6 5 1اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بےخوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ) 23 ۔ المومنون :60) اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انھیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انھیں اے ابوبکر (رض) کی بیٹی بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہوجائیں۔ الترمذی۔
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا ۔۔ : مخلوق اور خالق کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرنے کے باوجود ان میں غرور یا خود پسندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق سمجھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور عفو کے طلب گار اور عذاب جہنم سے بچنے کے خواست گار رہتے ہیں۔ سورة مومنون کی آیت (٦٠) : (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) (اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں) میں ان کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے اور سورة ذاریات کی آیت (١٧، ١٨) : (كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) (وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے) میں مذکور ساری رات قیام کے بعد سحریوں کے وقت استغفار کا باعث بھی ان کا یہی احساس ہوتا ہے۔ - اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا : ” غَرَامًا “ ” چمٹ جانے والا “ جس طرح مقروض جب تک قرض ادا نہ کرے غریم (قرض خواہ) اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ جیسے شاعر نے کہا ہے - سَتَعْلَمُ لَیْلٰی أَيَّ دَیْنٍ تَدَانَیَتْ- وَ أَيَّ غَرِیْمٍ فِي التَّقَاضِيْ غَرِیْمُھَا - ” لیلیٰ جان لے گی کہ اس نے کون سا قرض اٹھا لیا ہے اور تقاضا کرنے میں اس کا قرض خواہ کیسا قرض خواہ ہے ؟ “ - یہ جملہ عباد الرحمان کا قول بھی ہوسکتا ہے اور رب رحمٰن کا فرمان بھی۔
پانچویں صفت : وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ الآیہ یعنی یہ مقبولین بارگاہ شب و روز عبادت و اطاعت میں مصروف رہنے کے باوجود بےخوف ہو کر نہیں بیٹھ رہتے بلکہ ہر وقت خدا کا خوف اور آخرت کی فکر رکھتے ہیں جس کے لئے عملی کوشش بھی جاری رہتی ہے اور اللہ تعال سے دعائیں بھی۔
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٠ ۤۖ اِنَّ عَذَابَہَا كَانَ غَرَامًا ٦ ٥ۤۖ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - غرم - الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ- [ القلم 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه .- ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔
قول باری ہے : (ان عذابھا کان غراما۔ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ ) ایک قول کے مطابق (غراما) کے معنی لازم، چمٹ جانے والا اور ہمیشہ ساتھ لگا رہنے والا کے ہیں۔ اسی سے غریم یعنی قرض خواہ کا لفظ نکلا ہے کیونکہ قرض خواہ اپنے مقروض کے ساتھ چمٹا رہتا ہے ۔ اسی سے یہ محاورہ بھی ہے۔ ” انہ لمغرم بانسانء “ (فلاں شخص عورتوں کا دیوانہ ہے) یعنی ان کے پیچھے لگا رہتا ہے اور اسے ان کے بغیر چین نہیں آتا۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔- ان یعاقب یکن غراما - وان یعط جزیلا فانہ لا یبالی - اگر اسے سزا دی جائے تو وہ دیوانہ ہوجائے گا اور اگر اسے بڑا حصہ دیا جائے تو اس کی پروا نہیں کرے گا۔- بشر بن ابی حازم کا شعر ہے :- یوم النسار ویوم الجفا - وکان عذابا وکان غراما - جدائی کا دن اور جفا کا دن یہ دونوں دن عذاب کے اور جان کے لاگو دن ہیں۔- ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمر نے بتایا ہے کہ لغت میں غرم کے اصلی معنی لزوم کے ہیں۔ پھر اس نے اس کی تائید میں وہ شواہد پیش کیے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ قرض کو غرم اور مغرم کا نام دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ لزوم اور مطالبہ کا مقتضی ہوتا ہے ۔ طالب کو عزیم کہا جاتا ہے اس لئے کہ اسے لزوم کا حق ہوتا ہے اور مطلوب کو بھی غریم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے خلاف لزوم کا ثبوت ہوتا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لا یغلق الرھن لصاحیہ غنمہ وعلیہ غرمہ) رہن کے فائدے سے اس کے مالک کو بند نہیں رکھا جائے گا اور اس پر اس کا قرض لازم ہوگا، بھی اسی پر محمول ہے یعنی غرم سے مراد اس کا وہ قرض ہے جس کے ساتھ وہ شخص مرہون اور جکڑا ہوا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ غرم کے معنی ہلاک ہوجانے کے ہیں۔ ابو عمر نے بتایا ہے ک لغت کے لحاظ سے یہ بات غلط ہے۔ جن سے مروی ہے کہ ہر قرض خواہ اپنے مقروض کا پیچھا چھوڑ دے گا لیکن جہنم اپنے مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
(٦٥۔ ٦٦) اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے دوزخ کا عذاب دور کیجیے کیوں کہ اس کا عذاب لازم ہونے والا اور پوری تباہی ہے۔ بیشک وہ برا ٹھکانا اور برا مقام ہے۔
آیت ٦٥ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَق اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ) ” - سورۃ النور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی ایسی ہی کیفیت بیان فرمائی ہے : (یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ) ” وہ ڈرتے رہتے ہیں اس دن (کے خیال) سے جس میں دل اور نگاہیں الٹ دیے جائیں گے “۔ یعنی اگرچہ وہ اپنی ہر مصروفیت پر اللہ کے ذکر کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر حالت میں نماز قائم کرتے ہیں ‘ مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ احتساب آخرت کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔