Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سب سے بڑا گناہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ۔ حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اس نے کہا اس سے کم؟ فرمایا تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے؟ پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا ۔ پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ یہ حدیث بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے لگے تنہا تھے میں بھی ساتھ ہولیا آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات کئے جو اوپر مذکور ہوئے ۔ حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار گناہوں سے بچو ، اللہ کے ساتھ شرک ، کسی حرمت والے نفس کا قتل ، زناکاری اور چوری ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا وہ حرام ہے اور وہ قیامت تک حرام ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں سنو انسان کا اپنی پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں سے زنا سے بھی بدتر ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے اللہ اور اس کے رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بعض مشرکین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا حضرت آپ کی دعوت اچھی ہے سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے قتل بھی کیا ہے ، زناکاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب کام بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت اتری اور آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) بھی نازل ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو ۔ اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو ۔ اثام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے یہی وہ وادی ہے جن میں زانیوں کو عذاب دیا جائے گا ۔ اس کے معنی عذاب وسزا کے بھی آتے ہیں ۔ حضرت لقمان حکیم کی نصیحتوں میں ہیں کہ اے بچے زناکاری سے بچنا اس کے شروع میں ڈر خوف ہے اور اس کا انجام ندامت وحسرت ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ غی اور اثام دوزخ کے دو کنوئیں ہیں اللہ ہمیں محفوظ رکھیں ۔ اثام کے معنی بدلے کے بھی مروی ہے اور یہی ظاہر آیت کے مشابہ بھی ہے ۔ اور گویا اسکے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزاکی تفسیر ہے ۔ کہ اسے با بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائیگی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا ۔ ( اللہم احفظنا ) ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہوچکی ہے ، مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں توبہ کرلیں اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے جو آیت سورۃ نساء میں ہیں ( وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا 93؀ ) 4- النسآء:93 ) ، وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ہے جو توبہ کریں پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے ۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے پھر توبہ کی اور اس کی توبہ قبول ہوئی ۔ وہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دیتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی ۔ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑتھے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک ۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق انہیں ملی ۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے ۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کئے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے ۔ شرک کے بدلے توحید واخلاص ملا ۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی ۔ کفر کے بدلے اسلام ملا ۔ ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی اس سے خوش ہو کر اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا ۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بعد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے انہیں ندامت ہوتی تھی یہ غمگین ہوجاتے تھے شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے ۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے جیسے کہ احادیث وآثار میں ثابت ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر جنت میں جائے گا یہ ایک وہ شخص ہوگا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسکے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے باز پرس کرو چنانچہ اس سے سوال ہوگا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟ فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کرسکے گا اقرار کرے گا ۔ آخر میں کہا جائے گا تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا اے میرے پروردگار میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا ۔ یہ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑے دیکھے جانے لگے ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں کہ جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے وہ دیتا ہے تو ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کریں وہ چونتیس دفعہ اللہ اکبر اور تینتیس دفعہ الحمد للہ اور تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہے یہ مل کر سو مرتبہ ہوگئے ۔ ( ابن ابی دنیا ) حضرت سلمان فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر ہی اس کی برائیاں درج ہونگی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا ۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی ۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو گناہوں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے جن کے پاس بہت کچھ گناہ ہونگے پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے ۔ متقین یعنی پرہیزگاری کرنے والے پھر شاکرین یعنی شکر الٰہی کرنے والے پھر خائفین یعنی خوف الٰہی رکھنے والے پھر اصحاب یمین دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے ۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب دیا اس لئے کہ انہوں نے نیکیاں بدیاں سب کی تھیں ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے اعمال نامے دیکھو جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہونگے ۔ امام علی بن حسین زین العابدین فرماتے ہیں برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنا آخرت میں ہوگا ۔ مکحول فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا ۔ حضرت مکحول نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر آگئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے کوئی غداری کوئی گناہ کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی ۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہوجائیں تو سب کے سب غضب الٰہی میں گرفتار ہوجائیں کیا میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہوجاؤ اس نے کلمہ پڑھ لیا اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیری تمام برائیاں ، گناہ ، بدکاریاں سب کچھ معاف فرمادے گا بلکہ جب تک تو اس پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ تیری برائیاں بھلائیوں میں بدل دے گا ۔ اس نے پھر پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے چھوٹے بڑے گناہ سب صاف ہوجائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں سب کے سب پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر وتہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( ابن جریر ) حضرت ابو فروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں جو جی میں آیا ہو پورا کیا ، کیا ایسے شخص کی توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ اس نے کہاجی ہاں آپ نے فرمایا اب نیکیاں کرو برائیوں سے بچو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا اس نے کہا میری غداریاں اور بدکاریاں بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلا گیا ۔ ( طبرانی ) ایک عورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور دریافت فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہوگئی اس سے بچہ ہوگیا میں نے اسے مار ڈالا اب کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوسکتی ہے نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہوسکتی ہے تیرے لئے توبہ ہرگز نہیں وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی ۔ صبح کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) تک ۔ مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا ۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں وہ خوش ہوگئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت پیدا کردی ( طبرانی ) اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئی واپس چلی کہ ہائے ہائے یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی؟ اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی غلطی کا علم ہوا و اس عورت کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تمام مدینہ اور ایک ایک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا ۔ اتفاق سے رات کو وہ عوت پھر آئی تب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں صحیح مسئلہ بتلایا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لئے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی اسے آزاد کردیا اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔ پھر فرماتا ہے اور پنے عام لطف وکرم فضل ورحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے اللہ اس کی سنتا ہے قبول فرماتا ہے اور اسے دیتا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠؁ ) 4- النسآء:110 ) جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر توبہ استغفار کرے وہ اللہ کو غفور ورحیم پائے گا ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( الم یعملوا اللہ یقبل التوبۃ الخ ) کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا ہے ۔ آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں کہہ دیجئے کہ وہ میری رحمت سے ناامید نہ ہوں ۔ یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

681اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کر دے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔ 682حدیث میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا، کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا۔ یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (البخاری، تفسیر سورة البقرۃ)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تین بڑے بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں اس دور کا عرب معاشرہ بری طرح مبتلا تھا۔ ہر قبیلے کا الگ الگ بت ہوتا تھا۔ پھر ایک بڑا بٹ کئی قبائل کا مشترکہ بھی ہوتا تھا۔ بیت اللہ شریف کے متولیوں نے اللہ کے اس گھر کو جس کی بنیادی ہی توحید پر رکھی گئی تھی تین سو ساٹھ بتوں سے بھر دیا تھا۔ پورے عرب میں لوٹ مار اور قتل و غارت ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ پھر اگر کسی قبیلہ کا کوئی دشمن قتل ہوجاتا تو سمجھ لو کہ سالہا سال تک کے لئے ان دونوں قبائل میں جنگ ٹھن گئی۔ ایسی لڑائیوں نے گھرانوں کے گھرانوں اجاڑ دیئے تھے۔ شراب نوشی اور زنا ان لوگوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ زنا کو وہ کوئی معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے ادبا و شعراء میلوں میں اپنے زنا کے واقعات اور اپنی محبوبہ کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ صفا اور مروہ پہاڑیوں پر دو بت رکھے گئے تھے جن کا نام اساف اور نائلہ تھا یہ دونوں دراصل ایک زانی مرد اور زانی عورت تھے جنہوں نے حرم کعبہ میں زنا کیا تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس جرم میں پتھر بنادیا تھا۔ بعد کے لوگوں نے انہی پتھروں کو صفا اور مروہ پر رکھ کر ان کی پوجا شروع کردی۔ اسی بات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ زنا ان کے ہاں گناہوں میں شمار بھی ہوتا تھا یا نہیں۔ پھر قتل ناحق کی ایک صورت ان کے ہاں رائج تھی اور وہ تھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا۔ ( جس پر پہلے تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ( اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہو وے فرمایا کہ وہ ان شدید جرائم سے بچے رہتے ہیں جن میں عرب کا معاشرہ بری طرح پھنسا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ : یہ عباد الرحمن کی صفات کی ایک اور قسم ہے، یعنی ان برائیوں اور کمینگیوں سے پاک ہونا جو مشرکین میں پائی جاتی ہیں اور عباد الرحمان ایمان کی وجہ سے ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہاں ان کے تین بڑی برائیوں سے بچے رہنے کا ذکر فرمایا، یعنی شرک، قتل ناحق اور زنا۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں، مگر عرب کے معاشرے میں اس وقت زیادہ تسلط انھی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا، اس سے مشرکین پر چوٹ بھی مقصود ہے کہ وہ اتنی نمایاں برائیوں میں مبتلا ہیں جن کی برائی ہر عقل سلیم پر واضح ہے۔ - وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ : مراد ہر انسانی جان ہے، کیونکہ کسی بھی انسانی جان کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے۔- اِلَّا بالْحَقِّ : جیسے جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی کا رجم، مرتد کو قتل کرنا، جنگ میں کافر کو قتل کرنا اور مسلم یا غیر مسلم محارب کو قتل کرنا، یہ سب صورتیں ” اِلَّا بالْحَقِّ “ کے تحت آتی ہیں۔ یہ تینوں گناہ اسی ترتیب کے ساتھ ایک حدیث میں بھی مذکور ہیں، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ” کون سا گناہ سب بڑا ہے ؟ “ فرمایا : ” یہ کہ تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو ، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا فرمایا۔ “ سائل نے کہا : ” پھر کون سا ؟ “ فرمایا : ” یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوگی۔ “ اس نے کہا : ” پھر کون سا ؟ “ فرمایا : ” یہ کہ تم اپنے ہمسائے کی بیوی کی رضا سے اس کے ساتھ زنا کرو۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتار دی : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ) [ الفرقان : ٦٨ ] [ بخاری، الأدب، باب قتل الولد ۔۔ : ٦٠٠١ ] - وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا : ” اَثَامًا “ ”إِثْمٌ“ میں الف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، ” سخت گناہ۔ “ اس کا معنی گناہ کی جزا بھی آتا ہے، یعنی سخت گناہ کی سزا پائے گا۔ ابن کثیر میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا : ” اثام جہنم میں ایک وادی ہے۔ “ دکتور حکمت بن بشیر نے فرمایا : ” اسے طبری نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ساتویں صفت : وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ، پہلی چھ صفات میں اطاعت و فرمانبرداری کے اصول آگئے ہیں اب معصیت و نافرمانی کے اصول مہمہ کا بیان ہے جن میں پہلی چیز عقیدہ سے متعلق ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو عبادت میں شریک نہیں کرتے جس سے شرک کا سب سے بڑا گناہ ہونا معلوم ہوا۔- آٹھویں اور نویں صفت : لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الآیہ، یہ عملی گناہوں میں سے بڑے بڑے اور سخت گناہوں کا بیان ہے کہ اللہ کے مقبول بندے ان کے پاس نہیں جاتے، کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے اور زنا کے پاس نہیں جاتے۔ یہ تین عقیدہ اور عمل کے بڑے گناہ بیان فرمانے کے بعد آیت میں ارشاد ہے وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا یعنی جو شخص ان مذکورہ گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ اس کی سزا پائے گا۔ ابوعبیدہ نے اس جگہ لفظ اثام کی تفسیر سزائے گناہ سے کی ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اثام جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو سخت و شدید عذابوں سے پر ہے۔ بعض روایات حدیث بھی اس کی شہادت میں لکھی ہیں۔ (تفسیر مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ۝ ٠ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا۝ ٦٨ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- زنا - الزِّنَاءُ : وطء المرأة من غير عقد شرعيّ ، وقد يقصر، وإذا مدّ يصحّ أن يكون مصدر المفاعلة، والنّسبة إليه زَنَوِيٌّ ، وفلان لِزِنْيَةٍ وزَنْيَةٍ قال اللہ تعالی: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] ، الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] ، وزنأ في الجبل بالهمز زنأ وزنوءا، والزّناء : الحاقن بوله، و «نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» «3» .- ( ز ن ی ) الزنا - عقد شرعی کے بغیر کسی عورت سے ہم بستری کرنے کا نام زنا ہے یہ اسم مقصود ہے اگر اسے ممدور پڑھا جائے تو باب مفاعلہ کا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اس کی طرف نسبت کے وقت زنوی کہا جائے گا اور فلاں لزنیۃ ( بکسرہ زاو فتح آں ) کے معنی ہیں فلاں حرام زادہ ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ [ النور 3] زافی مرد سوائے زانیہ یا مشر کہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور فاجرہ عورت سوائے فاجرہ کے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرتی ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي [ النور 2] زانیہ عورت اور زانی مرد ۔ اور اگر مہموز اللام سے ہو جیسے زنا فی الجبل زناء وزنوء ۔ تو اس کے معنی پہاڑ پر چڑھنے کے ہوتے ہیں ۔ الزناء ۔ حاقن یعنی پیشاب روکنے والے کو کہتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ«نهي الرّجل أن يصلّي وهو زناء» آدمی کو چاہیئے کہ حاقن ہونے کی صورت میں نماز نہ پڑھے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- 7-- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر) جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے تا آخر آیت۔ اعمش نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ؟ “ آپ نے جواب دیا : ” سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کے مدمقابل ٹھہرائو حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا۔ “ اس نے عرض کیا : ” اس کے بعد کونسا ؟ “ آپ نے جواب دیا۔ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنے بچے کو اس خوف سے مار ڈالو کہ کہیں وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوجائے۔ “ اس نے پھر عرض کیا : ” اس کے بعد کونسا ؟ “ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرو۔ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی کتاب میں : (والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر تا یلق اثاما) نازل فرمائی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کسی معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے اور نہ اس کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں مگر حق پر یعنی قتل کرنے کا کوئی سبب ہو جیسا کہ رجم قصاص، ارتداد وغیرہ اور وہ زنا نہیں کرتے اور نہ زنا کو حلال سمجھتے ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ والذین لایدعون “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا اپنے لڑکے کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ کہیں تمہارے ساتھ نہ کھائے، میں نے عرض کیا پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا نہ کرو، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کے لیے یہ آیات نازل فرما دیں یعنی کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے۔- نیز بخاری (رح) ومسلم (رح) ہی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے قتل بھی بہت کیے تھے اور زنا بھی بکثرت کیے تھے وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس چیز کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے کہ کاش آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ اس چیز کو قبول کرلینا کیا ہمارے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب سورة فرقان کی یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا ہم نے تو بہت سے ناحق خون کیے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ بہت سے معبودوں کی عبادت کی ہے اور فواحش کا ارتکاب کیا ہے اس پر ( آیت) ” الا من تاب “۔ (الخ) سے آیت کا یہ حصہ نازل ہوا یعنی مگر جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ط) ” - حق سے مراد یہاں وہ قانونی صورتیں ہیں جن صورتوں میں کسی انسان کی جان لی جاسکتی ہے ‘ یعنی قتل کے بدلے قتل ‘ مرتد کا قتل ‘ حربی کافر کا قتل اور شادی شدہ زانی کا رجم۔ - اس آیت میں تین کبیرہ گناہوں کا ذکر ہوا ہے : شرک ‘ قتلِ ناحق اور زنا۔ شرک کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دو دفعہ فرما دیا کہ مشرک کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ اور قتل ایسا بھیانک گناہ اور جرم ہے جس سے تمدن کی جڑ کٹتی ہے ‘ جبکہ زنا سے معاشرہ گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة النساء میں ایسے کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے لیے چھوٹے گناہوں سے معافی کی خوشخبری سنائی ہے : (اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبآءِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا ) (النساء) ” اگر تم لوگ بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :84 یعنی وہ ان تین بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں جن میں اہل عرب کثرت سے مبتلا ہیں ۔ ایک شرک باللہ ، دوسرے قتل ناحق ، تیسرے زنا ۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا ، سب سے بڑا گناہ کیا ہے ۔ فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نِدًّا وَّھُوَ خَلَقَکَ یہ کہ تو کسی کو اللہ کا مد مقابل اور ہمسر ٹھہرائے ، حالانکہ تجھے پیدا اللہ نے کیا ہے ۔ پوچھا گیا اس کے بعد فرمایا ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعَمَ معک ، یہ کہ تو اپنے بچے کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائے گا ۔ پوچھا گیا پھر ۔ فرمایا اَنْ تزانی حلیلۃ جارک ، یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے ( بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، احمد ) ۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں ، لیکن عرب کی سوسائیٹی پر اس وقت سب سے زیادہ تسلط انہی تین گناہوں کا تھا ، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا کہ پورے معاشرے میں یہ چند لوگ ہیں جو ان برائیوں سے بچ گئے ہیں ۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرکین کے نزدیک تو شرک سے پرہیز کرنا ایک بہت بڑا عیب تھا ، پھر اسے مسلمانوں کی ایک خوبی کی حیثیت سے ان کے سامنے پیش کرنے کی کونسی معقول وجہ ہو سکتی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب اگرچہ شرک میں مبتلا تھے اور سخت تعصب کی حد تک مبتلا تھے ، مگر درحقیقت اس کی جڑیں اوپری سطح ہی تک محدود تھیں ، کچھ گہری اتری ہوئی نہ تھیں ، اور دنیا میں کبھی کہیں بھی شرک کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری اتری ہوئی نہیں ہوتیں ۔ اس کے برعکس خالص خدا پرستی کی عظمت ان کے ذہن کی گہرائیوں میں رچی ہوئی موجود تھی جس کو ابھارنے کے لیے اوپر کی سطح کو بس ذرا زور سے کھرچ دینے کی ضرورت تھی ۔ جاہلیت کی تاریخ کے متعدد واقعات ان دونوں باتوں کی شہادت دیتے ہیں ۔ مثلاً اَبرہہ کے حملے کے موقع پر قریش کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ اس بلا کو وہ بت نہیں ٹال سکتے جو خانۂ کعبہ میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ٹال سکتا ہے جس کا یہ گھر ہے ۔ آج تک وہ اشعار اور قصائد محفوظ ہیں جو اصحاب الفیل کی تباہی پر ہم عصر شعراء نے کہے تھے ۔ ان کا لفظ لفظ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ اس واقعہ کو محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اس امر کا ادنیٰ سا گمان بھی نہ رکھتے تھے کہ اس میں ان کے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ اسی موقع پر شرک کا یہ بد ترین کرشمہ بھی قریش اور تمام مشرکین عرب کے سامنے آیا تھا کہ ابرہہ جب مکے کی طرف جاتے ہوئے طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف نے اس اندیشے سے کہ یہ کہیں ان کے معبود لات کے مندر کو بھی نہ گرا دے ، اپنی خدمات کعبے کو منہدم کرنے کے لیے اس کے آگے پیش کر دیں اور اپنے بدرقے کا سردار تھا ۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرے اس کے ساتھ کر دیے تاکہ وہ پہاڑی راستوں سے اس کے لشکر کو بخیریت مکہ تک پہنچا دیں ۔ اس واقعہ کی تلخ یاد مدتوں تک قریش کو ستاتی رہی اور سالہا سال تک وہ اس شخص کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے جو طائف کے بدرقے کا سردار تھا ۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرے اہل عرب اپنے دین کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے ، اپنے بہت سے مذہبی اور معاشرتی مراسم اور خصوصاً مناسک حج کو دین ابراہیمی ہی کے اجزا قرار دیتے تھے ، اور یہ بھی مانتے تھے کہ حضرت ابراہیم خالص خدا پرست تھے ، بتوں کی پرستش انہوں نے کبھی نہیں کی ۔ ان کے ہاں کی روایات میں یہ تفصیلات بھی محفوظ تھیں کہ بت پرستی ان کے ہاں کب سے رائج ہوئی اور کون سا بت کب ، کہاں سے ، کون لایا ۔ اپنے معبودوں کی جیسی کچھ عزت ایک عام عرب کے دل میں تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب کبھی اس کی دعاؤں اور تمناؤں کے خلاف کوئی واقعہ ظہور میں آ جاتا تو بسا اوقات وہ معبود صاحب کی توہین بھی کر ڈالتا تھا اور اس کی نذر و نیاز سے ہاتھ کھینچ لیتا تھا ۔ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا ۔ ذوالْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جا کر اس نے فال کھلوائی ۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے ۔ اس پر عرب طیش میں آگیا ۔ کہنے لگا : لو کنت یا ذالخلص الموتورا مثلی وکان شیخک المقبورا لم تنہ عن قتل العداۃ زورا یعنی اے ذوالخلصہ اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہرگز تو یہ جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے ۔ ایک اور عرب صاحب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبود سعد نامی کے آستانے پر لے گئے تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کریں ۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا ۔ اونٹ اسے دیکھ کر بھڑک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے ۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تتر بتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا ۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ خدا تیرا ستیاناس کرے ۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تو نے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے ۔ متعدد بت ایسے تھے جن کی اصلیت کے متعلق نہایت گندے قصے مشہور تھے ۔ مثلاً اَسف اور نائلہ جن کے مجسمے صفا اور مروہ پر رکھے ہوئے تھے ، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دونوں دراصل ایک عورت اور ایک مرد تھے جنہوں نے خانہ کعبہ میں زنا کا ارتکاب کیا تھا اور خدا نے ان کو پتھر بنا دیا ۔ یہ حقیقت جن معبودوں کی ہو ، ظاہر ہے کہ ان کی کوئی حقیقی عزت تو عابدوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی ۔ ان مختلف پہلوؤں کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ خالص خدا پرستی کی ایک گہری قدر و منزلت تو دلوں میں موجود تھی ، مگر ایک طرف جاہلانہ قدامت پرستی نے اس کو دبا رکھا تھا ، اور دوسری طرف قریش کے پروہت اس کے خلاف تعصبات بھڑکاتے رہتے تھے ، کیونکہ بتوں کی عقیدت ختم ہو جانے سے ان کو اندیشہ تھا کہ عرب میں ان کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی اور ان کی آمدنی میں بھی فرق آ جائے گا ۔ ان سہاروں پر جو مذہب شرک قائم تھا وہ توحید کی دعوت کے مقابلے میں کسی وقار کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ اسی لیے قرآن نے خود مشرکین کو خطاب کر کے بے تکلف کہا کہ تمہارے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں کو جن وجوہ سے برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص خدا پرستی پر قائم ہو جانا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری کو زبان سے ماننے کے لیے چاہے مشرکین تیار نہ ہوں ، مگر دلوں میں وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani