Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81تاکہ طلب رزق سے بےنیاز ہو۔ 82تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔ 83یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] یا اسے کم از کم فکر معاش سے تو آزاد ہونا چاہئے تھا۔ اگر کوئی رئیس اور خزانوں کا مالک ہوتا تو لوگ خود اس سے ملاقات کی آرزو کرتے پھر یہ جسے چاہتا اجازت دیتا ورنہ نہ دیتا اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا اور خزانوں کا مالک نہیں تو کم از کم کسی باغ کا ہی مالک ہوتا جس سے اس کی گزر بسر ہوتی رہتی۔- [ ١٣] جادو شدہ آدمی سے مراد دیوانہ آدمی ہے۔ عرب میں دیوانگی کی تین وجوہ سمجھی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص پر کسی جن بھوت کا سایہ پڑگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی معبود، کسی بت، کسی دیوی دیوتا یا ان کے کسی بزرگ کی شان میں گستاخی کی گئی ہو اور اس کی مار پڑگئی ہو اور تیسرے یہ کہ کسی جادوگر نے اس پر جادو کردیا ہو۔ کفار مکہ آپ پر وقتاً فوقتاً ایسے تینوں طرح کے الزام دیتے تھے، اس مقام پر تیسری قسم کا ذکر ہوا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ : یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا جس سے اس کی شان کم از کم قیصر و کسریٰ کی سی تو ہوتی۔- اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا : یا خزانہ نہ سہی، کم از کم اس کا کوئی باغ ہوتا، تاکہ اس باغ سے اطمینان کی روزی حاصل کرتا اور روزی کمانے کے لیے بازاروں کے چکر لگانے سے بچ جاتا۔ کفار کے اس طرح کے مطالبات کی اس سے بھی لمبی فہرست سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں بیان ہوئی ہے۔- وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا : یہی بات فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی۔ دیکھیے بنی اسرائیل (١٠١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ يَّاْكُلُ مِنْہَا۝ ٠ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝ ٨- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - كنز - الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ- [ التوبة 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] أي : مال عظیم . - ( ک ن ز ) الکنز - ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ - جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ - : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) یا اس کو کوئی خزانہ حاصل ہوتا جس سے اس کو تقویت رہتی یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ بےفکری کے ساتھ کھایا کرتا اور یہ مشرکین یعنی ابوجہل، نضر، امیہ اور ان کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ ایک مسلوب العقل آدمی یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ پر چل رہے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اَوْ یُلْقٰٓی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ط) ” - اور کچھ نہیں تو ان کے لیے زر و جواہر کا کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا ‘ یا پھر معجزانہ طور پر اس ” وادئ غیر ذی زرع “ میں پھلوں سے لدا ہوا ایک باغ ہی ان کے لیے وجود میں آجاتا اور یہ اس باغ کے پھل کھاتے ہوئے ہمیں نظر آتے۔ اس باغ سے یہ بافراغت روزی حاصل کرتے۔ یہ مشرکین مکہ کا وہی اعتراض ہے جس کا ذکر اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں بھی آچکا ہے۔- (وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ) ” - کہ یہ جو کہتے ہیں کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ان کے اس دعوے میں کوئی سچائی نہیں۔ یہ سب جادو اور آسیب کا اثر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :16 یہ گویا بدرجہ آخر ان کا مطالبہ تھا کہ اللہ میاں کم از کم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لیے معاش کا کوئی اچھا انتظام کر دیتے ۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گزرا ہو ۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر ، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب ، اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :17 یعنی دیوانہ ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجوہ تھے ۔ یا تو کسی پر جن کا سایہ ہو گیا ہو ۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنا دیا ہو ۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی ، اور وہ یہ کہ کسی دیوی ، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑ گئی ہو ۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بیان کرتے تھے ۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہو گیا ۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کر دیا ۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بے ادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے ۔ مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادوگر بھی کہتے تھے ، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی ۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani