4 6۔ 1یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبیھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
[٥٨] یعنی اللہ تعالیٰ سایوں کو پھیلاؤ سے سمیٹتا ہے تو بھی آہستہ آہستہ بتدریج سمیٹتا ہے اور سایوں کا پورا سمٹ جانا عین نصف النہار کے وقت ہوتا ہے یا سر پر ہوتا ہے جبکہ زاویہ قائم بن جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد سائے آہستہ آہستہ اور بتدریج بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس تدریج میں بہت سے فوائد مضمر ہیں اور دنیا میں جو بھی تغیر واقع ہوتا ہے اس میں تدریح کا قانون کام کرتا ہے۔ اگر یہ تدریج کا قانون نہ ہوتا تو بھی ہر جاندار کے لئے زندگی دو بھر ہوجاتی مثلاً سورج طلوع ہوتے اتنی شدید گرمی ہوتی جیسے دوپہر کو ہوتی ہے اور یہ گرمی سورج غروب ہونے تک بدستور اتنی ہی تیزی سے رہتی پھر غروب ہونے پر یک لخت سردی ہوجاتی تو یہ چیز بھی ہر جاندار کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی۔
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا ۔۔ : یعنی آہستہ آہستہ گھٹاتے ہوئے ہم اسے بالکل مٹا دیتے ہیں، جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے سایہ بھی بتدریج کم ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ نصف النہار کے وقت بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سورج کے مغرب کی طرف ڈھلنے کے ساتھ سائے کو بڑھاتے بڑھاتے رات کے آنے پر اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ - 3 اپنی طرف سمیٹنے سے مراد غائب کرنا اور فنا کردینا ہے، کیونکہ ہر چیز کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، ہر چیز اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے، چناچہ فرمایا : (وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ ) [ ھود : ١٢٣ ] ” اور اللہ ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کا غیب ہے اور سب کے سب کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ “- قَبْضًا يَّسِيْرًا : یعنی اتنا آہستہ کہ پوری طرح اس کے سمٹنے کا ادراک نہایت مشکل ہے۔
ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا ٤٦- قبض - القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً- [ طه 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ- [ التوبة 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، کقولک : قَبَضْتُ الدّار من فلان، أي : حزتها . قال : تعالی: وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] ، أي : في حوزه حيث لا تمليك لأحد . وقوله : ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان 46] ، فإشارة إلى نسخ الظّلّ الشمس . ويستعار القَبْضُ للعدو، لتصوّر الذي يعدو بصورة المتناول من الأرض شيئا، وقوله : يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، أي : يسلب تارة ويعطي تارة، أو يسلب قوما ويعطي قوما، أو يجمع مرّة ويفرّق أخری، أو يميت ويحيي، وقد يكنّى بِالْقَبْضِ عن الموت، فيقال : قَبَضَهُ الله، وعلی هذا النّحو قوله عليه الصلاة والسلام : «ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن» «2» أي : اللہ قادر علی تصریف أشرف جزء منه، فكيف ما دونه، وقیل : راعٍ قُبَضَةٌ: يجمع الإبلَ والِانْقِبَاضُ : جمع الأطراف، ويستعمل في ترک التّبسّط .- ( ق ب ض ) القبض - ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے جیسے محاورہ ہے : ۔ قبضت الدر من فلان یعنی اسے اپنے تصرف میں لے لیا قرآن میں ہے ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہوگی اور کسی کا ملک نہیں ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان 46] پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ میں سورج کے سایہ کو نقل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور استعارہ کے طور پر قبض کے معنی تیز دوڑنے کے بھی آتے ہیں اس لحاظ سے کہ گویا دوڑ نے والا زمین سے کسی چیز کو پکڑتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور اسے وہی کشادہ کرتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کبھی چھین لیتا ہے اور کبھی عطا کردیتا ہے ۔ یا ایک قوم سے چھین لیتا ہے اور دوسری کو عطا کردیتا ہے اور یا اس کے معنی زندہ کرنے اور مارنے کے ہیں کیونکہ کبھی قبض موت سے کنایہ ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے : ۔ قبضہ اللہ اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا " ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن»کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے یعنی انسان کے سب سے اشرف جزء پر اللہ تعالیٰ کو تصرف حاصل ہے تو دوسرے اعضاء پر بالا ولٰی تصرف حاصل ہوگا ۔ راعی قبضۃ منتظم چرواہا - الا نقباض - کے معنی اطراف یعنی ہاتھ پاؤں سمیٹ لینے کے ہیں اور ترک تبسط یعنی بےتکلفی چھوڑ دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔- يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں
آیت ٤٦ (ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ) ” - جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سائے بہت لمبے ہوتے ہیں۔ پھر جوں جوں سورج اوپر اٹھتا ہے تو آہستہ آہستہ سمٹنا شروع ہوجاتے ہیں جیسے کوئی ان کی طنابیں کھینچ رہا ہو۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :59 اپنی طرف سمیٹنے سے مراد غائب اور فنا کرنا ہے ، کیونکہ ہر چیز جو فنا ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف پلٹتی ہے ۔ ہر شے اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے ۔ اس آیت کے دو رخ ہیں ۔ ایک ظاہری ، دوسرا باطنی ۔ ظاہر کے اعتبار سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے مشرکین کو بتا رہی ہے کہ اگر تم دنیا میں جانوروں کی طرح نہ جیتے اور کچھ عقل و ہوش کی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی سایہ جس کا تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو ، تمہیں یہ سبق دینے کے لیے کافی تھا کہ نبی جس میں توحید کی تعلیم تمہیں دے رہا ہے وہ بالکل بر حق ہے ۔ تمہاری ساری زندگی اسی سائے کے مد و جزر سے وابستہ ہے ۔ ابدی سایہ ہو جائے تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق ، بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے ، کیونکہ سورج کی روشنی و حرارت ہی پر ان سب کی زندگی موقوف ہے ۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے ، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ پا سکنے کی صورت میں نہ جاندار زیادہ دیر تک باقی رہ سکتے ہیں نہ نباتات ، بلکہ پانی تک کی خیر نہیں ۔ دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات ہوتے رہیں تب بھی زمین کی مخلوقات ان جھٹکوں کو زیادہ دیر تک نہیں سہار سکتی ۔ مگر ایک صانع حکیم اور قادر مطلق ہے جس نے زمین اور سورج کے درمیان ایسی مناسبت قائم کر رکھی ہے جو دائماً ایک لگے بندھے طریقے سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی اور بڑھاتی گھٹاتی ہے اور بتدریج دھوپ نکالتی اور چڑھاتی اتارتی رہتی ہے ۔ یہ حکیمانہ نظام نہ اندھی فطرت کے ہاتھوں خود بخود قائم ہو سکتا تھا اور نہ بہت سے با اختیار خدا اسے قائم کر کے یوں ایک مسلسل با قاعدگی کے ساتھ چلا سکتے تھے ۔ مگر ان ظاہری الفاظ کے بین السطور سے ایک اور لطیف اشارہ بھی جھلک رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کا یہ جو اس وقت چھایا ہوا ہے ، کوئی مستقل چیز نہیں ہے ۔ آفتاب ہدایت ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں طلوع ہو چکا ہے ۔ بظاہر سایہ دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے ، مگر جوں جوں یہ آفتاب چڑھے گا ، سایہ سمٹتا چلا جائے گا ۔ البتہ ذرا صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کا قانون کبھی یک لخت تغیرات نہیں لاتا ۔ مادی دنیا میں جس طرح سورج آہستہ آہستہ ہی چڑھتا اور سایہ آہستہ آہستہ ہی سکڑتا ہے ۔ اسی طرح فکر و اخلاق کی دنیا میں بھی آفتاب ہدایت کا عروج اور سایہ ضلالت کا زوال آہستہ آہستہ ہی ہو گا ۔
16: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کی کئی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن پر انسان غور کرے تو ان میں سے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی توحید پر واضح دلیل ہے۔ سب سے پہلے یاد دلایا گیا ہے کہ دھوپ چھاؤں کی تبدیلیاں انسان کی زندگی کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ اگر دنیا میں ہمیشہ دھوپ رہتی تب بھی زندگی دو بھر ہوجاتی، اور اگر ہر وقت سایہ ہی سایہ رہتا تو بھی انسان کا کاروبار زندگی معطل ہو کر رہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہر روز ان دونوں کا حسین امتزاج اس طرح پیدا فرماتا ہے کہ صبح کے وقت سایہ زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے، پھر جوں جوں سورج چڑھتا جاتا ہے، اس کا سایہ سمٹتا رہتا ہے۔ سورج کو سائے کا رہنما بنانے۔ کا مطلب یہی ہے کہ سورج کے چڑھنے کے ساتھ ساتھ سایہ گھٹنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ عین دوپہر کے وقت وہ کالعدم ہوجاتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سمیٹنے سے تعبیر فرمایا ہے، پھر جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈھلتا ہے، سایہ پھر رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ غروب کے وقت پورے افق کو گھیر لیتا ہے۔ اور اس طرح انسانوں کو دھوپ چھاؤں کی یہ تبدیلی دھیرے دھیرے حاصل ہوتی ہے، اور ناگہانی تبدیلی کے نقصانات سے بچاؤ ہوتا رہتا ہے۔