Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541نسب سے مراد رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اور صہرا سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتہ داریوں کی تفصیل آیت (وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِيْلًا 22؀ۧ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ وَبَنٰتُكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ وَعَمّٰتُكُمْ وَخٰلٰتُكُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ۡ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ۡ وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ ۙ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا 23؀ۙ ) 4 ۔ النساء :23-22) میں بیان کردی گئی ہے اور رضائی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ البخاری ومسلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ کیا کم ہے کہ اس نے پانی ایک بوند سے انسان جیسی محیرالعقول میشنری رکھنے والی مخلوق پیدا کردی۔ مزید یہ کہ اس پیدا ہونے والے بچہ کو جو مختلف نوعوں میں تقسیم کردیا۔ کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی۔ اور یہ دونوں انسان ہونے کے اعتبار سے تو یکساں ہیں۔ مگر اپنی جسمانی ساخت اور خصوصیات میں بہت سے امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود وہ دونوں مل کر ایک ہی مقصد پورا کرتے ہیں اور وہ ہے بقائے نسل انسانی۔ ان دونوں نوع کے ملاپ سے دنیا میں ہزاروں مرد اور عورتیں پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر اس اختلاف کی بنا پر رشتہ داریاں بھی دو طرح کی بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جن کے ہاں عورتیں بہو بن کر آتی ہیں اور یہ نسبی رشتہ داری ہے۔ جیسے بیٹا، پوتا، پڑوتا وغیرہ اور دوسرے وہ جن کے ہاں ہماری بیٹیاں، پوتایاں وغیرہ بہو بن کر جاتی ہیں یہ سسرال رشتہ داریاں ہیں۔ پھر ان دونوں قسم کی رشتہ داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ چڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدنی وجود میں آجاتا ہے۔- جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو لڑکے اور لڑکی کی جسمانی ساخت میں صرف شرمگاہوں کی فرق ہوتا ہے جس سے ہم یہ تمیز کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ پھر کچھ اختلاف بلوغت پر نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے لڑکے کو احتلام ہونا اور داڑھی اور مونچھوں کے بالوں کا اگنا اور لڑکیوں کو حیض آنا اور اس کے پستانوں میں ابھار کا پیدا ہونا۔ پھر کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق استقرار حمل سے ہوتا ہے جیسے عورت کے پستانوں میں دودھ کا اتر آنا۔ کیونکہ جب تک حمل قرار نہ پائے دودھ بنتا ہی نہیں۔ پھر جوانی ڈھلنے پر عورت کا حیض آنا از خود بند ہوجاتا ہے اور مرد میں مادہ منویہ کی پیدائش از خود رک جاتی ہے۔ اور دونوں کے شہوانی جذات افسردہ پڑنے لگ جاتے ہیں اور یہ ایسے لگے بندے قوانین فطرات ہیں جن میں کبھی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ان امور پر غور کرنے سے بےاختیار یہ بات زبان پر آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے جس قسم کا کام لینا ہوتا ہے اس پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا ۔۔ : یہ توحید کے دلائل کی پانچویں قسم ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور آدمی پر انعام تینوں کا ذکر ہے۔ ” بَشَراً “ کا لفظ ” اَلْبَشَرَۃُ “ (کھال، ظاہری جلد) سے ہے، دوسرے تمام جانوروں کا جسم بالوں سے یا پروں وغیرہ سے چھپا ہوتا ہے، جبکہ انسان کی جلد اس سے صاف ہوتی ہے، اس لیے اسے ” بشر “ کہا جاتا ہے۔ پچھلی آیت میں خالق ومالک اور تنہا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر دو پانیوں کو ملنے سے روکنے کی قدرت کا ذکر تھا اور اس آیت میں انھیں ملانے کا ذکر ہے، فرمایا : (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ڰ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا) [ الدھر : ٢ ] ” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔ “ تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کائنات میں سب کچھ خود بخود ہر چیز کی طبیعت کے تقاضے سے ہو رہا ہے۔ نہیں یہ اس زبردست مالک و مختار کا کام ہے، چاہتا ہے تو سمندروں کو ملنے سے روک دیتا ہے، چاہتا ہے تو قطرے کو باہم ملا دیتا ہے اور پانی پر صورت گری اور نقش آفرینی فرما دیتا ہے۔- فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا : یعنی یہی کرشمہ بجائے خود کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر قطرے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا دیتا ہے، اس پر مزید یہ کہ اس نے انسان کا ایک نمونہ ہی نہیں، دو الگ الگ نمونے (عورت اور مرد) بنا دیے، فرمایا : (فَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى) [ القیامۃ : ٣٩ ] ” پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔ “ پھر وہ مذکر ہو یا مؤنث، ان سب کی نسبت باپ دادا کی طرف ہوتی ہے، فلاں بن فلاں اور فلانہ بنت فلاں۔ جب مرد اور عورت کی آپس میں شادی ہوتی ہے تو ان کے بہت سے سسرالی رشتے دار بن جاتے ہیں، خاندانی قبیلوں اور قوموں کا یہ سارا پھیلاؤ ایک قطرۂ منی سے وجود میں آتا ہے۔ دیکھیے سورة نساء کی پہلی آیت اور سورة حجرات (١٣) ۔- وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا : یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں، کیونکہ تیرا رب ہمیشہ سے بیحد قدرت والا ہے۔ ہمیشگی کا مفہوم ” كَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا، نسب اس رشتہ اور قرابت کو کہا جاتا ہے جو باپ یا ماں کی طرف سے ہو، اور صہر وہ رشتہ وتعلق ہے جو بیوی کی طرف سے ہو جس کو عرف میں سسرال بولتے ہیں۔ یہ سب تعلقات اور قرابتیں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں جو انسان کو خوشگوار زندگی کے لئے لازمی ہیں، اکیلا آدمی کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۝ ٠ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا۝ ٥٤- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - نسب - النَّسَب والنِّسْبَة : اشتراک من جهة أحد الأبوین، وذلک ضربان :- نَسَبٌ بالطُّول کالاشتراک من الآباء والأبناء .- ونَسَبٌ بالعَرْض کالنِّسْبة بين بني الإِخْوة، وبني الأَعْمام . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً- [ الفرقان 54] . وقیل : فلان نَسِيبُ فلان . أي : قریبه، وتُستعمَل النّسبةُ في مقدارَيْنِ مُتجانِسَيْنِ بَعْضَ التَّجَانُسِ يختصُّ كلّ واحد منهما بالآخر، ومنه : النَّسِيبُ ، وهو الانْتِسَابُ في الشِّعْر إلى المرأة بذِكْر العشق، يقال : نَسَبَ الشاعر بالمرأة نَسَباً ونَسِيباً.- ( ن س ب ) النسب والنسبۃ کے معنی ابواین میں سے کسی ایک کی طرف سے رشتہ درای کے ہیں اور نسب دوقسم پر ہے نسب بالطول یعنی وہ رشتہ جو آباء اور ابناء کے درمیان پایا جاتا ہے : ۔ دوم نسب بالعرض یعنی وہ رشتہ جو بنو الا عمام یعنی عم زاد بھائیوں کے درمیان ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان 54] پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا ۔ فلان نسیب فلان وہ فلاں کا قریبی رشتہ دار ہے اور نسبۃ کے معنی ان دو مقدار روں کے درمیان باہمی مناسبت کے بھی آتے ہیں جن میں کسی قسم کی مجانست ہو اسی سے نسیب کا لفظ ہے جس کے معنی اشعاری میں عورت کے محاسن ذکر کر کے اس کے ساتھ عشق کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ اور یہ سب انشا عر بالمرء ۃ نسبا ونسیبا کا مصدر ہے ۔- صهر - الصِّهْرُ : الختنُ ، وأهل بيت المرأة يقال لهم الأَصْهَارُ ، كذا قال الخلیل «2» . قال ابن الأعرابيّ : الإِصْهَارُ : التَّحَرُّمُ بجوارٍ ، أو نسب، أو تزوّج، يقال : رجلٌ مُصْهِرٌ: إذا کان له تحرّم من ذلك . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان 54] ، والصَّهْرُ : إذابةُ الشّحمِ. قال تعالی: يُصْهَرُ بِهِ ما فِي بُطُونِهِمْ [ الحج 20] ، والصُّهَارَةُ : ما ذاب منه، وقال أعرابيّ : لَأَصْهَرَنَّكَ بيمينٍ مُرَّةٍ «3» ، أي : لأُذِيبَنَّكَ.- ( ص ھ ر ) الصھر کے معنی الختن آتے ہیں یعنی وہرشتہ دار جو شوہر کی جانب سے ہوں نیز بیوی کے خاندان والوں کو اصھار سمجھا جاتا ہے ی یہ تو خلیل کا ہے ۔ ابن الاعرابی نے کہا ہے کہ پڑوس ، نسب یا شادی کی وجہ سے تعلق پیدا ہوجائے اسے اصھار ( افعال ) کہا جاتا ہے رجل مصہر وہ مردج سے اس قسم کا تعلق حاصل ہو اور ایت کریمہ : فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان 54] میں نسب سے وہ رشتے داری مراد ہے جو آباء و اجداد کیجانب سے ہو اور صھر سے مراد وہ رشتہ جو شادی کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ الصھر ( ف) کے معنی ہیں چربی وغیرہ کو گرم کرکے پگھلانا قرآن پاک میں ہے : يُصْهَرُ بِهِ ما فِي بُطُونِهِمْ [ الحج 20] اس سے جو کچھ ان کے پیٹیوں کے اندر ہے گال دیا جائیگا ۔ الصھارۃ پگھلائ ہوئی چربی ایک اعرابی کا قول ہے کہ لا صھرنک بیمین مرۃ یعنی میں تمہیں پگھلا کر چھوڑوں گا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نسب اور سسرالی رشتے - قول باری ہے : (وھوالذی خلق من الماء بشرا وجعلہ نسبا وطھوا) اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا اور پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ سلسلے چلائے۔ یہاں وہ پانی مراد لینا جائز ہے جس سے جانداروں کی اصل پیدا کی گئی جس کا ذکر اس قول باری میں ہے : (وجعلنا من الماء کل شیء حی) اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، اور اس سے وہ نطفہ مراد لینا بھی درست ہے جس سے اولاد آدمی کی تخلیق ہوئی۔- قول باری (فجعلہ نسبا وصھرا) کی تفسیر میں طائوس کا قول ہے کہ رضاعت بھی صہر یعنی سسرال میں داخل ہے۔ ایک روایت کے مطابق ضحاک کا قول ہے کہ نسب سے مراد رضاعت ہے اور صہر سے مراد دامادی رشتہ ہے۔ فراء کا قول ہے کہ سب سے محرم رشتہ دار مراد ہے جس سے نکاح جائز نہیں ہوتا اور صہر سے غیر محرم رشتہ دار مراد ہے جس کے ساتھ نکاح جائز ہوتا ہے۔ مثلاً چچازاد بہنیں وغیرہ۔ ایک قول کے مطابق نسب سے قریبی رشتہ داری مراد ہے اور صہر سے مخلوط رشتہ داری مراد ہے جو قریبی رشتہ داری کے مشابہ ہوتی ہے۔- ضحاک کا قول ہے نسب کے تحت سات قسم کے رشتہ دار آتے ہیں جن کا ذکر قول باری (حرمت علیکم امھاتکم) لے سے کر قول باری (وبنات الاخت) تک ہوا ہے اور صہر کے تحت پانچ رشت دار آتے ہیں جن کا ذکر قول باری (وامھاتکم اللاتی اضعنکم) سے لے کر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم) تک ہوا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اصہار کے سلسلے میں متعارف بات یہی ہے کہ ان سے ایک شخص کی بیویوں کا ہر وہ محرم رشتہ دار مراد ہے جس کی طرف اس شخص یعنی شوہر کی نسبت ہوتی ہے۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کے اصہار کے لئے وصیت کر جائے تو یہ وصیت اس شخص کی بیویوں کے ہر محرم رشتہ دار کے لئے جاری کی جائے گی۔ لوگوں کی عام گفتگو اور محاورے سے یہی مفہوم متعارف ہے۔ بیٹی کے شوہر یعنی داماد کو ختن کہتے ہیں۔ اسی طرح ہر اس عورت کو ختن کہتے ہیں جو اس مرد کے لئے محرم ہوتی ہے جس کی طرف داماد کی نسبت کی جاتی ہے۔- نیز شوہر کے تمام محرم مرد رشتہ دار بھی اس کے سسرال کے ختن کہلاتے ہیں ۔ کبھی صہر کا لفظ ختن یعنی داماد کی جگہ استعمال ہوتا ہے اور عرب کے لوگ داماد کو بھی صہر کہہ دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے ؎- سمیتھا اذا ولدت تموت - والقبر صھر ضامن زمیت - جب یہ بچی پیدا ہوئی تھی اس وقت ہی میں نے اس کا نام ” تموت “ (جلد مرجائے) رکھ دیا تھا دراصل قبرہی بڑا باوقار اور ذمہ دار داماد ہوتا ہے یعنی ایک بچی کی قبر ہی کے اندر درست طریقے سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ یہاں شاعر نے صہر کہہ کر داماد مراد لیا ہے جو ان کی گفتگو اور روز مرہ بول چال کی متعارف صورت پر محمول ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اور وہ ایسا ہے کہ جس نے مرد و عورت کے نطفہ سے انسانوں کو پیدا کیا اور پھر اسے خاندان والا یعنی ایسے رشتہ داروں والا بنایا جن سے نکاح نہیں کرسکتا اور سسرال والا بنایا کہ جن میں شادی بیاہ کرسکتا ہے اور مخلوق میں جو حلال و حرام رشتے پیدا کیے اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ ( وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا) ” - پانی سے یہاں انسان کا مادۂ تولید بھی مراد ہوسکتا ہے اور عام پانی بھی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز پانی سے ہی پیدا کی ہے۔- (فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًاط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا ) ” - انسان کا نسب تو اس کے والدین سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی کے حوالے سے دوسرے خاندان کے ساتھ بھی اس کا رشتہ اور تعلق جوڑا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ساس اور سسر کو بھی اللہ تعالیٰ نے والدین جیسا تقدس اور احترام عطا کیا ہے۔ سسرالی رشتہ داریاں اگر نہ ہوتیں تو قبیلوں اور خاندانوں کا معاشرے میں باہمی ارتباط و اختلاط ممکن نہ ہوتا اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے الگ تھلگ رہتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سسرالی رشتوں کا تانا بانا اس طرح سے ُ بن رکھا ہے کہ اس سے نوع انسانی باہم مربوط ہوتی چلی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :69 یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا کھڑی کرتا ہے ، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں بلکہ دو الگ نمونے ( عورت اور مرد ) بنائے جو انسانیت میں یکساں مگر جسمانی و نفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں ، اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف و متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں ۔ پھر ان جوڑوں کو ملا کر وہ عجیب توازن کے ساتھ ( جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے ) دنیا میں مرد بھی پیدا کر رہا ہے اور عورتیں بھی ، جن سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں ، اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں کی بہوئیں بن کر جاتی ہیں ۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہاں بھی ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اس سارے کارخانہ حیات میں جو حکمت کام کر رہی ہے اس کا انداز کار ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں اختلاف ، اور پھر مختلفین کے جوڑ سے ہی سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جس اختلاف سے تم دو چار ہو اس پر گھبراؤ نہیں ۔ یہ بھی ایک نتیجہ خیز چیز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani