Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521جاھدھم بہ میں ھا ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں یہ آیت مکی ہے ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرو نواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر و توبیخ اور وعیدیں ہیں وہ واضح کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] یعنی ہم چاہتے تو ہر بستی میں الگ الگ نبی بھیج دیتے اور ہر جگہ ہی حق و باط کے معرکہ بپا ہوتے۔ لیکن ہماری سنت یہی ہے کہ اب ایک ہی آفتاب نبوت بھیج دیا جائے جس کی رسالت سب لوگوں کے لئے یکساں ہو اور تاقیامت ہو۔ جیسا کہ ایک ہی آفتاب ساری دنیا کو منور کر رہا ہے اور تاقیامت کرتا رہے گا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ نبی جتنا عظیم الشان ہوگا۔ معرکہ حق و باطل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ اسی لئے یہ تاکید فرمائی کہ کافروں سے کسی قسم کے سمجھوتہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کافروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیجئے۔ یہ خطاب اگرچہ بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے۔ لیکن اس میں آپ کی پوری امت بھی شامل ہے۔ جہاد کا لغوی معنی کسی مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش ہے اور جہاد کبیر میں تاکید مزید بھی پائی جاتی ہے اور وسعت اور پھیلاؤ بھی۔ یعنی ایک تو اس امت کا ہر فرد اپنی اس کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اور اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرے۔ اور دوسرے یہ کہ دشمن کا ہر اس محاذ پر مقابلہ کیا جائے۔ جس پر اسلام دشمن طاقتیں کام کر رہی ہوں۔ اور اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے، مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی۔ غرضیکہ جس محاذ پر بھی دشمن آور ہو اسی محاذ پر اس کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ چونکہ ہم نے ہر بستی کی طرف الگ الگ نذیر بھیجنے کے بجائے تمام جہانوں کے لیے آپ ہی کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اس لیے آپ کافروں کا کہنا مت مانیے، خواہ وہ معجزوں کا مطالبہ کریں یا طعن و تشنیع اور ٹھٹھے مذاق کے ساتھ دعوت سے روکنے کی کوشش کریں، یا مدا ہنت کی پیش کش کریں، جیسا کہ فرمایا : (وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ) [ القلم : ٩ ] ” وہ چاہتے ہیں کاش تو نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کریں۔ “- وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا : ” جَاھَدَ یُجَاھِدُ جِھَادًا وَ مُجَاھَدَۃً “ (مفاعلہ) کسی کے مقابلے میں اپنی پوری کوشش صرف کردینا۔ ” بِهٖ “ سے مراد قرآن مجید ہے، جس کا تذکرہ ” وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ “ میں گزرا ہے اور جس کے ذکر کے ساتھ سورت کی ابتدا ہوئی ہے، فرمایا : (تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ ) یعنی اگر ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیجا جاتا تو آپ کے بوجھ میں کمی ہوجاتی، اب تمام لوگوں تک پیغام پہنچانے کی ذمہ داری کی وجہ سے آپ کا بوجھ بہت زیادہ ہوگیا ہے، اس لیے آپ اس قرآن کو لے کر جہاد کبیر کریں۔ ” جہاد کبیر “ سے کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے اس سے مراد اپنی آخری کوشش تک لگا دینا ہے، یعنی دعوت کے ذریعے سے بھی اور جب ممکن ہو قتال کے ذریعے سے بھی۔ رازی لکھتے ہیں : ” بعض مفسرین نے فرمایا، یہاں جہاد سے مراد اللہ کا پیغام پہنچانے اور دعوت میں پوری کوشش کرنا ہے اور بعض نے فرمایا، قتال (لڑائی) کے ساتھ جہاد مراد ہے اور بعض نے فرمایا، دونوں کے ساتھ جہاد مراد ہے۔ “ رازی نے فرمایا : ” پہلی تفسیر زیادہ قریب ہے، کیونکہ سورت مکی ہے اور قتال کا حکم ہجرت کے بھی کچھ دیر بعد نازل ہوا۔ “ مگر حقیقت یہ ہے کہ زیادہ قریب بات یہ ہے کہ دعوت و قتال دونوں کے ساتھ جہاد مراد ہے، کیونکہ لفظ جہاد (پوری کوشش صرف کرنے) کا تقاضا بھی یہی ہے اور لفظ ” کبیر “ کا بھی۔ رہی یہ بات کہ یہ سورت مکی ہے، تو مکی سورتوں میں بھی قتال کا ذکر موجود ہے، اگرچہ حکمت الٰہی کے پیش نظر ہجرت سے پہلے قتال کی اجازت نہیں دی گئی، جیسا کہ سورة مزمل میں (جو بالاتفاق مکی ہے) فرمایا : (عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى ۙ وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ۙوَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ) [ المزمل : ٢٠ ] ” اس نے جان لیا کہ یقیناً تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں لڑیں گے، پس اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔ “ اور عروہ بن زبیر نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے پوچھا : ” قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ سے زیادہ جو ایذا دی وہ کیا تھی ؟ “ تو انھوں نے دو دنوں کا ذکر فرمایا، جن میں سے ایک وہ دن تھا جب عقبہ بن ابی معیط نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں چادر ڈال کر گلا گھونٹا اور ابوبکر (رض) نے اسے دھکا دے کر آپ کو چھڑایا اور ایک اس سے پہلا دن کہ جب آپ طواف کر رہے تھے اور جب آپ کفار قریش کے پاس سے گزرتے تو وہ کوئی نہ کوئی تکلیف دہ بات کرتے، تین چکروں میں ایسا ہی ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَسْمَعُوْنَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَمَا وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَقَدْ جِءْتُکُمْ بالذَّبْحِ ) ” قریشیو سنتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میں تمہارے پاس (تمھارے) ذبح (کا پیغام) لے کر آیا ہوں۔ “ [ مسند أحمد : ٢؍٢١٨، ح : ٧٠٥٤۔ مسند أبی یعلٰی : ٦؍٤٢٥، ح : ٧٣٣٩ ] مسند احمد اور مسند ابی یعلی ٰ دونوں کی تحقیق میں اسے حسن کہا گیا ہے ۔- ذبح کا یہ حکم جسے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تھے، جب اس پر عمل کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل کرکے دکھایا اور فرمایا : ( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنْ لَا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَ ھُمْ وَ أَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِْسْلاَمِ وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ ) [ بخاري، الإیمان، باب : ( فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ۔۔ ) : ٢٥، عن ابن عمر ] ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کا رسول ہے۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کرلیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے ۔ “ - 3 جہاد کبیر کی تفسیر دعوت و قتال دونوں کے ساتھ کرنا اس لیے بھی راجح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ( أَيُّ الْجِھَادِ أَفْضَلُ ؟ ) ” کون سا جہاد افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ وَ أُھْرِیْقَ دَمُہُ عُقِرَ جَوَادُہُ ) [ ابن ماجہ، الجہاد، باب القتال في سبیل اللہ : ٢٧٩٤، قال الشیخ الألباني صحیح ] ” جس کا خون بہا دیا گیا اور اس کا گھوڑا کاٹ دیا گیا۔ “ اور طارق ابن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا جب آپ رکاب میں پاؤں رکھ چکے تھے : ( أَيُّ الْجِھَادِ أَفْضَلُ ؟ ) ” کون سا جہاد افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِرٍ ) [ نساءي، البیعۃ، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر : ٤٢١٤ ] ” کسی ظالم بادشاہ کے پاس حق بات کہہ دینا۔ “ ظاہر ہے ظالم بادشاہ کے سامنے وہی شخص کلمۂ حق کہہ سکتا ہے جو اس کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جائے گا، یہ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں۔ اس لیے پچھلی حدیث میں اور اس میں کوئی تضاد نہیں۔- 3 اس مقام پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے، جس میں مال و جان کی قربانی والے جہاد کو جہاد اصغر قرار دیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِھَادِ الْأَکْبَرِ قَالُوْا وَمَا الْجِھَادُ الْأَکْبَرُ ؟ قَالَ جِھَادُ الْقَلْبِ )” ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف واپس پلٹ آئے ہیں۔ “ لوگوں نے کہا : ” تو وہ جہاد اکبر کیا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جہاد القلب (دل کا جہاد) ۔ “ ” اَلْمَقُوْلُ مِنْ مَا لَیْسَ بِمَنْقُوْلٍ “ کے مصنف ولید بن راشد السعیدان لکھتے ہیں : ” حافظ ابن حجر نے (تسدید القوس میں) فرمایا، یہ ابراہیم بن ابی عبلہ کا کلام ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ اس کا اصل کچھ نہیں اور یہ جابر (رض) سے بھی مروی ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ (واللہ اعلم)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

جہاد بالقرآن یعنی قرآن کی دعوت کو پھیلانا جہاد کبیر ہے :- وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا، یہ آیت مکی ہے جبکہ احکام کفار سے قتال و جنگ کے نازل نہیں ہوئے تھے اسی لئے یہاں جہاد کو بہ کے ساتھ مقید کیا گیا، بہ کی ضمیر تو قرآن کی طرف راجع ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کے ذریعہ مخالفین اسلام سے جہاد کرو بڑا جہاد، قرآن کے ذریعہ اس جہاد کا حاصل اس کے احکام کی تبلیغ اور خلق خدا کو اس کی طرف توجہ دینے کی ہر کوشش ہے خواہ زبان سے ہو یا قلم سے دوسرے طریقوں سے اس سب کو یہاں جہاد کبیر فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا كَبِيْرًا۝ ٥٢- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) تو آپ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی خوشی کا کام نہ کیجیے اور ان سے قرآن کریم اور بذریعہ تلوار زور شور سے مقابلہ کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ ) ” - یہاں پر لفظ اطاعت حکم کی تعمیل کے مفہوم میں نہیں آیا ‘ بلکہ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہّ میں درپیش تھے۔ اس وقت مکہ کی فضا انتہائی کشیدہ تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر طرف سے شدید دباؤ تھا۔ ان حالات میں اکثر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورے دیتے تھے اور بار بار سمجھاتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پوری قوم کے ساتھ جو لڑائی مول لے رکھی ہے یہ مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے قبیلے میں پھوٹ پڑجائے گئی ‘ بھائی بھائی سے کٹ جائے گا ‘ اولاد والدین سے ُ جدا ہوجائے گی ‘ قبیلے کی بنی بنائی ساکھ برباد ہوجائے گی اور اس کے نتائج سب کے لیے بہت بھیانک ہوں گے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے موقف میں تھوڑی سی لچک پیدا کرلیں تو صلح صفائی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے اور حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ چناچہ کشمکش کے اس ماحول میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ولید بن مغیرہ سمیت قریش کے اکثر اکابرین چاہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ باتیں تسلیم کرلی جائیں ‘ اس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں ‘ اس طرح کوئی درمیانی راہ نکل آئے اور تصادم کا خطرہ ٹل جائے۔ لیکن اہل مکہّ کی اس سوچ اور کوشش کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے موقف پر پوری تندہی اور دل جمعی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ایک طرف اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا تو دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شدید نوعیت کا معاشرتی دباؤ تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت اور شدت کی ایک جھلک سورة بنی اسرائیل کی ان آیات سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے : (وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْءًا قَلِیْلاً ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ تو تلے ہوئے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتنے میں ڈال کر اس سے بچلا دیں جو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا گاڑھادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہو ہی جاتے “۔ اس سیاق وسباق میں آیت زیر نظر کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی کسی بات کو قبول کرنا تو درکنار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی باتوں کی طرف بالکل دھیان ہی نہ دیں۔ - (وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا ) ” - ان مشکل حالات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ چناچہ مکہّ میں بارہ سال تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جہاد کیا وہ جہاد بالسیف نہیں تھا بلکہ جہاد بالقرآن تھا۔ اس جہاد کی آج پھر ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے میری کتاب ” جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ “ کا مطالعہ مفید رہے گا ‘ جو میری دو تقاریر پر مشتمل ہے۔ بہر حال آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت ‘ تربیت ‘ تزکیہ ‘ انذار اور تبشیر کے ذریعے سے ِ اقامت دین کے لیے ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا (وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ ) (یونس : ٥٧) بھی اسی میں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :67 جہاد کبیر کے تین معنی ہیں ۔ ایک ، انتہائی کوشش جس میں آدمی سعی و جاں فشانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے ۔ دوسرے ، بڑے پیمانے پر جد و جہد جس میں آدمی اپنے تمام ذرائع لاکر ڈال دے ۔ تیسرے ، جامع جدوجہد جس میں آدمی کوشش کا کوئی پہلو اور مقابلے کا کوئی محاذ نہ چھوڑے ، جس جس محاذ پر غنیم کی طاقتیں کام کر رہی ہوں اس پر اپنی طاقت بھی لگا دے ، اور جس جس پہلو سے بھی حق کی سر بلندی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہو کرے ۔ اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے اور جان و مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani