آبائی گمراہی مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ بت پرستی کرتے ہیں اور بلادلیل وحجت ان کی پوجا کرتے ہیں جو نہ نفع کے مالک نہ نقصان کے ۔ صرف باپ دادوں کی دیکھا دیکھی نفسانی خواہشات سے انکی محبت وعظمت اپنے دل میں جمائے ہوئے ہیں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور مخالفت رکھتے ہیں ۔ شیطانی لشکر میں شامل ہوگئے ہیں اور رحمانی لشکر کے مخالف ہوگئے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انجام کار غلبہ اللہ والوں کو ہی ہوگا ۔ یہ خواہ مخواہ ان کی طرف سے سینہ سپر ہو رہے ہیں انجام کار مومنوں کے ہی ہاتھ رہے گا ۔ دنیا اور آخرت میں ان کا پروردگار انکی امداد کرے گا ۔ ان کفار کو تو شیطان صرف اللہ کی مخالفت پر ابھار دیتا ہے اور کچھ نہیں ۔ سچے اللہ کی عداوت انکے دل میں ڈال دیتا ہے شرک کی محبت بٹھا دیتا ہے یہ اللہ کے احکام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں مومنوں کو خوشخبری سنانے والا اور کفار کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اطاعت گزاروں کو جنت کی بشارت دیجئے اور نافرمانوں کو جہنم کے عذابوں سے مطلع فرما دیجئے ۔ لوگوں میں عام طور پر اعلان کردیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا بدلہ اپنے وعظ کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا ۔ میرا ارادہ سوائے اللہ کی رضامندی کی تلاش کے اور کچھ نہیں ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے جو راہ راست پر آنا چاہے اس کے سامنے صحیح راستہ نمایاں کردوں ۔ اے پیغمبر اپنے تمام کاموں میں اس اللہ پر بھروسہ رکھئے جو ہمیشہ اور دوام والا ہے جو موت وفوت سے پاک ہے جو اول و آخر ظاہر و باطن اور ہر چیز کا عالم ہے جو دائم باقی سرمدی ابدی حی و قیوم ہے جو ہر چیز کا مالک اور رب ہے اسکو اپنا ماویٰ وملجا ٹھہرالے ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ہر گھبراہٹ میں اسی کی طرف جھکا جائے ۔ وہ کافی ہے وہی ناصر ہے وہی موید ومظفر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ 67 ) 5- المآئدہ:67 ) اے نبی جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا ۔ آپ بےفکر رہئے اللہ آپ کو لوگوں کے برے ارادوں سے بچالے گا ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ مدینے کی کسی گلی میں حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا اے سلمان مجھے سجدہ نہ کر سجدے کے لائق وہ ہے جو ہمیشہ کی زندگی والاہے ۔ جس پر کبھی موت نہیں ( ابن ابی حاتم ) اور اس کی تسبیح وحمد بیان کرتا رہ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسکی تعمیل میں فرمایا کرتے تھے ۔ دعا ( سبحانک اللہم ربنا وبحمدک ) مراد اس سے یہ ہے کہ عبادت اللہ ہی کی کر توکل صرف اسی کی ذات پر کر جیسے فرمان ہے مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ اور جگہ ہے آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ١٢٣ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اسی پر بھروسہ رکھ اور آیت میں ہے اعلان کردے کہ اسی رحمن کے ہم بندے ہیں اور اسی پر ہمارا کامل بھروسہ ہے ۔ اس پر بندوں کے سب اعمال ظاہر ہیں ۔ کوئی ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں کوئی پراسرار بات بھی اس سے مخفی نہیں وہی تمام چیزوں کا خالق ہے مالک وقابض ہے وہی ہرجاندار کا روزی رساں ہے اس نے اپنی قدرت وعظمت سے آسمان وزمین جیسی زبردست مخلوق کو صرف چھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قرار پکڑا ہے کاموں کی تدبیروں کا انجام اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور تدبیر کا مرہون ہے ۔ اس کا فیصلہ اعلی اور اچھا ہی ہوتا ہے جو ذات الہ کا عالم ہو اور صفات الہ سے آگاہ ہو اس سے اس کی شان دریافت کرلے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات کی پوری خبرداری رکھنے والے اسکی ذات سے پورے واقف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے ۔ جو دنیا اور آخرت میں تمام اولاد آدم کے علی الاطلاق سردار تھے ۔ جو ایک بات بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو فرماتے تھے وہ فرمودہ الہ ہی ہوتا تھا ۔ آپ نے جو جو صفتیں اللہ کی بیان کی سب برحق ہیں آپ نے جو خبریں دیں سب سچ ہیں سچے امام آپ ہی ہیں تمام جھگڑوں کا فیصلہ آپ ہی کے حکم سے کیا جاسکتا ہے جو آپ کی بات بتلائے وہ سچا جو آپ کے خلاف کہے وہ مردود خواہ کوئی بھی ہو ۔ اللہ کا فرمان واجب الاذعان کھلے طور سے صادر ہوچکاہے ۔ آیت ( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59ۧ ) 4- النسآء:59 ) تم اگر کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹاؤ ۔ اور فرمان ہے آیت ( وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ڰ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ 10 ) 42- الشورى:10 ) تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو اسکا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ۔ اور فرمان ہے ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥ ) 6- الانعام:115 ) تیرے رب کی باتیں جو خبروں میں سچی اور حکم وممانعت میں عدل کی ہیں پوری ہوچکیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے قرآن ہے ۔ مشرکین اللہ کے سوا اوروں کو سجدے کرتے تھے ۔ ان سے جب رحمان کو سجدہ کرنے کو کہاجاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم رحمان کو نہیں جانتے ۔ وہ اس سے منکر تھے کہ اللہ کا نام رحمان ہے جیسے حدیبیہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے کاتب سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ ۔ تو مشرکین نے کہا نہ ہم رحمان کو جانیں نہ رحیم کو ہمارے رواج کے مطابق باسمک اللہم لکھ ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری آیت ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠ ) 17- الإسراء:110 ) ، کہہ دے کہ اللہ کو پکارو یارحمن کو جس نام سے چاہو پکارو اس کے بہت سے بہترین نام ہیں وہی اللہ ہے وہی رحمن ہے پس مشرکین کہتے تھے کہ کیا صرف تیرے کہنے سے ہم ایسا مان لیں؟ الغرض وہ اور نفرت میں بڑھ گئے برخلاف مومنوں کے کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رحمان و رحیم ہے اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اور اسی کے لئے سجدہ کرتے ہیں ۔ علماء رحمتہ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ سورۃ فرقان کی اس آیت کے پڑھنے اور سننے والے پرسجدہ مشروع ہے جیسے کہ اسکی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔
[٦٨] یعنی کاز کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہاں کہیں بھی اعلائے کلمہ اللہ کا کام شروع ہو تو وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ اس کی اخلاقی زبانی، مالی اور جانی ہمدردیاں ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو اقامت دین الٰہی کے راستہ میں مزاحم ہو رہے ہوں۔ انھیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کی زندگی اور اس کی بقاء کے اسباب تو اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طریقوں سے مہیا کر رہا ہے۔ لہذا انھیں اسی اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہئے۔ الٹا وہ ہر اس عمل اور اس سازش میں شریک ہوجاتا ہے جو اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہو اور ایسی چیزوں کی عبادت گزاری اور فرمانبرداری کرنے لگتا ہے جن کے اختیار میں ان کا اپنا بھی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۔۔ : انسان کو کسی کی عبادت اور خود سپردگی پر آمادہ کرنے والی چیز اس سے فائدے کی امید ہوتی ہے یا نقصان کا خوف۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات اور عاد وثمود اور دوسری قوموں کو دی جانے والی سزائیں شمار کرنے کے بعد کفار کی بےعقلی بیان فرمائی کہ وہ اس محسن کو چھوڑ کر جس نے انھیں پانی کی ایک بوند سے پیدا فرما کر ضرورت کی ہر چیز اور ہر نعمت عطا فرمائی ہے، ان بےحقیقت چیزوں کی پوجا کر رہے ہیں جو نہ انھیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ نقصان۔ ” يَعْبُدُوْنَ “ مضارع کا صیغہ (جو استمرار کے لیے ہے) ان کے حال پر تعجب کے لیے ذکر فرمایا کہ یہ نہیں کہ انھوں نے ایک آدھ دفعہ یہ کمینگی کی ہو، بلکہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے سوا تمام ہستیوں کے نفع و نقصان کے مالک ہونے کی اور عبادت کا حق دار ہونے کی نفی بار بار فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٧٦) ، اعراف (١٨٨) ، یونس (١٨، ٤٩) ، رعد (١٦) ، فرقان (٣) ، یٰس (٧٥) ، فتح (١١) اور سورة جن (٢١) ۔- وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰي رَبِّهٖ ظَهِيْرًا : ” الْكَافِرُ “ میں الف لام جنس کا ہے یا استغراق کا، اور ” کَانَ “ استمرار اور ہمیشگی کے لیے ہے، یعنی ہر کافر کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اس کے دشمنوں کی مدد کرتا ہے، خواہ وہ شیاطین الجن ہوں یا شیاطین الانس۔ اس کی دلی، زبانی، مالی اور جانی ساری توانائیاں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت اور کفر اور کافروں کی حمایت کے لیے وقف ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا) [ النساء : ٧٦ ] ” وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بیشک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔ “ ” عَلیٰ رَبِّهٖ “ میں کافر کی نمک حرامی نمایاں فرمائی ہے کہ اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے خلاف مورچہ باندھے ہوئے ہے، کیا اپنے پرورش کرنے والے ہی کے خلاف ؟
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُہُمْ وَلَا يَضُرُّہُمْ ٠ۭ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰي رَبِّہٖ ظَہِيْرًا ٥٥- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔
(٥٥) اور یہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں کہ دنیا وآخرت میں ان کی یہ عبادت اور اطاعت ان لوگوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی اور نہ ان جھوٹے معبودوں کی نافرمانی اور ترک عبادت ان لوگوں کے لیے کوئی نقصان دہ ہے اور ابو جہل تو اپنے رب کا مخالفہی ہے یا یہ کہ کافروں کی مدد کرکے اپنے پروردگار کی کفر کے ساتھ مخالفت کرتا ہے۔
(وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیْرًا ) ” - یہ لوگ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہی نہیں۔ ظھیر کا معنی مددگار بھی ہے اور علٰی مخالفت کے لیے آتا ہے۔ اس طرح ان الفاظ کا مفہوم ہوگا کہ کافر لوگ اپنے رب کے خلاف دوسروں کے مددگار بنتے ہیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :70 یعنی اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کے لیے جو کوشش بھی کہیں ہو رہی ہو ، کافر کی ہمدردیاں اس کوشش کے ساتھ نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گی جو اسے نیچا دکھانے کے در پے ہوں ۔ اسی طرح اللہ کی فرماں برداری و اطاعت سے نہیں بلکہ اس کی نافرمانی ہی سے کافر کی ساری دلچسپیاں وابستہ ہوں گی ۔ نافرمانی کا کام جو جہاں بھی کر رہا ہو کافر اگر عملاً اس کا شریک نہ ہو سکے گا تو کم از کم زندہ باد کا نعرہ ہی مار دے گا تاکہ خدا کے باغیوں کی ہمت افزائی ہو ۔ بخلاف اس کے اگر کوئی فرماں برداری کا کام کر رہا ہو تو کافر اس کی مزاحمت میں ذرا دریغ نہ کرے گا ۔ خود مزاحمت نہ کر سکتا ہو تو اس کی ہمت شکنی کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کر گزرے گا ، چاہے وہ ناک بھوں چڑھانے کی حد تک ہی سہی ۔ نافرمانی کی ہر خبر اس کے لیے مژدہ جانفزا ہو گی اور فرماں برداری کی ہر اطلاع اسے تیر بن کر لگے گی ۔