Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501یعنی قرآن کریم کو اور بعض نے صٓرفناہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے جس کا مطب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں حتی کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت ومشیت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں کبھی کسی اور علاقے میں۔ 502اور ایک کفر ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی جنتی بھی اللہ کی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لئے تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہیں۔ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان باتوں پر دھیان دیتی ہے اور نہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتی ہے۔ اور بعض انسان تو ایسے غلط عقائد میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بارش فلاں ستارہ کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ آپ کے زمانہ میں بھی ایسے عقائد عام تھے اور ہر اچھی اور بری بات کو سیاروں کی گردش سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر جہاں آپ چودہ سو صحابہ سمیت عمرہ کی عرض سے تشریف لائے۔ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بےآب وگیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت متصور ہوتی تھی تو صبح آپ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندوں میں میں سے کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے۔ یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور سیاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا ( بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم ([ 1] - گویا ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان لانا دو متضاد باتیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے جو سیاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ ان اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ ۔۔ : اس آیت کی دو تفسیریں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ اگر ” صَرَّفْنٰهُ “ میں ” ہٗ “ کی ضمیر اوپر بیان کردہ دلائل کی طرف ہو، جیسا کہ اکثر مفسرین کا رجحان ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ ہم نے توحید کے دلائل کو قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر بیان کیا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، مگر اکثر لوگوں نے توحید قبول نہیں کی اور انھوں نے ناشکری اور کفر کے سوا کچھ مانا ہی نہیں۔ اور اگر ” صَرَّفْنٰهُ “ کی ضمیر ” مَاءً “ کی طرف ہو تو معنی یہ ہوگا کہ ہم نے اس پانی کو ان کے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے، چناچہ وہ کہیں زیادہ برستا ہے کہیں کم۔ سب جگہ ایک جیسا اور ایک وقت میں نہیں برستا، کسی جگہ بارش سے سیلاب آجاتا ہے تو دوسری جگہ بارش کا ایک قطرہ نہیں گرتا اور قحط پڑجاتا ہے، کہیں وہ مائع صورت میں ہے، کہیں پتھر کی طرح برف کی صورت میں اور کہیں بخارات کی صورت میں۔ غرض یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ابن عباس اور ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ( مَا مِنْ عَامٍ أَمْطَرَ مِنْ عَامٍ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَصْرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَرَأَ : (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ) [ مستدرک حاکم : ٢؍٤٠٣، ح : ٣٥٢٠۔ طبري : ٢١٢١٦۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٥؍٤٦٠، ح : ٢٤٦١ ] ” یعنی کوئی سال ایسا نہیں جس میں دوسرے کسی سال سے زیادہ بارش ہوتی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا ) [ الفرقان : ٥٠ ]” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر بھیجا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ دکتور حکمت بن بشیر نے اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسی سند کے ساتھ روایت کرکے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے اور ابن مسعود (رض) کا قول طبری اور بیہقی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقي : ٣؍٣٦٣ ]- ان دو جلیل القدر صحابہ کے قول کی رو سے یہ تفسیر زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ بات وہ اپنے پاس سے نہیں کہہ سکتے، اس لیے یہ حکماً مرفوع ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں : ” جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بارش زمین پر ہر سال مجموعی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے اور یہی بات سیکڑوں برس پہلے وحی کے ذریعے سے بتادی گئی تھی۔ “- لِيَذَّكَّرُوْا : یعنی بارش کو اس طرح پھیر پھیر کر مختلف جگہوں پر کم یا زیادہ نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، بارش کو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل کا نتیجہ مانیں، اس کے برسنے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور نہ برسنے پر توبہ و استغفار کریں۔ - فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا : ” كُفُوْرًا “ اور ” کُفْرٌ“ دونوں مصدر ہیں، ” كُفُوْرًا “ میں حرف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی سخت ناشکری۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں ایک بارش کے بعد، جو رات کے وقت ہوئی تھی، صبح کی نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ( ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ، قَالَ : قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِيْ مُؤْمِنٌ بِيْ وَ کَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ رَحْمَتِہِ ، فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِيْ وَکَافِرٌ بالْکَوْکَبِ ، وَ أَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَ کَذَا، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِيْ وَ مُؤْمِنٌ بالْکَوْکَبِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوء : ٧١۔ بخاري : ٨٤٦ ] ” جانتے ہو آج رات تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ “ انھوں نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ “ کہا، اس نے فرمایا ہے : ” آج میرے بندوں نے صبح کی ہے کہ کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے ہیں اور کچھ کفر کرنے والے ہیں۔ جس نے کہا، ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستارے کے ساتھ کفر کرنے والا ہے اور جس نے کہا، ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو یہ ستارے پر ایمان رکھنے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ ، مطلب آیت کا یہ ہے کہ بارش کو ہم بدلتے اور پھیرتے رہتے ہیں کبھی ایک شہر میں کبھی دوسرے میں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جو لوگوں میں شہرت ہوتی ہے کہ اس سال بارش زیادہ ہے اس سال کم ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ بارش کا پانی تو ہر سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکساں نازل ہوتا ہے البتہ حکم الٰہی یہ ہوتا رہتا ہے کہ اس کی مقدار کسی شہر بستی میں زیادہ کردی کسی میں کم کردی۔ بعض اوقات کمی کرکے بستی کے لوگوں کو سزا دینا اور متنبہ کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات زیادتی بھی عذاب بن جاتی ہے۔ تو یہی پانی جو خالص رحمت ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کرتے ہیں ان کے لئے اسی کو عذاب اور سزا بنادیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَيْنَہُمْ لِيَذَّكَّرُوْا۝ ٠ۡۖ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا۝ ٥٠- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) اور ہم اس پانی کو بقدر مصلحت سال بہ سال تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ اس کے ذریعہ سے نصیحت حاصل کریں لیکن لوگوں نے اللہ کے اس انعام کو قبول نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کے ساتھ کفر کیے بغیر نہ رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَیْنَہُمْ لِیَذَّکَّرُوْاز) ” - سمندر کے بخارات سے بادلوں کا بننا ‘ اربوں ٹن پانی کا ہواؤں کے دوش پر ہزاروں میلوں کے فاصلے طے کر کے مختلف علاقوں میں بارش برسانا ‘ ان بارشوں سے ندی نالوں اور دریاؤں کے سلسلوں کا جنم لینا ‘ انسانی آبادیوں سے میلوں کی بلندیوں پر گلیشیرز کی صورت میں پانی کے کبھی نہ ختم ہونے والے ذخائر ( ) کا وجود میں آنا ‘ پھر گلیشیرز کا پگھل پگھل کر ایک تسلسل کے ساتھ انسانی ضرورتوں کی سیرابی کا ذریعہ بننا ‘ اور اس سب کچھ کے بعد فالتو پانی کا پھر سے سمندر میں پہنچ جانا یہ ہے پانی کی گردش ( ) کا عظیم الشان نظام جو قدرت کے بڑے بڑے عجائبات میں سے ہے اور زبان حال سے انسانی عقل و شعور کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اس کے خالق کو پہچانے اور اس پر ایمان لائے۔ - (فَاَبآی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا ) ” - اس سب کے باوجود اکثر لوگ ناشکری ہی پر اڑے ہوئے ہیں اور اس کے سوا کوئی دوسرا طرزعمل اختیار کرنے سے انکاری ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :64 اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَاہُ ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے ، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے ، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے ، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آ جاتی ہے ، اور ان سب حالتوں کے بے شمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :65 اگر پہلے رخ ( یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کمینگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوسرے رخ ( یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بے شمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے ، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بے وقوف اس زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں ۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا ، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا ، اور احسان تذکیر و تعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے ۔ اگر تیسرے رخ ( یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہو گئی اور فکر و اخلاق کی زمین میں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگا ۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آب حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا ، گلشن انسانیت لہلہا اٹھا ۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی ۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا ۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے ۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا ، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا ۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے ، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے ۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے ، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے ، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے ۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے ۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: پانی کی اُلٹ پھیر کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ پانی اﷲ تعالیٰ اِنسانوں کے درمیان اپنی حکمت سے ایک خاص تناسب کے مطابق تقسیم فرماتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پانی کا اصل ذخیرہ سمندر میں ہے۔ اﷲ تعالیٰ وہاں سے اُسے بادلوں کے ذریعے اٹھاتے ہیں، اور پہاڑوں پر برف کی صورت میں جما دیتے ہیں، جہاں سے وہ پِگھل پِگھل کر دریاوں کی صورت اختیار کرتا ہے، اور لوگ اُس سے اپنی ضروریات پوری کر کے اُسے ضائع کردیتے ہیں، لیکن یہی مستعمل پانی ندی نالوں کے ذریعے دوبارہ سمندروں میں جا گرتا ہے، اور پاک پانی کے اِس ذخیرے میں بہہ بہہ کر دوبارہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اُسے پھر بادلوں کے ذریعے اوپر اٹھایا جائے۔