہی) پر ( ایک ظاہری) علامت مقرر کیا ( مطلب یہ کہ اگرچہ روشنی اور سایہ اور ان کے گھٹنے بڑھنے کی اصل علت حق تعالیٰ کا ارادہ اور مشیت ہے، آفتاب یا کوئی دوسری چیز موثر حقیقی نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہونے والی چیزوں کے لئے کچھ ظاہری اسباب بنا دیئے ہیں اور اسباب کے ساتھ ان کے مسببات کا ایسا رابطہ قائم کردیا کہ سبب کے تغیر سے مسبب میں تغیر ہوتا ہے) پھر ( اس تعلق ظاہری کی وجہ سے) ہم نے اس (سایہ) کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیا (یعنی جوں جوں آفتاب اونچا ہوا وہ سایہ زائل اور معدوم ہوتا گیا اور چونکہ اس کا غائب ہونا محض قدرت الٰہیہ سے بلا شرکت غیرے ہے اور عام لوگوں کی رویت سے غائب ہونے کے باوجود علم الٰہی سے غائب نہیں ہے اس لئے یہ فرمایا گیا کہ اپنی طرف سمیٹ لیا) اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ کی چیز اور نیند کو راحت کی چیز بنایا اور دن کو (اس اعتبار سے کہ سونا مشابہ موت کے ہے اور دن کا وقت جاگنے کا ہے گویا) زندہ ہونے کا وقت بنایا اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی امید دلا کر دل کو) خوش کردیتی ہیں اور ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جو پاک صاف کرنے کی چیز ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے مردہ زمین میں جان ڈال دیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چار پایوں اور بہت سے آدمیوں کو سیراب کریں اور ہم اس (پانی) کو (بقدر مصلحت) ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ غور کریں ( کہ یہ تصرفات کسی بڑے قادر کے ہیں کہ وہی مستحق عبادت ہے) سو (چاہئے تھا کہ غور کرکے اس کا حق ادا کرتے لیکن) اکثر لوگ بغیر ناشکری کئے نہ رہے ( جس میں سب سے بڑھ کر کفر و شرک ہے لیکن آپ ان کی اور بالخصوص اکثر کی ناشکری سنا کر یا دیکھ کر سعی فی التبلیغ سے ہمت نہ ہاریئے کہ میں تنہا ان سب سے کیسے عہدہ برآ ہوں گا بلکہ آپ تنہا ہی اپنا کام کئے جائیے کیونکہ آپ کو تنہا ہی نبی بنانے سے خود ہمارا مقصود یہ ہے کہ آپ کا اجر اور قرب بڑھے) اور اگر ہم چاہتے تو (آپ کے علاوہ اسی زمانہ میں) ہر بستی میں ایک ایک پیغمبر بھیج دیتے (اور تنہا آپ پر تمام کام نہ ڈالتے لیکن چونکہ آپ کا اجر بڑھانا مقصود ہے اس لئے ہم نے ایسا نہیں کیا تو اس طور پر اتنا کام آپ کے سپرد کرنا خدا تعالیٰ کی نعمت ہے) سو (اس نعمت کے شکریہ میں) آپ کافروں کو خوشی کا کام نہ کیجئے (یعنی کافر تو) اس سے خوش ہوں گے کہ تبلیغ نہ ہو یا کمی ہوجائے اور ان کی آزادی سے تعرض نہ کیا جاوے) اور قرآن ( میں جو دلائل حق کے مذکور ہیں جیسا اسی مقام پر دلائل توحید کے ارشاد ہوئے ہیں ان) سے ان کا زور شور سے مقابلہ کیجئے (یعنی عام اور مکمل دعوت و تبلیغ کیجئے، یعنی سب سے کہیئے اور بار بار کہیئے اور ہمت قوی رکھئے جیسا اب تک آپ کرتے رہے ہیں اس پر قائم رہئے۔ آگے پھر بیان ہے دلائل توحید کا) اور وہ ایسا ہے جس نے دو دریاؤں کو (صورة) ملایا جن میں ایک (کا پانی) تو شیریں تسکین بخش ہے اور ایک ( کا پانی) شور تلخ ہے اور (باوجود اختلاط صوری کے حقیقتہ) ان کے درمیان میں (اپنی قدرت سے) ایک حجاب اور (اختلاط حقیقی سے) ایک مانع قوی رکھ دیا ( جو خود خفی غیر محسوس ہے مگر اس کا اثر یعنی امتیاز دونوں پانی کے مزہ میں محسوس اور مشاہد ہے۔ مراد ان دو دریاؤں سے وہ مواقع ہیں جہاں شیریں ندیاں اور نہریں بہتے بہتے سمندر میں آکر گری ہیں وہاں باوجود اس کے کہ اوپر سے دونوں کا سطح ایک معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الٰہیہ سے ان میں ایک ایسی حد فاصل ہے کہ ملتقیٰ کے ایک جانب سے پانی لیا جاوے تو شیریں اور دوسری جانب سے جو کہ جانب اول سے بالکل قریب ہے پانی لیا جاوے تو تلخ۔ دنیا میں جہاں جس جگہ شیریں پانی کی نہریں چشمے سمندر کے پانی میں گرتے ہیں وہاں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ میلوں دور تک میٹھا اور کھاری پانی الگ الگ چلتے ہیں، دائیں طرف میٹھا بائیں طرف تلخ کھاری یا اوپر نیچے شیریں اور تلخ پانی الگ الگ پائے جاتے ہیں (حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ بیان القرآن میں دو معتبر بنگالی علماء کی شہادت نقل کی ہے کہ ارکان سے چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبین بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر کی طرح طوفانی تلاطلم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے۔ کشتی سفید میں چلتی ہے اور دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سفید پانی میٹھا ہے اور سیاہ کڑوا، اھ، اور مجھ سے باریسال کے بعض طلباء نے بیان کیا کہ ضلع باریسال میں دو ندیاں ہیں جو ایک ہی دریا سے نکلی ہیں، ایک کا پانی کھاری بالکل کڑوا اور ایک کا نہایت شیریں اور لذیذ ہے۔ یہاں گجرات میں راقم الحروف جس جگہ آجکل مقیم ہے (ڈابھیل سملک ضلع سورت) سمندر وہاں سے تقریباً دس بارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ ادھر کی ندیوں میں برابر مد و جزر (جوار بھاٹا) ہوتا رہتا ہے بکثرت ثقافت نے بیان کیا کہ مد کے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتا ہے تو میٹھے پانی کی سطح پر کھاری پانی بہت زور سے چڑھ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی دونوں پانی مختلط نہیں ہوتے۔ اوپر کھاری رہتا ہے نیچے میٹھا، جزر کے وقت اوپر سے کھاری اتر جاتا ہے اور میٹھا جوں کا توں میٹھا باقی رہ جاتا ہے۔ واللہ اعلم، ان شواہد کو دیکھتے ہوئے آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو کہ کھاری اور میٹھے دونوں دریاؤں کے پانی کہیں نہ کہیں مل جانے کے باوجود بھی کسی طرح ایک دوسرے سے ممتاز رہتے ہیں) اور وہ ایسا ہے جس نے پانی سے ( یعنی نطفہ سے) آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا ( چناچہ باپ دادا وغیرہ شرعی خاندان اور ماں، نانی وغیرہ عرفی خاندان ہیں جن سے پیدائش کے ساتھ ہی تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں پھر شادی کے بعد سسرالی رشتے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ دلیل قدرت بھی ہے کہ نطفہ کیا چیز تھا پھر اس کو کیسا بنادیا کہ وہ اتنی جلد خون والا ہوگیا اور نعمت بھی ہے کہ ان تعلقات پر تمدن اور امداد باہمی کی تعمیر قائم ہے) اور (اے مخاطب) تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے اور (باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں ایسا کامل ہے جیسا بیان ہوا اور یہ کمالات مقتضی ہیں کہ اسی کی عبادت کی جاوے مگر) یہ (مشرک) لوگ (ایسے) خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ( جو عبادت کرنے پر) نہ ان کو کچھ نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ (درصورت عبادت نہ کرنے کے) اور کو کچھ ضرر پہنچا سکتی ہیں اور کافر تو اپنے رب کا مخالف ہے (کہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کی عبادت کرتا ہے اور کفار کی مخالفت معلوم کرکے آپ نہ تو ان کے ایمان نہ لانے سے غمگین ہوں کیونکہ) ہمنے آپ کو صرف اس لئے بھیجا ہے کہ (ایمن والوں کو جنت کی) خوشخبری سنائیں اور (کافروں کو دوزخ سے) ڈرائیں۔ (ان کے ایمان نہ لانے سے آپ کا کیا نقصان ہے، پھر آپ کیوں غم کریں اور نہ آپ اس مخالفت کو معلوم کرکے فکر میں پڑیں کہ جب یہ حق تعالیٰ کے مخالف ہیں تو میں جو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرتا ہوں اس دعوت کو یہ لوگ خیر خواہی کب سمجھیں گے بلکہ میری خود غرضی پر محمول کرکے التفات بھی نہ کریں گے تو ان کے گمان کی کیونکہ اصلاح کی جاوے تاکہ مانع مرتفع ہو۔ سو اگر آپ کو ان کا یہ خیال قرینہ سے یا زبانی گفتگو سے معلوم ہو تو) آپ (جواب میں اتنا) کہہ دیجئے (اور بےفکر ہوجائے) کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی معاوضہ (مالی یا جاہی) نہیں مانگتا ہاں جو شخص یوں چاہے کہ اپنے رب تک (پہنچنے کا) رستہ اختیار کرلے ( تو البتہ میں یہ ضرور چاہتا ہوں چاہے اس کو معاوضہ کہو یا نہ کہو) اور (نہ اس مخالفت کفار کو دریافت کرکے ان کی ضرر رسانی سے اندیشہ کیجیئے بلکہ تبلیغ میں) اس حی لایموت پر توکل رکھئے اور (اطمینان کے ساتھ) اس کی تسبیح وتحمید میں لگے رہیئے اور (نہ مخالفت سن کر تعجیل عقوبت کی اس خیال سے تمنا کیجئے کہ ان کا ضرر دونوں کو نہ پہنچ جاوے کیونکہ) وہ (خدا) اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی (طور پر) خبردار ہے ( وہ جب مناسب سمجھے گا سزا دیدے گا۔ پس ان جملوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حزن و فکر اور خوف کو زائل فرمایا ہے آگے پھر توحید کا بیان ہے) وہ ایسا ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب چھ روز (کی مقدار) میں پیدا کیا پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا ( جو کہ اس کی شان کے لائق ہے جس کا بیان سورة اعراف کے رکوع ہفتم کے شروع آیت میں گزر چکا) وہ بڑا مہربان ہے سو اس کی شان کسی جاننے والے سے پوچھنا چاہیئے ( کہ وہ کیسا ہے کافر مشرک کیا جانیں اور اس معرفت صحیحہ کے نہ ہونے سے شرک کرتے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ) اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو (بوجہ جہل وعناد کے) کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے (جس کے سامنے ہم کو سجدہ کرنے کو کہتے ہو) کیا ہم اس کو سجدہ کرنے لگیں گے جس کو تم سجدہ کرنے کے لئے ہم کو کہو گے اور اس سے ان کو اور زیادہ نفرت ہوتی ہے (لفظ رحمن ان میں کم مشہور تھا مگر یہ نہیں کہ جانتے نہ ہوں مگر اسلامی تعلیم سے جو مخالفت بڑھی ہوئی تھی تو محاورات اور بول چال میں بھی مخالفت کو نباہتے تھے۔ قرآن میں جو یہ لفظ بکثرت آیا وہ اس کی بھی مخالفت کر بیٹھے) وہ ذات بہت عالیشان ہے جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے بنائے اور (ان ستاروں میں سے دو بڑے نورانی اور فائدہ بخش ستارے بنائے یعنی) اس (آسمان) میں ایک چراغ (یعنی آفتاب) اور نورانی چاند بنایا (شاید آفتاب کو سراج بوجہ تیزی کے کہا) اور وہ ایسا ہے جس نے رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے بنائے ( اور یہ سب کچھ جو دلائل توحید اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے) اس شخص کے (سمجھنے کے) لئے (ہیں) جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہئے ( کہ اس میں سمجھنے والے کی نظر میں استدلالات ہیں اور شکر گزاری کرنے والے کی نظر میں انعامات ہیں) ورنہ - اگر صد باب حکمت پیش ناداں بخوانی آیدش بازیچہ در گوش - معارف ومسائل - مخلوقات الٰہیہ میں اسباب و سببات کا رشتہ اور ان سب کا قدرت حق کا تابع ہونا :- مذکور الصدر آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور بندوں پر اس کے انعامات و احسانات کا ذکر ہے جس سے حق تعالیٰ کی توحید اور استحقاق عبادت میں اس کے ساتھ کسی کا شریک نہ ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔- اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ، دھوپ اور چھاؤں دونوں ایسی نعمتیں ہیں کہ ان کے بغیر انسانی زندگی اور اس کے کاروبار نہیں چل سکتے۔ ہر وقت ہر جگہ دھوپ ہی دھوپ ہوجائے تو انسان اور ہر جاندار کے لئے کیسی مصیبت ہوجائے۔ یہ تو ظاہر ہے اور سایہ کا بھی یہی حال ہے کہ اگر ہر جگہ ہر وقت سایہ ہی رہے کبھی دھوپ نہ آوے تو انسان کی صحت و تندرستی نہیں رہ سکتی، اور بھی ہزاروں کاموں میں خلل آئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں نعمتیں اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمائیں اور انسانوں کے لئے ان کو موجب راحت و سکون بنایا۔ لیکن حق تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے اس دنیا میں پیدا ہونے والی تمام اشیاء کو خاص خاص اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے کہ جب وہ اسباب موجود ہوتے ہیں تو یہ چیزیں موجود ہوجاتی ہیں جب نہیں ہوتے تو یہ چیزیں بھی نہیں رہتیں۔ اسباب قوی یا زیادہ ہوتے ہیں تو ان کے مسببات کا وجود قوی اور زیادہ ہوجاتا ہے، وہ کمزور یا کم ہوتے ہیں تو مسببات بھی کمزور یا کم ہوجاتے ہیں۔ غلہ اور گھاس اگانے کا سبب زمین اور پانی اور ہوا کو بنا رکھا ہے روشنی کا سبب آفتاب مہتاب کو بنا رکھا ہے۔ بارش کا سبب بادل اور ہوا کو بنا رکھا ہے اور ان اسباب اور ان مرتب ہونے والے اثرات میں ایسا مستحکم اور مضبوط ربط قائم فرما دیا ہے کہ ہزاروں سال سے بغیر کسی ادنی فرق کے چل رہے ہیں۔ آفتاب اور اس کی حرکت اور اس سے پیدا ہونے والے دن رات اور دھوپ چھاؤں پر نظر ڈالو تو ایسا مستحکم نظام ہے کہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال میں ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ نہ کبھی آفتاب و ماہتاب وغیرہ کی مشینری میں کوئی کمزوری آتی ہے، نہ کبھی ان کو اصلاح و مرمت کی ضرورت ہوتی ہے جب سے دنیا وجود میں آئی ایک انداز ایک رفتار سے چل رہے ہیں حساب لگا کر ہزار سال بعد تک کی چیزوں کا وقت بتلایا جاسکتا ہے۔- سبب اور مسبب کا یہ مستحکم نظام جو حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی عجیب و غریب شاہکار اور اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی برہان قطعی ہے اس کے استحکام ہی نے لوگوں کو غفلت میں ڈال دیا کہ ان کی نظروں میں صرف یہ اسباب ظاہرہ ہی رہ گئے اور انہی اسباب کو تمام چیزوں اور تاثیرات کا خالق ومالک سمجھنے لگے۔ مسبب الاسباب کی اصلی قوت جو ان اسباب کی پیدا کرنے والی ہے وہ اسباب کے پردوں میں مستور ہوگئی۔ اس لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں انسان کو بار بار اس پر تنبہ کرتی ہیں کہ ذرا نظر کو بلند اور تیز کرو، اسباب کے پردوں کے پیچھے دیکھو کون اس نظام کو چلا رہا ہے، تاکہ حقیقت تک راہ پاؤ۔ اسی سلسلے کے ایہ ارشادات ہیں جو آیات مذکورہ میں آئے۔ آیت اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ میں غافل انسان کو اس پر تنبیہ کیا گیا ہے کہ تو روزانہ دیکھتا ہے کہ صبح کو ہر چیز کا سایہ جانب غرب دراز ہوتا ہے، پھر وہ گھٹنا شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ نصف النہار کے وقت معدوم یا کالعدم ہوجاتا ہے پھر زورال کے بعد یہی سایہ اسی تدریجی رفتار کے ساتھ مشرق کی جانب میں پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ ہر انسان اس دھوپ اور چھاؤں کے فوائد ہر روز حاصل کرتا ہے اور اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں کہ یہ سب کچھ آفتاب کے طلوع ہونے پھر بلند ہونے پھر غروب کی طرف مائل ہونے کے لازمی نتائج وثمرات ہیں، لیکن آفتاب کے کرہ کی تخلیق پھر اس کے ایک خاص نظام کے تحت باقی رکھنے کا کام کس نے کیا، یہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا اس کیلئے دل کی آنکھیں اور بصیرت درکار ہے۔- آیت مذکورہ میں یہی بصیرت انسان کو دینا مقصود ہے کہ یہ سایوں کا بڑھنا گھٹنا اگرچہ تمہاری نظروں میں آفتاب سے متعلق ہے مگر اس پر بھی تو غور کرو کہ آفتاب کو اس شان کے ساتھ کس نے پیدا کیا اور اس کی حرکت کو ایک خاص نظام کے اندر کس نے باقی رکھا، جس کی قدرت کاملہ نے یہ سب کچھ کیا ہے وہ ہی درحقیقت اس دھوپ چھاؤں کی نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اگر وہ چاہتا تو اس دھوپ چھاؤں کو ایک حالت پر قائم کردیتا جہاں دھوپ ہے وہاں ہمیشہ دھوپ رہتی، جہاں چھاؤں ہے ہمیشہ چھاؤں رہتی مگر اس کی حکمت نے انسانی ضروریات فوائد پر نظر کرکے ایسا نہیں کیا وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا کا یہی مطلب ہے۔- انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے سایہ کے واپس لوٹنے اور گھٹنے کو آیت مذکورہ میں اس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے کہ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا، یعنی پھر سایہ کو ہم نے اپنی طرف سمیٹ لیا، یہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جسم اور جسمانیت اور جہت اور سمت سے بالاتر ہے، اس کی طرف سایہ کا سمٹنا، اس کا مفہوم یہی ہے کہ اس کی قدرت کاملہ سے یہ سب کام ہوا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ۝ ٠ۚ وَلَوْ شَاۗءَ لَجَعَلَہٗ سَاكِنًا۝ ٠ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْہِ دَلِيْلًا۝ ٤ ٥ۙ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) اے مخاطب کیا تو نے اپنے پروردگار کی اس قدرت وصنعت پر نظر نہیں کی کہ وہ صبح صادق کے بعد سورج نکلنے سے پہلے مشرق سے مغرب تک کس طرح سایہ کو پھیلاتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس سایہ کو ہمیشہ ایک حالت پر ٹھہرایا ہوا رکھتا کہ آفتاب کی بلندی کا بھی اس پر کچھ اثر نہ پڑتا، پھر ہم نے آفتاب کو اس سایہ کی درازی وکوتاہی پر ایک ظاہری علامت مقرر کردیا کہ جہاں بھی سورج ہوتا ہے، سایہ فورا اس کے ساتھ ہوتا ہے، پھر ہم نے اس سایہ کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیا،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ ج) ” - جب رات ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پوری زمین پر ایک سیاہ چادر اوڑھا دی گئی ہے۔- (وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ج) ” - اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پوری زمین پر ہمیشہ رات ہی رہتی ‘ دن کا اجالا کبھی نمودار ہی نہ ہوتا۔ جیسے کہ سورة القصص میں فرمایا گیا : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍط اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان لوگوں سے پوچھئے : کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ روز قیامت تک ہمیشہ کے لیے تم پر رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ “- (ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا ) ” - تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا (چیزیں اپنی مخالف چیزوں سے پہچانی جاتی ہیں) کے مصداق سورج کے وجود سے ہی ہمیں روشنی اور تاریکی کا پتاچلتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :58 یہاں لفظ دلیل ٹھیک اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں انگریزی لفظ ( ) استعمال ہوتا ہے ۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راست بتاتا ہوا چلے ۔ سائے پر سورج کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا تابع ہے ۔ سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے اور دن بھر مکانوں میں ، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani