5 3 1آپ شریں کو فرات کہتے ہیں، فَرَات کے معنی کاٹ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کردیتا ہے۔ اُجَاج، سخت کھاری یا کڑوا۔ 5 3 2جو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی بعض نے حجرا محجورا کے معنی کیے ہیں حراما محرما ان پر حرام کردیا گیا ہے کہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہوجائے اور بعض مفسرین نے مرج البحرین کا ترجمہ کیا ہے خلق المائین دو پانی پیدا کیے ایک میٹھا اور دوسرا کھاری میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اور ایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے یہ سمندر ساکن ہیں البتہ ان میں مد وجزر ہوتا رہتا ہے اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہوجاتا ہے اس کے ذائقے رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے کھاری پانی خراب نہیں ہوتا نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہوجاتا اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑ جاتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں ملاحت نمکیات کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور انکا پانی بھی پاک ہے حتی کہ ان کا مردار بھی حلال ہے کما فی الحدیث۔ موطا امام مالک۔ ابن ماجہ
[٦٥] مرج کا لغوی معنی دو چیزوں کو اس طرح ملانا یا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی ( مفرادت امام راغب ( اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتلائی ہے اور وہ نشانی اتنی عام ہے جو بیشمار لوگوں کے مشاہدہ میں آچکی ہے۔ اور جغرافیہ دان حضرات اور جغرافیہ پڑھنے والے طالب علم اس حقیقت سے خوب واقف ہیں جو سمندروں کے اندر بھی ایسے۔۔ چل رہے ہیں جیسے سطح زمین پر بہہ رہے ہیں۔ کہیں گرم پانی کی روئیں چل رہی ہیں کہیں ٹھنڈے پانی کی، کہیں کھاری پانی کی، کہیں میٹھے پانی کی، اور یہ روئیں اتنی لمبی ہوتی ہیں جو سمندر کے اندر ہی اندر ایک ملک سے دوسرے ملک تک چلی جاتی ہیں۔ پھر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اوپر کھاری پانی ہے، نیچے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک طرف کھاری پانی کا دریا بہہ رہا ہے تو اس کے ساتھ متصل میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہے اور یہ پانی اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہم ملتے نہیں۔ اور ملاح حضرات اپنی واقفیت کی بنا پر سمندر میں سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی بھی حاصل کرلیتے ہیں اور میں نے خود دو مقامات چترال اور کراچی میں دیکھا ہے کہ ایک طرف گرم پانی کا چشمہ ابل رہا اور ساتھ ہی متصل دوسری طرف ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے حالانکہ سمین کے نیچے پانی کی سطح ایک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانی کی یہ مثال اسی لئے دی ہے کہ یہ بات عام لوگوں کے مشاہدہ میں آچکی ہے اب سوال یہ ہے کہ پانی یا ہر سیال چیز کی جہاں یہ خاصیت کو سلب کرلیا۔ تاکہ سمندر کے اندر یا سمندر کے کناروں پر بسنے والی مخلوق کو پینے کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی مہیا ہوسکے تاکہ وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھ سکے۔ کیا اب بھی غافل انسان اپنی چشم بصیرت سے اللہ کی اس نشانی اور عظیم الشان نعمت اور قدرت کو نہ دیکھے گا ؟- [٦٦] یہاں حجرا محجورا کا لفظ مح اور تاً نہیں بلکہ اپنے اصل اور لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ۔۔ : ” فُرَاتٌ“ ” فَرُتَ یَفْرُتُ “ کا معنی توڑ دینا ہے، میٹھا پانی پیاس کو ختم کرتا ہے، اس لیے اسے ” فُرَاتٌ“ کہتے ہیں۔ توحید کے دلائل جو ” اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ “ سے شروع ہوئے تھے یہ ان کا چوتھا سلسلہ ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کے کمال اور انسان پر اس کے انعامات تینوں چیزوں کا بیان ہے۔ اس کی ہم معنی آیت سورة رحمن میں ہے : (مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ ) [ الرحمٰن : ١٩، ٢٠ ] ” اس نے دو سمندروں کو ملادیا، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے (جس سے) وہ آگے نہیں بڑھتے۔ “ ” هُوَ الَّذِيْ “ میں مبتدا اور خبر دونوں کے معرفہ ہونے سے قصر کا مفہوم ادا ہو رہا ہے کہ دو سمندروں کو اس طرح ملانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ زمین کے تقریباً ستر (٧٠) فیصد حصے پر سمندر ہے جس کا پانی سخت نمکین ہے، بظاہر اس کے ساتھ ملا ہوا میٹھے پانی کا کوئی سمندر نہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کسی صورت غلط نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مفسرین نے آیت کے کئی مصداق بیان فرمائے ہیں اور سبھی درست ہیں۔ ایک مصداق اس کا یہ ہے کہ عربی میں بحر کا لفظ پانی کے بڑے ذخیرے پر بولا جاتا ہے، اس لیے یہ لفظ سمندر اور دریا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تو اس سے مراد زمین پر موجود پانی کے دو بڑے ذخیرے ہیں، ایک میٹھا جو دریاؤں، جھیلوں اور ندی نالوں کی صورت میں ہے اور دوسرا کڑوا جو سمندر کی صورت میں ہے۔ ایک دوسرے کے قریب ہونے کے باوجود دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے زمین کی اوٹ بنادی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہیں، نہ نمکین میٹھے پر غالب آتا ہے اور نہ میٹھا نمکین پر۔ اس کا واضح مشاہدہ جزیروں پر ہوتا ہے، جہاں سمندر کے سخت نمکین پانی کے ساتھ ہی میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہوتا ہے۔ - دوسرا مصداق اس کا یہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے نیچے موجود پانی کے دو سمندر ہیں، جن میں سے ہر ایک کی رو دوسرے کی رو کے بالکل ساتھ چل رہی ہے، ایک جگہ نلکا لگائیں تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور بعض اوقات اس کے قریب ہی دوسرا نلکا لگانے سے نمکین پانی نکلتا ہے، حتیٰ کہ دیوار کی ایک طرف کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور دوسری طرف کا نمکین، نہ یہ اس کی نمکینی میں دخل دیتا ہے اور نہ وہ اس کی شیرینی میں۔ میری دانست میں یہ صورت سب سے واضح ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے اور اس پر کسی ملحد کے لیے اعتراض کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ تیسرا مصداق اس کا وہ مقام ہے جہاں کسی بڑے دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے اور اس کے اندر دور تک چلا جاتا ہے، اس کا رنگ اور ذائقہ سمندر کے پانی کے رنگ اور ذائقے سے الگ رہتا ہے، دونوں کے درمیان نظر نہ آنے والی رکاوٹ حائل رہتی ہے۔ مفسر ابوحیان لکھتے ہیں : ” وَ نِیْلُ مِصْرَ فِيْ فَیْضِہِ یَشُقُّ الْبَحْرَ الْمَالِحَ شَقًّا بِحَیْثُ یَبْقٰي نَھْرًا جَارِیًا أَحْمَرَ فِيْ وَسْطِ الْمَالِحِ لِیَسْتَقِی النَّاسُ مِنْہُ “ [ البحر المحیط ] ” یعنی مصر کا دریائے نیل اپنی طغیانی کے زمانے میں نمکین سمندر کو چیرتا ہوا شور سمندر کے وسط میں سرخ رنگ کے دریا کی صورت میں دور تک بہتا چلا جاتا ہے، جس سے لوگ پینے کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ “ چوتھا مصداق اس کا یہ ہے کہ کھارے اور کڑوے سمندر کے درمیان ایسے ذخیرے موجود ہیں جن کا پانی بالکل میٹھا ہے۔ ابو حیان ہی نے لکھا ہے : ” وَ تَرَی الْمِیَاہَ قِطْعًا فِيْ وَسْطِ الْبَحْرِ الْمَالِحِ فَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مَاءٌ ثَلْجٌ فَیَسْقُوْنَ مِنْہُ مِنْ وَسْطِ الْبَحْرِ “ [ البحر المحیط ] ” یعنی نمکین سمندر کے وسط میں (میٹھے) پانی ٹکڑوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ برف کا پانی ہے اور وہ سمندر کے درمیان اس سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ “ - تفہیم القرآن میں ہے : ” خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب ” مرأۃ الممالک “ میں (جو سولھویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے) خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے، اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے انھی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی، بعد میں ” ظہران “ کے پاس کنویں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ “- 3 اس آیت میں نعمت کی یاد دہانی کس طرح ہے، اس کے لیے میٹھے اور نمکین سمندروں میں سے میٹھے پانی کے فوائد بیان کرنے کی تو خاص ضرورت ہی نہیں، کیونکہ خشکی کے ہر جان دار کی زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے، البتہ نمکین سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا مشاہدہ کئی طرح سے ہوتا ہے۔ ” تفسیر احسن البیان “ میں ہے : ” سمندری پانی کھارا رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے۔ میٹھا پانی زیادہ دیر کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہوجاتا ہے، اس کے ذائقے، رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے، کھارا پانی خراب نہیں ہوتا، نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے، نہ رنگ اور بو۔ اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی، جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہوجاتا۔ اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد۔ اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں (لاکھوں) برس سے یہ سمندر موجود ہیں، ان میں ہزاروں (لاکھوں بلکہ کروڑوں) جانور مرتے ہیں اور انھی میں گل سڑ جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں ملاحت (نمکیات) کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی، ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور ان کا پانی بھی پاک ہے، حتیٰ کہ ان کا مردار بھی حلال ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے : ( ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاءُ ہُ الْحِلُّ مَیْتَتُہُ ) [ أبوداوٗد، الطہارۃ، باب الوضوء بماء البحر : ٨٣ ] ” اس (سمندر) کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔ “ (احسن البیان) پانی کا یہ عظیم ذخیرہ ہزاروں لاکھوں ٹن وزنی سامان مختلف مقامات پر پہنچانے کا آسان ترین ذریعہ بھی ہے، خوراک اور ضروریات زندگی کا لا محدود خزانہ بھی اور تمام جان داروں اور پودوں کو میٹھا پانی مہیا کرنے کے لیے بادلوں اور بارشوں کی پیدائش کا منبع بھی۔ اس کے علاوہ موسموں کے رد و بدل میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مزید دیکھیے سورة فاطر (١٢) ، نحل (١٤) ، حج (٦٥) ، زخرف (١١، ١٢) اور جاثیہ (١٢) ۔
وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا، لفظ مرج آزاد چھوڑ دینے کے معنے میں آتا ہے اسی وجہ سے مرج چراگاہ کو کہتے ہیں جہاں جانور آزادی سے چلیں پھریں اور چریں۔ عذب میٹھے پانی کو کہا جاتا ہے۔ فرات خوش ذائقہ اور خوشگوار ملح نمکین اجاج تیز وتلخ۔- حق تعالیٰ نے اپنے فضل اور حکمت بالغہ سے دنیا میں دو طرح کے دریا پیدا فرمائے ہیں۔ ایک سب سے بڑا بحر محیط جس کو سمندر کہتے ہیں اور زمین کے سب اطراف اس میں گھرے ہوئے ہیں ایک چوتھائی کے قریب حصہ ہے جو اس سے کھلا ہوا ہے اس میں ساری دنیا آباد ہے۔ یہ سب سے بڑا دریا بتقاضائے حکمت سخت نمکین تلخ اور بدمزہ ہے۔ زمین کے آباد حصے پر آسمان سے اتارے ہوئے پانی کے چشمے، ندیاں نہریں اور بڑے بڑے دریا ہیں یہ سب میٹھے خوشگوار اور خوش ذائقہ ہیں۔ انسان کو اپنے پینے اور پیاس بجھانے اور روز مرہ کے استعمال میں ایسے ہی شیریں پانی کی ضرورت ہے جو حق تعالیٰ نے زمین کے آباد حصہ میں مختلف صورتوں میں مہیا فرما دیا ہے۔ لیکن بحر محیط سمندر اگر میٹھا ہوتا تو میٹھے پانی کا خاصہ ہے کہ بہت جلد سڑ جاتا ہے۔ خصوصاً سمندر جس میں خشکی کی آبادی سے زیادہ دریائی انسانوں جانوروں کی آبادی بھی ہے جو اس میں مرتے ہیں وہیں سڑتے اور مٹی ہوجاتے ہیں اور پوری زمین کے پانی اور اس میں بہنے والی ساری گندگیاں بھی بالآخر سمندر میں جاکر پڑتی ہیں۔ اگر یہ پانی میٹھا ہوتا تو دو چار دن میں ہی سڑ جاتا۔ اور یہ سڑتا تو اس کی بدبو سے زمین والوں کو زمین پر رہنا مصیبت ہوجاتا۔ اس لئے حکمت خداوندی نے اس کو اتنا سخت نمکین اور کڑوا اور تیز بنادیا کہ دنیا بھر کی گندگیاں اس میں جا کر بھسم ہوجاتی ہیں اور خود اس میں رہنے والی مخلوق بھی جو اسی میں مرتی ہے وہ بھی سڑنے نہیں پاتی۔- آیت مذکورہ میں ایک تو اس انعام و احسان کا ذکر ہے کہ انسان کی ضرورت کا لحاظ فرما کردو قسم کے دریا پیدا فرمائے۔ دوسرے اس قدرت کاملہ کا کہ جس جگہ میٹھے پانی کا دریا نہر سمندر میں جاکر گرتے ہیں اور میٹھا اور کڑوا دونوں پانی یکجا ہوجاتے ہیں وہاں یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ لگے ہوئے چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا، دوسری طرف کڑوا اور ایک دوسرے سے نہیں ملتے، حالانکہ ان دونوں کے درمیان کوئی آڑ حائل نہیں ہوتی۔
وَہُوَالَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ٠ۚ وَجَعَلَ بَيْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ٥٣- مرج - أصل المَرْج : الخلط، والمرج الاختلاط، يقال : مَرِجَ أمرُهم «2» : اختلط، ومَرِجَ الخاتَمُ في أصبعي، فهو مارجٌ ، ويقال : أمرٌ مَرِيجٌ. أي : مختلط، ومنه غصنٌ مَرِيجٌ: مختلط، قال تعالی: فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] والمَرْجان : صغار اللّؤلؤ . قال : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] من قولهم : مَرَجَ.- ويقال للأرض التي يكثر فيها النّبات فتمرح فيه الدّواب : مَرْجٌ ، وقوله : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ- [ الرحمن 15] أي : لهيب مختلط، وأمرجت الدّابّةَ في المرعی: أرسلتها فيه فَمَرَجَتْ.- ( م ر ج ) اصل میں المرج کے معنی خلط ملط کرنے اور ملا دینے کے ہیں اور المروج کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ۔ مرج امرھم ۔ ان کا معاملہ ملتبس ہوگیا ۔ مرج الخاتم فی اصبعی ۔ انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی ہوگئی مارج ( صفت فاعلی ) ڈھیلی انگوٹھی ۔ امر مریج گذمڈا اور پیچیدہ معاملہ ۔ غضن مریج : باہم گتھی ہوئی ٹہنی ۔ قرآن پاک میں ہے : فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] سو یہ ایک غیرواضح معاملہ میں ہیں ۔ المرجان ۔ مونگا چھوٹا موتی ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] اور آٰیت کریمہ ؛مَرَجَاس نے دودریا ر واں کے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ میں مرج کا لفظ مرج کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور جس زمین میں گھاس بکثرت ہو اور جانور اس میں مگن ہوکر چرتے رہیں اسے مرج کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] آگ کے شعلے ہے ۔ میں مارج کے معنی آگ کے ( دھوئیں سے ) مخلوط شعلے کے ہیں ۔ امرجت الدابۃ فی المرعیٰ : میں نے جانور کو چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا چناچہ آزادی سے چرتا رہا ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - عذب ( میٹھا پانی)- ماءٌ عَذْبٌ طيّب بارد . قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] ، وأَعْذَبَ القومُ :- صار لهم ماءٌ عَذْبٌ ، - ( ع ذ ب ) ماء عذب کے معنی خوش گوار اور ٹھنڈا پانی کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] ایک کا پانی شیریں اور خوشگوار ہے ۔ اعذب القوم لوگوں کو شیریں پانی ملنے لگا - فرت - الْفُرَاتُ : الماء العذب . يقال للواحد والجمع، قال تعالی: وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات 27] ، وقال : هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] .- ( ف ر ت ) الفرات کے معنی شیریں یا نہایت شیریں پانی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات 27] اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا ۔ هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان 53] ایک کا پانی شیریں ہے پیس بجھانے ولا ؛- ملح - المِلْحُ : الماء الذي تغيّر طعمه التّغيّرَ المعروفَ وتجمّد، ويقال له مِلْحٌ إذا تغيّر طعمه، وإن لم يتجمّد، فيقال : ماءٌ مِلْحٌ. وقلّما تقول العرب : ماءٌ مالحٌ «3» . قال اللہ تعالی: وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] ومَلَّحْتُ القدرَ : ألقیت فيها الملح، وأَمْلَحْتُهَا : أفسدتها بالملح، وسمکٌ مَلِيحٌ ، ثم استعیر من لفظ الملح المَلَاحَةُ ، فقیل : رجل ملیح، وذلک راجع إلى حسن يغمض إدراکه .- ( م ل ح ) الملح اس پانی کو کہتے ہیں جو متغیر ہوکر جم جائے یعنی نمک بن جائے اور صرف متغیر پانی کو بھی ملح کہہ دیتے ہیں چناچہ کھاری پانی کو ماء ملح کہا جاتا ہے اور ماء مالح بہت کم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] اور یہ کھاری ہے کڑوا ملحت القدر کے معنی ہانڈی میں نمک ڈالنے کے ہیں اور املح تھا کے معنی زیادہ نمک ڈال کر خراب کردینے کے اور نمک لگا کر خشک کی ہوئی مچھلی کو سمک ملیح سے استعارہ کے طور پر ملا حۃ بمعنی خو بر دلی آتا ہے اور رجل ملیح اس خوبر د آدمی کہتے ہیں جس کا حسن خوب غور کے بعد محسوس ہو ۔- أج - قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] : شدید الملوحة والحرارة، من قولهم : أجيج النار وأَجَّتُهَا، وقد أجّت، وائتجّ النهار . ويأجوج ومأجوج منه، شبّهوا بالنار المضطرمة والمیاه المتموّجة لکثرة اضطرابهم «2» . وأجّ الظّليم : إذا عدا، أجيجاً تشبيهاً بأجيج النار .( ا ج ج ) الاجاج ۔ کے معنی سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں قرآن میں ہے :۔ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ [ الفرقان : 53] ایک کا پانی نہایت شیریں اور دوسرے کا سخت گرم ہے ۔ یہ ( اجاج ) اجیح النار ( شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت ) واجل تھا وقد اجت ۔ میں نے آگ بھڑکائی چناچہ وہ بھڑک اٹھی ( وغیرہ محاورات ) سے مشتق ہے ۔ ائتج النھار ۔ دن گرم ہوگیا ۔ اسی ( اج) سے يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (18 ۔ 94) (21 ۔ 94) ہے ان کے کثرت اضطراب کی وجہ سے مشتعل آگ یا موجزن اور متلاطم پانی کے ساتھ تشبیہ دے کر یاجوج ماجوج کہا گیا ہے ۔ اج الظلیم اجیحا ۔ شتر مرغ نہایت سرعت رفتار سے چلا ۔ یہ محاورہ اشتعال نار کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔- برزخ - البَرْزَخ : الحاجز والحدّ بين الشيئين، وقیل : أصله برزه فعرّب، وقوله تعالی: بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] ، والبرزخ في القیامة : الحائل بين الإنسان وبین بلوغ المنازل الرفیعة في الآخرة، وذلک إشارة إلى العقبة المذکورة في قوله عزّ وجل : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] ، قال تعالی: وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] ، وتلک العقبة موانع من أحوال لا يصل إليها إلا الصالحون . وقیل : البرزخ ما بين الموت إلى القیامة .- ( ب ر ز خ ) البرزخ کے معنی دو چیزوں کے درمیان حد فاصل اور روک کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ دراصل یہ برزۃ ( پردہ ) سے معرب ہے قرآن میں ہے بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ [ الرحمن 20] دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کہہ سکتے ۔ اور برزخ اس کا وٹ کو بھی کہا گیا ہے جو آخرت میں انسان اور اس کے منازل رفیقہ تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگی جسے قرآن نے آیت : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ میں عقبۃ کہا ہے چناچہ فرمایا وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [ المؤمنون 100] اور ان کے پیچھے برزخ ہے ( جہاں وہ ) اس دن تک کہ ( دوبارہ ) اٹھائے جائیں گے ( رہنیگے ) 23 ۔۔۔۔ ا ) لہذا عقبۃ سے مراد وہ موانع ہیں جو بلند درجات تک پہنچنے سے روک لیتے ہیں جن تک کہ نیک لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں برزخ سے موت اور حشر کے مابین کی مدت مراد ہے ۔- حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔
(٥٣) اور وہ ایسا ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا جن میں ایک تو شیریں تسکین بخش ہے اور ایک شور تلخ ہے۔- اور باوجود اس کے ان دونوں یعنی شیریں اور تلخ کے درمیان ایک حجاب اور ایک دوسرے کے پانی کے اختلاط سے ایک مانع قوی رکھ دیا۔
(ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ج) ” - اس کی قدرت سے نمکین اور کھارے سمندر کے اندر میٹھے پانی کی رو بھی بہہ رہی ہے۔- (وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ) ” - یہ پردہ ‘ آڑ یا روک نظر آنے والی کوئی چیز تو نہیں ہے ‘ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی صناعیّ کا شاہکار ہے کہ میٹھا پانی کڑوے پانی کے ساتھ سمندر کے اندر دور تک ملنے نہیں پاتا۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :68 یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے ۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے ۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس ( کاتب رومی ) اپنی کتاب مرآۃ الممالک میں ، جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں ۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے ان ہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی ۔ بعد میں ظہران کے پاس کنوئیں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا ۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں ۔ یہ تو ہے آیت کا ظاہری مضمون ، جو اللہ کی قدرت کے ایک کرشمے سے اس کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے پر استدلال کر رہا ہے ۔ مگر اس کے بین السطور سے بھی ایک لطیف اشارہ ایک دوسرے مضمون کی طرف نکلتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کا سمندر خواہ کتنا ہی تلخ و شور ہو جائے ، اللہ جب چاہے اس کی تہ سے ایک جماعت صالحہ کا چشمہ شیریں نکال سکتا ہے ، اور سمندر کے آب تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زور مار لیں وہ اس چشمے کو ہڑپ کر جانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔
18: دریاؤں اور سمندروں کے سنگھم پر یہ نظارہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دو الگ الگ قسم کے پانی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ؛ لیکن ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے، بلکہ دور تک ان کی خصوصیات الگ الگ دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں، یہی وہ عجیب وغریب آڑ ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کی سرحد عبور کرنے نہیں دیتی۔