Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

671اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاوز بھی اسراف میں آسکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اسراف کا اطلاق ضرورت کے کاموں سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے سامان خوردو نوش یا کپڑوں پر یا مکان پر یا شادی بیاہ پر بھی بےدریغ خرچ کردینا یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا۔ ایسی فضول خرچیوں سے اسلام نے سختی سے روک دیا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم ایسی ہے جسے تبذیر کہتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں یا ناجائز ضرورتوں پر خرچ کرنا۔ جیسے شراب نوشی، قمار بازی، بیاہ شادی کے موقعہ پر آتش بازی اور راگ رنگ وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ چہ جائیکہ ایسے کاموں پر بھی بےدریخ اور بےتحاشا خرچ کردیا جائے۔- اور اسراف کی ضد بخل ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت کے کاموں میں بھی پیسہ ضرورت سے کم خرچ کرنا اور پیسہ کو جوڑ کر رکھنا۔ جیسے اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں کی گزاران کے سلسلہ میں بھی بخل کر جانا۔ خوراک میں پوشاک میں، طرز بودوباش میں، اعز و اقرباء کو تحفے تحائف دینے لینے ہر جگہ بخل سے کام لینا اور بالخصوص جب اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے تو اسے یوں محسوس ہو کہ پیسہ کے ساتھ اس کی اتنی جان بھی نکلی جارہی ہے۔- اسراف اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاء یا قصد ہے اور اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاء یہ ہے کہ انسان اپنی جائز ضرورتوں پر خرچ اور اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضرور ہو نہ کم نہ زیادہ۔ حتیٰ کہ اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بھی یہی بات مدنظر رکھنی چاہئے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ ( بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقہ علی الدہل و العیال (- اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کے بعد اگر کسی کے پاس مال بچ رہتا ہے تو اسے اپنے اقرباء اور دوسرے حاجت مندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا ۔۔ : لوگوں کے ساتھ اور اپنے رب کے ساتھ رویے کے بعد ان کے مالی معاملے کا ذکر ہے۔ اسراف کا اطلاق کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے، مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بےدریغ خرچ کردینا (ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بےدریغ پانی بہا دینا) یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا (پھر قرض اتارتے رہنا یا مانگنا شروع کردینا) ایسی فضول خرچیوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اسراف کی ضد ” قتور “ ہے، جو ” قَتَرَ یَقْتُرُ (ن، ض) قَتْرًا وَ قُتُوْرًا “ سے ہے۔ باب ” افعال “ اور ” تفعیل “ سے ”إِقْتَارٌ“ اور ” تَقْتِیْرٌ“ بھی اسی معنی میں آتا ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔ اسراف اور تقتیر کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ” بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا “ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ” قَوَامٌ“ دو چیزوں کے عین درمیان کو کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٤٢) ، اعراف (٣١) اور بنی اسرائیل (٢٦، ٢٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھٹی صفت : وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا الآیتہ، یعنی اللہ کے مقبول بندے مال خرچ کرنے کے وقت نہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل و کو تاہی، بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں۔ آیت میں اسراف اور اس کے بالمقابل اقتار کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔- اسراف کے لغوی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ابن جریج کے نزدیک اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا اسراف ہے اگرچہ ایک پیسہ ہی ہو، اور بعض حضرات نے فرمایا، جائز اور مباح کا کاموں میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا جو تبذیر یعنی فضول خرچی کی حد میں داخل ہوجائے وہ بھی اسراف کے حکم میں ہے کیونکہ تبذیر یعنی فضول خرچی بنص قرآن حرام و معصیت ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ اس لحاظ سے اس تفسیر کا حاصل بھی حضرت ابن عباس وغیرہ کی مذکورہ تفسیر ہوگیا، یعنی معصیت و گناہ میں جو کچھ خرچ کیا جائے وہ اسراف ہے۔ (مظہری)- اور اقتار کے معنے خرچ میں تنگی اور بخل کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں اس کے معنے یہ ہیں کہ جن کاموں میں اللہ و رسول نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ان میں خرچ کرنے میں تنگی برتنا (اور بالکل خرچ نہ کرنا بدرجہ اولی اس میں داخل ہے) یہ تفسیر بھی حضرت ابن عباس، قتادہ وغیرہ سے منقول ہے (مظہری) آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کے مقبول بندوں کی صفت مال خرچ کرنے میں یہ ہوتی ہے کہ اسراف اور اقتار کے درمیان اعتدال اور میانہ روی پر عمل کرتے ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ یعنی انسان کی دانشمندی کی علامت یہ ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے (نہ اسراف میں مبتلا ہو نہ بخل میں) (رواہ الامام احمد عن ابی الدرداء۔ ابن کثیر) - ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ما عال من اقتصد یعنی جو شخص خرچ میں میانہ روی اور اعتدال پر قائم رہتا ہے وہ کبھی فقیر و محتاج نہیں ہوتا (رواہ الامام احمد۔ ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝ ٦٧- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔- قتر - القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع .- ( ق ت ر )- ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : (والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما۔ ) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں ۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے اس سلسلے میں روایت کی ہے کہ جو شخص اللہ کی نافرمانی میں ایک درہم بھی خرچ کرے گا وہ مسرف کہلائے گا (ولم یقتروا) انہوں نے کہا کہ اس سے بخل مراد ہے جس کے معنی اللہ کے حق کو روکنے کے ہیں۔ وکان بین ذلک قواما کی تفسیر انہوں نے یہ کی کہ ” اعتدال کی راہ اور طاعت خداوندی میں انفاق۔ “ ابن سیرین کا قول ہے سرف کے معنی ناحق خرچ کرنے کے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) اور طاعات مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے کہ جب وہ خرچ کی کوتاہی کریں اور ان کا خرچ اس اسراف اور اس قسم کی کمی کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ۔ ) ” - اگرچہ کسی بھی معاملے میں اعتدال قائم رکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے مگر اللہ کے ان بندوں کی سیرت ایسی پختہ ( ) ہوتی ہے کہ انہیں اپنے اخراجات کے اندر اعتدال اور توازن قائم رکھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :83 یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی ، اور قمار بازی ، اور شراب نوشی ، اور یار باشی ، اور میلوں ٹھیلوں ، اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا مکان ، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں ۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں ، نہ خود کھائیں ، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ، اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تَنَعُّم تھا ، یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا ۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی ۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے ۔ اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔ ایک ، ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا ، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرے ، جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا ، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے ، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے ۔ تیسرے ، نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ ، اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ ( دانا ) ہونے کی علامتوں میں سے ہے ( احمد و طبرنی ، بروایت ابی الدرداء ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani